urdu sex stories – urdu sex kahaniyan میرا مزاج آج کل کے نوجوانوں سے ذرا مختلف ہے میں نے سوچ رکہا تھا کہ میں اپنی تمام تر محبتیں اپنی ہم سفر اپنی شریک حیات پر نچھاور کروں گا خود کو اس کی امانت سمجھوں گا اور کسی سے بلا وجہ بات نہیں کروں گا میں اسی اصول پر کاربند تھا انہی دنوں میری ایک فرم میں ملازمت ہوگی وہاں ترقی کے مواقع بھی ملتے تھے میں نے اپنی تعلیم بھی جاری رکھی اور دفتری کام پر بھی توجہ دی جہاں میں کام کرتا تھا میرے مالک مجھ سے خوش تھا کیونکہ میں انہیں کبھی شکایت کا موقع نہیں دیتا۔
انہوں نے ایک فرم اور شہر میں قائم کی تو مجھے اس کا انچارج بنا کر وہاں بھیج دیا میں نے تو یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ اتنی جلدی میرے حالات اس قدر بہتر ہو جائیں گے یہ سب میری ماں کی دعاؤں کا پھل تھا میں نے اپنی فرم کے کاروبار اور ترقی کیلئے دن رات ایک کر ڈالا پھر مجھے کمپنی کی طرف سے مکان اور گاڑی بھی مل گئی تو میری ماں کو شادی کی فکر پڑ گئی جب کہ میں ابھی اس جھنجھٹ میں نہیں پڑنا چاہتا تھا قدرت نے مجھے حسن و جمال سے نوازا تھا میں کسی کے بھی دل کی دھڑکن بننے کے لائق تھا مگر میں جس کو تلاش کر رہا تھا وہ ابھی مجھے نہیں ملی تھی۔
میں امی کو یہ کہہ کر ٹال دیتا کہ جب مجھے اپنی پسند کی کوئی لڑکی ملے گی تو آپ کو بتا دوں گا۔
urdu sex kahaniyan
آخرکار ایک دن مجھے اپنی پسند مل ہی گئی نادیہ کا تعلق ایک امیر گھرانے سے تھا مگر میں نے اسے اس کی عادت کی وجہ سے پسند کیا وہ دو بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی اچھے اور معزز خاندان سے تھی بھائیوں کی شادیاں ہوچکی تھی نادیہ کے بھی کئی رشتے آ چکے تھے مگر کوئی اس کے معیار پر پورا نہیں اترتا تھا اس کے ماں باپ نے اس معاملے میں اسے خود مختار بنا رکھا تھا ماں باپ کی حمایت کی وجہ سے وہ ہر کسی کو کوئی نہ کوئی خامی بتا کر مسترد کر دیتی وہ مضبوط کردار کی پڑھی لکھی تھی۔
ان تمام حقائق سے آگاہ ہونے کے باوجود بھی میں نے یہ عہد کر لیا کہ میں نادیہ کو حاصل کر کے رہوں گا اگر قدرت کو ہمارا ملن منظور ہوا تو میرے من کی خواہش پوری ہوگی نادیہ نے میرے من میں ایک آگ سی لگائی تھی اور اس کی چاہت کی دھیمی دھیمی آگ میں جل کر میں ایک سکون سا محسوس کرنے لگا میں نے امی کو اپنی کیفیت سے آگاہ کیا اور بتایا کہ میں نادیہ کو اپنی بیوی بنانا چاہتا ہوں اور ایک بار تو امی اکیلی ہی ان کے گھر گئی پھر کچھ عرصے کے بعد میں بھی ان کے ساتھ گیا۔
وہ میرے سامنے تو نہیں آئی مگر اس نے مجھے دیکھ لیا میری گفتگو سنی اور پھر ہاں کر دی اس روز میں بہت خوش تھا میرے پاؤں زمین پر نہیں لگتے تھے میں حیران تھا کہ نادیہ نے کیا دیکھ کر اور کیا سوچ کر میرے حق میں فیصلہ دیا ہے اس سے قبل وہ کئی رشتے ٹھکرا چکی تھی لوگوں کو جب نادیہ کا فیصلہ معلوم ہوا تو سبھی حیران ہوئے اور میری خوش قسمتی پر رشک کرنے لگے سب حیران تھے کہ نادیہ اتنی آسانی سے ہاں کیسے کر لی امی نے دیر نہ کی اور جلدی سے منگنی کی رسم ادا کر دی دو تین ماہ بعد میری شادی دھوم دھام سے نادیہ سے ہوگئی۔
