urdu sex stories | گاؤں کی 17 سالہ لڑکی کے ساتھ ظلم کی انتہا دل ہلا دینے والی کہانی

گاؤں کی 17 سالہ لڑکی کے ساتھ ظلم کی انتہا دل ہلا دینے والی کہانی
Written by kahaniinurdu

گاؤں کی  17میری عمر کوئی تیرہ چودہ سال ہوگی سات بھائیوں کی اکلوتی اور لاڈلی بہن تھی ہماری کافی زمین تھی دو بھائی شہر میں پڑھتے تھے باقی پانچ زمینداری اور کاشتکار ہی کا کام کرتے تھے ہمارے ڈیرے کے نزدیک کوئی آبادی نہ تھی چند گز کے فاصلے پر ایک ٹیوب ویل تھا باقی اردگرد کوئی آبادی نہیں تھی ٹیوب ویل کا آپریٹر بہت ہی شریف اور ایماندار آدمی تھا وہ زیادہ تر ہمارے گھر پر رہتا اور کھانا بھی ہمارے ساتھ ہی کھاتا۔

وہ بہت ہی خوبصورت نوجوان تھا کوئی بھی لڑکی اسے دیکھتی تو لمحوں میں اس کی دیوانی ہو جاتی مگر اس میں ایک خامی یہ تھی اور وہ خامی  اس کی غربت اور اس کا خاندانی پس منظر تھا وہ ہمارا مزار تھا مگر ہم اسے گھر ہی کا فرض سمجھتے تھے ہم اسے ہر کام میں مشورہ کرتے وہ بھی ہم سب گھر والوں سے بہت لگاؤ رکھتا  تھا خیر ان دنوں میری دو ماہ کی چھٹیاں تھیں میں  اسکول کا کام کرنے  بھائی کے ساتھ ٹیوب ویل پر چلی جاتی تھی۔

وہ مجھے پڑھائی کے علاوہ دینی تعلیم دیتے اور مجھ سے بڑا ہی پیار  کرتے تھے اس سال میں آٹھویں جماعت میں پڑھتی تھی ایک دن میں ٹیوب ویل پر کپڑے دھونے گئی تو وہاں میری عمر کا ایک اور لڑکا تھا پوچھنے پر پتہ چلا کہ وہ ہماری ٹیوب ویل آپریٹر کا چھوٹا بھائی وقاص ہے اور دو ماہ کی چھٹیوں میں وہ بھی یہیں رہے گا وقاص اپنے بڑے بھائی سے بھی زیادہ خوبصورت تھا ہم چند دنوں میں گھل مل گئے اور اکھٹے پڑھتے پڑھتے اور کھیلتے کھیلتے ہماری کافی بے تکلفی ہوگی۔گاؤں کی 17

میں بہت خوش تھی کہ میری عمر کا ایک ساتھی مجھے مل گیا تھا دو ماہ پلک جھپکنے میں گزر گئے وہ اگلے سال بھی آیا جب وہ جانے لگا تو مجھے کافی دکھ ہوا میرا دل چاہتا تھا کہ وہ یہیں رک جائے اور یہاں ہی پڑھے مگر یہ سب کچھ میرے دل میں ہی رہ گیا اور وہ چلا گیا یوں میں آئندہ سال کا انتظار کرنے لگی وہ مجھے بہت اچھا لگنے لگا تھا مجھے اکثر اس کی یاد آتی  سال گزر ہی نہیں رہا تھا ہماری یہ زندگی کتنی چھوٹی ہوتی ہے وہ بھی ہم تجربوں اور ٹھوکریں کھانے اور سنبھلنے میں گزار دیتے ہیں۔

