کیا کوئی مسلم حکمران یا فاتح بھی اس میں شامل ہے؟
-1 ہیراڈ اعظم (Herod The Great) 73 قبل از مسیح میں فلسطین میں پیدا ہوا۔جس کا ذکر انجیل مقدس میں بھی موجود ہے اور جس کی وجہء شہرت اپنی جان بچانے کے لیے نوزائیدہ لڑکوں کو قتل کروانے اور حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کو شہید کروانے کی کوشش کرنے کے حوالے سے ہے۔ قدیم انسانی تاریخ کے ماہر ’’جوزفس‘‘ (Josephus) نے اس کے مظالم کے بے شمار واقعات رقم کیے ہیں۔ شہرت پانے والے حکمران
2 ۔ نیرو (Nero)روم کا یہ بدنام زمانہ حکمران ایک لے پالک بچہ تھا۔
-3 پوپ الیگزینڈر ششم تاریخ میں پوپ کے منصب پر کئی ایسے لوگ بھی فائز رہے جو ظلم و جور میں اپنی مثال آپ تھے۔ مگر ان سب میں بلاشبہ پوپ الیگزینڈر ششم سب سے نمایاں ہے۔ وہ 1431ء میں پیدا ہوا اور اس کی پوپائیت کا زمانہ1492-ء تا 1503ء ہے۔ اس نے اپنے مرتبے کی طاقت کو اپنے لالچ پورے کرنے کے لیے بیدردی سے استعمال کیا۔ اس کا ایک مخصوص طریقۂ واردات یہ بھی تھا کہ وہ اپنی خوبصورت بیٹی ’’لوکریزیا‘‘ (Lucrezia) کی شادی کسی امیر آدمی سے کردیتا اور اسے خوب جہیز بھی دیتا۔ بعدازاں وہ اس شادی کو بحیثیت ’’پوپ‘‘ منسوخ کردیتا (حالانکہ رومن کیتھولک عیسائیوں کے نزدیک طلاق کا کوئی تصور نہیں ہے) ۔
پھر کچھ عرصے بعد وہ اپنی بیٹی کو دوبارہ کسی امیر آدمی سے بیاہ دیتا۔
-4 کلیگولا (Caligula)
-5 کنگ جان (King John)یہ 24 دسمبر 1166ء کو پیدا ہوا اور 19 اکتوبر 1216ء کو وفات پائی۔
-6 میکسیمیلین روبسپیار (Maximilien Ro Bespierre)
یہ شخص 1789ء میں بپا ہونے والے فرانسیسی انقلاب کا سب سے اہم معمار تھا اور بعداز انقلاب قائم ہونے والی حکومت میں سب سے بڑا لیڈر گردانا جاتا تھا۔
-7 چنگیز خان (Genghis Khan)وہ 1162ء میں پیدا ہوا اور 1227ء میں اس جہان فانی سے کوچ کرگیا۔ اپنے زمانے میں دنیا کی سب سے بڑی سلطنت کا مالک تھا۔ ظاہر ہے کہ اس سلطنت کو تشکیل دینے میں کروڑوں لوگ لقمۂ اجل بن گئے۔
-8 ولاد دی امپیلر (Vlad The Impaler)’’ اس شخص کا ایک نام اور بھی ہے جو زبان زد عام ہے اور یقینا آپ نے بھی ضرور سن رکھا ہوگا۔ وہ نام ہے ’’ڈریکولا‘‘۔
-9 آؤان دی ٹیریبل (Ivan The Terrible)
25 اگست 1530ء کو پیدا ہونے والا روس کا یہ بادشاہ، 16 جنوری 1547ء کو تخت نشین ہوا اور اپنی موت یعنی 28 مارچ 1584ء تک حکمرانی کرتا رہا۔ اس نے ناصرف روس کو متحد کیا بلکہ اس کو ایک مستحکم مملکت میں بدل ڈالا۔ مگر اس تمام مرحلے کو سر کرنے میں اس نے جو مظالم ڈھائے انہیں کی وجہ سے اسے ’’دی ٹیریبل‘‘ کا خطاب ملا۔
-10 اٹیلا دی ہن (Attila The Hun)’’ہن‘‘ (Hun) خانہ بدوش قبائل تھے جو چوتھی سے چھٹی صدی عیسوی کے درمیان مشرقی یورپ سے لے کر وسطی ایشیا کے درمیانی علاقے میں آباد تھے۔ 434ء تا 453ء تک ’’اٹیلا‘‘ (Attila) ان کا حکمران رہا۔ وہ ایک خوفناک جنگجو تھا۔