urdu sex kahaniyanنادیہ میرے گھر کیا آئی لگتا تھا میرے آنگن میں چاند اتر آیا ہے۔
نادیہ نے پہلی نظر میں مجھے پسند کر لیا اپنی ازدواجی زندگی کی اول شب ہم نے ڈھیروں عہد و پیمان باندھے مستقبل کے حسین سپنے سجائے کئی دنوں تک دعوتوں کا سلسلہ چلتا رہا پھر سیر و تفریح میں دو دن گزرگئے میں نادیہ کو پا کر بڑا خوش تھا مجھے یہ مان تھا کہ میری شریک حیات لاکھوں میں ایک ہے ہماری ازدواجی زندگی یقینا بہت ہی پرسکون اور شاندار گزرے گی کیوں کہ ہمیں ایک دوسرے سے محبت تھی ایک دوسرے پر اعتبار تھا۔
ہم اس محبت کے چشمے سے ابھی جی بھر کر سیراب نہیں ہوئے تھے کہ مجھے لگنے لگا نادیہ کبھی کبھی کھوئی کھوئی سی رہتی ہے وہ مجھ سے کچھ کہنا تو چاہتی ہے مگر الفاظ اس کے ہونٹوں پر آ کر رک جاتے ہی میں نے اسے ایک دو بار اکسایا کہ جو کہنا چاہتی ہو کہ دو مگر وہ بڑی خوبصورتی سے ٹال جاتی تھی وہ اکثر اپنی ایک سہیلی ماریہ کا ذکر کرتی ماریہ کو میں اپنی شادی کے موقع پر دیکھ چکا تھا بلاشبہ وہ بہت حسین تھی اس کا تو نام ہی انگ انگ میں رس کھول دینے والا تھا۔
وہ چاہنے کے قابل تھی مگر میں نے اس پر خاص توجہ نہیں دی کیونکہ میں صرف اور صرف نادیہ کا دیوانہ تھا مجھے اسی سے محبت تھی شرمین کے ذکر سے ہی میں چڑھ جاتا اور نادیہ سے کہتا کہ وہ خوبصورت تو ہے مگر تم سے بڑھ کر حسین نہیں ہے حالانکہ نادیہ کو اس بات پر خوش ہونا چاہیے تھا مگر میں محسوس کرتا ہے کہ اسے اپنی سہیلی کی برائی اچھی نہیں لگتی اسے اچھا تو یہ لگتا تھا کہ میں شرمین کی تعریف کروں اور اس کی باتوں میں دلچسپی لوں خیر کچھ عرصہ بعد نادیہ نے میکے جانے کی فرمائش کی۔
اب میں اسے لینے گیا تو بہانہ کر دیتی تھی کہ آج نہیں آسکوں گی نادیہ کے بغیر میرا دل نہیں لگ رہا تھا۔
گھر بھی سونا سونا لگتا اس کے ہجر کا دکھ جب حد سے بڑھا تو میں اسے لینے چلا گیا سسرال جاکر معلوم ہوا کہ وہ اپنی سہیلی شرمین کے گھر گئی ہے میں نے اس کی امی سے اس کی واپسی کا پوچھا تو انہوں نے بھی کہا کہ انہیں نہیں معلوم ان کی امی کا جواب سن کر میرا دماغ گھوم گیا شک کا ناگ میرے من میں کنڈلی مار کر بیٹھ گیا کہ کہیں سہیلی کے ملنے کے بہانے یہ کسی اور سے تو نہیں ملتی یہ سوچ کر میرے اندر چکر چلنے لگے شک اور نفرت کا پودا سر ابھرانے لگا مگر دل نہیں مان رہا تھا کہ نادیہ ایسی بھی ہو سکتی ہے۔