وقاص صاحب  جب چوتھی مرتبہ اپنے بھائی کے پاس دو ماہ کی چھٹیاں گزارنے آئے تو کافی خوبصورت اور کافی ہوشیار اور چالاک ہو چکے تھی پھر یہ دیکھنے سمجھنے کی عمر میں بھی پہنچ گئی تھی وقاص بھی بدل چکا تھا بات چیت کرنے اور اٹھنے بیٹھنے کا انداز کافی عجیب تھا پہلے والی معصومیت نہیں رہی تھی مگر میں پہلے جیسی تھی امی میری آزادی اور بے باکی پر نکتہ چینی کرنے لگی تھی میں حیران تھی کہ ایسی کونسی نئی بات ہو رہی ہے جو امی  ہر وقت اعتراض کرنے لگی ہیں۔

کاش میں اس وقت کچھ سمجھ جاتی یا پھر ٹھوکر لگانے والے اشارے دینے والے ٹھیک طرح سے ٹھوکر لگاتے تو میرے کان کھل جاتے یا  پھر اپنوں کو بہت زیادہ بھروسہ تھا ورنہ وہ میری حفاظت ضرور کرتے مجھ پر بھی کوئی پابندی نہیں تھی ان کی لاپرواہی تھی کہ وقاص گھور گھور کر مجھے للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتا اور میں  نادان سب کچھ دیکھتی اور کچھ نہ سمجھتی اور پھر میری عمر 17 برس تھی مجھے یہ سب کچھ اصولاً تو سمجھ لینا چاہیے تھا۔

مگر حقیقت یہ ہے کہ میں بڑی نادان تھی مجھے جیسے ہی موقع ملتا یا تنہائی ملتی تو میں دوڑی ہوئی وقاص کے پاس چلی جاتی وہ کہتا اب زیادہ ادھر اُدھر مت پھرا کرو اور گھر پر رہا کرو تم کوئی چھوٹی بچی تو نہیں ہو مگر مجھے کسی کی بات سمجھ نہ آتی ایک مجھے وقاص نے بتایا کہ وہ اگلے سال یہاں نہیں آئے گا میں تو اس کی بات سن کر پریشان ہو گئی کیوں نہیں آؤگے کہنے لگا اس لئے کہ میں فرسٹ ائیر میں چلا جاؤں گا اور کسی دور کالج میں داخلہ لینا پڑے گا۔

میں اس کی آواز میں سمٹا درد سمجھ گئی مجھے لگا وہ واقعی پریشان ہیں تو وقاص تم یہاں ہیں بھائی جان کے پاس رہنے لگ جاؤ نا اکٹھے کالج جائیں گے اور ملتے بھی رہیں گے کہنے لگا بھائ نہیں مانیں گے اور پھر ان کی نوکری کا کیا بھروسہ کل تبادلہ ہو جائے لگتا ہے کہ ہم دوبارہ نہیں مل سکیں گے اور اگر ایسا ہی ہوا تو شاید میں تمہارے بغیر زندہ نہ رہ سکوں تم مجھے بہت اچھی لگتی ہو  نہیں وقاص ایسا مت کہو میں بھی تمہارے بغیر تو نہیں رہ سکتی۔

میں بھی روہاں سے ہو گی لیکن یہ سب ہمارے اختیار میں تو نہیں ہوگا ہمیں ایک دوسرے کے بغیر رہنا ہی پڑے گا وہ دور دور خلا میں گھورتا ہوا بولا تم کچھ کر سکتی ہو کوثر یہ کہتے ہوئے اس نے سوالیہ نگاہیں میرے چہرے پر گاڑھ ریں   ہاں کیوں نہیں میں تمہاری خاطر اس نہر میں چھلانگ لگا سکتی ہوں وقاص اگر کہو تو ابھی لگا دوں وہ بولا نہیں پگلی چھلانگ نہیں لگانی تمہیں شادی کے لیے گھر والوں کو راضی کرنا ہے اور میرا انتظار بھی کرنا ہے۔

یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھوں میں نمی تیر رہی تھی یہ تو کوئی بڑا کام نہیں میں آج گھر والوں سے بات کروں گی میں نے فورآ وقاص کو امید دلائی نہیں ابھی نہیں جب تمہیں میں کہوں گا تب بات کرنا فی الحال تم یہ کرو کہ رات کو مجھ سے ملنے آیا کرو دن کو کوئی کام کی بات نہیں ہو سکتی کیا خیال  ہے  میں نے کہا رات تو  بہت مشکل ہے سب لوگ گھر پر ہوتے ہیں انہیں پتہ لگ گیا تو میری شامت آجائیگی۔

کہنے لگا ارے تم چھلانگ لگانے کو تیار ہو اور رات کو آنے سے ڈرتی ہو دعوے تو بڑے کرتی ہو کہ مجھ سے پیار ہے میں نے اس کی یہ بات سنی تو مجھے  بھی جوش آگیا بولی آؤں گی وقاص بتاؤ کہاں آنا ہے اور ہم کیا باتیں کریں گے یہ پوچھتے ہوئے میں بھی حیران تھی کہ وہ کون سی باتیں ہیں جو دن کو نہیں ہو سکتیں کاش میری تھوڑی تربیت ہوئی ہوتی تو میں نہ جاتی کہنے لگا وہ سامنے کھیت کے پاس رات بارہ بجے کے بعد  جب سب گھر والے سو جائیں تو تم کھیت میں مجھ سے ملنے آ جانا۔

خبردار گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے میں ہوں نا تمہارے پاس میں نے بھی حامی بھر لی ٹھیک ہے میں آؤں گی میں  چلی گئی اندھیرا پھیلتے ہی مجھے احساس ہوگیا کہ یہ کام اتنا آسان نہیں جتنا میں سمجھ رہی تھی میں مجبور تو بہت تھی مگر ایسا بہرحال مجھے کرنا تھا میں وقاص کو اداس نہیں کر سکتی تھی نہ ہی اس کی کوئی بات ٹال سکتی تھی جب گھڑی کی سوئیوں نے 12بجا دیے تو میں اٹھ بیٹھی سردی کی وجہ سے خون کو رگوں میں جم رہا تھا۔

میں نے خود کو حوصلہ دیا گو یہ کام انتہائی مشکل تھا مگر نہر میں چھلانگ لگانے والے کے لئے تو آسان تھا میں نے جو وعدہ کر لیا تو پھر پورا کر کے ہی دم لیا وقاص پہلے ہی میرا منتظر تھا میں حولتی لڑکھڑاتی گھر پہنچ گئی رات میں اسی خاموشی سے واپس گھر پہنچی جیسے نکلی تھی سب لوگ سو رہے تھے لیکن مجھے ان کا اتنا احساس نہ تھا میں تو آج نئی دنیا کی سیر کرنے کو گئی تھی اور جب انسان بھائیوں کی اکلوتی بہن رات کی تاریکی میں ان کی عزت و غیرت کے نام کے پرکھچے اڑا کر آ گئی تھی۔

شاید اس لیے کہ وہ لاڈلی اور اکلوتی  تھی بہت پیاری بھی تھی اسی وجہ سے سب سکون سے سو رہے تھے پھر وقاص جب تک گاؤں میں رہا ہم چوری چھپے ملتے رہے لیکن بہت جلد گھر والوں کو خبر ہوگئی اور مجھ پر پابندیاں لگ گئی لیکن انہیں کیا خبر ہم تاریک راتوں کا سینہ چیرتے رہتے ہیں  مگر یہ پابندیاں صرف ڈانت ڈپٹ  تک ہی محدود رہیں تھوڑی سی جدائی سہی تو میں نے وقاص سے کہہ دیا وقاص اب تمہارا انتظار نہیں کر سکتی نہ ہی تمہارے بغیر رہ سکتی ہوں۔