-11 لیوپولڈ دوئم (Leopold II)لیوپولڈ دوئم نے 1865ء سے لے کر 1909ء یعنی اپنی وفات تک، بلجیم کے دوسرے بادشاہ کی حیثیت سے حکومت کی۔ کانگو پر اس کا سامراجانہ قبضہ کئی دہائیوں تک برقرار رہا۔
-12 پول پاٹ (Pol Pot)’’پول پاٹ‘‘ ایک کمبوڈین انقلابی سیاست دان تھا جو 1976ء سے 1979ء تک جمہوریہ کمپوچیا کا وزیراعظم رہا۔
-13 جوزف اسٹالن (Joseph Stalin)جوزف اسٹالن (18 دسمبر 1878ء تا 5 مارچ 1953ء) سابقہ سویت یونین کا ایک انقلابی سیاست دان تھا۔ اس کا تعلق جارجیا سے تھا۔ وہ 1920ء کی دہائی کے وسط سے لے کر1953ء میں اپنی موت تک سوویت یونین (روس) کا حکمران رہا۔
-14 ایڈولف ہٹلر (Adolf Hitler) 20 اپریل 1889ء کو پیدا ہونے والے جرمنی کے اس حکمران نے 30 اپریل 1945ء کو جنگ عظیم دوئم کے خاتمے کے وقت خودکشی کرلی تھی۔
آپ کو صرف یہ بتایا جائے گا کہ مسلم حکمران حکومت کے لیے بھائیوں اور باپ کا قتل کرتے تھے لیکن حسن نثار جیسے متعصب اور جاہل دانشور کبھی آپ کو یہ نہیں بتائیں گے کہ ہیراڈ اعظم نے اپنے ہی تین بیٹوں اور اپنی دس بیویوں میں سے سب سے زیادہ پسندیدہ بیوی کو بھی قتل کردیا تھا اور اسی پر بس نہیں، اس نے اپنے دور کے پروہت اعلیٰ کو پانی میں ڈبو کر مار ڈالا۔ اس کے علاوہ وہ اپنی ساس اور اپنے ’انکلز‘ کے قتل میں بھی ملوث مانا جاتا ہے۔ شہرت پانے والے حکمران
یہ آپ کو یہ بھی نہیں بتائیں گے کہ روم کے نیرو نے اپنی ماں ’’ایگریپینا دی ینگر‘‘ (Agrippina The Younger) کو قتل کیا۔ بعدازاں کچھ عرصے بعد ہی اس نے اپنی دونوں بیویوں کو بھی باری باری قتل کردیا۔ آہستہ آہستہ نوبت یہاں تک جاپہنچی کہ اس نے پورے روم کو آگ لگا دی اور پھر اس کا الزام شہر کے بیگناہ عوام پہ عائد کر دیا۔یہ آگ ’’دی گریٹ فائر آف روم‘‘ کہلاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جب روم جل رہا تھا تو نیرو آرام سے بیٹھا بانسری بجا رہا تھا۔ وہ یہیں تک محدود نہیں رہا بلکہ اس نے روم کے بچ جانے والے شہریوں پر ہی آگ لگائے جانے کی سازش کا الزام لگا دیا اور ان پر مقدمات چلانے کے بعد بہت سوں کو شدید تشدد کرواکے مروا دیا۔ اس کی یہ ذہنی کج روی بالآخر اتنی بڑھی کہ اس نے خودکشی کرکے اپنی بھی جان لے لی۔
آپ کو حسن نثار جیسے دانشور مولویوں کے کارنامے بتائیں گے لیکن یہ آپ کو کبھی نہیں بتائیں گے کہ عیسائیت کا پوپ الیگزینڈر ششم رقص و سرود کی محفلیں کرتا اور تقریبات میں شریک ہونے والے امراء کی ناجائز دولت کو وہ اپنے اختیارات کے تحت ضبط کرکے اپنی پرتعیش زندگی کے لیے استعمال میں لاتا۔
