پرانی حویلی کی محبت قسط 4

پرانی حویلی کی محبت4
Written by kahaniinurdu

پرانی حویلی کی محبت قسط 4

پرانی حویلی کی محبت4  میرا جسم فُل پسینے سے بھیگا ہوا تھا۔خود کو بستر پر پا کر اللہ کا شکر ادا کررہا تھا پر وہ خوف ابھی تک مجھ پر طاری تھا۔
میری آنکھ کھُل چکی تھی پر مجھے یہ سب خواب نہیں لگ رہا تھا۔ اسکا خوف ابھی تک مجھ پر طاری تھا۔
پُرانی حویلی کا خوف مزید مجھ پر بڑھ چکا تھا۔ اب اگر میں اس راستے پر جاؤنگا تو میں پاگل کہلاؤں گا میں اس راستے پر اب نہیں چلنا تھا۔

میں نے فیصلا کیا میں شارعام کا راستہ آپناتا ہوں چاہے۔ وہ کتنا ہی لمبا ہو پر میں اس راستے پر سے نہیں جاؤنگا ۔اب کبھی بھی ان ہادثوں سے مجھے سیکھنا چاہیے۔

احمد بیٹا اٹھو کالج کا وقت ہوگیا ہے جانا نہیں تم۔؟ بابا کی آواز جیسے ہی کانو میں پڑئ میں آنکھیں ملتے ہی اٹھ کر بیٹھ گیا۔جی بابا میں اٹھ گیا ہوں

انہوں نے مجھے ایک نظر دیکھا اور مسکرا رہے تھے۔ تمہاری نئ سائکل منگوانی ہے میں نے تمہارے رزاق انکل کو بولا تھا رات میری فون پر بات ہوئ تھی۔

سائکل…؟ میں نے بابا کو دیکھتے ہوئے کہا۔

ہاں کل خود ہی تو تم نے اتنا شور مچا رکھا تھا نا۔ابا مزید مسکرا دیے۔

مجھے سائکل نہیں رزاق انکل کو بولو مجھے ایک کیمرہ لے دو۔ ایک دم کیمرے کا خیال میرے زہن میں کیسے آیا مجھے خود نہیں پتا تھا ۔میں سب ہادثوں کو آپنے کیمرے میں ریکارڈ کر کے دیکھنا چاہتا تھا ۔کہیں یہ میری نظر کا دھوکھہ ہے یا سب سچ میں ہورہا ہے تھا۔

اچھا تو اب میرا بیٹا فوٹو گرافر بنے گا۔؟
فوٹو گرافر نہیں بابا مجھے کیمرہ چاہیے میں نے ضد کر کے کہا تو وہ فوراً سے مان گئے۔ ہاں ہاں کیہ دونگا رزاق انکل کو کیمرہ بھی آجائیگا

اور امی کے کمنٹ بھی آگئے۔ یہ پڑھے گا نہیں بس تصویریں بنائے گا۔ویسے بھی آجکل پتا نہیں کیا ہوگیا کہیں کھویا کھویا رہتا ۔آنکھوں میں ہر وقت خوف محسوس ہوتا ہے۔ امی کی یہ باتیں سُن کر میں چُپ ہوگیا کسی کو بھی خبر نہیں تھی میرے ساتھ ہو کیا رہا ہے۔

میں گھر سے سائکل پر نکلا تو دو گھنٹے میں کالج پہنچا یہ راستہ بہت لمبا تھا۔ جہاں میں تیس منٹ میں پہنچ جایا کرتا تھا ۔مجھے دو گھنٹے لگ گئے چھٹی کے

وقت مجھے پُرانی حویلی کے راستے جانے کا خیال آیا۔

پر خوف اتنا طاری تھا مجھ پر کے میں اس راستے پر نہیں جانا چاہتا تھا۔

پرانی حویلی کی محبت4

کالج سے چھُٹی ہوئ میں سائکل نکالی اور پُرانے راستے کی طرف ہی چل دیا۔ اور مسلسل دعائیں پڑھ رہا تھا اور دُعا کر رہا تھا اللہ کرے کچھ نا ہو۔
ابھی تھوڑہ سا ہی آگے بڑھا تھا مجھے ایک دور سے ایک لڑکی دکھائ دی۔ جسکا بلیک کلر کا عبایا ہلکی چلنے والی ہوا سے اڑھ رہا تھا وہ کبھ رُک رہی تھی اور کبھی چل رہی تھی۔

میرے زہن میں ایک دم خیال آیا یہ چڑیل ہوگی کوئ۔ کیونکہ اس راستے پر آج تک میں نے کوئ لڑکی نہیں دیکھی تھی۔

میں آہستہ آہستہ سائکل چلا رہا تھا اور جیسے ہی وہ لڑکی رُکتی میں بھی ایک دم رُک جاتا۔ میں اس سے پیچھے کافی فاصلے پر چل رہا تھا اسے دیکھتے ہوئے دل تیز تیز دھڑک رہا تھا۔
دل تیز تیز دھڑکنے سے میں اور دعائیں پڑھ رہا تھا۔ اور اسی کے پیچھے چل رہا تھا وہ بھی کبھی رُکتی اور کبھی چل پڑھتی۔
چلتے چلتے وہ لڑکی ایک دم مُڑ گئ ۔ وہ اسی راستے کو مُڑی تھی جو راستہ پُرانی حویلی کی طرف جاتا تھا۔ میں سائکل روک کر اسی کو دیکھنے لگا