شادی کے بعد کسی سہیلی کے گھر رہنے کا جواز نہیں تھا اور وہاں زیادہ دیر تک ٹھرنے کا بالکل ہی نہیں میں اس کے گھر کی طرف گیا نادیہ وہیں تھی مجھے دیکھ کر نادیہ سکتے میں آگئی جب کہ شرمین کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ رہا اس نے مجھے بیٹھنے کا کہا تو میں نے کہا کہ میں نادیہ کو لینے آیا ہوں میرے لہجے میں غصے اور ناراضگی کا عنصر نمایاں تھا اس لیے نادیہ نے کوئی بات نہیں کی اور خاموشی سے میرے ساتھ چل پڑی راستہ بھر میں نے اس سے کوئی بات نہیں کی۔
رات کو جب وہ کمرے میں آئی تو میں اس پر برس پڑا شک کا اظہار بھی کر ڈالا اور پوچھا کہ تین دن شرمین کے گھر رہنے کا کیا مقصد تھا میرے علم میں لائے بغیر اور میری اجازت کے بغیر تم اس کے گھر میں کیوں ٹھہری میں تو تمہیں میکے چھوڑ کر آیا تھا پھر وہاں سے شرمن کے گھر جانے اور وہاں ٹھہرنے کا کیا مقصد ہے یقینا کوئی ایسی بات یا راز ہے جسے تم دونوں جانتی ہو میرا تیر نشانے پر لگا میرے آخری الفاظ سن کر وہ تڑپ اٹھی۔
نادیہ کی آنکھیں چھلک پڑیں آگے بڑھ کر میرے پاؤں چھو لئے اور بولی آپ مجھ پر شک نہ کرو الزام نا لگاؤ میں صرف آپکی ہی ہوں۔
ایسا الزام لگانے سے بہتر ہے کہ آپ میرا گلا گھونٹ دیں آپ نے جو سمجھا ہے وہ غلط ہے آپ میری زندگی میں آنے والے واحد مرد ہیں میں کسی اور کا تصور بھی نہ کروں اور اگر ایسا ہو تو خدا کرے کہ وہ میری زندگی کا آخری دن ہو حقیقت کچھ اور ہے میں نے کئی بار آپ کو بتانا چاہا مگر ہمت نہیں ہوئی آج آپ کا شک دور کرنے کے لئے میں آپ کو سب بتا دوں گی مگر آپ کو ایک وعدہ کرنا ہوگا کہ حقیقت جان لینے کے بعد اور شک دور ہو جانے کے بعد آپ کو میری ایک بات ماننا ہو گی۔
میں نے نادیہ سے وعدہ کیا کہ اگر وہ سب کچھ بتا دے گی تو میں اس کی بات ضرور مانوں گا جب نادیہ کو تسلی ہو گئی کہ میرا موڈ ٹھیک ہے تو وہ بولی میں آپ کو اپنے آپ سے بڑھ کر چاہتی ہوں مگر آپ کے علاوہ کسی سے بے انتہا محبت کرتی ہوں ہم ایک جان دو قلب ہیں زندگی سنگ سنگ گزارنے اور کبھی نہ جدا ہونے کی قسم کھا رکھی ہے اور وہ ہے میری واحد سہیلی وہ مجھ سے بھی زیادہ خوبصورت ہے ہم دونوں ہم عمر ہیں بچپن سے ایک ساتھ پلی بڑھی ہیں اور ایک ساتھ اسکول آتی جاتی تھی۔
ہم دونوں میں بہت محبت ہے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہماری راز کی باتوں کے انداز بھی بدلنے لگے ہم دونوں ہنسا کرتی تھی ہم دونوں کا پیار مثالی تھا اور سکون زندگی سے لطف اندوز ہو رہی تھی اور کبھی دونوں ہی رو رو کر اپنے آپ کو ہلکا کر لیتی یہ دیکھ کر ہمارے گھر والے جب کہتے کہ کل جب تم دونوں کی شادی ہو جائے گی تو پھر کیا کرو گی ہمارا جواب ہوتا کہ ایسا نہیں ہوگا پھر ہمارے لیے رشتے آنا شروع ہو گئے کہ لڑکی کی شادی اور بابل کا گھر چھوڑنا بھی ایک اٹل حقیقت ہے۔
اب تو ہم دونوں پریشان ہوگئی کہ کسی ایک کی شادی ہوگئی تو ملنا گوارا نہیں ہوگا۔
