ناول داسی قسط9
وہ شام کو کھیتوں کی طرف گئی تھی۔
پھر واپس نہ آئی ۔ گاؤں کے ایک آدمی نے اسے کھیتوں کی طرف جاتے دیکھا تھا۔ میری تو دنیا اندھیر ہوگئی تھی۔ میں ساری رات پاگلوں کی طرح اسے ڈھونڈتارہا۔ مگر وہ مجھے کہیں نہیں ملی۔ ساری رات میں اسے دیوانوں کی طرح ڈھونڈتا رہا۔ لوگوں کے گھر گھر جاکر پوچھتا۔ کسی نے میری دھی رانی کو تو نہیں دیکھا؟؟؟ مگر سب کا ایک جواب تھا کہ انہوں نے اسے نہیں دیکھا۔ صبح کے قریب میں گھر آگیا۔ سورج نکلنے کے کچھ دیر بعد ہی ایک آدمی مجھے بلاکر لے گیا۔
وہ آدمی قریب کے گاؤں کا تھا۔ میں نے اسے پہلی بار دیکھاتھا۔ اور وہ بھی مجھے نہیں جانتا تھا۔ لوگوں سے پوچھتا میرے گھر تک آیا تھا۔ میرا دل رک گیا جب اس نے راستے میں مجھے بتایا کہ ان کے گاؤں کے قریبی کھیتوں سے ایک نیم مردہ لڑکی ملی ہے جو بےہوش ہے۔ وہ اور اس کے ساتھ دوسرے لوگ گاؤں گاؤں پوچھتے پھررہے ہیں کہ ان گاؤں میں سے کوئی لڑکی غائب تو نہیں؟؟؟ وہ ہمارے گاؤں پوچھنے آیا تھا۔کسی نے اسے میرا بتادیا۔ میں اس کے ساتھ تیز تیز چل رہا تھا۔ مجھ سے صبر نہیں ہورہا تھا۔
میرا بس چلتا تو اڑکر وہاں پہنچ جاتا۔
میرا دل اس خوف سے دھڑک رہا تھا کہ کہیں وہ میری راجکماری ہی نہ ہو۔ گاؤں زیادہ دور نہیں تھا۔ کچھ دیر بعد ہم وہاں پہنچ گئے جہاں وہ لڑکی تھی۔ اس نے ایک گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ اندر سے ایک جوان شخص نکلا۔ مجھے ساتھ لانے والے نے اسے بتایا کہ اس کی بیٹی بھی رات سے غائب ہے۔ یہ اس لڑکی دیکھنا چاہتا ہے۔ وہ ہمیں گھر کے اندر لےگیا۔میرے قدم من من کے ہوگئے تھے۔ ڈرتے ڈرتے میں اس شخص کے پیچھے ایک کمرے میں داخل ہوا۔
سامنے چارپائی بےسدھ لیٹی ہوئی لڑکی کو دیکھ کر قدموں کے ساتھ میری سانس بھی رک گئی تھی۔ وہ میری راج کماری ہی تھی۔ میری آتما۔۔۔۔۔۔میری دنیا میری راج کماری میری ٹانگوں سے گویاجان نکل گئی تھی۔ میں نے دیوار کا سہارالیا اور وہیں بیٹھتا چلا گیا۔ دیکھنے والے میری حالت سے خود ہی سمجھ گئے تھے ۔ کہ چارپائی پہ لیٹی نیم مردہ لاش میری ہی بیٹی ہے۔ انہوں نے مجھےسہارا دیکر ایک چارپائی پر بٹھاکر مجھے پانی پلایا۔ اتنی دیر میں میری بیٹی کے جسم میں حرکت ہوئی اور اس نے آنکھیں کھول دیں۔
میں لپک کر اس تک پہنچا۔
