پرانی حویلی کی محبت پرانی حویلی کی محبت قممممسطstr1
امی مجھے یہ کھٹارہ سائیکل نہیں لے کر جانی۔آج میں اس پھٹیچر سائکل کہ وجہ سے اتنا لیٹ ہو جاتا ہوں۔ اور میرے کالج کے دوست میرا مزاق بناتے ہیں۔ ہر روز یہ وہیں آکر پنکچر ہو جاتی ہے۔ کبھی اسکا چین ٹوٹ جاتا ہے۔ مجھے وہاں سے پیدل چلنا پڑھتا ہے۔میں آپنی بات پوری کیے بنا ہی رُک گیا اور آپنی ہی بات کو سوچنے لگ گیا ۔سائیکل کا چین آج تک ایک ہی جگہ ٹوٹا تھا ۔اور سائیکل پنکچر بھی وہیں ہوئ تھی یہ ماجرا کیا ہے۔؟
اسی سوچ میں گُم تھا کے امی کی آواز نے اس سوچ سے نکال دیا ۔اب کہاں کھو گئے۔؟کچھ نہیں میں کیہ رہا تھا کے مجھے یہ سائیکل نہیں چلانی۔ مجھے نئ سائکل لے کر دو میرا دیہان ابھی بھی اسی طرف تھا۔وہ گلاب کے پھول اس سڑک پر کیسے آتے ہیں۔ اس سڑک سے کوئ نی گزرتا تھا۔ نا کبھی مجھے راستے میں کوئ ملا تھا۔ یہ جنگل کا راستہ تھا پر مجھے کبھی اس سے ڈر نہیں لگا تھا۔
ہمیشہ اس راستے سے روز آتا تھا۔ پر آپنی پھٹیچر سائکل سے بہت تنگ تھا۔ جو مجھے راستے میں بہت تنگ کرتی تھی۔ کبھی سائکل کا چین ٹوٹ جاتا تو کبھی سائکل پنکچر ہو جاتی ۔ہالانکہ آبو نے مجھے کالج جوئن پر یہ سائکل نئ لے کر دی تھی۔ پر یہ سائکل اس جنگلی راستے پر چلنے سے پھٹیچر ہوگئ چند دن میں۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب موبائل فون نئے نئے آئے تھے۔ ہر شخص کے پاس نہیں تھا۔ اِکا دُکا لوگوں کے پاس تھا اور انکی بہت ویلیو تھی۔
اس سادہ سے فون کو دیکھ کر حیرت ہوتی تھی۔
کے اس میں کوئ تار نہیں ہے۔ کیونکہ گھر میں ایک پی.ٹی.سی.ایل لگا ہوا تھا ۔مجھے بس اسی کا پتا تھا۔ ہائ سکول پاس کرنے کے بعد میں نے شہر کے ایک کالج میں داخلہ لیا۔ جسکو دو راستے پڑھتے تھے۔ ایک کچہ جنگل کا راستہ تھا جو شارٹ کٹ تھا۔ میں نے وہی راستہ چنا ۔شائد وہی راستہ میری سب سے بڑی غلطی بن گیا۔
پہلے دن جب اس راستے سے بہت خوف آیا۔ پھر اللہ کو یاد کرتے ہوئے میں اس راستے سے گزرتا چلا گیا۔اس راستے میں سب سے خوف ناک ایک جگہ تھی۔دو نہروں کے درمیان ایک پرانی بلڈنگ تھی جو بہت دیر سے بند تھی۔ اسکے سامنے والے دروازے بھی آدھے ٹوٹے پھوٹے تھے۔ میں دور سے اس حویلی نما بلڈنگ کو رُک کر دیکھتا اور چل پڑھتا۔مجھے پُرانی بلڈنگ میں جانا وہاں بیٹھ کر محسوس کرنا اور ان میں گھومنے کا بہت شوق تھا ۔
پر خوف کی وجہ سے میں اسے دور سے دیکھتا اور چل پڑھتا ۔مجھے اس راستے پر آتے جاتے تین مہینے ہو چکے تھے۔ جون کا مہینہ تھا گرمی عروج پر تھی دوپہر کا وقت تھا میں کالج سے گھر جا رہا تھا۔گرمی سے بُرا حال رہا تھا سائکل تیز چلانے سے دل بھی گھبرا رہا تھا۔ میں اس حویلی کو دیکھتے ہوئے گزر تھا کے میری نظر ٹوٹی پھوٹی سڑک کے درمیان میں ایک گلاب پر پڑی یہ پھول فریش تھا ۔
