حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ
حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ ایک بہت مشہور خلیفہ گزرے ہیں ۔ وہ سرکاری خزانے کو رعایا کی امانت سمجھتے تھے اور اسکی بڑی حفاظت کرتے تھے ۔ حکومت کے پاس جو مال جمع رہتا ہے ۔ اسے سرکاری خزانہ کہتے ہیں ۔ یہ لوگوں ہی پر خرچ کرنے کے لیے جمع کیا جاتا ہے ۔
ایک دن سرکاری خزانے میں بہت سے سیب آئے ۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ عادت کے مطابق ان کو مسلمانوں میں تقسیم کرنے لگے ۔ اتنے میں ان کا چھوٹا بچہ ادھر آنکلا ۔ وہ ابھی نادان تھا ۔ اسے کیا پتہ تھا کہ یہ سیب کس کے ہیں ۔ اپنے ابو میاں کو بانٹتے دیکھا ۔ سمجھا ہمارے ہوں گے ۔ ایک سیب اٹھاکر کھانے لگا ۔
سیب تو سرکاری تھے اور سرکاری چیز پر سارے مسلمانوں کا حق ہوتا ہے ۔ خلیفہ بھلا اپنے بچے کو کب لینے دیتے ۔ یہ تو مسلمانوں کے مال میں خیانت ہوتی ۔ اس لیے انھوں نے بچے سے سیب لے لیا ۔ بچہ رونے لگا ۔ بہت بہلایا مگر بچہ روتا رہا اور روتا ہوا گھر چلا گیا اور اپنی امی سے شکایت کر دی ۔ ماں نے بیٹے کے آنسو پونچھے اور بازار سے سیب منگاکر بہلا دیا ۔ خلیفہ جب گھر آئے ۔ تو انہیں سیب کی خوشبوں معلوم ہوئی ۔ بیوی سے پوچھا کہ گھر میں کوئی سرکاری سیب تو نہیں آیا ہے ۔
بیوی نے کہا : سرکاری سیب تو نہیں ۔ ہاں ! میں نے بازار سے سیب منگاکر بچے کو کھلایا ہے ۔ آپ نے اس سے سیب لے لیا تھا ۔ وہ روتا ہوا میرے پاس آیا ۔ کسی طرح بہل نہیں رہا تھا ۔ میں نے بازار سے منگا کر بہلادیا ۔
انھوں نے فرمایا : کیا کرتا ! سیب سرکاری خزانے کے تھے ۔ میں نے بچے سے سیب اس لیے چھین لیا تھا کہ ایک سیب کی وجہ سے اللہ میاں کے یہاں بےایمان نہ ٹھہروں ۔
حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کی اس بات پر ان کی بیوی خاموش ہوگئیں ۔
پیارےدو ستو! امانت میں خیانت کرنا بہت ہی گندی عادت ہے ۔ خیانت کرنے والے کو ایک دن اللہ تعالی کے دربار میں حساب دینا ہوگا ۔ اس لیے خیانت سے ہمیشہ بچو ۔
✭ نوٹ :- عمدہ قسم کے سبق آموز واقعات وحکایات کیلئے آج ہی ہمارا ٹیلی گرام چینل جوائن کریں۔
نوٹ :- ایسے ہی دل کو موہ لینے والے اور دل کو چھو لینے والے واقعات و حکایات پڑھنے کے لئے روز ویب سائٹ کا وزٹ کریں۔ اور اپنے دوست و احباب اور متعلقین کو بھی شیئر کریں تاکہ آپ کے ذریعے ان کا بھی فائدہ ہو ۔
Leave a Comment