جس دن صبح اسے جانا تھا رات کو میں نے کہا یا تو ہمارے والدین سے شادی کی بات کرو یا تو پھر مجھے چھوڑ کر مت جاؤ اس طرح میں تمہیں جانے بھی نہ دوں گی  دوسرے الفاظ میں گویا میں دھمکی دی تھی اس نے بڑی  تاویلیں پیش کیں مجبوریاں بتائیں لیکن میں تو کچھ سننے کو تیار نہ تھی میں بہت دور نکل چکی تھی مجھے کچھ بھی دکھائی نہ دیتا تھا یہی وجہ تھی کہ میں اس کی کوئی بات نہیں سن رہی تھی آخر فیصلہ ہوا کہ صبح افتخار بھائی سے بات کریں گے۔

جب انہوں نے ہم دونوں سے بات کی تو وہ اچھل پڑے ڈنڈا اٹھایا اور میرے سامنے وقاص کی اچھی خاصی پٹائی کردی مجھے بھی برا بھلا کہا لیکن پھر انہوں نے میرے گھر والوں کو بتا دیا ہے پھر تو میرے گھر میں قیامت ٹوٹ پڑی اس سے پہلے کہ میرے بھائی مجھے زندہ دفن کرتے میں ان کے  پاؤں پڑ گئی اور گڑگڑا کر معافی مانگ لی اگر انہیں پتہ چل جاتا ہم کیا کچھ کر چکے ہیں تو میرا انجام دیکھ کر نہ جانے کتنی صدیوں تک وہ درھتی کانپتی  رہتی۔

ان کے خیال میں تو صرف یہ تھا کہ شاید ہم ایک دوسرے کو پسند کرنے لگے ہیں اور پھر یہ سب کچھ دیکھ کر بھی اگلی رات ہم وہ منصوبہ ترتیب دے چکے تھے جو ازل سے ہوتا آیا ہے راہ فرار کا جو کچھ گھر سے مل سکا میں نے لے لیا پھر اگلی رات ہم چھ میل کا پیدل سفر کرکے قریبی شہر پہنچ گئے اور وہاں سے راتوں رات کراچی پہنچے وقاص شاید میرا ساتھ نہ دیتا مگر دوسری صورت میں اس کا جو انجام ہوتا وہ بھی جان چکا تھا وہ بھی مجبور تھا۔

ہمارے یہ سب کچھ نیا تھا لیکن ہم اپنے کیے کے ہاتھوں مجبور تھے یہ سب کیا دھرا وقاص کا تھا اور مجرم میں بھی تھی میں نہ چاہتی تو اس کے اختیار میں کیا تھا صبح سات بجے ہم ٹرین سے روانہ ہو چکے تھے گاڑی چل پڑی تو ہم نے سکھ کا سانس لیا یقین سا ہوگیا کہ خطرہ ٹل چکا ہے زندگی میں پہلی مرتبہ میں جی بھر کر روئی تھی مجھے بہت دکھ ہو رہا تھا اور پھر یہ کوئی معمولی حماقت نہیں تھی میں نے پہلی بار اتنا بڑا قدم اٹھایا تھا۔

میں ذرا سی بھی دکھی ہوتی تھی تو میرے بھائی زمین ہاتھوں میں اٹھا لیتے تھے بوڑھی اور ضعیف ماں جس نے نہ جانے کتنے مصائب جھیل کر مجھے پالا تھا پھر بوڑھا باپ جس کی آنکھوں کا میں نور تھی اس میں کوئی شک نہیں تھا حالانکہ گاؤں کے لوگ بیٹیوں پر اعتبار نہیں کرتے تھے مگر خدا جانے مجھے کیا ہو گیا تھا مجھے ماں باپ کی محبت بھی نہ یاد آئی محبت کے جال میں آ کرمیں  ساری حدود بھول گئی تھی اور بھولی بھی کس کے لیے تھی۔