یہ آپ کو یہ بھی نہیں بتائیں گے کہ رومی بادشاہ کیگولا اتنا بے رحم تھا کہ رات کے کھانے کے دوران کسی زندہ انسان کو آرے سے چرتے ہوئے دیکھنا اس کی بہترین تفریح تھی۔ اس بادشاہ کی مطلق العنانی کا یہ عالم تھا کہ اس نے ا پنے گھوڑے کو سینیٹر نامزد کردیا تھا۔ ایک جنگ کے دوران اس نے اپنی ساری فوج کو سمندر میں جھونک دیا۔کلیگولا‘‘ نامی یہ رومی بادشاہ انتہائی خود پسند تھا۔ اور اس نے خدائی کا دعویٰ بھی کیا تھا۔ یہ شخص کسی بھی معاملے میں محض شک کی بنیاد پر کسی کو بھی قتل کردیا کرتا تھا۔ اس نے اپنی بہنوں کے ساتھ شادیاں رچائیں۔ نیز دوسروں کی بیویوں کو ورغلا کر اپنی ہوس کا نشانہ بنانا اس کا محبوب مشغلہ تھا۔ اوپر سے وہ بہت شیخی خورہ بھی تھا۔ اس کا زمانہ 37 تا 41 بعداز مسیح کا ہے۔ شہرت پانے والے حکمران
یہ آپ کو یہ بھی نہیں بتائیں گے کہ برطانیہ کے بادشاہ جان(1166-1216) نے اپنے مخالفین کو قلعے میں قید کرواکر بھوکا پیاسا مار دیا۔کنگ جان کو باآسانی انگلستان کی تاریخ کا سب سے زیادہ ظالم بادشاہ کہا جاسکتا ہے۔بادشاہت کے حصول کے لیے اس نے اپنے ہی بھائی کے خلاف فرانس کے بادشاہ کے ساتھ مل کر سازش کی۔اس نے بادشاہ بننے کے بعد ایک بہت بڑی بری و بحری فوج تشکیل دی اور اس کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے عوام پر بھاری محصولات عائد کئے، معززین کی جائیدادیں ضبط کرلیں اور امراء کو قید میں ڈال کر ان پر تشدد کے ذریعے ان کی دولت ہتھیالی۔
یہ آپ کو یہ بھی نہیں بتائیں گے کہ فرانسیسی میکسیملین روبسپیار عوام اور جمہوریت دوست‘ انسان نے تین لاکھ انقلاب دشمنوں کو گرفتار کرکے ان میں سے سترہ ہزار افراد کو ’’گلوٹین‘‘ کے ذریعے گردنیں کاٹ کر موت کے گھاٹ اتار دیا۔اس کے اسی رویے کے باعث اسے گرفتار کرلیا گیا اور اس کی گردن بھی ’’گلوٹین‘‘ کے ذریعے ہی مار دی گئی۔
یہ آپ کو یہ بھی نہیں بتائیں گے کہ چنگیز خان چالیس ملین لوگوں کی اموات کا ذمہ دار تھا۔ اس کے حملوں کے نتیجے میں اس وقت کی دنیا کی آبادی کا تقریباً گیارہ فیصد حصہ ختم ہوگیا۔ یہ روایت بھی مشہور ہے کہ جب اس کا انتقال ہوا تو اس کی موت کو چھپانے کے لیے جنازے کے راستے میں آنے والی تمام آبادیوں کو نیست ونابود کردیا گیا۔یہ نام دنیا بھر میں ظلم و بربریت کا استعارہ سمجھا جاتا ہے۔ شہرت پانے والے حکمران
یہ آپ کو یہ بھی نہیں بتائیں گے کہ 1430ء میں پیدا ہونے والے رومانیہ کے بادشاہ کو ’’دی امپیلر‘‘ (میخیں ٹھونکنے والا) کا خطاب ’’ٹارگوسیٹ‘‘ نامی شہر کے باہر لڑی جانے والی جنگ کے دوران دیا گیا کیونکہ اس جنگ میں اس نے دو ہزار مسلم ترک عثمانی فوجیوں کے جسموں میں لکڑی کی میخیں ٹھونکنے کے احکامات جاری کیے تھے جنہیں اس عمل کے بعد چیل کوؤں کی خوراک بننے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔وہ ایسے کہ وہ جیتے جاگتے انسانوں کو اس طریقے سے دردناک موت سے ہم کنار کرتا تھا کہ روح کانپ اٹھے، یعنی وہ میدان جنگ میں اپنے دشمنوں کو لکڑی کی لمبی لمبی تیز میخیں جسم میں ٹھونک کر سسک سسک کر مرنے کے لیے چھوڑ دیتا تھا۔ اس کی افواج کنوؤں کے پانی میں زہر ملا دیتیں، فصلیں اجاڑ دیتیں اور وبائی امراض کے شکار مریضوں کو دشمنوں میں بھیج کر انہیں بھی موذی وبائی امراض میں مبتلا کردیتیں (یہ سمجھ لیں کہ وہ یہ طریقہ اس دور میں کیمیائی ہتھیاروں کے طور پر استعمال کرتا تھا) ۔
کیا کبھی کسی مسلم حکمران نے ایسا کیا؟ لیکن منافق ملحدین و سیکولرز پھر بھی یہ شور کریں گے کہ مسلم حکمران ظالم تھے اور اسلام تلوار سے پھیلا۔ شہرت پانے والے حکمران
یہ آپ کو یہ بھی نہیں بتائیں گے کہ روس کے بادشاہ ایوان دی ٹیریبل نے نے اپنی حاملہ بہو کو تشدد کا نشانہ بنایا اور اپنے بیٹے کو بھی غیظ و غضب کی حالت میں قتل کر ڈالا۔ اس کی ذہنی رو اس حد تک بہک چکی تھی کہ جو بھی اس کے سامنے آتا اور اگر اس وقت بادشاہ نفسیاتی دورے اور جنوں میں مبتلا ہوتا تو اس بدنصیب شخص کی خیر نہ ہوتی اور اسے اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا۔ روس کے مشہور ’’سینٹ باسل کیتھڈرل‘‘ (St. Basil’s Cathedral) کے آرکٹیکٹ کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا اور وہ بادشاہ کے ہاتھوں اپنی آنکھیں گنوا کر اندھا کر دیاگیا۔ اس نے امراء کی جائیدادوں پر قبضے کرنے شروع کردیئے اور اپنی ایک ایسی ذاتی پولیس فورس قائم کی جو اس کے حکم پر اس کے مخالفین کو کچل کر رکھ دیتی تھی۔ اس نے اپنے ان اقدامات کو جائز قرار دینے کے لیے ہی دربار کے کئی معززین کو ان کے منصبوں سے یہ الزام لگا کر ہٹا دیا کہ وہ ملکہ کی موت کے ذمے دار تھے۔
یہ آپ کو یہ بھی نہیں بتائیں گے کہ یورپی بادشاہ اٹیلا دی ہن نے اپنے ہی بھائی ’’بلیڈا‘‘ (Bleda) کو صرف اس لیے موت کے گھاٹ اتار دیا تاکہ وہ پورے علاقے کا بلا شرکت غیرے حکمران بن سکے۔نیئسس (Naissus) نامی شہر کی تباہی تو اس قدر ہولناک تھی کہ مرنے والوں کی لاشوں نے ’’دریائے ڈنیوب‘‘ (River Danube) کو پاٹ کر رکھ دیا اور وہ کئی برس تک ان نعشوں سے بھرا رہا۔اٹیلا‘‘ اتنا ظالم تھا کہ کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے ہی دو بیٹوں کو مار کر کھاگیا تھا۔لاکھوں لوگ اس کی بربریت اور لوٹ مار کا نشانہ بنے۔ کیا ایک بھی مسلم حکمران پیش کیا جا سکتا ہے جس نے یہ کیا ہو۔
یہ جاہل دانشور آپ کو یہ بھی نہیں بتائیں گے کہ بیلجیم کے بادشاہ لیوپولڈ دوم نے کانگو کے دس ملین باشندوں کو موت کے گھاٹ اتروا دیا۔ تاریخ میں اس کو ایک اور نام سے بھی شہرت ملی اور وہ تھا ’’کانگو کا قصاب‘‘۔ اسی سے اس کی ظالمانہ فطرت اور جابرانہ طبیعت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ’کانگو‘ ربڑ کی دولت سے مالا مال تھا اور لیوپولڈ کی حریصانہ نظریں اس پر جمی ہوئی تھیں۔ پس اس نے اپنی اس کالونی اور پسماندہ ملک پر اپنی فوجیں چڑھا دیں۔اس کی سنگ دلی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ بار بار اپنی افواج کو یہ احکامات بھجوا رہا تھا کہ کانگو کا جو بھی مقامی باشندہ اس کے خلاف بغاوت کرے اس کا سر کاٹ کر بطور ثبوت کے بادشاہ کی خدمت میں بیلجئم بھیج دیا جائے۔ یہ سامراجی استحصال کی ایک بدترین مثال تھی۔ شہرت پانے والے حکمران
یہ آپ کو یہ بھی نہیں بتائیں گے کہ کمبوڈین سوشلسٹ ملحد پول پاٹ کے دور میں بیس لاکھ لوگ بھوک، پھانسیوں اور ناقص صحت کی وجہ سے ہونے والے امراض کے باعث موت کا شکار ہوگئے۔ وہ ایک کمیونسٹ رہنما تھا۔ اس نے اساتذہ، سائنس دانوں، ماہرین تعلیم، عام شہریوں کی بڑی تعداد، مذہبی راہنماؤں یہاں تک کہ جو شخص ذرا سا بھی پڑھا لکھا تھا انہیں حراست میں لے کر کیمپوں میں قید کردیا جہاں بعدازاں انہیں بڑے پیمانے پر پھانسیوں پر چڑھا دیا گیا۔اندازہ ہے کہ اس کے دور میں بیس لاکھ لوگ بھوک، پھانسیوں اور ناقص صحت کی وجہ سے ہونے والے امراض کے باعث موت کا شکار ہوگئے۔
یہ آپ کو یہ بھی نہیں بتائیں گے کہ سوشلسٹ ملحد سٹالن کے ظالمانہ اور آمرانہ دور حکومت میں تقریباً بیس ملین لوگ مارے گئے۔ کمیونسٹ نظریے کو ماننے والے حکمران کے طور پر اس نے اپنی حکومت کے دوران ملک کے بڑے رقبے کو اپنے کنٹرول میں لے لیا۔ لاکھوں کسانوں نے اپنی زمین حکومت کو دینے سے انکار کیا تو اسی وجہ سے انہیں اپنی جانوں سے ہاتھ دھونے پڑے۔ اس تمام عرصے میں اسی کشمکش کے باعث روس قحط کا شکار ہوگیا جس کے نتیجے میں کئی لاکھ اور لوگ بھی موت کی وادیوں میں اترگئے۔ اپنے مطلق العنان دور حکومت میں اسٹالن نے اپنی خفیہ پولیس کو بے انتہا اختیارات دیتے ہوئے ایک وسیع ادارے میں بتدیل کردیا۔ وہ شہریوں کی حوصلہ افزائی کرتا تھا کہ وہ ایک دوسرے کی جاسوسی کریں اور حکومت کو رپورٹ کریں۔ ان جاسوسی اطلاعات کی وجہ سے بھی لاکھوں لوگوں کو یا تو ’’گلاگ‘‘ (دلائی کیمپوں) میں بھیج دیا گیا اور یا پھر انہیں قتل کردیا گیا کیونکہ ان کی وفاداریاں مشکوک قرار پائی گئیں تھیں۔ شہرت پانے والے حکمران
کیا آپ کو اس فہرست میں کوئی مسلمان نظر آیا؟ نہیں ۔ جان لیجئے کہ اسلام کے عظیم فاتحین حضرت خالد بن ولید رضی اللٰہ تعالٰی عنہ، محمد بن قاسم، موسٰی بن نصیر، طارق بن زیاد، عقبہ بن نافع، محمود غزنوی، بابر، جہانگیر، اورنگزیب کے خلاف لبرل سیکولر طبقے اور جاہل اخباری اور ٹی وی دانشوروں اور ملحدین کے پروپیگنڈے محض تعصب، منافقت اور دوغلے پن پہ مبنی ہیں جس میں وہ تاریخ کے حقیقی انسانی غیر مسلم قاتلوں کے قتل چھپا کر مسلم فاتحین کو صرف بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
⇓ مزید پڑھنے کیلئے یہاں کک کریں
Leave a Comment