7پُرانی حویلی کی محبت
میری چیخ نکلنے کو تھی میں نے جلدی سے منہ پر ہاتھ رکھ لیا پیچھے مُڑا تو ایک سونم باہر سفید لہنگے میں موجود تھی۔
میرا سر چکرا سا گیا تھا ۔ وہ مسلسل بولے جا رہی تھی میں آہستہ آہستہ دور ہٹ رہا تھا اس سے۔
میری کافی دیر کی خاموشی سے وہ ایک دم پیچھے مُڑی تو میں پھٹی نگاہوں سے اسے دیکھ رہا تھا۔
احمد۔-احمد۔ وہ میرا نام لیتے ہوئے میرے قریب آرہی تھی۔
یہیں رُک جاؤ میرے پاس مت آنا۔. میں نے پیچھے ہٹتے ہوئے کہا تو وہ وہیں رُک گئ۔
کون ہو تم۔.؟ میں نے کانپتی آواز سے اس سے پوچھا۔
احمد میں تمہاری سونم ہوں۔– کیا ہوگیا ہے تمہیں۔؟
تم سونم نہیں ہو سونم کی لاش اندر لٹک رہی ہے۔ یہ بولتے ہوئے ہی میری آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے۔
تم نے سونم کو مار ڈالا کون ہو تم میں میں بہت زور سے چیخا تھا اس بار میری آواز سے پوری حویلی گونج اٹھی۔
احمد میری بات سنووہ میرے اور قریب آنے کو تھی میں نے ہاتھ کے اشارے سے اسے وہیں روک دیا۔
ہاں مار دیا سونم کو میں نے۔– اسکے چہرے پر غصہ دکھائ دے رہا تھا۔
اسکے ان الفاظوں نے میری جان ہی نکال دی میں نے زمین پر گٹنے ٹیک دیے اور آپنا سر جکا کر زور سے رونے لگا۔
کیوں مارا تم نے سونم کو اس نے تمہارا کیا بگاڑا تھا۔؟ میں نے روتے ہوئے اس سے پوچھا۔
احمد جب تمہیں پہلی بار میں نے اس راستے پر دیکھا مجھے تم سے محبت ہوگئ۔
7پُرانی حویلی کی محبت
میں یونہی ٹہل رہی تھی دوپہر کو اور میں نے تمہیں جاتا دیکھا تو مجھے تم بہت پسند آئے۔
وہ بہت سنجیدگی سے بول رہی تھی اور میرے آنسو آنکھوں سے بہے جا رہے تھے۔
پھر ایک روز میں نے تمہارے راستے میں گلاب کا پھول رکھا۔
تم جب اسے اٹھانے لگے تو میں خود کو روک نا پائ اور تمہارے کندے پر ہاتھ رکھا پر تب تم ڈر گئے تھے۔
پھر تم تھکے ہوئے بھی تھے اور اس درخت کے نیچے بیٹھ گئے تب مجھے اور محبت ہونے لگی تم سے۔
جب تم سو چکے تھے میں نا تمہارا سر آپنی گود میں لیا اور پیار کرنے لگی۔
میں نے تمہاری راہوں میں اتنے پھول بچھائے احمد اتنی محبت دی تمہیں۔ اور تم سے محبت اتنی ہوگئ کے میری محبت کے چرچے ہر جگہ ہونے لگے۔
یہ بات جب بہت پھیل گئ تو مجھے جنات کے دنیا سے نکال دیا گیا۔
میں اس رات تم سے ملنے تمہارے گھر آئ تو تم سو رہے تھے۔ میں نے نا چاہتے ہوئے بھی تمہیں اٹھایا تو تم ڈر گئے تھے۔
پھر وہ بولتے بولتے خاموش ہو گئ میں پھٹی نگاہوں سے اسے دیکھ رہا تھا۔.