جس کے پاس نہ رہنے کا ٹھکانہ تھا نہ کھانے کو روٹی تھی اس نے مجھے ایک دوست کے گھر میں ٹھرایا تھا میں نے اسے اپنے ٹھکانے کا بندوبست کرنے کا کہا تو بولا دیکھو کوثر اتنی جلدی کوئی اور بندوبست نہیں ہو سکتا ہمیں مکان کے علاوہ ایک آدھ انسانی سہارے کی بھی ضرورت ہے اتنے بڑے شہر میں ہمارا کوئی واقف بھی نہیں کچھ نہ کچھ تو کرنا ہے نا یہ کہتے ہوئے وقاص تقریبا رو دیا مجھے بھی اس کے انداز پر ترس آ گیا۔

میں نے اسے سہارا دیا لیکن جب کافی دن گزر گئے اس نے دوست کا گھر نہ چھوڑا تو مجھے الجھن ہونے لگی میں کیا کر سکتی تھی مکمل طور پر اس کے رحم و کرم پر تھی اب میں گھنٹوں روتی رہتی اور اپنی غلطی پر بہت شرم آتی رہتی تھی وقاص کے دوست نے ہمیں اپنے گھر میں پناہ دی تھی وہ مجھ سے اس احسان کا بدلہ لینا چاہتا تھا وقاص بالکل بھی ویسا نہ تھا جیسا میں نے سوچا تھا ایک دن میں کچن میں کھانا پکا رہی تھی۔

تین گز کے فاصلے پر کمرے میں وقاص لیٹا ہوا  تھا کہ کچن میں اشتیاق آ گیا  وہ کافی ہواس باختہ  لگ رہا تھا میں جانتی تھی ایسا بہت جلد ہونے والا ہے اسی لئے میرے لئے یہ کوئی انہونی نہیں تھی میں پرسکون تھی کہ میرا مجازی خدا میرے سر پر موجود ہے میری عزت کا رکھوالا ہے میرا محافظ ہے بھوک لگی ہے بھیا میں نے اس کی طرف دیکھے بغیر کہا جبکہ میں اسے دیکھ چکی تھی وہ سمجھ پا رہا تھا کہ میں نے اسے دیکھا نہیں۔

وہ تھوڑی دیر میں مجھے دیکھتا رہا بالآخر مجھے نگاہیں اٹھا کر اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنا ہی پڑی کیا بات ہے اشتیاق یہاں کیوں کھڑے ہو بھوک لگی ہے کیا  جاب میں  اس نے انتہائی بے حیائی سے کہا مجھے تمہاری بھوک لگی ہے میں آپ کی بہن ہوں اشتیاق بھائی اور آپ کے دوست کی عزت ہوں میں نے صورتحال مٹانے کی کوشش کی کہ وہ سنبھل جائے میں سوچ چکی تھی یہ سب کچھ فضول ہے پھر بھی میں نے کہہ دیا۔

اشتیاق اپنی مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے بولا کیسی بہن اور کون بھائی نہ تم میری بہن اور نہ میں تمہارا بھائی ہوں خدا نہ کرے میری بہن ایسی ہو اس نے عجیب سے لہجے میں کہا تو مجھے خود پر گھٹیا ہونے کا گمان ہوا کہ واقعی گھر سے نکلی لڑکی کی کوئی عزت نہیں پھر وہ میرے قریب آنا چاہ رہا تھا کہ میں بھاگ کر کچن سے نکل گئی اور وقاص کو آواز دینے لگی دیکھو وقاص یہ کیا کر رہا ہے تمہارے دوست کو ذرا پروا نہیں کہ میں تمہاری بیوی ہوں۔

میری توقع کے برخلاف وقاص کے چہرے پر اطمینان تھا ہاں تو کیا ہوا بیوی تو تم میری ہو مگر یہ بھی میرا دوست ہے اس نے اتنا کہا تھا کہ میں نے ایک لڑکے کا ڈنڈا لیا اس کے دوست کا سر لہولہان کردیا میں نے وقاص کو خوب برا بھلا کہا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی مجھے حوصلہ دینے والا کوئی نہیں تھا کیونکہ وہ ہی میرا محافظ تھا جو اب میرا لٹیرا بن چکا تھا تھوڑی دیر کے بعد مجھے لگا میں بے ہوش ہوگئی ہوں۔

