ناول داسی قسط8 – daasi novel

novel-dasi-part8 ناول داسی قسط8
Written by kahaniinurdu

ناول داسی قسط8

پندرہ ماہ پہلے سرسوتی گاؤں سے اچانک غائب ہوگئی تھی۔

وہ اچانک نہیں گئی تھی۔بلکہ اپنے ماتاپتا کو بتاکر گئی تھی۔ اس نے ان کو بہت مشکل سے راضی کیا تھا۔ اسے جس مہان جادوگر کی تلاش تھی۔ وہ اسے کچھ دور ایک گاؤں کے جنگل میں مل گیا تھا۔ اور سرسوتی کو اس کا پتہ بتانے والا کوئی اور نہیں شاموں کا باپ تھا۔ شاموں کے باپ کا ایک دوست اس جادوگر کو ایک دوبار مل چکا تھا۔ اسی نے بتایا تھا کہ وہ کالی شیطانی طاقتوں کا ماہر تھا۔

اور سرسوتی کو بھی ایسے ہی کسی پہنچے ہوۓ جادوگر کی تلاش تھی۔ پھر ایک دن وہ چپکے سے گاؤں سے نکلی اور جنگل میں جاپہنچی۔ اسے بتایا دیا گیا تھا کہ جادوگر یادیو پنڈت اسے جنگل گھنے حصے میں ملے گا جہاں دن کو بھی کوئی نہیں جاتا تھا۔ اس طرف درخت اور جنگلی جڑی بوٹیوں کی بہتات تھی۔ اس جگہ کی سب سے نمایا نشانی ایک چھوٹا سا پہاڑ تھا۔ واپسی کا راستہ مشکل سے ہی ملتا تھا۔ اس لیے اس طرف کوئی جاتا ہی نہیں تھا۔ وہ جنگل میں پہنچ تو گئی تھی۔مگر اسے راستے کی سمجھ نہیں آرہی تھی۔

اس نے کچھ دیر سوچا ۔اور پھر اندازے سے ایک طرف چل پڑی۔

ابھی دن کا ہی وقت تھا۔ سورج کی روشنی درختوں سے چھن چھن کر اندر آرہی تھی۔ کئی جگہ ایسی بھی آئی جہاں سورج کی روشنی نہیں پہنچ رہی تھی وہاں دن میں رات کا سماں تھا۔ یہ ایک چھوٹا سا جنگل تھا یہاں درندے نہیں تھے۔ ورنہ شاید اب تک سرسوتی کا ان سے سامنا ہوہی جاتا۔ البتہ چند بے ضرر جنگلی جانور ضرور تھے۔ جن میں خرگوش اور پہاڑی بکرے سرفہرست تھے۔ سانپ بھی اس جنگل میں بکثرت پاۓ جاتے تھے۔

جن کے بارے میں شاموں کے باپ نے سرسوتی کو بتادیا تھا۔اور ان سے محتاط رہنے کی تلقین بھی کی تھی۔ وہ بنا راستے کا تعین کیے چلتی جارہی تھی۔ اس کے سر پہ ایک بھوت سوار تھا۔ انتقام کا بھوت۔ عام حالات میں وہ کبھی آنے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔مگر محبت انسان کو بہادر بنادیتی ہے۔ ایسے ہی انتقام میں بھی انسان عقل سے اندھا ہوجاتا ہے۔اور بےوقوف انسان بہادر ہی ہوتا ہے۔ یا پھر بہادر بےوقوف ہوتا ہے۔ محبت اور انتقام نے سچ میں ایک نرم نازک بزدل سی لڑکی کو بہادر بنادیا تھا۔