تم نے سونم کو کیوں مارا ۔.؟ میں نے چیخ کر کہا۔
وہ میری محبت کے درمیان آگئ تھی جو میں بلکل برداشت نہیں کرسکتی تھی۔
تم دونو جب یہاں بیٹھ کر بات کرتے تھے میرے سینے پر خنجر چلتے تھے
میں یہ سب برداشت نہیں کر سکتی تھی میں نے تمہارا روپ لیا اور اسے مار ڈالا۔
تم کون ہو اصلی روپ ہے کیا تمہارا.. ؟ میں نے اسکی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
احمد میں اصلی روپ میں آئ تو تم ڈر جاؤگے۔
جب تمہیں پتا بھی تھا کے میں تم سے ڈر جاؤنگا تم نے پھر بھی میری سونم کو مار ڈالا۔
میری آنکھوں میں پھر سے آنسو آنے لگے میں آپنے ہاتھ زمین پر مار رہا تھا کوئ کانچ کا ٹکڑا میرے ہاتھ میں لگنے سے خون بہنے لگا۔
خون دیکھتے ہی وہ ایک دم لپکی میری طرف احمد۔
وہیں رُک جاؤ پاس آنے کی ضرورت نہیں میں نے زمین سے اٹھتے ہوئے کہا اور الٹے پاؤں حویلی سے باہر جانے لگا۔
میں تم سے بدلہ ضرور لونگا تم نے میری زندگی برباد کی ہے اتنا کہتے ہوئے میں حویلی سے باہر نکل آیا۔
میرے ہاتھ سے خون مسلسل جاری تھا اور میں رو رہا تھا سارا راستہ روتے روتے کٹ گیا۔
گھر پہنچتے ہی امی نے ہاتھ سے خون بہتا ہوا دیکھا تو ایک دم میری طرف بھاگی۔
احمد یہ کیسے ہوا ۔؟ میری سُرخ آنکھیں بتا رہیں تھی میں بہت رویا ہوں۔
کچھ نی چوٹ لگی بس۔
میں ہاتھ پر پٹی باندتے ہی آپنے کمرے میں جا کر پھر سے رونے لگا۔
میرا سب کچھ چھین گیا مجھے سونم سے بہت محبت ہوگئ تھی اس ظالم نے اسے بھی مار ڈالا۔
رو رو کر تھک چکا تھا میرے اندر بدلے کی آگ جل رہی تھی میں نے اس سے بدلا لینے کا فیصلا کیا۔
اگلے ہی روز میں کالج بجائے ایک کُتب خانے پر جا پہنچا وہاں پر جنات کی بہت ساری کتابیں پڑی تھیں۔
ہر کتاب میں ایک الگ سا طریقہ موجود تھا میں ساری کتابیں پڑھ رہا تھا پھر ایک کتاب مجھے ملی جس میں اس سے بدلا لینے کا بہت اچھا طریقہ موجود تھا۔
میں نے وہ کتاب خرید کر بیگ میں ڈالی اور گھر کی جانب چل پڑا۔
گھر پہنچتے ہی میں نے وہ کتاب چھپا دی اور رات ہونے کا انتظار کرنے لگا۔
رات کا کھانا کھا کر میں نے آپنے کمرے کو اچھی طرح سے بند کر لیا اور کتاب نکال کر اسے پڑھنے لگا اور سارا. طریقہ بہت اچھے سے سیکھ لیا۔.
اب وقت تھا اس سے بلا لینے کا میں فُل تیاری کے ساتھ گھر سے کالج کے لیے نکل پڑا۔.
اب میں پُرانی حویلی کے اسی راستے پر کھڑا ہوں۔.
اتنا کہتے ہی بابا جی نے پُرانی بوسیدہ سی ڈائیری بند کردی۔.
میں جو یہ کہانی سُن رہا تھا ایک دم چونکا بابا جی آگے بھی سناؤ نا احمد نے پھر کیا کیا۔؟
بابا جی کافی دیر خاموش رہے پھر بولے احمد جیسے ہی حویلی میں داخل ہوا وہ سونم کے روپ میں ہی بیٹھی تھی احمد کو دیکھتے ہی ایک دم کھڑی ہوگئ احمد مجھے پتا تھا تم آؤ گے احمد نے اسے غصے دیکھتے ہوئے کلمات پڑھنے شروع کردیے جو رات بھر اس نے یاد کیے تھے۔ احمد کے کلمات پڑھتے ہی اسکے جسم میں آگ لگ گئ اور وہ ایک بہت خوفناک شکل اختیار کر گئ۔
احمد مجھے معاف کردو احمد مجھے معاف کردو۔
وہ مسلسل چیخ چیخ کر احمد سے معافی مانگ رہی تھی اسکا پورہ جسم آگ کی لپیٹ میں تھا ۔- اسکی چیخوں سے پوری ہویلی کانپ رہی تھی۔
کچھ دیر بعد وہ جل کر راکھ ہوگئ اسکے جلنے کی بدبو پوری حویلی میں پھیل گئ۔
اسکے جلنے سے احمد بھی چیخ چیخ کر رونے لگا اور اندر کی طرف بھاگا جہاں سونم کی لاش لاٹک رہی تھی۔
احمد سونم کے پاؤں سے لپٹ کر رو رہا تھا زور زور سے ایک دم جھٹکا کھا کر زمین پر گِر گیا اور پُرانی حویلی میں ہی احمد کی جان نکل گئ۔
ختم شد
7پُرانی حویلی کی محبت
Leave a Comment