پرانی حویلی کی محبت
پرانی حویلی کی محبت جس پر لکھا ہوا تھا آپنی چیزوں کی حفاظت کیا کرو بہت لاپرواہ ہو۔
یہ رائیٹنگ ایسی تھی کے میں حیران تھا یہ میری رائیٹنگ نہیں تھی۔ میں نے جلدی سے آپنے سب دوستوں کی نوٹ بُک لی۔ اور سب کے ساتھ رائیٹنگ میچ کرنے لگا پر کسی کے ساتھ میچ نی ہورہی تھی ۔
میں نے پیج نکال کر سب کے سامنے رکھ دیا۔ بتاؤ یہ کس نے لکھا ہے سب نے نا میں سر ہلا دیا اور حیران ہو کر مجھے دیکھنے لگے کے ہم کیوں لکھیں گے۔
سب دوست بے خبر تھے کے آجکل میرے ساتھ بہت عجیب ہو رہا ہے۔ یہ بنجر راستہ مجھے نئے امتحان میں ڈال رہا ہے پر مجبوراً مجھے اسی راستے سے آنا جانا تھا ۔اس لمبے راستے سے میں نہیں جا سکتا تھا۔
کالج سے چھٹی کے بعد میں روز کی طرح اسی راستے سے واپس گھر جا رہا تھا۔ ایک نہر کا پُل کراس کیا تو حیرت سے ایک دم رُک گیا پوری سڑک پھول کی پتیوں سے بھری ہوئ تھی۔
یہ پتیاں گلاب کے پھولوں کی تھی ۔- یوں لگ رہا تھا جیسے کسی کے استقبال کے لیے پوری سڑک سجائ گئ ہو۔
میں نے سائکل پیچھے ہی روک کر نیچے اترا اور سائکل سٹینڈ پر لگا کر حیرت سے ادھر اُدھر اور ان پتیوں کو دیکھ رہا تھا۔
آگے بڑھنے کی ہمت ہی نی ہورہی تھی اور دھوپ ایسی تھی کے کھال جل رہی تھی۔ زہن میں عجیب خیالات جنم لے رہے تھے ۔ کہیں یہ پھول جال تو نہیں بچھا رکھا میرے لیے کسی نے۔؟
دس منٹ تک یہی سوچتا رہا اور پھر ہمت کر کے قدم آگے بڑھایا ۔ یہ پھول پُرانی حویلی کے راستے کی طرف بچھے ہوئے تھے۔
پُرانی حویلی کو جو راستہ جاتا تھا وہ پھولوں کی پتیوں سے سُرخ ہوا تھا میں اس راستے پر تھوڑہ سا چلا اور رُک گیا۔ ہوا کی سر سراہٹ سے بھی خوف آرہا تھا۔
یہ پھول یہاں کیسے آ سکتے یہی سب سے بڑا مسلہ تھا ۔جسے حل ہی نہیں کر پارہا تھا کے سوچ ختم ہو جاتی ہے۔
میں واپس آپنی سائکل کی جانب بڑھا اور اوپر بیٹھ کر چلانے لگا تو سائکل کے پیچھے والے ٹائر میں ہوا ہی نہیں تھی۔
سائکل پنکچر دیکھ کر شدید غصہ آیا گرمی سے جان نکلنے کو ہو رہی تھی گھر کافی دور تھا پیدل چلنا بھی مہال تھا وہ بھی اس گرمی میں۔
سائکل لے کر چل رہا تھا کے ہوا کا تیز جھونکا آیا جس سے سائکل میرے ہاتھ سے چھوٹ کر دور جا گِری ۔ یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے سائکل کسی نے پکڑ کر دور پٹخ دی ہو اور کوئ مجھے جانے سے روک رہا ہو۔
دل میں یہ بھی خیال آرہا تھا کے یہ پھول جو بچھا رکھیں ہیں۔ یہ سب احتمام میرے لیے ہے اور ہنس کر یہ بات خوشفہمی میں ٹال دی۔
گرمی سے بس ہو رہی تھی دل تیز تیز دھڑک رہا تھا اور سائبان صرف ایک تھا یہاں وہی درخت جس کے نیچے میں سویا تھا ۔ پر اب اسکے نیچے جانے والی غلطی میں دوبارہ نہیں کر سکتا تھا۔
مشکل سے سائکل اٹھائ اور ٹائر کی پرواہ نا کرتے ہوئے میں اوپر بیٹھ کر چلاتے ہوئے گاؤں میں سائکل پنکچر والے کی دوکان پر کھڑی کی اور خود پسینے سے فُل بھیگا ہوا گھر پہنچا۔
پرانی حویلی کی محبت