پپ پپ پتاااا جج جی۔۔۔۔۔۔ اس نے بھی مجھے پہچان لیا تھا۔ میں نے اس کا سر اپنے سینے سے لگالیا۔ اور پھوٹ پھوٹ کر رویا۔ راجکماری کو شاید اپنی حالت کا علم تھا۔ میرے روکنے کے باوجود اس نے اٹک اٹک کر ٹکڑوں میں خود پر بیتی سنائی۔ وہاں کھڑے لوگوں نے بھی سب سنا تھا۔ راجکماری نے بتایا کہ وہ شام کھیتوں میں بکری کے بچے کے لیے کچھ گھاس لینے گئی تھی۔ بکری کا بچہ اس نے بہت پیار سے رکھا ہوا تھا۔
اس بچے کی ماں مرگئی تھی اور اسے راجکماری نے ہی پالا تھا۔ وہ بھی راجکماری سے بہت مانوس تھا۔ اس کے ساتھ ہی سوتا تھا۔ وہ گھاس لیکر واپس آرہی تھی جب وہ پانچ آدمی اس کے سامنے آۓ۔ اس نے ان کے نام بھی بتاۓ تھے۔ وہ ہمارے ہی گاؤں کے کھاتے پیتے ہندوؤں کی بگڑی اولاد تھی۔ انہوں نے راجکماری کو اٹھایا اور دوسرے گاؤں کے کھیتوں میں لیجاکر ساری رات اس کے جسم سے کھیلتے رہے۔ صبح سے پہلے وہ اس کا گلا دباکر اسے مار کر چلے گئے۔
وہ سمجھے کہ راجکماری مرگئی ہے مگر وہ بےہوش ہوگئی تھی۔
اس میں سانسیں باقی تھیں ۔ اس گاؤں کے آدمیوں نے اسے دیکھ لیا اور اٹھاکر اپنے گھر لے آۓ۔ میرا خون کھول اٹھا تھا۔ راجکماری نے مجھ سے کہا تھا۔ پتا جی۔۔۔۔۔۔۔ان کو زندہ نہیں چھوڑنا۔ میں نے اپنی بیٹی کا دل رکھنے کے لیے اس سے کہ دیا ۔کہ وہ چنتا نہ کرے میں ان کو اس کے سامنے ہی مارونگا۔ اور ایسے مارونگا کہ موت بھی ڈر جاۓ گی۔ مگر یہ سب میں کہہ سکتا تھا۔ اس پہ عمل کرنا میرے لیے ممکن نہیں تھا۔
البتہ میں نے اسی وقت یہ ارادہ ضرور کرلیاتھا کہ ان سب کو مارنے کی کوشش ضرور کرونگا۔ میں نے راجکماری کا ماتھا چوما اور اس کے سر پہ ہاتھ پھیرنے لگا۔ میری آنکھوں سے آنسوجاری تھے۔ راجکماری نے مطمئن سے انداز میں میری طرف دیکھا۔ مگرکچھ بولی نہیں۔ شاید وہ میرے انتقام لینے کے وعدے پہ مطمئن ہوگئی تھی۔ پپ پتا جج جی۔۔۔۔۔۔۔راجکماری نے مجھے پکارا۔ میں اس کے پاس ہی کھڑا تھا۔ کہو بیٹیا؟؟؟؟؟
میں نے پیار سے اس کے سر پہ ہاتھ رکھا۔
مگر کچھ بولنے کی بجاۓ اس نے آنکھیں بند کرلیں۔ اور پھر کبھی نہیں کھولیں۔ اس کے بعد پتہ نہیں میں کیسے گھر آیا؟؟؟ کون لیکر آیا مجھے؟؟؟ راجکماری کا کریاکرم کب ہوا؟؟؟ کچھ خبر نہیں تھی مجھے۔ شاید میں بےہوشی میں چلا گیا تھا۔ جب ہوش آیا تو میری دنیا اجڑ چکی تھی۔ میری راجکماری مجھ سے بہت دور جاچکی تھی۔ میں نے گھر سے سبزی کاٹنے والی چھری اٹھائی ہتھیار کے نام پہ میرے گھر میں یہی ایک چھری تھی۔