یہ اس کا اپنی بہن اور اپنے محبوب سے محبت کا ہی ثبوت تھا۔

کہ ان کا انتقام لینے کا ارادہ باندھ کر وہ اس وقت بے خوف و خطر تنہا جنگل میں چلی جارہی تھی۔ وہ اپنی سوچوں میں مگن تھی۔ جب اچانک اسے پھنکار نے رکنے پر مجبور کردیا۔ ایک مٹیالے رنگ کا ناگ چند قدم کے فاصلے پرعین اس کے سامنے تن کر کھڑا تھا۔ اگر سانپ پھنکارتا نہیں تو وہ شاید بےخیالی میں اس پر چڑھ جاتی۔ جس کا نتیجہ دونوں میں سے کسی ایک کی موت ہوسکتا تھا۔ سرسوتی ٹھٹک کر رکی تھی۔ سانپ کو دیکھ ایک بار تو اس کے جسم میں سنسنی سی دوڑ گئی ۔

مگر وہ بھاگی نہیں۔ ناگ کوئی پانچ فٹ لمبا ہوگا۔ ایک فٹ وہ زمین سے اوپر اٹھا ہوا تھا۔ یہ کنگ کوبرا تھا جو اس جنگل میں عام پایا جاتا تھا۔ کہتے ہیں اس کا ڈسا انسان سچ میں پانی نہیں مانگتا۔اور چند ہی لمحوں میں ختم ہوجاتا ہے۔ سانپ سرسوتی کو گھوررہا تھا۔ شاید اس کو اس لڑکی کا یہاں آنا پسند نہیں آیا تھا۔ سرسوتی نے سانپ سے نظر نہیں ہٹائی۔ اور نامعلوم سے انداز میں پیچھے ہٹنے لگی۔ ناگ کو شاید اس کے ارادے کا علم ہوگیا تھا۔ اس نے ایک بار پھر پھنکار کر اپنی موجودگی کا یقین دلایا۔ اور وہیں کھڑا اسے گھورتا رہا۔

سرسوتی آہستہ سے پیچھے ہٹتی رہی۔

اور پھر اس نے اچانک ہی دوڑ لگادی۔ اس نے پیچھے مڑکر دیکھنے کی زحمت نہیں کی تھی۔کہ سانپ اس کے پیچھے آرہا ہے یانہیں؟؟؟ وہ مسلسل دوڑتی رہی۔ جب اسے یقین ہوگیا کہ وہ اب محفوظ ہے تو اس نے قدم روک لیے۔ اس نے سوچا سیدھا جانے کی بجاۓ وہ گھوم کر پھر اسی راستے پر آجاۓگی۔ اس نے سانپ والے راستے کو چھوڑ کر داہنی طرف چلنا شروع کردیا۔ اب وہ ہر قدم دھیان سے رکھ رہی تھی۔ چلتے چلتے اسے بہت دیر ہوگئی تھی۔ جب اچانک ہی وہ ایک کھلے سے میدان میں نکل آئی۔

میدان درختوں سے عاری اور گھاس سے بھرا ہوا تھا۔ وہ میدان میں نکلی تو اس کی نظر سامنے ایک پہاڑ پر پڑھی۔ اس نے اپنے قدم تیز کردیے۔ اسے منزل قریب نظر آرہی تھی۔وہ چلتی رہی اور پہاڑ دور ہوتا رہا۔ دور سے دیکھنے پر پہاڑ قریب لگ رہا تھا۔مگر چلنے پر پتہ چلا کہ وہ اتنا قریب بھی نہیں تھا جتنا نظر آرہا تھا۔ اسے اب بھوک اور پیاس کا احساس بھی ہونے لگا تھا۔ مگر وہ رکی نہیں چلتی رہی۔ وہ جیسے جیسے پیاڑ کے قریب ہوتی جارہی تھی۔اسے پہاڑ کے دوسری طرف ایک پتلی سی لکیر نظر آنے لگی تھی۔

مگر وہ جان نہ پائی کہ یہ لکیر سی کیا ہے؟؟

آخرکار وہ پہاڑ کے قریب پہنچ گئی۔ وہاں واقعی درختوں کی بہتات تھی۔ وہ پہاڑ کے بلکل قریب پہنچی تو اسے ہوا میں پرندوں کے پھڑپھڑانے کی آواز آئی۔ سرسوتی نے چونک کر آسمان کی دیکھا۔مگر آسمان پہ ایک بھی پرندہ نہیں تھا۔ پروں کی آواز مسلسل آرہی تھی۔ وہ پہاڑ پر چڑھ گئی۔ اس نے دوسری طرف دیکھا تو اس کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی۔ پہاڑ کے دوسری طرف ٹوٹی پھوٹی سی ایک عمارت نظر آرہی تھی۔ غور سے دیکھنے پر لگتا تھا کہ کسی پرانے مندر کی عمارت ہے۔

