5پُرانی حویلی کی محبت
5پُرانی حویلی کی محبت
میرا نام سونم ہے۔ ڈراپ کرنے کے لیے تھینکس اور مسکرا کر پُرانی حویلی کی جانب چل پڑی
میں مسلسل اسے ہی دیکھتا رہا وہ چلتے ہوئے جا رہی جیسے ہی حویلی کے قریب پہنچی پیچھے مُڑ کر دیکھنے لگی۔۔ مجھے دیکھتے ہی ہاتھ ہلانے لگی اور اشارہ کر رہی کر رہی تھی کے جاؤ بھی۔
میں نے ہلکا سا ہاتھ ہلایا اور آہستہ آہستہ گھر کی جانب بڑھنے لگا۔
سونم کو اتنا قریب سے دیکھنا اور اس سے بات بھی کرنا سب بہت اچھا لگا تھا پر وہ مجھے اور بے چین کر گئ تھی میں سارے راستے آہستہ اسی کو سوچتے ہوئے گھر کی جانب بڑھ رہا تھا۔
لو احمد بھی آگیا گھر میں داخل ہوتے ہی امی نے مجھے دیکھتے ہوئے کہا۔
میں سلام کرتے ہی انکے پاس بیٹھ گیا امی فریج سے ایک پلیٹ لے کر آئ جسکے اوپر کیچپ کے ساتھ میرا نام لکھا ہوا تھا۔
امی یہ کیا ہے ….؟ یہ فروٹ چاٹ ہے تمہارے لیے بنایا ہے۔
واہ امی کیا بات ہے ۔ میں نے مسکراتے ہوئے پلیٹ پکڑی اور کھانے میں مصروف ہوگیا۔
احمد تمہارے لیے ابھی ایک اور سرپرائزہے۔۔ امی نے نا بتانے والے انداز میں کہا میں نے کہا تو میں نے پلیٹ سائیڈ پر رکھی اور کہا بتائیں پہلے کیا ہے۔
5پُرانی حویلی کی محبت
کچھ دیر بعد وہ کمرے سے میرا خواب یعنی میرا کیمرہ لے کر آئ کیمرہ دیکھتے ہی خوشی کے مارے پھولا نا سما رہا تھا بار بار کیمرے کو دیکھ رہا تھا۔
رات کے گیارہ بج رہے تھے نیند میرے آس پاس بھی نہیں تھی میں مسلسل سونم کے بارے میں سوچ رہا تھا مجھے اس سے محبت ہوگئ تھی. وہ تھی ہی اتنی حسین کے کوئ بھی دیکھتا اور پاگل ہوجاتا۔ اور مجھے اسکی آنکھوں نے دیوانہ کر دیا تھا۔-سونم کو سوچتے سوچتے ہی میں سوگیا۔
رات کا آخری پہر تھا ہر طرف سناٹا تھا زرہ سی آہٹ سے بھی بہت آواز ہوتی تھی … ایک دم میرے کمرے کے دونو دروازے کُھل گئے۔دروازے کُھلتے ہی سامنے ایک لمبا قد آور انسان کھڑا تھا ۔جسکا فُل جسم آگ میں جُھلس گیا تھا اسکے ہونٹ جل کر سفید دانت باہر کو نکلے ہوئے تھے۔ اسکا ناک فُل پچکا ہوا اور آنکھوں کی جگا بلیک ہول بنے ہوئے تھے ۔
اسکے جسم کی خون کی نالیاں جمی ہوئ تھے اسکے جسم پر کوئ کپڑا نا تھا۔- وہ آہستہ آہستہ چلتے ہوئے میرے قریب آرہا تھا۔ اسکے سانس لینے سے گلے کے اندر خراہٹ کی آواز آرہی تھی…. وہ میرا نام عجیب خوفناک آواز سے لے رہا تھا اور چلتے ہوئے پاس آرہا تھا۔
میرے بیڈ کی بائیں جانب وہ آکر رُک گیا۔-احمد میری بات سنو ۔- اسکے اوپر نیچے والے جبڑے ہلنے لگے۔- آؤ پُرانی حویلی میں جانا ہے
پھر اسکا ہاتھ میرے ماتھے کی جانب بڑھنے لگا۔- جیسے ہی اس نے میرے ماتھے پر ہاتھ رکھا میری چیخ نکل گئ اور میں اٹھ بیٹھا۔۔ آپنے آس پاس نظر دوڑائ تو وہاں پر کوئ بھی نہیں تھا۔
ابھی خوف طاری تھا مجھ پر کے مسجد کے سپیکروں سے فجر کی آذان سنائ دی۔
میں بستر سے اٹھا وضو کر کے مسجد میں نماز پڑھنے چلا گیا ۔۔ مسجد سے واپس آتے ہی ناشتہ کیا اور کالج روانہ ہوگیا
آج میں کالج پہلے کی نسبت جلدی جا رہا تھا۔- چلتے چلتے میں پُرانی حویلی کے راستے پر آکر رُک گیا…. کچھ دیر رُکا ہونگا سامنے سے مجھے سونم آتے دکھائ دی میں نے آپنا دیہان سامنے کی طرف کر لیا۔