اور ان میں سے ایک کے گھر جاپہنچا۔ وہ مجھے گھر کے باہر ہی مل گیا تھا۔ میں نے دیوانہ وار اس کے پیٹ پہ چھری کا وار کیا۔ وہ مجھے دیکھتے ہی چوکنا ہوگیا تھا۔ چھری زرا سی اس کو لگی تھی۔ وہ طاقت میں مجھ سے زیادہ تھا۔ اس نے مجھے قابو کرلیا۔ اور پھر مجھے بہت مارا۔اتنا مارا کہ میں کئی دن تک چلنے پھرنے سے بھی معزور رہا۔ پھر کئی مہینے گزرگئے۔ مجھے موقع ہی نہ ملا کہ دوبارہ وار کرتا۔ بھلا ہو میرے گرو کا۔ ایک دن میں جنگل میں یونہی بھٹکتا پھررہا تھا۔ جب ان سے میرا سامنا ہوگیا۔
میری حالت دیکھ کر وہ مجھ سے پوچھنے لگے کہ ایسے دیوانوں کی طرح کیوں گھوم رہے ہو؟؟؟
میں نے روتے روتے اپنی بےبسی کی ساری داستان سنادی۔ ان کو شاید مجھ پر رحم آگیا تھا۔ مجھے اپنے ساتھ اپنے آشرم میں لےگئے۔ انہوں نے مجھے بہت کچھ سکھایا۔ اتنا کچھ کہ میں اپنا انتقام آسانی سے لے سکتا تھا۔ اور میں نے انتقام لیا بھی۔ اتنے خوفناک طریقے سے ان کو مارا کہ دیکھنے والوں کےدل دہل جاتے تھے۔ میں نے ان کو بہت بری موت مارا تھا۔ کچھ سال بعد میرے گرو کا دیہانت ہوگیا۔
اور میں نے یہاں جنگل میں بسیرا کرلیا۔ کیونکہ انسان تو فرشتوں کے ساتھ رہ کر بھی خوش نہ ہو۔ ہم تو پھر پاپی ٹھہرے۔ یادیو پنڈت نے اپنی بھیگی آنکھیں آستین سے صاف کرکے سرسوتی کی طرف دیکھا۔ سرسوتی روتی آنکھوں سے اسے ہی دیکھ رہی تھی۔ اسے اپنے گرو کی داستان سن کر دلی دکھ ہوا تھا۔ میں کسی کا مندر کا پنڈت نہیں تھا۔ لوگوں نے خود ہی مجھے پنڈت کہنا شروع کردیا تھا۔ یادیو نے اسے اپنے نام کے ساتھ لگے لفظ پنڈت کے بارے میں آگاہ کیا۔ جس کو دیکھ لو۔
جہاں دیکھ لو۔ کسی کو بھی اس کا دکھ پوچھ لو۔
ہر جگہ ہر انسان کسی نہ کسی انسان کا ڈسا ہوا ہی ملے گا۔ یادیو پنڈت نے سرسوتی کی طرف دیکھ کر دکھ سے کہاتھا۔ جواب میں سرسوتی نے ہاں میں سرہلادیا ۔ اگلی رات سے سرسوتی کے سیکھنے کا عمل شروع ہوگیا تھا۔ یادیو اسے جادو کے چھوٹے موٹے گر سکھاتا رہا۔ جو سرسوتی نے عام لوگوں کی نسبت جلد سیکھ لیے۔ مگر ان ٹوٹکوں سے وہ اپنا انتقام لینے کا خواب پورا نہیں کرسکتی تھی۔ مگر اس نے یادیو سے کچھ نہیں کہا تھا۔
وہ انتظار کررہی تھی کہ پنڈت خود ہی اسے کوئی بڑا عمل بتاۓ گا جس سے وہ اپنا مقصد آسانی سے پورا کرسکے گی۔ اور پھر ایک ماہ بعد پونم کی آنے والی رات سے کچھ دن پہلے پنڈت نے سرسوتی سے کہا۔ کہ اس کے پاس ایک ایسا عمل ہے جو سرسوتی سیکھ لے تو آسانی سے اپنا خواب پورا کرسکتی ہے۔ مگر اس کے لیے سرسوتی کو بہت محنت کرنی پڑیگی۔ اور یہ عمل سیکھنے میں اسے دوسال تک لگ سکتے ہیں۔ میں نے اپنے گرو سے جو عمل سیکھا تھا وہ میں نے ساڑھے تین سال میں سیکھا تھا ۔
تب جا کے میں اپنا انتقام پورا کرسکا تھا۔
