پچھتاوا – khoofnaak kahani in urdu

پچھتاوا مہوش  کتاب
Written by kahaniinurdu

مہوش   کتاب میں آنکھیں گڑائے پڑھنے میں اتنی مصروف تھی۔ کے اسے اندازہ تک نہیں ہوا لائبریری خالی کرنے کا وقت کب کا ختم ہو چکا تھا ۔وہ کافی دنوں سے اپنا اک پراسرار ناول ختم کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ لیکن اسکا مزہ بڑھتا ہی جا رہا تھا پتا نہیں اس پراسرار ناول میں ایسی کیا بات تھی کے مہوش لاکھ کوششوں کے باوجود آج وہاں سے نہیں اٹھ پائی۔۔۔۔


مہوش  نے صرف اک بار نظر اٹھا کر دیکھا تھا کچھ لوگ وہاں کتابیں پڑھنے میں مصروف تھے۔ اسکے بعد کتنا وقت گزر کیا اسے نہیں پتا جب ناول ختم ہوا اور اسنے اپنے چاروں طرف دیکھا۔ تو وہاں صرف اور صرف گہرا سناٹا چھایا تھا مہوش نے گھڑی میں وقت دیکھا تو اسکے پیروں تلے زمین نکل گئی۔ گھڑی آٹھ بجے کا وقت دکھا رہی تھی جب کے لائیبریری ٹھیک سات بجے بند ہو جاتی ہے۔۔۔۔


مہوش  نے جلدی سے اپنا بیگ اٹھایا اور دروازے کی طرف بڑھی ۔باہر جا کر اسے اندازہ ہوا کے مین دروازہ مقفل تھا لائبریری بند ہو چکی تھی ۔لیکن سر نے مجھے بتایا تک نہیں یہ کیسے کو سکتا ہے کے وہ مجھے اکیلے یہاں بند کر کے چلے گئے۔۔۔۔۔۔


مہوش روتے ہوئے اپنا بیگ ٹٹولنے لگی لیکن موبائل تو میں گھر چھوڑ آئی تھی ۔

اسکے کپکپاتے ہاتھ ٹھنڈے پڑھنے لگے خوف سے اسکا کھڑا رہنا مشکل ہو گیا اسنے پھر بھی امید نہیں چھوڑی۔ اور پوری طاقت سے دروازہ بجانا شروع کردیا کے شاید کوئی سن لے گا ۔لیکن رات کے آٹھ مجھے کوئی لائبریری کے آس پاس نہیں بھٹکتا تو کھولے گا کیسے۔۔۔ چیخ چیخ کر مہوش کی آواز بیٹھ گئی اسکے ہاتھوں میں بھی درد ہو گیا کب سے وہ دروازہ بجا رہی تھی ۔۔۔۔


اسنے ڈرتےہوئے اک نظر چاروں طرف دوڑائی جہاں کالا گہرا اندھیرا اور سکوت چھایا تھا۔ ہر طرف ہو کا عالم تھا اسنے جلدی سے اسی کمرے کی طرف قدم بڑھا دئیے۔ کے شاید وہاں مجھے ٹارچ مل جائے اندر جانے پر خوش قسمتی سے اسے اک عدد ٹارچ مل ہی گئی ۔مہوش نے کمرے کا دروازہ اندر سے بند کیا اور کرسی پر سکڑ کر بیٹھ گئی۔۔۔ ہر طرف چھائی خاموشی اسکے ڈر کو مزید بڑھا رہی تھی۔

دماغ میں چلتے عجیب و غریب قسم کے وہم نے اسکا برا حال کردیا ۔وہ بیٹھے بیٹھے خوف سے کپکپاتی پسینے سے بھگتی جا رہی تھی۔ اسکا دل اتنی تیزی سے دھڑک رہا تھا کے لگتا تھا ابھی سینہ پھاڑ کر باہر آ جائے گا۔۔۔۔ مہوش اپنی ماں کو یاد کرتے ہوئے سسک رہی تھی ۔جو آج اسے جانے سے منع کرتی تھک گئی لیکن مہوش اپنی ضد پر یہاں موجود تھی۔۔۔۔

پاپا کتنے پریشان ہونگے سب ڈھونڈ رہے ہونگے مجھے ممی کا کیا حال ہوگا۔۔۔۔ یہ سوچ اسکے وجود کو چیر رہی تھی آخر میں نے کیوں نہیں مانی ممی کے بات۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟؟

اک عجیب سی آواز نے مہوش کو سوچو سے اس گہرے سناٹے میں لا کر پٹخ دیا۔۔۔۔

آواز ایسی تھی جیسے کوئی آہستہ آہستہ پیٹ کے بل سرکتا ہوا فرش پر گھسڑ رہا ہو۔۔مہوش اپنی کرسی سے اٹھی شاید کوئی اسے ڈھونڈتا ہوا آیا ہو۔ لیکن وہ احساس اسکے رونگٹے کھڑے کر رہا تھا کے کوئی گھسڑتے ہوئے کیوں آئے گا۔۔۔۔