اچانک ہوا میں کسی کے رونےکی آوازیں گھونجنے لگیں۔ یوں محسوس ہورہا تھا جیسے بہت سی روحیں مل کر ہلکی آواز میں بین کررہی ہوں۔ سرسوتی کو خوف محسوس ہوا۔ پہلی بار وہ سانپ کو دیکھ کر کچھ خوفزدہ ہوئی تھی۔ وہ جان گئی تھی کہ وہ کسی ان دیکھے شہر طلسم میں قدم رکھ چکی ہے۔ اچانک کسی پرندے کے چیخنے کی آواز نے اس کے خیالات کو توڑدیا۔ وہ چونکی اور پہاڑ کے دوسری طرف اتر گئی۔ اور چلتے چلتے اس کھنڈر سی عمارت کے قریب پہنچ گئی۔ سامنے میدان میں دھونی سلگ رہی تھی۔

جس سے دھوئیں کی باریک سی لکیر آسمان کی طرف جارہی تھی۔

یوں محسوس ہوتا تھا جیسے آسمان سے کوئی رسی لٹک رہی ہو۔ یہی وہ لکیر سی تھی جو سرسوتی نے دور سے دیکھی تھی۔ اور سمجھ نہیں پائی تھی کہ کیا ہے؟؟؟ سرسوتی نے گھوم پھر کر ادھر ادھر دیکھا مگر اسے وہاں کسی ذی روح کے وجود کا احساس نہ ہوا۔ البتہ سلگتی ہوئی دھونی وہاں کسی انسان کے ہونے کا پتہ دےرہی تھی۔ سرسوتی دھونی کے قریب بیٹھ کر کسی کے آنے کا انتظار کرنے لگی۔ اسے وہاں بیٹھے بہت دیر ہوگئی تھی۔

اور ابھی تک کوئی وہاں نہیں آیا تھا۔ سرسوتی کو یقین تھا کہ یہ جگہ یادیوپنڈت کی ہی ہے۔ اس لیے اسے امید تھی کہ وہ بھی یہیں کہیں آس پاس ہوگا۔ اسے بیٹھے چار پانچ گھنٹے ہوگئے تھے۔ جب اچانک کسی نے اس کے عقب سے آ کر بارعب آواز میں پوچھا تھا۔ چھوکری کون ہے تو؟؟؟ وہ یکدم پلٹی۔ اس کے سامنے ستر اسی سال کی عمر کا لمبی داڑھی اور لمبے لمبے بالوں والا ایک شخص کھڑا سرخ آنکھوں سے اسے گھوررہا تھا۔ اس نے گلے میں بڑے بڑے منکوں والی دوتین مالائیں پہن رکھی تھیں۔

رنگت سیاہ تھی۔داڑھی اور سر کے بال برف کی طرح سفید تھے۔

ان میں کہیں کوئی ایک آدھ بال بھی سیاہ نہیں تھا۔ کون ہے تو؟؟؟؟؟ اور یہاں کیوں آئی؟؟؟ اس نے ایک بار پھر پوچھا۔ مم مم میں سرسوتی ہوں۔ سرسوتی نے اٹک اٹک کر کہا۔ شاید یہ اس کی شخصیت کا رعب تھا۔ مم میں آپ سے جادو سیکھنے آئی ہوں۔ سرسوتی نے اس کے دوسرے سوال کا جواب بھی دےدیا۔ ہاہاہاہاہا۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کا قہقہہ بلند ہوا۔ جادو سیکھنے آئی ہے۔ تیری عمر نہیں ہے جادو سیکھنے کی۔