جب میری آنکھ کھلی تو گھر میں کوئی نہیں تھا میرے سر پر ہزاروں آندھیاں اور طوفان برپا ہو چکے تھے میں نہیں جانتی تھی اب میں کہاں جاؤں گی آخر میں نے فیصلہ کیا کہ مجھے مرنا ہے مگر موت بھی سستی نہیں کچھ قیمت لگوانی پڑتی ہے اگلی صبح وقاص ہسپتال سے آیا اور چھوٹتے ہی کہنے لگا کوثر تم نے اچھا نہیں کیا وہ ہمارا محسن تھا اگر تم اس کی بات مان لیتی تو کیا فرق پڑتا وقاص کی ڈھٹائی پر میں حیران رہ گئی  وقاص تو اتنا بےغیرت ہوگا۔

اس کے آگے میں کچھ سن نہ سکی اس نے جو کہا مجھے تو اسے سن کر ہی نفرت ہونے لگی ہاں اس کے لئے لایا ہوں وہ دھرا تھا میں ذہنی توازن کھو چکی تھی چارپائی پر دھڑام سے گر کر بے ہوش ہو گئی ہوش آیا تو وہ جا چکا تھا بے شک ہسپتال ہی گیا تھا میں نے فیصلہ کیا کہ اب میں یہاں نہیں رہوب گی جہاں  اپنے شوہر کے گھر میں ہی عزت محفوظ نہ ہو تو ایسے گھر میں رہنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔

وقاص نے تو صاف کہہ دیا تھا کہ یہ اس کی مجبوری ہے اور وہ میرے لئے کوئی اور گھر نہیں ڈھونڈ سکتا وہ اسی گھر میں رہے گا جو کہ محض ایک کمرے پر مشتمل تھا اسی رات میں نے سوچا میں اس  گھر سے نکل جاؤں گی مگر اس سے پہلے کہ میں دروازے سے قدم باہر رہتی دروازہ کھولا تو دو نقاب پوش میرے سامنے تھے میں خوف سے لرز کر رہ گئی لیکن جلدی سنبھل گئی اس سے پہلے کہ وہ مجھ سے یا میں ان سے کچھ پوچھتی۔

انہوں نے مجھے گاڑی میں اٹھا کر ڈال دیا اور مجھے ڈرانے دھمکانے لگے اس کے بعد مجھے کچھ ہوش نہ رہا ہوش آیا تو ایک خالی کرسی پر کوئی بیٹھا سگار پی رہا تھا مجھے ہوش میں آتا دیکھ کر بولا لڑکی تمہیں خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے یہ بنگلہ بہت بڑا ہے جس کے بیڈروم میں تم موجود ہو میں نے تمہیں ساٹھ ہزار روپے میں خرید لیا ہے میں کبھی کبھار آؤنگا تم ماضی کو بھول جاؤ نئی زندگی سے سمجھوتا کرنے کی کوشش کرو۔

یہاں پر تمہیں کسی چیز کی کمی نہیں ہوگی نوکر خدمت کیلئے حاضر ہیں ہر چیز تمہیں اشارہ کرنے پر مل جائے گی مگر کوئی ایسی ویسی حرکت نہ کرنا کہ خود ہی پچھتانا پڑے اب میں تو چوٹیں کھانے کی اتنی عادی ہوچکی تھی کہ مجھ پر اس انکشاف پر کوئی بجلی نہ گری میں نے کہا کوئی بات نہیں کم ازکم گھر نہیں تو ایک تحفظ ہی مل گیا میں کافی دیر  بیٹھی روتی رہی پھر جھناکے سے اٹھ بیٹھی  چلو زندگی کو اپنے ارمان پورے کر لینے دو میں حالات سے سمجھوتہ کروں گی۔