وہ جیسے ہی قریب آئ مسکراتے ہوئے بنا کچھ بولے سائکل پر بیٹھی گئ۔
احمد آج بہت جلدی نی آگئے تم….؟
اسکے اس سوال پر میں کچھ دیر خاموش رہا۔
ہاں۔۔وہ میں۔- ویسے ہی اسی وقت آتا ہوں۔
5پُرانی حویلی کی محبت
میرے پاس کوئ بھی جواب نہیں تھا آبادی کے قریب پہنچتے ہی وہ جیسے ہی اتری میں نے اسے آواز دی۔
سونم………… وہ پیچھے مُڑی تو میں نے اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے واپسی پر بھی اکٹھے ہی چلیں گے۔
سونم نے اوکے میں سر ہلایا اور چل دی۔
واپسی پر وہ مجھ سے پہلے ہی راستے میں کھڑی تھی میں سائکل اسکے آگے روکی تو وہ بیٹھ گئ۔
سونم میں نے جب آپکو پہلی بار دیکھا تھا تو میں بہت ڈر گیا تھا۔- سونم کو میں نے آپنے دل کی بات تھی جس بات کا خوف تھا
کیوں احمد مجھ سے ڈر کیسا۔
سونم آپ وہ پُرانی حویلی میں جب گئ تو مجھے اس حویلی سے ڈر لگتا ہے…. اور اس حویلی کو لے کر میرے زہن میں خیال اچھے نہیں ہیں…. میں نے یہ بات مکمل کرتے ہی سونم سے ایک سوال پوچھ لیا۔
کیا آپ اس حویلی میں رہتی ہو…؟
نہیں احمد پاگل ہو میں وہاں کیوں رہونگی… وہ چونک کر بولی ۔
سونم میں نے آپکو وہاں جاتے دیکھا میں اس لیے پوچھ لیا۔
نہیں میں اس سے گُزر کر آگے جاتی ہوں… آگے گاؤں ہیں ہمارا۔
میں حیران ہو کر سونم دیکھنے لگا اور اسکی مسکراہٹ قہقوں میں بدل گئ۔
سونم آپ جھوٹ بول رہی ہو۔
ہاہاہاہا میں جھوٹ کیوں بولونگی احمد تم اتنے ڈرپوک ہو مجھے پتا نہیں تھا۔
میں شرمندہ تھا اسکی اس بات سے۔- سائکل پُرانی حویلی کے اس راستے پر روکی تو وہ اتر کر میرے سامنے آکر کھڑی ہوگئ۔
احمد تمہیں اس حویلی سے ڈر لگتا ہے…؟ سونم نے سیریس ہو کر پوچھا تو میں سر جکا کر ہاں کہا۔
چلو میرے ساتھ آؤ اس حویلی میں چلتے ہیں۔
س س س سونم مجھے تم بھی انسان نہیں لگتی ہو۔۔
ہاہاہاہا وہ پھر سے ہنسی اور میرا ہاتھ پکڑ کر کہنے لگی چلو میرے ساتھ۔۔ہاتھ پکڑتے ہی کہنے لگی اب تو یقین ہے کے میں انسان ہوں۔
میں بھی مسکرا دیا اور سائکل وہیں کھڑی کر کے اسکے ساتھ چلنے لگا چلتے چلتے بہت کرتی جا رہی تھی اور میرا مزاق بنا رہی تھی۔
سونم بس کردو….. میں نے کہا تو وہ اور مسکرانے لگی اور میں حویلی کے دروازے کے سامنے رُک گیا۔
احمد آؤ اندر کچھ نی ہوتا میں روز یہیں سے گزرتی ہوں۔ مجھے پُرانی حویلی کے سب قصے یاد آنے لگے۔
سونم نے میرا ہاتھ پکڑا اور میں اللہ کا نام لے کر حویلی کے اندر داخل ہو گیا۔
میرے اندر داخل ہونے سے ایک دم حویلی میں طوفان سا آگیا ہو ہر چیز حرکت میں آگئ میرا سر چکرانے لگا تھا۔
حویلی میں موجود درختوں کے پتے زمین پر گِرنے لگے تھے۔ پرندے درختوں سے اڑھنے لگے تھے۔۔ سر چکرانے کی وجہ سے میں زمین پر بیٹھ گیا۔
احمد۔-احمد ۔ کیا ہوا … سونم میرے قریب آئ۔
کچھ نہیں مجھے چکر آگیا تھا اب ٹھیک ہوں۔
احمد تم ڈر رہے ہو…..؟
نہیں میں نہیں ڈر رہا میں نے ہمت لاتے ہوئے کہا۔
پھر'” میں اور سونم ایک درخت کے نیچے ٹوٹے پھوٹے ٹیبل پر بیٹھ گئے…….. بہت باتیں کی سونم سے