تیری عمر ابھی گڑیوں سے کھیلنے کی ہے۔ مایا جادو سے نہیں ۔ ساتھ ہی اس نے سرسوتی کا مذاق اڑایا۔ جہاں سے آئی ہے واپس چلی جا۔ تیرے بس کی بات نہیں یہ۔ بہت آۓ یہاں جادو سیکھنے مگر دوچار دن میں ہی ان کا شوق پورا ہوگیا۔ ایسے گئے کہ پھر پلٹ کر دیکھا بھی نہیں۔ جاچلی جا ۔کسی اور سے سیکھ جاکے۔ اس کی ایک تکرار تھی بس۔ بابا۔۔۔۔۔۔سرسوتی نے التجائیہ سے انداز میں کہا۔ بابا ۔۔۔میں ان لوگوں میں سے نہیں جو بھاگ گئے تھے۔ میں جادو سیکھ کر جاؤنگی۔چاہے میری جان ہی کیوں نہ چلی جاۓ۔

ورنہ میں یہیں اپنی جان دےدونگی۔

سرسوتی کے لہجے میں ضرور کچھ ایسا تھا۔کہ یادیوپنڈت نے چونک کر اسے دیکھا تھا۔ شاید یہ سرسوتی کے انتقام لینے کا عزم تھا۔ یادیو نے مزید کچھ نہ کہا اور ایک طرف چلا گیا۔ کچھ دیر بعد وہ پلٹا تو اس کے ہاتھ میں کچھ جنگلی پھل اور پانی کا پیالہ تھا۔ اس نے وہ چیزیں سرسوتی کو دیں۔ اور کہا۔ یہ لو کھاؤ پیو۔اور صبح ہوتے ہی یہاں سے چلی جانا۔ اب رات ہوچلی ہے۔ورنہ میں ابھی تمہیں بھیج دیتا۔ سرسوتی اس کا منہ دیکھتی رہ گئی۔ وہ تو سمجھ رہی تھی کہ شاید بابا نے اسے اپنی شاگردی میں قبول کرلیا ہے۔

سرسوتی نے بنا کچھ بولے پھل اور پانی کا پیالہ لےلیا۔ ویسے بھی اسے بھوک پیاس تو لگ ہی رہی تھی۔ رات ہوتے ہی یادیوپنڈت نے آگ جلائی اور آلتی پالتی مار کر آنکھیں بند کرکے اس کے قریب بیٹھ گیا۔ سرسوتی غور سے اسے دیکھ رہی تھی۔ وہ منہ میں کچھ پڑھ رہا تھا۔ شاید کوئی عمل کررہا تھا۔ وہ لگاتار تین گھنٹے ایک پوزیشن میں بیٹھا کچھ پڑھتا رہا۔ اس دوران اس نے ایک بار بھی نہ آنکھیں کھولی تھیں۔اور نہ ہی حرکت کی تھی۔ سرسوتی کو نیند آنے لگ گئی تھی۔ وہ اٹھ کر ایک ٹوٹے سے کمرے میں آگئی۔

اس میں خشک گھاس پڑا تھا۔ وہ ایک پرانی سی چادر لیکر اسی گھاس پر لیٹ گئی۔

ابھی اس کی آنکھ لگی ہی تھی۔کہ اسے کمرے سے باہرقریب ہی ایک انسانی چیخ سنائی دی۔ وہ ڈر کر اٹھی اور سہم کر ایک طرف ہوکر بیٹھ گئی۔ چیخ دوبارہ ابھری۔ وہ مزید سہم گئی۔اسے لگا بابا ٹھیک کہ رہا تھا۔ جادو سیکھنا اس کے بس کی بات نہیں۔ یہاں رہنا بھی اسے مشکل لگ رہا تھا۔ سرسوتی نے سوچا صبح وہ یہاں سے چلی جاۓ گی۔ اس نے ڈرتے ڈرتے ہمت کرکے باہر جھانکا۔ باہر کا منظردیکھ کر اس کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔

یادیوپنڈت اسی طرح بیٹھا تھا۔اور اس کے اردگرد کئی ڈھانچے اچھل کود کررہے تھے۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے وہ ڈھانچے کسی تکلیف میں ہیں۔ بہت دیر یہی کھیل رہا پھر ایک ایک کر کے آگ میں کودتے چلے گئے۔ اچانک ہی یادیو پنڈت نے مڑکر سرسوتی کو دیکھا تھا۔ سرسوتی اس کی لال انگارہ آنکھیں دیکھ کر سہم کر پیچھے ہٹی اور اسی جگہ آکر لیٹ گئی۔ اس نے چادر اچھی طرح لپیٹ لی تھی۔ پتہ نہیں کس وقت اس کی آنکھ لگی تھی۔ صبح وہ خود ہی جاگی تھی۔ پہلے تو اسے سمجھ نہ آیا کہ وہ کہاں ہے۔

پھر دیواروں پہ نظر پڑی تو اسے سب یاد آگیا۔

اس نے ایک انگڑائی لی۔ اور اٹھ کر باہر آگئی۔یادیوپنڈت اسے نظر نہیں آیا۔ البتہ دھونی جل رہی تھی۔ اس نے پانی کا گھڑا تلاش کیا اور اس سے ایک پیالے میں پانی لیکر منہ دھویا۔ اور پھر سلگتی دھونی کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر پوجا میں مصروف ہوگئی۔ جیسے اس نے آنکھیں بند کیں۔ اسے لگا دھونی سے کوئی چیز نکل کر اس کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اس نے گھبراکر آنکھیں کھول دیں۔ مگر وہاں کچھ نہیں تھا۔ یہ اس کا وہم تھا۔

شاید رات کا دیکھا منظر ابھی تک اس کے ذہن کے کسی گوشے میں موجود تھا۔ اس نے پھر آنکھیں بند کیں۔اس بار بھی یہی ہم ہوا اس نے آنکھیں کھول کر دھونی کی طرف دیکھا۔ دھواں اپنے مخصوص سے انداز میں لکیر کی صورت آسمان کی طرف بلند تھا۔ وہ آنکھیں بند کرتی تو اسے لگتا کوئی اس کی طرف بڑھ رہا ہے۔ آنکھیں کھولنے پر کچھ بھی نہ ہوتا۔ اس نے ہمت کی اور سختی سے آنکھیں بند کرکے بیٹھی رہی۔ دل ہی دل میں وہ گھبرا رہی تھی۔مگر اس نے آنکھیں نہیں کھولی۔ وہم اپنے آپ ختم ہوگیا۔

بہت دیروہ یونہی بیٹھی رہی اور پھر یادیو پنڈت کی آواز پر اس نے آنکھیں کھول کر دیکھا۔

یادیو پنڈت جانے کب وہاں آیا تھا۔ سرسوتی کو اس کے آنے کی خبر نہیں ہوئی تھی۔ وہ اس سے پوچھ رہا تھا کہ وہ ابھی تک گئی کیوں نہیں؟؟؟ سرسوتی نے ایک بار پھر اس سے التجا کی تھی کہ وہ اسے ایک بار موقع دے۔ وہ ثابت کردیگی کہ وہ دوسرے لوگوں جیسی نہیں ہے۔جو یہاں سے بھاگ گئے تھے۔ آپ اگر مجھے جادو نہیں بھی سکھائیں گے تب بھی میں یہاں سے کہیں نہیں جاؤنگی۔ ساری عمر داسی بن کر آپ کی خدمت کرتی رہونگی۔

کبھی تو آپ کو مجھ پر رحم آۓگا۔ رات ڈھانچوں والے واقعہ کا ذکر نہ سرسوتی نے کیا تھا۔اور نہ ہی پنڈت یادیو نے اسے کچھ پوچھا تھا۔ یادیو اپنے کام میں مصروف ہوگیا۔ سرسوتی نے گھڑا اٹھایا۔ اور سوالیہ نظروں سے یادیو کی طرف دیکھا۔ یادیو نے اس کی نظروں کا مطلب سمجھ کر ایک طرف اشارہ کردیا۔ وہ گھڑا اٹھاۓ یادیو کی بتائی جگہ کی طرف چل پڑی۔ کچھ دور جاکر اسے ایک چھوٹی سی جھیل نظر آئی۔ پانی صاف ستھرا تھا۔ سرسوتی نے گھڑا بھرا اور لیکر واپس پلٹی۔ ابھی اس نے چند قدم ہی اٹھاۓ تھے۔