جو کوئی بھی ہے میری عزت کی دھجیاں بکھیرے گا مگر گھر تحفظ تو دے گا ضرورتیں  پوری کرے گا ایسے بھی نہیں تو میرے پاس کیا رہ گیا تھا بس ایک صدمہ مجھے سنبھلیں نہیں دے رہا تھا ایک شخص بھاگ گیا اور دوسرے نے مجھے خرید لیا ہاں مگر اس گھر  میں مالکن کی طرح رہتی تھی میرا ہر چیز پر کنٹرول تھا ہر وقت نوکر   میرے حکم کے منتظر رہتے تھے زندگی یوں ہی معمول کے مطابق گزر رہی تھی دکھ بانٹنے والا کوئی نہیں تھا۔

باقی سب کچھ تھا شام کو ڈرائیور مجھے سیر و تفریح کے لیے لے جاتا تھا زندگی عجیب سے موڑ پر آگئی تھی مگر مجھے سکون نہیں مل رہا تھا عام حالات میں میری زندگی کابل رشک تھی زندگی مخصوص دائرے میں گھومتے رہی میرے اندر الاؤ پکتا رہا میں نے بھی نوٹ دے کر اپنے ڈرائیور کو قابو کر لیا اس سے میں نے اشتیاق کی خبرگیری کروائی اور جلدی ہی یہ پتہ چل گیا کہ اشتیاق بھی سیٹھ صاحب کا کارندہ ہے۔

مگر ایسا ہے تو سیٹھ صاحب نے ساٹھ ہزار روپے اسے کس کے لیے وہ ایسے بھی اس سے چھین سکتے تھے مجھے یہ بات تو میری سمجھ میں نہیں آرہی تھی اب میں نے ڈرائیوری بھی سیکھ لی اور خود گاڑی چلانے لگی میں نے کہیں جانا ہوتا تو ڈرائیور کو زحمت نہ دیتی میں دن رات اشتیاق کی تلاش میں تھی مگر وہ بھی کوئی عام کارندہ نہیں تھا ورنہ اس معمولی سے مکان میں نہ رہتا تھا جبکہ دوسرے ملازم اچھے خاصے مالدار لوگ تھے۔

دولت کی ریل پیل تھی اس زندگی کو دھتکارنا م اتنا آسان نہ تھا مگر میں اپنی بربادی کیسے بھول جاتی مجھے اپنے پورے گھر کا حساب لینا تھا پھر جب سیٹھ صاحب ایک بیرون ملک کے ٹور پر گئے تو مجھے موقع مل گیا وقاص کا ایڈریس تو ویسے ہی میرے پاس تھا افتخار بھائی جب خط لکھتے تو میں پڑھتی رہتی تھی ان کے گھر کا پتہ مجھے یاد ہو گیا جتنا اپنے گھر کا یاد نہ تھا وقاص کے گھر کا اس سے زیادہ یاد تھا میں جب وقاص کے گھر پہنچی تو یہاں کا منظر نہیں بدلا ہوا تھا۔

تو اس کی شادی کے شادیانے بج رہے تھے شام کا اندھیرا پھیل چکا تھا ایک عورت سے معلوم ہوا کہ آج وقاص کا نکاح ہے مجھے ڈر تھا  کہیں وقاص مجھے دیکھ نہ لے گو کہ میں نے اپنا حلیہ کافی بدل رکھا تھا میں ایک گھر کے اندر گھس گئی  مجھے کافی دیر چھپنا  پڑا حسن اتفاق  کہ جہاں میں چھپی تھی قریب ہی دلہن کا کمرہ تھا پھر وہ وقت آیا وقاص صاحب سامنے سے آتے دکھائی دئیے اور ساتھ والے کمرے میں داخل ہو گئے مجھے آج کوئی ڈر نہیں لگ رہا تھا۔