سرسوتی کے پاس اتنا وقت نہیں تھا۔ نہ وہ اتنا صبر کرسکتی تھی۔ اس نے پنڈت سے کہا کہ وہ اسے ایسا عمل بتاۓ جو وہ کم سے کم عرصے میں سیکھ سکے۔ یہ ایسا ہی عمل ہے مگر بہت کٹھن ہے۔ پنڈت نے اسے آگاہ کیا۔ اس میں انسان اگر پاس ہوجاۓ تووہ بہت کچھ کرسکتا ہے۔ مگر۔۔۔۔۔۔ پنڈت نے ایک لمحے کو رک کر سرسوتی کی طرف دیکھا۔ مگر کیا گروجی۔؟؟؟ سرسوتی جلدی سے بول پڑی۔ مگر یہ کہ۔ اس عمل کے سیکھنے والے انسان کو کبھی مکتی نہیں ملتی۔
وہ ہر پونم کی رات کو تکلیف سہتا ہے۔ وہ مر کر بھی بھٹکتارہتا ہے۔ تکلیف سہتاہے۔ میں یہ عمل سیکھنا چاہتی ہوں۔ پنڈت خاموش ہوا تو سرسوتی فوراً بول پڑی تھی۔ پنڈت نے چونک کر حیرت سے اس نرم نازک سی لڑکی کو دیکھا۔ جس لہجے میں چھپا عزم کہہ رہا تھا کہ وہ پہاڑوں کو بھی پاش پاش کر سکتی ہے۔ پنڈت نے اسے منع کیا تھا۔ اور اسے سوچنے کے لیے ایک رات کا وقت دیا تھا۔ پنڈت نے واضع کردیا تھا کہ وہ اگرچہ اپنا انتقام تو لےلیگی مگر یہ عمل اس کی زندگی برباد کرسکتا ہے۔
سرسوتی کو انتقام لینےسے غرض تھی۔
اسے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کہ اس کی زندگی برباد ہوتی ہے یا نہیں۔ اگلی صبح اس نے پنڈت کو اپنا ارادہ بتادیا تھا۔ اور اسی رات اس کا امتحان شروع ہوگیا تھا۔ وہ ساری رات آگ کے سامنے بیٹھی پنڈت کے بتاۓ الفاظ دہراتی رہی۔ تین بعد اسے جنگل میں ایک جگہ تنہا ساری رات گزارنا پڑی۔ دس دن بعد اس نے تین راتیں قریبی گاؤں کے ایک شمشان گھاٹ میں گزاریں۔
اس کے بعد ایک قبرستان میں پانچ راتیں گزار کر وہ جب واپس آئی تو پنڈت نے اسے اگلا حکم دیا کہ۔ دو دن بعد اسےکسی پرانی قبر میں تنہا رات گزارنا ہوگی۔ اور شرط یہ ہے کہ قبر بھی کسی عیسائی کی ہو۔ سرسوتی کی دو دن کی تلاش کے بعد اسے ایک ایسی قبر کا نشان مل ہی گیا۔ اور یہ قبر یادیو پنڈت نے ہی اسے بتائی تھی۔ مقررہ رات کو وہ ایک کدال سمیعت اس قبر کے سرہانے موجود تھی۔ اگرچہ پہلے بھی کئی بار اسے خوف محسوس ہوا تھا مگر یہ کام ان سب سے مشکل تھا۔
ایک انتہائی پرانی قبر کو کھود کر اس میں رات گزارنا دل گردے کا کام تھا۔
مگر سرسوتی اب پیچھے نہیں ہٹ سکتی تھی۔ انسان اگر انتقام لینے کے طریقوں پر غور کرتا رہے تو اس کا غصہ کبھی ماند نہیں پڑتا۔ اور وہ ہر خوف سے بےنیاز بھی ہوجاتا ہے۔ سرسوتی نے ادھر ادھر دیکھا۔ قبرستان شاید کچھ زیادہ ہی پرانا تھا۔ اور یہاں کسی کے آنے جانے کے آثار بھی نہیں لگ رہے تھے۔ ساری قبروں کا رخ مشرق کی طرف تھا۔ یہ پورا قبرستان عیسائیوں کا ہی تھا۔ قبریں زمین کے تقریباً برابر ہی تھیں۔