ہم نے فیصلہ کر لیا کہ ہم یہ موقع ہی نہیں آنے دیں گی اس کے لئے ایک ہی مرد سے شادی کریں گی اب مرد کے لئے تو ممکن ہے کہ وہ ایک سے زائد شادیاں کر سکتا ہے ہم نے قسم کھائی کہ شادی کریں گی تو ایک مرد سے ہمارے اس فیصلے کا علم جب ہماری کالج کے دوستوں کو ہوا تو کچھ نے کہا یہ ناممکن ہے کچھ یہ کہ کر خوش ہوئیں یہ ایک انوکھی شادی ہوگی ایسا فیصلہ ہماری محبت کی انتہا تھی میں جانتی تھی ایسی محبت کہانیوں میں ملا کرتی ہے مگر میں خود اس دور سے گزری ہوں تو احساس ہوا ہے کہ ایک غیر اختیاری فعل محبت بھی ہے۔
جو کسی کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے ہم نے فیصلہ کیا کہ جس سہیلی کی شادی پہلے ہوگی اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی سہیلی کی شادی اپنے شوہر سے کروائے تاکہ قسم اور عہد حقیقت میں بدل جائے ہمارے رشتے آنا شروع ہوئے تو ہم دعا مانگتی تھی کہ ہمیں ایسا شوہر ملے جو ہماری طرح وفا اور خلوص کا پتلا ہوں اسی لیے میں اور وہ کئی رشتے ٹھکرا چکی تھیں نہ جانے کیوں کسی پر اتنا اعتبار کرنے کو دل نہیں مانتا تھا یہی خوف رہتا تھا کہ شوہر سخت طبیعت کا مالک ہوا تو ہمارا کیا بنے گا۔
خیر آپ جب میرا رشتہ مانگنے آئے تو چھپ کر آپ کو دیکھ رہی تھی نہ جانے کیوں آپ کو دیکھ کر لگا کہ ہم دونوں جس کی تلاش میں تھی وہ ہمیں مل گیا آپ پر اعتبار کرنے کو جی چاہا میں نے فیصلہ آپ کے حق میں کردیا یوں میری اور آپ کی شادی ہوگئی خیر شادی کے موقع پر شرمین نے آپ کو دیکھا تو اس نے میرے انتخاب کو داد دی اور کہنے لگی کہ اپنا وعدہ یاد رکھنا کہیں جنید کی محبت میں کھو کر مجھے بھول نہ جانا میں نے اسے یقین دلایا کہ ایسا ہر گز نہیں ہوگا۔
میری اور تمہاری محبت سچی ہوئی تو میں جنید کو ضرور منال کی کیونکہ یہ کوئی غیر شرعی عمل نہیں ہے۔
بس تم دعا کرنا اس کے بعد میں یہاں آگئی آپ نے مجھے واقعی بہت محبت دی دوسری جانب میں اپنی سہیلی کی جدائی کی آگ میں جل رہی تھی ہم فون پر بات تو کرلیتی تھی مگر اس وقت تک ملنا نہیں چاہتی تھی جب تک میدان ہموار نہ ہو جائے اور ہم اپنی قسم نبھا کر سرخ رو نہ ہو جائیں میں ڈرتی بھی تھی کہ آپ سے ایسے کیا بات کروں آپ نہ جانے سوچیں گے کیا سمجھیں گے اور کیا جواب دیں گے خیر یہی صورتحال تھی اب میری آپ سے التجا ہے کہ آپ شرمین سے بھی شادی کر لیں۔
نادیہ کے آخری الفاظ سن کر میرے دل سے ایک بڑی الجھن دور ہو گئی میں اس کے کردار پر جو شق کر بیٹھا تھا وہ یقین میں بدل گیا میں نے اسے تفصیل سے بتایا کہ میں دو شادیوں کے حق میں نہیں ہوں میرے ابو نے بھی تین شادیاں کی تھیں اور اس کا ایسا حشر ہوا کہ میں گھر چھوڑنے پر مجبور ہوگیا اب باقی تینوں بیویوں میں لڑائی جھگڑا رہتا تھا پھر تو میں نے سوچ ہی لیا تھا کہ میں ساری زندگی صرف ایک بیوی کا بن کر رہوں گا دوسری شادی کے نام سے مجھے نفرت ہوگئی اس میں صرف اور صرف خرابی ہے گھاٹا ہی گھاٹا ہے۔