احمد کی لیے پانی لاؤ۔امی نے میرے پاس آتے ہوئے کہا۔
امی مُجھ سے کچھ باتیں کر رہی تھی جو میں سُن نہیں پایا تھا میں آپنی ہی سوچ میں گُم تھا۔
میں ان پھولوں کا ہونا جو بھی ہادثے ہو رہے تھے بس انہی کو سوچتا رہتا تھا اور چینجنگ امی بہت اچھے سے محسوس کر رہی تھی مجھ میں۔
تین سے چار بار سائکل کا ٹائر پنکچر ہو چکا تھا وہیں پے پر اس بات زکر میں کسی سے نہیں کیا ۔اور خاموشی سے سب دیکھ رہا تھا کے آخر آگے کیا ہوتا ہے۔؟
ایک روز کالج سے چھٹی ہوئ تو میں سائکل کو تیز چلاتے ہوئے گھر جا رہا تھا۔ کیونکہ آسمان پر کالے بادل چھائے ہوئے ہوا بھی رُکی ہوئ تھی جو تیز طوفان کے آنے کی نشانی تھی۔
کالج سے تھوڑی ہی دور پہنچا تو کڑک کی آواز آئ اور سائکل کا چین ٹوٹ گیا۔
اسی کو بھی ابھی ٹوٹنا تھا ۔ یہ بھی کھٹارہ ہو گئ ہے۔
ایسے موسم میں چین کا ٹوٹ جانا بہت غصہ آرہا تھا میں سائکل ہاتھ میں پکڑ چل رہا تھا وہی ہوا جسکا ڈر تھا۔۔تیز ہوا اور بارش شروع ہوگئ جس سے چلنا بھی مشکل ہو رہا تھا۔ یہ سب میرے صبر کا امتحان لیا جارہا تھا۔
میں نے سائکل پھینکی اور سڑک کے کنارے پر بیٹھ کر گٹنو میں سر دے کر رونے لگا۔ آنسو بارش کے پانی میں بہہ رہے تھے پر رونے کی آواز بھی بادلوں کی گن گرج سے خود کو بھی نہیں سنائ دے رہی تھی۔
احمد۔
میرے کانو میں ایک آواز پڑئ جیسے کوئ مجھے پکار رہا ہو میں نے چونک کر ادھر اُدھر دیکھا ۔کوئ بھی نا تھا بارش بھی تیز تھی نظر کچھ ٹھیک سے نظر نہیں آرہا تھا۔
میں نے سائکل اٹھائ اور چل دیا اب یہاں مجھے مزید ڈر لگ رہا تھا۔ پر بے بسی بھی ختم ہو چکی تھی رونے سے پیدل چلتے چلتے کافی آگے نکل آیا تھا۔ پھر ایک دم نظر پڑی تو حیرت کی انتہا نا رہی سائکل کا چین بلکل ٹھیک تھا۔
امی مجھے نہیں یہ کھٹارہ سائکل لے کر جانی روز کبھی یہ پنکچر ہوجاتی ہے کبھی اسکا چین ٹوٹ جاتا ہے۔ میں امی سے جگڑ رہا تھا کے اتنے میں آبو بھی آگئے۔- اور آبو سائکل کی طرف دیکھ کر کہنے لگے کے اب تو چین ٹھیک ہے-
پر یہ راستے میں ٹوٹ گیا تھا۔
اچھا پھر جُڑا کیسے۔؟ آبو نے ہلکی سی چہرے پر مسکراہٹ لاتے ہوئے پوچھا تو میں چُپ ہو گیا۔
آپ میرا یقین کرو یہ ٹوٹاتھا ۔ عجیب بات تھی جس پر مجھے خود نہیں یقین آرہا تھا اسکا یقین میں کسی اور کو کیسے دلا سکتا تھا۔
میں اسی پُرانی حویلی کے مین دروازے کے سامنے کھڑا تھا ۔سامنے ایک تخت بچھا ہوا تھا جس پر ایک خاتون چلتے ہوئے آکر بیٹھ گئ۔
اسکا چہرہ انتہائ خوفناک تھا لمبے کھلے بال تھے اتنی بڑی بڑی آنکھیں۔ آنکھوں اور منہ سے خون ٹپک رہا تھا ۔ کالے لباس میں ملبوس خاتون چہرے پر مسکراہٹ لاتے ہوئے مجھے دیکھ رہی تھی۔
احمد میرے پاس آؤ اسکی گرجدار آواز سے میری جان ہی نکل گئ۔ اور آنکھ کُھل گئ۔
میرا جسم فُل پسینے سے بھیگا ہوا تھاخود کو بستر پر پا کر اللہ کا شکر ادا کررہا تھا پر وہ خوف ابھی تک مجھ پر طاری تھا۔
جاری ہے
پرانی حویلی کی محبت
Leave a Comment