لاوارث
میرا نام فہمیدہ کاشف ہے میں شروع دن سے ہی بدقسمت اور نا کام رہی ہوں۔
میں پاکستان کے ان ایک فیصد بچوں میں سے ایک ہوں جن کو اپنے حقیقی ماں باپ کا نہیں پتہ ہوتا۔ اور ان ایک فیصد میں سے بھی نوے فی صد محبت کے نام پر کئے گئے گناہ کی نشانی ہوتے ہیں۔ شاید میں بھی ان نوے فیصد والوں میں سے ہوں گی یا پھر شاید نہیں بھی ۔۔۔۔
خیر مجھے چوہدری ریحان بخش نے ایک لاوارث بچوں کے ادارے سے اپنی بیگم سے اجازت کے بعد اس وقت گود لیا تھ۔ا جب ان کو یقین ہو گیا کہ ان کی بیگم میں ماں بننے کی صلاحیت نہیں ہے ۔اس وقت میں فقط چند ماہ کی تھی۔ اور میں نے جب ہوش سنبھالا تو مجھے چوہدری ریحان بخش نے باپ والا پیار دیا مگر پتہ نہیں کیوں مجھے لگتا کہ میری ماں کوثر بیگم مجھے اچھا نہیں سمجھتی۔ جب تک میرے بابا ریحان بخش گھر میں رہتے ۔تب تک میں گھر میں کھیلتی کودتی بہت خوش رہتی اور بابا کے جاتے ہی کوثر بیگم کا سخت لہجہ اور رویہ مجھے سہما دیتا۔
میں ایک کمرے میں دبک کر بیٹھ جاتی۔
اور اگر بابا سارا سارا دن گھر نہ آتے تو میں سارا سارا دن وہاں بیٹھی رہتی ۔مگر جس تقدیر نے پہلے مجھے میرے سگے ماں باپ دیکھنے نہ دئیے تھے ۔اس نے ایک بار پھر مجھے آزمانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ اور میرے بابا ریحان بخش دل کا دورہ پڑنے کی وجہ سے چل بسے تھے۔ میرے بابا اکلوتے تھے اور اپنی بیشتر جائیداد وہ پہلے میری ماں کوثر بیگم اور کچھ میرے نام کر چکے تھے۔ مگر ابھی تمام تر چیزوں پر مکمل کنٹرول ان کا تھا۔ جو ان کے مرنے کے بعد میری ماں کوثر بیگم کے پاس آ گیا ۔۔۔۔۔
دوسرے لفظوں میں میری بدقسمتی کوثر بیگم کی خوش قسمتی بن گئی۔ اور کوثر بیگم نے عدت پوری ہوتے ہی بابا کے ایک ذاتی ملازم فرقان سے شادی کر لی ۔اب میری تعلیم کا سلسلہ بھی ختم ہو گیا اور میں گھر میں فرد غیر بن کر رہ گئی ۔جب فرقان کے ہاتھ اتنی ساری دولت لگی تو وہ نشے اور جوئے پر پیسہ اڑانے لگا ۔اور میری ماں کوثر بیگم نے بھی اسے روکنے یا سمجھانے کی کوشش نہ کی ۔ادھر میں نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا اور ادھر فرقان نے جوئے میں اپنا آخری گھر بھی ہار لیا۔ کوثر بیگم اب چاہ کر بھی فرقان کو بعض نہ رکھ سکتی تھیں۔
یہاں تک کہ ایک بار فرقان جوئے میں اپنی بیوی کوثر بیگم کو ہار گیا ۔
اور تب کوثر بیگم نے میری بلی چڑھانے کا فیصلہ کیا۔ اور فرقان نے کوثر بیگم کی جگہ جواریوں کے سامنے مجھے پیش کر دیا گیا ۔۔۔۔۔ جس جواری کے پاس میں پہنچی اس نے اپنی حوس مٹا لینے کے بعد کچھ عرصہ کے لئیے مجھے بطور تحفہ اپنے کسی دوست کے پاس بھجوا دیا ۔اور یوں ایک سال میں سات مردوں کے پاس سے گھومنے کے بعد میں ایک بار پھر اسی جواری کی دہلیز پر آ پہنچی ۔جس نے جوئے میں مجھے جیتا تھا۔ اب جب کہ میں اس کے کسی کام کی نہ رہی تھی ۔تو اس نے مجھے بازار حسن میں فروخت کر دیا ۔۔۔۔۔۔۔
بازار حسن میں ایک فدا خان نام کا آدمی مجھ پر فدا ہو گیا ۔اس نے مجھے بازار حسن کی ملکہ سے خریدا اور مجھ سے نکاح کر کے دوبئی لے کر آ گیا ۔مگر وہ بھی بد ذات مرد ٹھہرا دوبئی آ کر مجھ سے جسم فروشی شروع کروا دی۔ پتہ نہیں کتنے لوگوں نے میرے جسم کو کتوں کی مانند نوچا ادھیڑا اور اب جب میری عمر ڈھلنے لگی تو مجھے پاکستان واپس بھیج کر طلاق دے دی ۔۔۔۔
میں آج بھی لاہور میں لاوارث لوگوں کے ایک ادارے میں رہ رہی ہوں۔
میری زندگی کی جہاں سے ابتدا ہوئی تھی ۔شاید یہاں میری انتہا بھی ہو جائے میری پڑھنے اور سمجھنے والوں سے ایک ہی التجا ہے۔ جب اللہ نے آپ لوگوں کو اختیار دیا ہے کہ آپ ایک کی بجائے چار بیویاں رکھ سکتے ہیں۔ تو پھر کیوں مجبور و لاچار لڑکیوں کے جسم خریدتے ہیں۔ ؟ اگر آپ کے پاس جسم خریدنے کے پیسے ہیں۔ تو لڑکی کو گھر بٹھا کر کھلانے کے بھی ہیں وہ راستہ اپنائیں جو آپ اور آپ کے اللہ کو پسند ہو آخر میں اس بات پر متفق ہوں کہ عورت مرد سے زیادہ ظالم ہوتی ہے۔
لکھاری شازل سعید
شکریہ اختتام
✭ نوٹ :- عمدہ قسم کے سبق آموز واقعات وحکایات کیلئے آج ہی ہمارا ٹیلی گرام چینل جوائن کریں۔
نوٹ :- ایسے ہی دل کو موہ لینے والے اور دل کو چھو لینے والے واقعات و حکایات پڑھنے کے لئے روز ویب سائٹ کا وزٹ کریں۔ اور اپنے دوست و احباب اور متعلقین کو بھی شیئر کریں تاکہ آپ کے ذریعے ان کا بھی فائدہ ہو ۔
Leave a Comment