البتہ ان پر لگے اونچے اونچے کتبے ان کی نشاندہی کررہے تھے۔ وہ جس قبر کے پاس کھڑی تھی۔ اس کے صرف کتبے سے ہی لگ رہا تھا کہ یہاں بھی قبر ہے ورنہ قبر کا نام نشان مٹ چکا تھا۔ اس نے ہمت کی اور پہلا کدال قبر کی جگہ پہ مارا۔ ایک ساتھ کئی چیخیں بلند ہوئیں۔ کدال اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔گھبراکر اس نے چاروں طرف دیکھا۔ قبرستان کےازلی سناٹے میں کوئی الو چیخا تھا۔ سرسوتی نے ایک بار پھر ہمت کی اور کدال قبر پہ مارا۔
چیخیں پھر بلند ہوئی اور رات کے سناٹے کو چیرتی دور تک گئی تھیں۔
سرسوتی نے ہاتھ روک دیے۔ اور سہمے سے انداز میں چاروں طرف دیکھا۔ اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کدال مارنے سے بلند ہونے والی چیخیں کس کی ہیں۔؟؟؟ اسے یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ چیخیں ان شیطانی طاقتوں کی غلام روحوں کی ہیں جو سرسوتی کو اس عمل سے روکنا چاہتی ہیں۔ وہ نہیں چاہتیں کہ سرسوتی یہ عمل مکمل کرکے ان کو اپنے تابع کرلے۔ کدال ایک بار پھر چلایا گیا۔ چیخیں بلند ہوتی رہیں۔
مگروہ اپنے کام میں مگن رہی۔ رات کم ہوتی جارہی تھی۔وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کی آج کی رات ضائع ہو۔ چیخیں خود ہی ختم ہوگئی تھیں۔ سرسوتی قبر کی تہہ تک پہنچ گئی تھی۔ اس مشقت نے اسے تھکادیا تھا۔ وہ پسینے سے شرابور ہوگئی تھی۔مگر اس نے اپنے ہاتھ نہ روکے۔ قبر کی تہہ میں ریڑھ کی ہڈی اور ایک بوسیدہ سی کھوپڑی پڑی تھی۔ سرسوتی کے جسم میں سنسنی سی دوڑگئی۔ اس نے ان کو ایک طرف کیا اور قبر کے اندر اتر کر لیٹ گئی۔ وہ مٹی سے لتھڑی خود بھی اس وقت بھوت ہی لگ رہی تھی۔
لیٹ کر اس نے پنڈت کا بتایا عمل پڑھنا شروع کردیا۔
کچھ دیر تک کچھ بھی نہ ہوا۔ وہ کچھ پرسکون ہوگئی تھی۔ جب اچانک ہی کھلی قبر سے اس کی نظر ایک ساۓ پر پڑی۔ جو بتدریج بڑھتا جارہا تھا۔ اس کے بارے میں پنڈت نے اسے بتادیا تھا۔ اگر نہ بتایا ہوتا تو شاید وہ ڈر کر بھاگ نکلتی۔ اس نے آنکھیں بند کرلیں۔اور مسلسل پڑھتی رہی۔ سایہ بڑھتا جارہا تھا۔ پھر وہ سایہ قبر کے اوپر لیٹ گیا۔ سرسوتی کو لگا کسی نے اس پر منوں وزن ڈال دیا ہے۔