میں نے آواز سننا چاہی تو یہ  آواز وقاص کی تھی میں اسے کیسے بھول سکتی تھی وہ کسی سے بات کر رہا تھا نادیہ آپ کل تک میری بھابی تھیں قسمت کے آج تم میری بیوی ہو جہاں میں نے یہ زہر نگلا ہے تو تمہیں بیوی بھی بنا لوں گا میں تم سے کچھ نہیں  چھپانا چاہتا میں تمہیں صاف بتا دوں مگر تم اسے راز ہی رکھنا نادیہ تمہارا سہاگ لوٹنے والا میں ہی ہوں جہاں افتخار بھائی نوکری کرتے تھے وہاں سے ایک لڑکی میں نے اغواء کی تھی۔

وہ لڑکی ہی  میری کل کائنات ہے اسے میں ایک لٹیرے کے پاس چھوڑ کر آ گیا بہر حال وہ میری زندگی ہے میں اس کے بغیر جی نہیں سکتا اس لڑکی کو جہاں میں چھوڑ آیا ہوں وہ بہت ہی مکار فریبی اور دغاباز نکلا مجھے بڑا بھروسہ اور فخر تھا مگر اس نے کمینگی کی حدیں  پھیلانگ دیں اب مجھے بلیک میل کرتا ہے روز پولیس  کو بتانے کی دھمکی دیتا ہے اس نے اس کے عوض میری بیوی کی عزت کو لوٹنا چاہا جس پر میں بہت مجبور ہو گیا تھا۔

میرے پاس سوائے اس کی بات ماننے کوئی چارہ نہ تھا  میں کوثر کو کسی قیمت پر کھونا نہیں چاہتا تھا چلو جیسی بھی صبح میں ملے گی مجھے منظور ہے میں اسے صبح لینے جا رہا ہوں کہ کوثر کے بھائیوں نے افتخار کو مار دیا ہے صرف اس وجہ سے کیوں کہ انہوں نے میرا پتہ نہیں دیا میں نے معلومات اکٹھی کر لی ہے کوثر کے دو بھائی قتل کے جرم میں جیل میں ہیں اس کے والدین مر چکے ہیں اب کوثر کا میرے سوا کوئی نہیں ہے مجھے امید ہے کہ تم مجھے معاف کر دو گی۔

وقاص کی زبانی یہ سن کر مجھ میں کچھ بھی سننے کی ہمت نہ رہی میں نے ایک چیخ ماری اور وہیں بے ہوش ہو گئی میری آنکھ کھلی تو میں ہسپتال میں تھی میں تو تمہیں قتل کرنے کے ارادے سے آئی تھی لیکن اب تمہیں بحث اپنے بھائی کی وجہ سے اور ان کی بیوی کے لئے زندہ چھوڑ رہی ہوں نہیں کوثر  تم مجھے چھوڑ کر نہیں جا سکتی وقاص کے لہجے میں التجا تھی یہ ٹھیک کہا ہے کہ تمہارے پیار میں بہت بڑی قیمت دی ہے۔

میں نے  مگر تم نے جو کچھ کیا وہ مجھے گوارا نہیں اگر تم مجھ سے محبت کرتے بھی ہو تو میں اس کی محبت پر لعنت بھیجتی ہوں جس میں غیرت اور عزت نہ ہو میں نے اس کو کہا اور پھر اپنی دہلیز پر لوٹ گئی جہاں میرے بھائی میرے منتظر تو نہ تھے مگر میں انہیں منانے جا رہی ہوں کیونکہ بھائی بہنوں کا مان ہوتے ۔۔

✭ نوٹ :- عمدہ قسم کے سبق آموز واقعات وحکایات کیلئے آج ہی ہمارا ٹیلی گرام چینل جوائن کریں ۔

نوٹ :- اپنے دوست و احباب اور متعلقین کو بھی شیئر کریں تاکہ آپ کے ذریعے ان کا بھی فائدہ ہو۔

Leave a Comment