جیسے ابھی ہی اسے کسی نے توڑ کر پھینکا ہو۔
گلاب کا پھول اور یہاں میں نے سائکل روکی اور جُک کر اٹھانے لگا ۔ تو مجھے محسوس ہوا جیسے میری کمر پر کسی نے ہاتھ رکھا ۔میں ایک دم سیدھا ہو کر پیچھے دیکھا تو پیچھے کوئ بھی نی تھا۔یہ ہاتھ رکھنے کا احساس مجھے بہت اچھے سے محسوس ہوا تھا۔ پر اس احساس کو اتنا ضروری نہیں سمجھا۔
سمجھتا بھی کیسے اس ویرانے میں میرے سوا کوئ بھی دور دور تک نظر نہیں آرہا تھا۔ میں پھر سے پھول اٹھانے کے لیے جکا اس بار ہوا کا ایک جھونکا آیا اور پھول سڑک کے کنارے پر جا پہنچا۔ عجیب بیچانی سی دل میں ہونے لگی تھی گرمی اتنی شدید تھی ۔کے میں نے پھول کو اگنور کیا اور ایک درخت کے سائے میں سائکل روکا وہیں درخت کے نیچے بیٹھ گیا۔ بیگ سے پانی کی بوتل نکالی اور پینے لگا گرمی تھی یا کچھ اور میرا دل گھبرا رہا تھا۔
میں نے شرٹ کے بٹن کھولے
اور درخت سے ٹیک لگا کر ٹانگے پھیلا کر خود کو ریلیکس کر رہا تھا کے ۔مخالف سمت ہوا چلی تو گلاب کا پھول سیدھا اڑھتا ہوا میرے پاس آگیا۔ میں نے جلدے سے پھول کی ٹہنی سے پکڑا پھول کو اور اسے غور سے دیکھنے لگا۔پھر آپنے آس پاس کھیتوں میں دیکھنے لگا کے کہیں گلاب کا کوئ پودہ تو نہیں ہے۔ جہاں سے ٹوٹ کر یہ یہاں آیا ہو۔ میرے بار بار نظر دوڑانے کے باوجود مجھے وہاں پر کوئ پودہ نظر نہیں آیا دور دور تک۔
پانی کے دو چار گونٹ پیے اور میری نظر پُرانی حویلی پر پڑئ۔ دل ہی دل میں سوچ رہا تھا اس پرانی حویلی میں ضرور جایا جائے۔ دو نہریں چھوٹی چھوٹی نہروں کے درمیان یہ پرانی حویلی اور ہرا بھرا گھاس بنانے والے نے بھی یہ حویلی کمال کی بنائ ہے۔ کاش میرا گھر ہوتا ہے میں دل میں خود سے ہی باتیں کررہا تھا۔ اس درخت کی ٹھنڈی چھاؤں میں بہت سکون آرہا تھا۔ میں گلاب کو سونگتے ہوئے آپنی گال پر پھیر رہا تھا۔
آنکھوں میں نیند آنے لگی وجود بے جان سا ہو رہا تھا ۔
میں یونہی ٹانگیں پھیلائے بیٹھا تھا۔ کہ پتا ہی نا چلا کے کب میں نیند کی وادی میں کھو گیا۔ یہ نیند نہیں ایک قسم کی بےہوشی تھی۔ جیسے مجھے بےہوش کیا گیا ہو۔ کچھ گھڑی گزری ہوگی کے مجھے کچھ عجیب سا محسوس ہونے لگا ۔ایک عجیب سی سمیل محسوس ہو رہی جو کسی انسان کی نہیں تھی۔ مجھے لگ رہا تھا میرا سر کسی کی گود میں اور گال سے ہاتھ پھیرتے ہوئے بالوں میں انگلیاں چلا رہا تھا۔
پرانی حویلی کی محبت قسط
میں نیند سے ہلکا سا بیدار ہوا تو اٹھنے کی کوشش کرنے لگا۔ مجھے محسوس ہوا جیسے میرا وجود جکڑا ہوا ہے۔ میں ایک دم جھٹکا کھا کے اٹھا تو تو گلاب کا پھول جو میرے سینے پر تھا وہ زمین پر گِر گیا۔میرا منہ درخت کی طرف تھا میں آپنی شررٹ سے لگی ہوئ گھاس جھاڑ رہا تھا۔ حیرت میں گُم تھا کے میں درخت سے ٹیک لگا کے بیٹھا تھا ۔پھر جب آنکھ کھلی تو میں زمین پر لیٹا ہوا تھا یہ سب ماجرہ کیا ہے۔؟