دھوئیں جیسے ساۓ کا اتنا وزن ناقابل یقین تھا۔ سرسوتی مسلسل بڑبڑاتی رہی۔ اس کا دم گھٹنے لگا تھا۔ سانس لینا مشکل ہورہا تھا۔اسے لگا اس کا آخری وقت آن پہنچا ہے۔ وہ اس عمل کے اثرات سے زندہ نہیں بچ پاۓ گی۔ اس نے لمبے لمبے سانس لیے۔اور پڑھتی رہی۔ سایہ اپنی جگہ موجود تھا۔ اور مزید بھاری ہوتا جارہا تھا۔ سرسوتی کو اب سانس لینا بھی دوبھر ہورہا تھا۔ وہ بمشکل عمل دہراتی رہی۔ وہ جانتی تھی اگر اس نے منتر پڑھنا بند کردیا تو یہ عمل واقعی اس کی زندگی کا آخری عمل ثابت ہوگا۔
اس نے ہمت نہ ہاری اور لگاتار پڑھتی رہی۔
عمل آخری مراحل میں تھا جب اچانک قبر کی ساری مٹی اس پر آگری۔اور وہ زندہ قبر میں دفن ہوگئی۔ اس نےاپنا پورا زور لگایا مگر قبر سے نہ نکل سکی۔ اس کی سانسیں بند ہونے لگیں۔ تب ایک ہاتھ قبر کے اندر آیا اور اسے ایسے باہر کھینچ لیا جیسے وہ ہلکی سی کوئی چیز ہو۔ باہر نکلتے ہی اس نے لمبا سا سانس لیا اور باہر کھینچنے والے کو دیکھنا چاہا۔ مگر وہاں کچھ بھی نہیں تھا۔ البتہ کچھ دور ایک بڑا سا سایہ واپس جاتا نظر آرہا تھا۔
سرسوتی کا عمل مکمل ہوگیا تھا۔ اسے قبر میں دفن کرنے اور نکالنے والا وہی سایہ تھا۔ جو قبر کے اوپر لیٹا تھا۔ اس نے چاہا تھا کہ سرسوتی اپنے عمل کو روک دے مگر ناکام رہا تھا۔ عمل مکمل ہونے پر اسے سرسوتی کی مدد کرنا پڑی تھی۔ سرسوتی نے کدال اٹھایا اور واپس جنگل کی طرف چل پڑی۔ صبح ہونے تک وہ جنگل میں اپنے ڈیرے پر پہنچ گئی تھی۔ پنڈت اسے مٹی سے لتھڑے حلیے میں دیکھ کر مسکرایا تھا۔ شاید اسے سرسوتی کے ایسے ہی حلیےکی توقع تھی۔
لگاتار چھ ماہ تک سرسوتی مختلف عمل کرتی رہی۔
اس کی لگن اسے ہر عمل میں کامیابی عطاکرتی رہی۔ پھر ایک دن پنڈت اسے لیکر تہہ خانے میں گیا۔ سرسوتی جب سے یہاں آئی اس نے پہلی بار یہ تہہ خانہ دیکھا تھا۔ تہہ خانہ ٹوٹے پھوٹے سے کمرے کے عقب میں تھا۔ اس کے اوپر پتھر کی سل اور گھاس پھوس پڑا تھا۔ پنڈت نے گھاس پھوس ہٹایا اور پھر پتھر کی سل ہٹائی تو سامنے زمین کے اندر سیڑیاں جاتی نظر آئیں۔ پنڈت اس کو لیکر نیچے ایک کمرے میں اتر گیا۔ کمرے ایک طرف دروازہ لگا ہوا تھا۔
پنڈت کے ساتھ وہ دروازے کے دوسری طرف گئی تو اس کے سامنے ایک گیلری آگئی۔ جس سامنے اور دائیں بائیں دوکمرے تھے۔ وہاں عجیب سی منحوسیت رچی ہوئی تھی۔ چھت مکڑی کے جالوں سے اٹی پڑی تھی۔ انہوں نے سب کمرے میں جھانک کر دیکھا۔ کمرے خالی تھے۔ پنڈت اسے ایک کمرے میں بٹھاکر اس کے گرد حصار کھینچ دیا۔ سرسوتی اس حصار میں بیٹھ کر پنڈت کے بتاۓ منتر دہرانے لگی۔ یہ سلسلہ لگاتار پانچ مہینے چلا۔ ان پانچ مہینوں میں وہ ہررات اس تہہ خانے میں بیٹھ کر عمل کرتی رہی۔
اس کو عمل کے دوران بہت کچھ دیکھنے کو ملا تھا۔