اسی سوچ کے ساتھ مہوش آہستہ آہستہ قدم بٹھاتی دروازے پر لگی چھوٹی سے چابی لگانے کی جگہ پر۔ اپنی آنکھیں ٹکائے باہر کا منظر دیکھنے کی کوشش کرنے لگی لیکن باہر گھپ اندھیرا تھا۔ اسے کچھ دکھا نہیں وہ خاموشی سے باہر دیکھ رہی تھی تب اسے فرش سے زرا سا اوپر دو زرد رنگ کی چمکتی لائٹ دکھائی دی ۔جو شاید ایسی تھی جیسے دو جگنو۔۔۔۔

وہ ساکت اک جگہ ٹکی تھی لیکن کچھ دیر بعد مہوش کو محسوس ہوا ۔

کوئی پھر سے گھسڑ رہا ہے اور وہ لائٹ بھی آگے آتی محسوس ہوئی۔۔۔ مسلسل اندھیرے میں دیکھنے کی وجہ سے مہوش کو اب دھندلا سا دکھائی دینے لگا۔ جب اسے غور کیا تو کوئی انسان نما چیز فرش ہر سرکتی آگے بڑھ رہی تھی۔ اور وہ کوئی لائٹ نہیں بلکے اسکی دو چمکتی ہوئی آنکھیں تھی ۔۔۔۔۔۔


مہوش نے دونوں ہاتھوں کو مظبوطی سے اپنے منہ پر رکھ لیا۔ ورنہ اسکی چیخ سے وہ چیز اسکی طرف متوجہ ہو جاتی۔ مہوش کی آنکھیں یہ دیکھ کر خوف سے پھیلتی چلی گئی وہ گھبراہٹ میں دیوار سے ٹک کر بیٹھ گئی ۔۔۔۔وہ مخلوق اب قریب آ چکی تھی اسنے گہری گہری سانسیں اندر کھینچنی شروع کی جیسے کسی کی بو سونگھ رہی ہو۔۔۔۔ مہوش کو اسکی غراہٹ صاف سنائی دے رہی تھی ۔۔۔۔


اس مخلوق نے دروازہ کو دھکا دیا زور سے شاید وہ مہوش کی بو سونگھ چکی تھی۔

وہ بار بار دروازے کو ہاتھوں سے اندر کی طرف ڈھکیل رہی تھی۔۔۔۔
مہوش بے اختیار اٹھ کر کرسی کی طرف بھاگی اس مخلوق کو قدموں کی آواز محسوس ہوئی۔ تو اسنے دروازے کو جھنجھوڑنا شروع کر دیا اسی کے ساتھ اسکی غراہٹ بھی تیز ہوتی گئی۔ وہ وحشیانہ انداز میں دروازے کو۔پیٹ رہی تھی اسے پتا چل گیا اندر کوئی وجود موجود ہے۔۔۔۔


مہوش ڈر کے کتابوں کی سائڈ والی خالی جگہ چھپ گئی لیکن وہ انتہائی خوفزدہ تھی۔ وہ چیز اب باقاعدہ دروازہ توڑ دینے کے در پر تھی اور وہ کامیاب ہوگئی۔وہ مخلوق تیزی سے کمرے میں مہوش کو ڈھونڈ رہی تھی ۔گھسڑتے ہوئے وہ ادھر سے ادھر غرا رہی تھی جیسے اسے صبر نا ہو اور وہ مہوش تک پہنچ جائے۔۔۔۔۔


مہوش سر گھٹنوں میں دیئے بے حس و حرکت سکڑ کر بیٹھی تھی ۔اندھیرے میں وہ چیز ڈھونڈ ڈھونڈ کر رک گئی اور اک زوردار چیخ ماری اتنی تیز کے مہوش کا جسم لرزنے لگا اسکی چیخ سے لگتا تھا وہ اپنے شکار کو کھو چکی ہے ۔۔۔۔۔


کافی دیر گزر گئی ہر طرف خاموشی تھی ۔

مہوش نے گھٹنوں می رکھا سر ہلکا سا اٹھایا سامنے کوئی موجود نہیں تھا ۔اس نے سکھ کا سانس لیا اور ہلکے سے اٹھی تبھی اسکے سر پر گیلا سا کچھ ٹپکنے لگا۔۔۔ اسنے ہاتھ لگا کر دیکھا تو چپچپی سی کوئی گیلی چیز تھی اس نے بے اختیار اوپر دیکھا۔ تو دو چمکتی آنکھیں اسے شیلف کے اوپر دکھائی دی جو اسے ہی گھور رہی تھی۔۔۔۔ اسکی آنکھوں کی روشنی میں اسکا چہرہ مہوش کو نظر آیا چہرہ کیا تھا گوشت کا لوتھڑا لٹکا تھا جس سے خون ٹپک ٹپک کر اب مہوش کے سر کو بھگو رہا تھا۔۔۔۔۔