ہلکا سا ڈر محسوس ہو رہا تھا پر میرے سوا وہاں کوئ بھی نہیں نظر آرہا تھا ۔
جسے میں یہ الزام دیتا.اور گلاب سینے پر موجود تھا جس پر نظر پڑھتے ہی میں نے پھر سے اسے اٹھا لیا ۔اور بیگ کی زِپ کھولتے ہوئے اندر ڈالا اور سائکل چلاتے ہوئے گھر کی جانب بڑھا۔ میرا سر وزنی سا ہورہا تھا اور چکر سے بھی آرہے تھے آنکھیں فُل سرخ ہوئ ہوئ تھی سائکل بمشکل چلا رہا تھا۔ گھر پہنچتے ہی سلام کیا اور سائکل کھڑی کرتے ہی آپنے بیڈروم میں داخل ہوگیا۔
بیگ ایک طرف پھینکا اور لیٹ گیا اتنی خاموشی سے میں پہلے کبھی گھر میں داخل نہیں ہوا تھا اس لیے سب مجھ پر حیران تھا۔ میں تکیے پر سر رکھ کر اسی لمحوں کو سوچ رہا تھا کہ امی گھر میں داخل ہوئ۔ احمد بیٹا کیا ہو۔ امی جی کچھ نہیں .میں نے آہستگی سے کہا تو وہ میرے پاس آکر بیٹھ گئ اور ماتھے پے ہاتھ پھیرنے لگ گئ۔۔ بیٹا خیر تو ہے تم چُپ ہو….؟ پھر امی ایک دم چونک کر بولی تمہیں تو بخار لگ رہا ہے۔؟
ہیں بخار ..؟
میں حیرانی سے کہا تو انہوں نے آپنا ہاتھ الٹا کر کے میری گردن پے لگایا احمد بیٹا تمہیں بخار ہے ابھی آتے تمہارے آبو تو ڈاکٹر کو بلاتے ہیں۔ انکے منہ سے بخار کا سنتے مجھے بھی آپنی طبیعت میں چینجنگ محسوس ہونے لگی پورہ جسم ٹوٹنے لگا میرا کچھ دیر گُزری میں تیز بخار میں مبتلا ہوگیا اور بےہوشی پھر سے مجھ پر طاری ہوگئ۔ بخار کی حالت میں بھی وہ سب ہی یاد آرہا تھا درخت نیچے آخر وہ ہوا کیا تھا ۔؟
کچھ روز میں بخار ٹھیک ہوا تو میں نے دوبارہ کالج جانے کا فیصلہ کیا ۔آج پانچ روز کے بعد اسی راستے سے میں کالج جا رہا تھا میں اسی جگہ سے گزرا تو محسوس ہوا جیسے کوئ چیز مجھے آپنی طرف کھینچ رہی ہو۔ میں نے گزرتے ہوئے اسی درخت کو دیکھا جہاں پر میں اس دن لیٹا ہوا تھا.جیسے ہی نظر پڑی ایک دم رُک گیا۔ درخت کے نیچے ایک نوٹ بُک پڑی تھی میں نے سائکل سٹینڈ پر لگائ اور جا کر دیکھا تو حیرت سے آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئ ۔
یہ یہ تو میری نوٹ بُک ہے یہاں کیسے اوپر میرا نام لکھا ہوا تھا۔
میں جلدی سے نوٹ بُک کو بیگ میں ڈالا اور کالج کی طرف بڑھنے لگا میں بہت لیٹ ہو چکا تھا۔ سارے راستے انہیں سوچو میں گُم تھا پہلے یہ وہ نیند کا واقع اب نوٹ بُک یہ سب سچ ہورہا ہے یا میرا وہم ہے ….؟ خود سے سوال کرتا اور پھر میری سوچ ختم ہوجاتی۔ کلاس میں بیٹھے وہی نوٹ بُک بیگ سے نکالی اور کھول کر سامنے رکھ دی ۔
ہوا سے نوٹ بُک کے پیج اُلٹنے لگے خود ہی میری نظر ایک پیج پر پڑی جس پے کچھ لکھا تھا جو رائیٹنگ میری نہیں تھی . میں جلدی سے نوٹ بُک گود میں رکھ کر ورقے الٹنے لگا پھر وہ پیج نکالا جس پر لکھا ہوا تھا۔ آپنی چیزوں کی حفاظت کیا کرو بہت لاپرواہ ہو۔
جاری ہے۔۔۔
Leave a Comment