مگر وہ بےخوف ڈٹی رہی تھی۔ آج سرسوتی کی تہہ خانے میں آخری رات تھی۔ رات آدھی سے زیادہ بیت چکی تھی۔ سرسوتی آنکھیں بند کیے اپنے عمل میں مصروف تھی۔کہ اچانک اس کے کانوں میں اس کی بہن پاروتی کی آواز پڑی۔ سرسوتی نے چونک کر آنکھیں کھولیں۔ سامنے کا منظر دیکھ اس کا دل اچھل کر حلق میں آگیا تھا۔ اس سے کچھ فاصلے چار خوفناک شکل والے آدمیوں نے پاروتی کو دبوچ رکھا تھا۔
اور وہ خود کو چھڑانے کے لیے مچل رہی تھی۔ ساتھ ساتھ وہ سرسوتی کو بھی مدد کے بلارہی تھی۔ سرسوتی عمل بھول کر اسے دیکھے جارہی تھی۔ دیدی۔۔۔۔۔۔۔۔ سرسوتی نے پکارا اور اٹھ کھڑی ہوئی۔ اس نے حصار سے نکلنا چاہا عین اسی لمحے اسے پنڈت کے کہے الفاظ یاد آگئے۔ پنڈت نے کہا تھا کہ وہ کسی جھانسے میں نہ آۓ۔ چاہے کچھ بھی ہوجاۓ حصار سے باہر نہ نکلے۔ اس کے اٹھتے قدم رک گئے۔ وہ بیٹھ کر ایک بار پھر عمل میں مصروف ہوگئی۔
پاروتی اسے پکارتی واسطے دیتی رہی۔
کہ وہ اسے بچاۓ ۔مگر سرسوتی خاموشی سے عمل میں مصروف رہی۔ پھر ان خوفناک شکلوں والوں نے پاروتی کو نیچے گرایا۔ تین نے اس کو قابو کیا۔ اور ان میں سے ایک نے ایک بڑا سا خنجر نکال کر پاروتی کے گلے پر رکھ دیا۔ پاروتی نے بےبسی سے سرسوتی کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں بےپناہ دکھ اور افسوس تھا۔ پھر اس آدمی نے اس کے گلے پہ خنجر چلادیا۔ سرسوتی کا دل ایک بار پھر دہل گیا تھا۔ پاروتی کے گلے سے خون فوارے کی طرح نکلا ۔
سرسوتی تڑپ کر اٹھی۔ اس کے قدم اٹھانے سے پہلے ہی پاروتی دھواں بن کر تحلیل ہوگئی۔ سرسوتی سمجھ گئی کہ یہ سب نظروں کا دھوکا تھا۔ وہ اسے حصار سے باہر نکالنا چاہتے تھے۔ اور وہ ان کے دھوکے میں آنے سے بال بال بچی تھی۔ پھر اس کے بعد سرسوتی کے ماں باپ کو لایا گیا اور ان کو سرسوتی کے سامنے ذبح کیا گیا۔ مگر سرسوتی اب ان کے دھوکے میں آنے والی نہیں تھی۔ عمل آخری مراحل میں تھا۔ سرسوتی کے سامنے بیٹھی دس بارہ اس کی ہم شکل اس کو اپنے قریب بلارہی تھیں۔
مگر سرسوتی اپنے کام میں مصروف رہی۔
عمل مکمل ہوا تو وہ سب کھیل تماشہ بھی بند ہوگیا۔ اس کے بعد سرسوتی نے قریب خون کے پیالے کو اٹھایا ۔اور ہونٹوں سے لگا لیا۔اس پیالے میں ایک زندہ بھیڑیے کا خون تھا۔ جو پنڈت نے اسے لاکر دیا تھا۔ خون پیتے ہی سرسوتی پر ایک سحر سا طاری ہوگیا۔ اب اس نے دوسرا عمل کرنا تھا۔ اس عمل کے شروع کرتے ہی کمرے میں ہلکا ہلکا دھواں بھرنا شروع ہوگیا۔ عمل کے اختتام پر اس دھوئیں نے ایک بھیڑیے کی شکل اختیار کرلی۔
