پرانی حویلی کی محبت6
اسکا جسم فُل سیاہ تھا میں نے دیکھتے ہی چیخ ماری اور پیچھے جا گِرا۔۔
احمد میری بات سنو۔ اسکے جبڑے ہلنے لگے اور گلے سے خر خراتی ہوئ آواز نکلی۔۔
احمد تم آگر اب سونم سے ملے تو انجام اچھا نہیں ہوگا اتنا کہتے ہی وہ شخص ایک دم غائب ہوگیا۔۔
میں پھٹی نگاہوں سے ابھی بھی اسی جگہ دیکھ رہا تھا۔ میری کمر پر چوٹ لگی تھی جو بہت درد کر رہی تھی میں آہستہ آہستہ کمرے میں پہنچا۔ سب لوگ سو رہے تھے یوں لگ رہا تھا کسی کو میری چیخ سنائ نہیں دی تھی۔۔
میں بستر پر لیٹتے ہی سونم کے بارے میں سوچنے لگا۔ سونم سے مجھے بہت محبت ہوگئ تھی۔۔
پر۔۔پر سونم کا اس سب سے تعلق کیا ہے۔۔؟
اور یہ کون ہے جو میرے پیچھے پڑا ہوا ہے کوئ راز ابھی تک کھُل کر میرے سامنے نہیں آیا تھا میں حیران تھا اس سب سے۔ اس شخص کی شکل میری آنکھوں کے سامنے بار بار آرہی تھی میں سو ہی نہیں پا رہا تھا۔۔
میں نے فیصلہ کیا کے میں اب سونم کو ساری بات بتا دونگا جو جو ہادثہ پیش آیا سب سونم کے سامنے کُھل کر بیان کردونگا۔۔
اگلے روز میں کالج کی طرف روانہ ہوا اور اور پُرانی حویلی کے راستے پر رُک کر سونم کا انتظار کرنے لگا۔۔
مجھے یہاں انتظار کرتے دو گھنٹے گُزر چکے تھے پر سونم نہیں آئ تھی میں دن بھر انتظار کر کے واپس لوٹ گیا ہمت اتنی نا ہوئ کے میں پُرانی حویلی میں چلا جاؤں میں باہر اسی راستے پر کھڑا انتظار کرتا رہا۔۔
مایوس ہو کر واپس لوٹ رہا تھا مجھے مجھے آواز آئ احمد میں نے پیچھے مُڑ کر دیکھا تو کوئ نا تھا یہ آواز سونم کی تھی۔۔
مجھے نا نظر آنے پر میں زور زور سے چلانے لگا۔۔
پرانی حویلی کی محبت6
سونم۔۔سونم
پر میری پکار پر مجھے کوئ جواب نا مِلا وقت کافی ہو رہا تھا میں گھر لوٹنے لگا۔۔۔
میری راتوں کی نیند اور دن کا چین برباد ہو چکا تھا دس دن ہو چکے تھے میں سونم سے مِلا تک نہیں تھا۔۔
اسکا یوں اچانک غائب ہو جانا میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔۔
میں ہر روز اسکا انتظار کرتا پر وہ نا آتی ہر روز مایوس ہو کر لوٹ جاتا میں۔۔
آج پندرہ دن ہو گئے تھے میں اسی کے انتظار میں بیٹھا تھا اچانک پُرانی حویلی میں سے ایک لڑکی بھاگتی ہوئ نکلی جو میری طرف تیزی سے بڑھ رہی تھی اس نے سفید کلر کا لہنگا پہنا ہوا تھا۔۔۔
جب وہ تھوڑی قریب آئ تھی سونم میں اسے دیکھتے ہی اسکی طرف بھاگنے لگا۔ بھاگ کر میں نے بیتابی سے اسے گلے لگا لیا۔۔
سونم کہاں چلی گئ تھی یار تم۔۔۔؟
میں گلے لگا کر رونے لگا۔۔