مہوش کو اپنے پیر محسوس ہی نا ہوئے وہ بھاگ نا سکی اس مخلوق نے مہوش کے اوپر چھلانگ لگائی۔

وہ مخلوق اسے بالوں سے پکڑ کر گھسیتٹی ہوئی کمرے سے باہر لے گئی اسکے ناخن مہوش کے سر میں گڑے ہوئے تھے ۔اور مہوش کی چیخوں سے سارا کمرہ گونج رہا تھا وہ مخلوق اسے کمرے سے باہر کے جاکر بری طرح زمین پر پٹخ رہی تھی۔ اسکا جسم خون سے تر تھا لیکن وہ مخلوق اسے اٹھا اٹھا کر دیوار پر بری طرح مار رہی تھی۔ مہوش کا سر ٹکڑوں میں بٹ گیا دیوار اور فرش پر خون ہی خون تھا دور دور تک خون کے چھینٹیں پھیلے تھے ۔مہوش مر چکی تھی وہ مخلوق اسکا جسم بھنبھوڑ کر کھاتی غرا رہی تھی ۔۔۔۔

پچھتاوا

پوری رات موت کا راج رہا اور پھر صبح کے گیارہ بجے وہاں پولیس کی بھاری نفری موجود تھی۔ سب اس منظر سے خوفزدہ تھے کچھ لوگ باہر الٹیاں کرتے دکھائی دئیے مہوش کے بیگ سے پتا چلا تھا کے یہ لوتھڑے اس کے ہیں۔ اسکی ماں بیہوش تھی جسے اب ہسپتال منتقل کیا جا رہا تھا باپ کی حالت بھی غیر تھی ۔باہر اینکرز اور نیوز رپورٹ کرنے والوں کا ہجوم تھا۔ ہر طرف چےماگوئیاں ہو رہی تھی کسی کو اجازت نہیں تھی وہ اندر جا سکے۔۔۔

 

وہاں پر کوئی ثبوت نہیں لائبریری کو لاک لگا دیا گیا جو تصویریں کھینچی گئی تھی۔

وہ بلکل بلر تھی ہر تصویر میں بس اندھیرا دکھائی دے رہا تھا سارے فوٹوگرافر سر جوڑے حیرت میں مبتلا تھے ۔جس نے تصویریں کی تھی وہ نیم پاگل ہو گیا پتہ نہیں اسنے تصویروں میں کیا دیکھ لیا تھا ساری تصویریں تو کالی تھی۔۔۔
یہ گھتتی سلجھ ہی نا سکی اور کیس بند ہو گیا جو جو اس کیس میں کسی بھی طریقے سے شامل تھا۔ اسنے یا تو نقصان اٹھایا یا پاگل ہو گیا کچھ لوگوں کی ایکسیڈینٹ میں موت ہو گئی اور کسی نے خودکشی کرلی ۔۔۔۔ سب کی بہتری کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کیس کو مکمل طور پر بند کردیا گیا۔۔۔۔۔

 

دو مہینوں کے بعد وہاں سے گزرتے ہوئے کچھ لوگوں کے سامنے اک کتاب آ کر گری۔ جس میں مہوش کی پوری کہانی لکھی تھی کے کیسے وہ وہاں پھنس گئی کیسے اسنے خوف کو محسوس کیا وہ کیسے مری سب لکھا ہوا تھا۔ جو لوگ وہاں سے گزرتے وہ کتاب سامنے آکر گرتی جیسے ہی وہ مہوش کی کہانی پڑھ لیتے کتاب غائب ہو جاتی اور صبح ان لوگوں کی بلکل مہوش کی طرح موت ہوتی۔۔۔۔۔

 

یہ لائبریری اور مہوش کی موت وبالے جان بن گئی تھی۔ اس بار کسی روحانی علم والے سے رابطہ کیا تو ان کے کہنے پر لائبریری کے آس پاس کی جگہ بڑا سا گھڑا کھود کو وہاں جھاڑیاں ڈال دی گئی تا کے لوگ کسی صورت وہاں سے گزر نا سکے ۔۔۔۔۔۔

ختم شد۔۔۔۔

پچھتاوا

میری اجازت کے بغیر کاپی پیسٹ کرنا سختی سے منع ہے۔۔۔  

✭ نوٹ :- عمدہ قسم کے سبق آموز واقعات وحکایات کیلئے آج ہی ہمارا ٹیلی گرام چینل جوائن کریں۔

 نوٹ :- ایسے ہی دل کو موہ لینے والے اور دل کو چھو لینے والے واقعات و حکایات پڑھنے کے لئے روز ویب سائٹ کا وزٹ کریں۔ اور اپنے دوست و احباب اور متعلقین کو بھی شیئر کریں تاکہ آپ کے ذریعے ان کا بھی فائدہ ہو ۔

Leave a Comment