دو عورتیں کبھی سکون سے نہیں رہ سکتیں بہتر ہے تم مجھے مجبور نہ کرو مگر نادیہ نے میری منتیں شروع کر دیں کہنے لگی میں آپ کو یقین دلاتی ہوں کہ ہمارے گھر میں کبھی جھگڑا نہیں ہوگا بلکہ پیار محبت کا مثالی گھرانہ ہوگا آپ کو کبھی مالی تنگی کا بھی شکوہ نہیں ہوگا ہم روکھی سوکھی کھا کر بھی گزارا کر لیں گے نادیہ کی محبت اور آنسوؤں نے مجھے بے بس کر ڈالا مجھے اپنا عہد توڑنا پڑا میں نے اس کی خواہش کا احترام کیا اور شرمین سے شادی کا وعدہ کر لیا اگر اسے اعتراض نہیں تھا تو پھر میں کیا کہتا۔
وہ بھی جب یہ اس کی شدید خواہش تھی شرمین ویسے بھی مجھے نادیہ سے زیادہ حسین لگتی تھی۔
میری امی نے بھی رضامندی ظاہر کر دی اور یوں میری پہلی شادی کے تین ماہ بعد میری دوسری شادی ہوگی اس شادی میں نادیہ اور شرمین کے رشتہ دار شریک ہوئے ہر ایک نے نادیہ کے جذبہ قربانی کی تعریف کی شرمین کے والد نے بھی شادی پر جی بھر کر خرچہ کیا نادیہ نے اپنے ہاتھوں سے شرمین کو دلہن بنایا اور اپنے گھر میں پھولوں کی سیج بھی اس کے لئے تیار کی اور اس شب سے وہ دونوں ایک ساتھ ہی رہیں ان کی محبت دیکھ کر مجھے بھی حسد سا ہو رہا تھا وہ دونوں ایک دوسرے کے گلے مل کر پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی۔
میں تو اپنے کمرے میں چلا گیا شادی کے ہنگاموں سے مجھے سخت تھکن ہو رہی تھی اگلی صبح میں آٹھ اتوبخار میں تپ رہا تھا شادی کی تھکاوٹ نے مجھے بیمار کر دیا تھا اگلی صبح میری ملاقات شرمین سے ہوئی میری ملاقات شرمین سے اگلے دن ہوئی حالانکہ دلہن کے روپ میں بھی وہ بہت حسین لگ رہی تھی اس نے مجھے دیکھا تو میرے قدموں میں گر گئی اور کہنے لگی آپ بڑے عظیم ہیں میں آپ کی عظمت کو سلام کرتی ہوں آپ نے مجھ پر جو احسان کیا ہے وہ ساری زندگی آپ کی خدمت کرکے نہیں اتار سکتی۔
میں نے اسے کہا کہ میں تم دونوں کو خوش رکھنے کی ہر ممکن کوشش کروں گا نادیہ نے مجھ پر جو اعتبار کیا ہے اس پر پورا اتروں کا تم دونوں کی محبت میں توازن رکھو گا اگر کبھی غلطی سے پلڑا ایک طرف جھک جائے تو برابری کا ثبوت دوں گا میں دانستہ طور پر تم دونوں میں ناانصافی نہیں کروں گا خیر شادی کے بعد میری دونوں بیویاں بہت خوش تھی اب ان لوگوں نے یہ معاہدہ طے کیا تھا کہ ایک رات میں نادیہ کے کمرے میں اور ایک شرمین کے کمرے میں رہوں گا دونوں میں جو اکیلی ہو کی وہ امی کے کمرے میں سوئے گی۔
اس معاہدے پر عمل بھی ہو رہا تھا زندگی اتفاق سے گزر رہی تھی جیسے ان کا خونی رشتہ ہو میں بھی اسے برابر سلوک کر رہا تھا۔
مگر محتاط بھی تھا کہ کہیں میرے کسی عمل سے دونوں میں سے کسی ایک کے دل میں احساس کمتری نہ ہو وہ دونوں بھی مطمئن تھیں لگتا تھا کہ ہمارا گھرانہ واقعی جنت ہے ہر وقت ہمارے قہقہے گونجا کرتے تھے انہی دنوں میری امی کی طبیعت خراب ہوگئی اور وہ اپنے خالق حقیقی سے جاملیں ہمارے گھر میں افسردگی نے ڈیرے ڈال دئے اس صدمے نے ہم تینوں کو توڑ کر رکھ دیا مگر گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ ہمیں صبر آ ہی گیا گھر کی رونقیں پھرسے لوٹ آئیں نادیہ اور شرمین کی محبت کے رنگ چاروں طرف پھیل گئے۔