سوری احمد میرے آبو بیمار تھے۔اس نے آنسو صاف کرتے ہوئے بولا۔۔۔
بتا کر بھی تو جا سکتی تھی پتا بھی ہے کتنی ٹنشن میں تھا۔۔۔
میں سونم کو ڈانٹ رہا تھا تو وہ ہلکی سی مسکرا کر مجھے چُپ کروانے لگی۔۔
مجھے سونم کی آنکھوں میں کشش نہیں نظر آرہی تھی مجھے پتا نہیں کیوں وہ بدلی بدلی سی لگ رہی تھی۔۔
احمد آؤ حویلی میں چلتے ہیں۔سونم نے میرا ہاتھ پکڑ کر حویلی کی طرف اشارہ کیا۔۔
ہاں چلو میں نے تم سے بہت ضروری بات کرنی ہے۔۔
احمد کیا بات کرنی ہے۔۔۔ ؟ سونم نے حیرانگی سے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔
پہلے ریلیکس ہو کر بیٹھتے ہیں پھر بات کرتے ہیں ۔۔۔
وہ مجھے مسلسل بدلی بدلی لگ رہی تھی یا وہ آپنے آبو کی ٹنشن سے نا رہی تھی پُرکشش یا میری آنکھوں میں کچھ تھا۔۔ اسکا لہجہ بھی بہت بدلا بدلا سا تھا۔۔
سونم آبو اب ٹھیک ہیں تمہارے۔۔؟
ہاں ٹھیک ہے۔۔ مجھے گھورتے ہوئے اس نے کہا۔۔۔
ہم حویلی کے اندر داخل ہوئے اور اسی ٹیبل پر بیٹھ گئے۔۔
حویلی کے کمرے کا دروازہ بھی آج کھُلا تھا جو پہلے کبھی نہیں کُھلا تھا۔۔۔
حویلی کے اندر سے مسلسل کچھ آوازیں آرہی تھی۔ عجیب بیچانی میں تھا دل کو سکون سا نہیں آرہا تھا سونم سے بھی وہ سکون نہیں مل رہا تھا جو مجھے پہلے ملتا تھا۔۔
سونم مجھے پتا نہیں کیوں لگ رہا تم بہت بدل گئ ہو۔ میرے منہ سے یہ الفاظ نکلنے کی دیر تھی کے وہ ایک دم کھڑی ہوگئ۔ اسکے چہرے کا رنگ سرخ ہوگیا۔۔
کیا مطلب احمد۔۔۔۔؟
کچھ نہیں یار مزاق کررہا تھا۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا تو وہ تھوڑی نارمل ہوگئ۔۔
اندر سے آنے والی ہلکی ہلکی آوازیں مجھے عجیب بیچین کررہی تھی۔۔
میں ٹیبل سے اٹھ کھڑا ہوا اور سونم سے باتیں کرتے ہوئے اندر کی طرف جانے لگا۔۔
سونم کی کمر میری طرف تھی تو میں باتیں کرتے کرتے جیسے ہی اندر داخل ہوا تو میرا جسم کانپ کر رہ گیا۔۔
اندر زنجیروں سے میں جکڑی ہوئ سونم کی لاش جو چھت سے لٹکی ہوئ ہوا میں جھول رہی تھی۔پورے کمرے میں انسانی جسموں کے ڈھانچے بکھرے پڑے تھے۔۔
سونم کی آنکھیں فُل باہر کو نِکلی ہوئ تھی اور زبان بھی منہ سے باہر لٹک رہی تھی۔ اسکا پورہ جسم ایسے تھا جیسے بہت نوچا گیا ہو لٹکتی ہوئ لاش سے خون نیچے زمین پر ٹپک تھا ہوا سے لاش جھومتی تو زنجیروں کی آواز آرہی تھی۔۔۔
میری چیخ نکلنے کو تھی میں نے جلدی سے منہ پر ہاتھ رکھ لیا پیچھے مُڑا تو ایک سونم باہر سفید لہنگے میں موجود تھی۔۔۔
جاری ہے
پرانی حویلی کی محبت6
Leave a Comment