سونم مجھے اب چلنا چاہیے کافی وقت ہو گیا ہے میں نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔۔ ہاں احمد مجھے بھی چلنا چاہیے کافی وقت ہوگیا ہے۔
ہم دونو ہی چلتے چلتے حویلی سے باہر نکل آئے۔ سونم تم پھر ساتھ واپس جا رہی ہو…؟
میں تمہیں وہاں تک چھوڑنے جا رہیں تاکہ ڈر نا جاؤ اور پھر وہ ہنس دی۔
اسکی ہنسی دیکھ کر میں بھی مسکرا دیا۔
تھوڑہ آگے آنے کے بعد میں نے اسے واپس جانے کا کہا۔.سونم ہاتھ ملایا اور چل دی۔
اب روز گھنٹوں بات ہوتی تھی میں گھر سے کالج آتا اور سارا وقت سونم کے ساتھ گزار دیتا۔
گھر والے بھی میرے چہرے پر ظاہر ہوتی خوشی سے حیران تھے پر کسی کو بھی یہ بات نہیں پتا تھی میں جو گھر سے کالج جاتا ہوں۔۔ پر کہیں اور عشق فرماتا ہوں۔
یہ سلسلہ چلتے چلتے دو مہینے گُزر چکے تھے روز گھر سے کالج آنا۔ اور سونم کے ساتھ وقت گزارنا اور گھر واپس چلے جانا پڑھائ میں تو دل ہی نہیں لگتا تھا۔
ایک دن سونم کے ساتھ اتنا مگھن ہوا کے وقت کا پتا ہی نا چلا اس سے اس قدر محبت بھری باتیں ہوئ کے مجھے سونم کا نشا ہونے لگا۔۔ میں نے دل تھامتے ہوئے اسے اظہارے محبت کر دیا اور یہ بھی بیان کر دیا کے کتنی محبت ہے۔ سونم ہزاروں مثالیں سنا دی سونم کو
سونم نے بھی مسکراتے ہوئے محبت قبول کی۔- اور پھر قریب آنے لگی۔- بہت قریب آئ ۔- اتنی قریب کے سانسو تک آ گئ
میں اور وہ ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھ رہے تھے۔
احمد تم اس رشتے کو کیا نام دوگے…؟ سونم نے آہستہ سے پوچھا۔
میں اس رشتے کو ایک ہی نام دونگا۔- کہنے لگی کیا…؟
میں سونم کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔
“””””””5پُرانی حویلی کی محبت”””””””
پھر وہ پیچھے ہٹنے لگی اور ایک پتھر لے کے دیوار پر لکھنے لگی “”””””پُرانی حویلی کی محبت”””””””
اسکے لکھتے ہی ایک دم تیز ہوا چلنے لگی۔
شام کی سیاہی آسمان پر پھیلنے لگی۔۔ آج بہت دیر ہو چکی تھی مجھے یہاں گھر والے بہت پریشان تھے میں اتنا لیٹ کبھی گھر نہیں گیا تھا۔
سونم بہت وقت ہو گیا ہے اب مجھے جانا چاہیے۔ سونم نے زبان سے نا کچھ بولتے ہوئے سر ہلایا اور میں وہاں سے چل دیا۔
گھر میں پہنچتے ہی سب کی نظر مجھ پر تھی۔
احمد کہاں تھے تم ….؟ امی نے میرے پاس آتے ہی کہا۔۔میرے لیٹ آنے سے سب ہی پریشان تھے۔
میں بس دوستوں سے کھیلنے لگ گیا تھا اس لیے لیٹ ہو گیا۔- بابا نے بات ہی نہیں کی مجھ سے میں خاموشی سے کمرے میں چلا گیا۔- امی نے وہیں پر کھانا دیا میں کھانا کھاتے ہی سونم کے خیالوں میں مزے سے سو گیا۔
رات کے ایک بجے کا وقت تھا میری آنکھ کُھلی تو دل میں گھبراہٹ سی ہو رہی تھی۔ میں بستر سے اٹھتے ہی سیدھا کچن میں پانی پینے چلا گیا فریج سے پانی کی بوتل نکال رہا تھا ۔مجھے محسوس ہوا جیسے میرے کندے پر کسی نے ہاتھ رکھا میں چونک کر پیچھے دیکھا تو پیچھے قد آور شخص تھا
اسکی آنکھوں کی جگہ سوراخ بنے ہوئے تھے اسکے ہونٹ جلے ہوئے تھے سفید دانت بہت خوفزادہ کررہے تھے
اسکا جسم فُل سیاہ تھا میں نے دیکھتے ہی چیخ ماری اور پیچھے جا گِرا
جاری ہےقسط 6
5پُرانی حویلی کی محبت
Leave a Comment