کہ ایک طرف سے دھوئیں کا ایک بگولہ چیخ نما آواز سے اس کی طرف لپکا۔

سرسوتی خوف سے وہیں جم گئی ۔ اور آنکھیں پھاڑے اس بگولے کو دیکھنے لگی۔ اسے بھاگنا بھی یاد نہیں رہا تھا۔ بگولہ چیختا چنگھاڑتا سرسوتی کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اور وہ بت بنی اسے دیکھے جارہی تھی۔ بگولہ اس سے چند قدم دور رہ گیا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ سرسوتی کو اپنی لپیٹ میں لیتا۔ اچانک ہی کئی کھوپڑیوں کی دیوار اس کے سامنے تن گئی۔ بگولہ کھوپڑیوں سے ٹکرایا۔ اور پھر پلٹ کر دوسری سمت چلا گیا۔ سرسوتی کے جسم کو جھٹکا سا لگا۔

اس نے چونک کر اپنے چاروں طرف دیکھا۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے وہ کسی خواب سے جاگی ہو۔ وہاں اب کچھ نہیں تھا۔ کھوپڑیاں بھی غائب ہوگئی تھیں۔ اس نے تیز تیز قدم اٹھاۓ اور ہانپتی کانپتی یادیو کے ڈیرے پہ پہنچ گئی۔ یادیو نے اسے دیکھا اور ہلکا سا مسکرایا۔ شاید وہ کچھ دیر پہلے ہونے والے واقعہ سے باخبر تھا۔ اور یہ سچ بھی تھا۔کھوپڑیوں کی دیوار اسی نے بنائی تھی۔ اور دھوئیں کا وہ بگولہ یادیو پنڈت کے سب سے بڑے دشمن پنڈت نے بھیجا تھا۔ دونوں شیطانی طاقتوں کے آلہ کار اور پجاری تھے۔

روہت پجاری صرف اس لیے یادیو پنڈت کا دشمن تھا کہ یادیو پنڈت اس سے کہیں زیادہ علم رکھتا تھا۔

 اور اس سے کہیں زیادہ بڑا جادوگر تھا۔ یہ دشمنی صرف حسد کی وجہ سے تھی۔ اور کچھ نہیں تھا۔ وہ اکثر یادیو پہ ایسے چھوٹے موٹے وار کرتا رہتا تھا۔مگر آج تک یادیو پنڈت کا کچھ نہیں بگاڑ پایا تھا۔ اسے یایو پنڈت کے ہاں ایک لڑکی کے آنے کی اطلاع مل چکی تھی۔ اور جیسے ہی سرسوتی نے یادیو پنڈت کے بناۓ حصار سے باہر قدم رکھا تھا اس پر حملہ ہوگیا تھا۔

یہ حملہ صرف اس لیے کیا گیا تھا کہ سرسوتی کو نقصان پہنچاکر اودھے پنڈت یادیو پہ اپنی برتری ثابت کرنا چاہتا تھا۔ مگر یادیو بے خبر نہیں تھا۔ اس نے فوراً اس کا توڑ کردیا تھا۔ پہلے بھی یہاں کچھ لوگ جادو سیکھنے کی غرض سے آۓ تھے۔مگر کچھ تو ایک رات میں ہی یادیو کو عمل کرتے دیکھ کر بھاگ گئے تھے یا پھر اودھے پنڈت نے انہیں ڈراکر بھاگنے پر مجبور کردیا تھا۔ مگر سرسوتی کی بات اور تھی۔ وہ یہاں سے ناکام واپس جانے کے لیے نہیں آئی تھی۔ سرسوتی نے گھڑا زمین پر رکھا اور ایک جگہ بیٹھ گئی۔