پھر وہ سرسوتی کی طرف بڑھا۔ اور اس کے جسم میں تحلیل ہوگیا۔ سرسوتی کے جسم کو ایک جھٹکا لگا۔ اور اس کے منہ سے بھیڑیے کی عجیب و غریب سی آواز نکلی۔ صبح پنڈت اسے لینے خود تہہ خانے میں آیا تھا۔ اور اسے مبارک باد دی تھی ۔کہ اس نے عمل اس کی سوچ سے کہیں پہلے کامیابی سے مکمل کرلیا ہے۔ ورنہ عام طور پہ اسے سیکھنے میں کم از کم دوسے اڑھائی سال لگتے ہیں۔ مگر سرسوتی کی ہمت جزبے اور لگن نے اسے وقت سے پہلے کامیاب کردیا تھا۔
ناول داسی قسط9
سرسوتی بھی بہت خوش تھی۔ اب اس نے دوتین چھوٹے موٹے عمل کرنے تھے۔ اس کے بعد وہ اپنا انتقام لےسکتی تھی۔ دوسرا عمل سات دن کا تھا۔جس میں سرسوتی نے قبرستان میں نظر آنے والے طویل ساۓ کو اپنے جسم میں تحلیل کرنا تھا۔جس ساۓ نے اسے زندہ دفنانے کی کوشش کی تھی۔مگر تب تک سرسوتی اپنا عمل مکمل کرچکی تھی۔ اسی نے پھر اسے قبر سے نکالا تھا۔ یہ سات راتیں سرسوتی نے اسی قبرستان میں ایک قبر میں گزاری تھیں۔
اور اس ساۓ کو اپنے بس میں کرلیا تھا۔ دوتین اور عمل کے بعد ایک دن پنڈت نے اسے اجازت دے دی۔کہ وہ جاسکتی ہے۔اور اپنا انتقام لےسکتی ہے۔ اس دن وہ بےحد خوش تھی۔ اسے اگلے دن اپنے گاؤں جانا تھا۔ اسے یہاں آۓ پندرہ مہینے ہوچکے تھے۔ ان پندرہ مہینوں میں اس نے ایک بار بھی اپنے گاؤں جانے کا نہیں سوچا تھا۔ اسے اپنے ماں باپ اور گھر یاد آتا تھا۔ مگر وہ ملنےنہیں گئی تھی۔ کل اسے اپنے گاؤں جانا تھا۔ وہ ساری رات خوشی سے جاگتی رہی۔ ا
س نے سوچا تھا۔کہ وہ آنے والی رات کو گاؤں جاۓگی۔اور سب سے پہلے وہ ٹھاکروں والےمندر جاۓ گی۔ کیونکہ ہر شُبھ (اچھے) کام کا آغاز وہ لوگ مندر سے کرنے کو نیک شگون مانتے ہیں۔ اسی لیے سرسوتی نے بھی سوچا تھا ۔ کہ وہ بھی اپنے اچھے کام کا آغاز مندر سے ہی کریگی۔ اشونت کے دلال مندر کے پجاری گوبندرلال سے اپنی دیدی پاروتی اور شاموں کا انتقام لیکر۔۔۔۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔
ناول داسی قسط9
ناول داسی قسط 10
میری اجازت کے بغیر کاپی پیسٹ کرنا سختی سے منع ہے۔۔۔
✭ نوٹ :- عمدہ قسم کے سبق آموز واقعات وحکایات کیلئے آج ہی ہمارا ٹیلی گرام چینل جوائن کریں۔
نوٹ :- ایسے ہی دل کو موہ لینے والے اور دل کو چھو لینے والے واقعات و حکایات پڑھنے کے لئے روز ویب سائٹ کا وزٹ کریں۔ اور اپنے دوست و احباب اور متعلقین کو بھی شیئر کریں تاکہ آپ کے ذریعے ان کا بھی فائدہ ہو ۔
اگلی قسط کل إن شاء الله
اپنی قیمتی راۓ سے آگاہ کیجیے گا۔
شکریہ
Leave a Comment