وہ لڑکی چلتے چلتے پُرانی حویلی میں داخل ہوئ اور نظروں سے اُجل ہو گئ ۔- میں نے سائکل تیزی سے چلائ اور پُرانی حویلی کے پاس سے گُزر گیا۔

تیزی سے سائکل چلانے سے کافی آگے نکل آیا تھا دل کی دھڑکن اور سانسیں تیز تیز چل رہی تھی۔ آج کوئ ہادثہ نا ہوا تھا۔- سائکل ایک سائیڈ پر رکی اور پر پانی پی کر اتمنان کا سانس لیا۔

اور دماغ میں صرف وہ لڑکی گھوم رہی تھی۔ روز کی طرح گھر پہنچتے ہی آپنے کمرے میں گیا اور اس لڑکی کے بار میں سوچنے لگا۔

میں نے صرف اسے دور سے دیکھا تھا۔ تو میں یقین سے کیہ نہیں سکتا تھا وہ کیسی تھی اور کیا چیز تھی۔؟
اور وہ حویلی میں کیوں گئ وہ حویلی تو دور سے اتنی خوفناک لگتی ہے۔

میں آپنے بستر پر سو رہا تھا میرے سر کے نیچے سے بار بار ۔میرا تکیہ کھسک رہا تھا ہلکا ہلکا جو مجھے محسوس ہو رہا تھا۔ میں نیند میں ہی تکیے کو کو کھینچ کر سر کے نیچے کرتا وہ پھر کھسک جاتا۔ یہ میرے ساتھ مسلسل ہو رہا تھاپھر ایک دم مجھے گلے سے پکڑ کر زور سے جنجوڑہ کسی نے۔ احمد اٹھو مجھ سے بات کرو۔ کانو میں آواز پڑتے ہی میری آنکھیں جٹ سے کُھل گئ سامنے کا منظر دیکھتے ہی میری زور سے چیخ نِکل گئ۔

جیسے ہی آنکھیں کھولی سامنے ایک کچھ چمکتی ہوئ آنکھیں میرے سر پر منڈلا رہی تھی ۔جسکا وجود تو نظر نہیں آیا آنکھیں دیکھتے ہی چیخ مار کر اچھلا تو ایک دم بیڈ سے نیچے گِر گیا۔
میری چیخ اس قدر زور سے تھی گھر کے سارے افراد اٹھ کر میرے کمرے میں آگئے۔ میں بیڈ سے ٹیک لگائے زمین پر بیٹھا تھا۔

احمد۔–احمد ۔ کیا ہوا .؟

پرانی حویلی کی محبت4

ہر شخص سوالیہ نظروں سے مجھے دیکھ رہا کمرے کہ لائٹ جلنے سے میں بھی ادھر اُدھر وہی آنکھیں تلاش کررہا تھا۔ جو مجھ پر منڈلا رہی تھی

آخر وہ کیا تھا جس نے مجھے اتنی زور سے جنجوڑہ تھا ۔میں نے روشنی میں گِرے بان دیکھا تو فُل سرخ ہوا تھا اور اوپر والا شرٹ کا بٹن بھی ٹوٹا ہوا تھا۔

بابا نے پانی کا گِلاس میرے سامنے کیا میں نے نظریں اٹھا کر انکی طرف دیکھا۔ اور پھر پانی کا گلاس پکڑتے ہی ایک سانس میں ہی پی لیا

احمد کیا ہوا تھا کچھ تو بولو ۔۔؟؟ امی نے ریکویسٹ کرتے ہوئے پوچھا۔

کچھ نہیں میزن بس زرہ سا ڈر گیا تھا میں نے آہستہ سے کہا۔ تو سب کی آنکھوں میں غصہ بھر آیا یہ زرہ سا نہیں تھا تم نے اتنی زور سے چیخ ماری کے سب کی جان نکال کے رکھ دی۔

میں چُپ چاپ سب کی باتیں سُن رہا تھا پھر بابا نے پیار سے مجھے لیٹنے کا کہا اور چادر میرے اوپر کردی۔

سب آپنے آپنے کمرے میں واپس جا رہے تھے۔

امی بھی میرے پاس سے اٹھتے ہوئے کمرے میں جانے لگی ۔انکا ہاتھ الیکٹرک بورڈ کی طرف بڑھا ہی تھا میں ایک دم بولا کے لائٹ نا بند کرنا۔
میرے کہنے پر انہوں نے لائٹ نا بند کرتے ہوئے وہ آپنے کمرے میں چلی گئ۔

میری آنکھوں میں نیند تو کوسوں دور تھی میں یونہی آنکھ بند کرتا تو مجھے ڈر لگتا تھا اور آنکھوں آگے وہی سب آنے لگ جاتا تھا۔
میں نے تکیہ اٹھایا اور آنکھوں کے آگے زور سے دبا کر لیٹ گیا۔
کچھ ہی دیر گُزری ہوگی مجھے پھر سے آواز محسوس ہوئ۔

احمد۔۔۔

میں نے ایک دم آنکھیں کھولی تو ڈریسنگ کے شیشے میں ایک مدہم سا عکس کسی چیز کا دکھائ دیا۔

حرکت کرتا عکس ایک دم غائب ہوگیا۔ میں جلدی سے بیڈ سے اٹھتے ہی کمرے سے دوڑ لگا دی باہر کی طرف۔

جاری ہے

پرانی حویلی کی محبت4

Leave a Comment