میں نے گھر کے کام کاج اور امی کی کمی پوری کرنے کے لیے نوکرانی بھی رکھنا چاہی مگر ان دونوں نے یہ کہہ کر منع کردیا کہ گھر کے کام وہ خود کریں گی یوں چھ ماہ کا عرصہ بیت گیا وہ چھ ماہ میری زندگی کے قیمتی اور نایاب دن تھے جنہیں میں کبھی بھول نہیں پاؤں گا وہ دن اتفاق اور چاہت کے یادگار دن تھے واقعی لگتا تھا کہ نادیہ اور شرمین یک جان دو قالب ہیں شرمین کی امید سے ہونے کی خبر نے خوشیوں کو دوبالا کر دیا شرمین بھی بہت خوش تھی خوش تو نادیہ بھی تھی۔
مگر یہ بات میں نے محسوس کر لی تھی کہ اسے وہ خوشی نہیں ہوئی تھی جو شرمین سے تعلق کی وجہ سے ہونی چاہیے تھی ہونا تو یہ تھا کہ وہ بھی اتنی ہی خوش ہوتی مگر نادیہ کے چہرے پر افسردگی سی تھی کہ اس کی شادی تین ماہ پہلے ہوئی تھی اور ابھی تک وہ مجھے یہ خوشخبری نہیں سنا سکی تھی خود میں نے بھی اس کمی کو محسوس کیا اسے لیڈی ڈاکٹر کے پاس لے گیا مگر پتہ چلا کہ وہ کبھی بھی ماں نہیں بن سکے گی اس کے بعد شرمین اس کی دلجوئی میں لگی رہتی نادیہ بظاہر تو ہنستی مسکراتی مگر میں محسوس کر رہا تھا کہ وہ اندر سے پریشان ہے۔
کیونکہ وہ اولاد پیدا کرنے کے قابل نہیں تھی میں نے دیسی حکیموں سے بھی علاج کروایا۔
تعویذ گنڈوں کا سہارا بھی لیا کی نادیہ کی جانب سے کوئی خوش خبری نہیں ملی تھی ادھر شرمین کے زچگی کے دن قریب تھے ڈاکٹر نے اسے آرام کا مشورہ دے رکھا تھا اب شرمین نادیہ کی خدمت کرتی ہر طرح سے اس کا خیال رکھتی کہتی کہ اس کا بچہ میرا بچہ ہے میں بھی سوچتا کہ آنے والا مہمان واقعی خوش قسمت ہے جیسے ایک نہیں دو دو ماؤں کا پیار ملے گا پھر شرمین نے بیٹے کا تحفہ دے کر ہمارے گھر کی خوشیوں کو چار چاند لگا دیے ہمیں تو ایک کھلونا مل گیا مگر نادیہ کی اداسی اور بے چینی بڑھتی جا رہی تھی۔
اس کی دکھ کا احساس مجھے بھی تھا میں نے اس کے علاج کے لیے دن رات ایک کر ڈالا مگر اس کی مراد نہ برآی اب میں اور شرمین دونوں ہی نازیہ کو تسلی دیتے مگر وہ خوش نہ ہوتی ایک سال گزر گیا تو شرمیں نے ایک بیٹی کو جنم دیا ہماری خوشی تو یقینی تھی مگر نادیہ کا اداس ہونا بھی لازم تھا ہم نے بیٹی کی پیدائش پر جان بوجھ کر خوشی نہیں منائی کہ کہیں نادیہ زیادہ اداس نہ ہو جائے بظاہر تو وہ خوش ہی تھی مگر ہم جانتے تھے کہ اس کے اندر اولاد نہ ہونے کا دکھ تھا۔
نادیہ کو دکھی دیکھ کر میں نے اور شرمین نے یہ فیصلہ کیا کہ ہم اس وقت تک مزید اولاد پیدا نہیں کریں گے جب تک نادیہ ماں نہیں بن جاتی ہم نے فیصلہ کیا کہ میں اور نادیہ حج کا فریضہ ادا کرنے جائیں گے اور وہاں اللہ تعالی سے اولاد کی دعا مانگیں گے کیونکہ وہاں دعاؤں کو قبولیت کا درجہ ملتا ہے پھر خانہ کعبہ پر پہلی نظر پڑتے وقت جو دعا مانگی جائے وہ قبول ہوتی ہے مجھے یقین تھا کہ یہ بھی قبول ہوجاۓ گی نادیہ سے ابھی اس سلسلے میں البتہ بات نہیں ہوئی تھی شرمین کو ایک ہفتے سے بخار تھا۔
اس کی طبیعت کے پیش نظر رات کو میں اس کے کمرے میں ٹھہرتا تھا۔
مگر میرا یہ عمل نادیہ سے برداشت نہیں ہوا وہ کہنے لگی آپ معاہدے کی خلاف ورزی کر رہے ہیں جو شادی کے وقت طے ہوا تھا آپ پورے ایک ہفتے سے اس کے پاس ہیں اس کے لہجے میں شکایت کا عنصر نمایاں تھا میں نے پہلی بار اس کے لہجے بھی یہ طنز اور شکوہ دیکھا تھا میں نے نادیہ کو تسلی دی کہ یہ سب کچھ کہ یہ سب کچھ بھی شرمین کی طبیعت کے پیش نظر کر رہا ہوں مگر وہ نہ مانی اس کا خیال تھا کہ شاید میرا اس سے دل بھر گیا ہے حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں تھی۔
گزرتے دنوں کے ساتھ ساتھ نادیہ کا یہ جذبہ بڑھنے لگا شرمیں نے بھی نادیہ کے اس رویے کو محسوس کیا اس نے بھی نادیہ کو یقین دلانے کی بہت کوشش کی کہ ہم دونوں تمہاری خوشی کی خاطر کچھ بھی کرنے کے لئے تیار ہیں کبھی ہم نے اپنی اولاد میں تفریق نہیں کی مگر نادیہ کا جذبہ بھڑتا ہی جا رہا تھا شاید اس کا جذبہ محرومی اب شدت اختیار کر لیا تھا اب وہ اکثر و بیشتر مجھ سے لڑنے لگی مجھے سمجھ نہ آتا کہ میں کیا کروں وہ بہت دیر تک بولتی اور شرمین کی برائیاں کرتی ان حالات میں میں اور شرمین بھی پریشان تھے۔
مگر ہمارے بس میں کچھ نہیں تھا نادیہ کی ذہنی حالت بگڑتی جارہی تھی لیکن ایک دن اس نے مجھ سے آخر مطالبہ کرہی دیا کہ میں شرمین کو طلاق دے دوں مگر میں ایسا کیسے کر سکتا تھا شرمین اب میرے بچوں کی ماں تھی میں اسے چھوڑ نہیں سکتا تھا نادیہ کو بھی چھوڑنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا کیونکہ وہ میری پہلی محبت تھی بالآخر میں نے ایک انوکھا فیصلہ کرلیا کہ ایک دن میں خاموشی سے گھر سے نکل گیا میرا رخ ایئرپورٹ کی طرف تھا میں نے باہر جانے کے انتظامات مکمل کر لیے تھے۔
میں آج بھی بیرون ملک میں رہ رہا ہوں۔۔
یہاں رہتے ہوئے مجھے تین سال گزر گئے ہیں دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں میں نے ایک تیسری شادی بھی کر رکھی ہے نادیہ اور شرمین مجھے بلاتی رہتی ہیں ان کا کہنا ہے کہ اب وہ اتفاق سے رہیں گی مگر میں وہاں جا کر کیا کرو اب میں یہاں اپنی زندگی میں مطمئن ہوں البتہ باقاعدگی سے خرچہ اپنے گھر بھجواتا ہوں اب آپ ہی بتائیے قصور میرا ہے یا نادیہ اور شرمین کا۔
✭ نوٹ :- عمدہ قسم کے سبق آموز واقعات وحکایات کیلئے آج ہی ہمارا ٹیلی گرام چینل جوائن کریں ۔
نوٹ :- اپنے دوست و احباب اور متعلقین کو بھی شیئر کریں تاکہ آپ کے ذریعے ان کا بھی فائدہ ہو۔
Leave a Comment