اس نے یادیو پنڈت سے کچھ دیر پہلے ہونے والے واقعےکا ذکر نہیں کیا تھا۔

کچھ دیر بعد یادیو نے خود ہی اس سے پوچھ لیا تھا۔ کہ جھیل پہ کیا ہوا تھا؟؟؟ اور وہ اب بھی یہاں رہنا چاہتی ہے یا نہیں؟؟؟ سرسوتی کا وہی جواب تھا۔کہ وہ یہاں سے نہیں جاۓ گی چاہے کچھ بھی ہوجاۓ۔ اس نازک سی لڑکی کے پہاڑ جیسے ارادے نے یادیو کو سوچنے پر مجبور کردیا تھا۔ رات ہوگئی تو پھر وہی پچھلی رات والا کھیل شروع ہوا۔ سرسوتی اب بےخوف ہوکر سب دیکھتی رہی ۔ اور یادیو آگ کے سامنے بیٹھا اپنے عمل میں مصروف رہا۔

اگلی صبح سرسوتی کے لیے ایک خوشخبری لیکر طلوع ہوئی تھی۔ یادیو پنڈت نے اسے بطور شاگرد قبول کرلیا تھا۔ وہ خوشی سے روپڑی تھی۔ یادیو نے اس سے پہلا سوال کیا تھا کہ وہ اتنی سی عمر میں طلسم کی خوفناک دنیا کی باسی کیوں بننا چاہتی ہےـ؟؟؟ جواب میں سرسوتی نے اسے سب سچ سچ بتادیا تھا۔ اور یہ بھی کہ وہ اپنی پیاری بہن اور محبوب کے انتقام کے لیے سب کچھ تیاگ کر آئی ہے۔ سرسوتی کی آنکھوں میں نمی تھی۔ یادیو پنڈت نے پیار سے اس کے سر پہ ہاتھ رکھا۔ اور بولا ۔۔۔۔۔ آج سے تم میری بیٹیا ہو۔

ناول داسی قسط8

سرسوتی نے چونک کر پنڈت کو دیکھا۔ اور پھر عقیدت سے اس کا ہاتھ چوم لیا۔ وہ خوشی سے نہال ہوگئی تھی۔ اگر تم کہو تو میں تمہارا انتقام لے سکتا ہوں ۔ اتنی شکتی ہے مجھ میں ۔پنڈت نے سرسوتی کو آفر کی۔ نہیں گروجی۔سرسوتی نے نفی میں سرہلایا۔ میں اپنا انتقام خود اپنے ہاتھوں سے لینا چاہتی ہوں۔ تب ہی میری آتما کو شانتی ملے گی۔ آپ مجھ پہ کرپا کرکے مجھے اس قابل بنادیں کہ میں اپنی دیدی اور شاموں کا انتقام لےسکوں۔ میں تمیں ضرور سکھاؤنگا بیٹیا۔ پنڈت بولا۔ تم نے انتقام کے لیے سیکھنا ہے۔

اور میں نے بھی یہ سب انتقام کے لیے ہی سیکھا تھا۔ انتقام کے لیے سیکھا تھا آپ نے بھی؟؟؟ سرسوتی نے حیرت سے پنڈت سے پوچھا تھا۔ ہاں ۔۔۔۔۔انتقام کےلیے۔ پنڈت کچھ سوچتے ہوۓ بولا۔ اپنی بیٹی کے انتقام کے لیے۔ میری بیٹی بھی بلکل تیری طرح تھی۔ بھولی اور سندر۔۔۔۔۔۔۔ پنڈت کسی گہری سوچ میں گم بولے جارہا تھا۔ آآپ کی بیٹیا کو کیا ہوا تھا؟؟؟ سرسوتی کے سوال پر پنڈت نے اسے خالی سی نظروں سے دیکھا تھا۔ پنڈت کی آنکھوں میں دکھ کی پرچھائیاں ہلکورے لے رہی تھیں۔

گروجی بتائیں نا مجھے۔ سرسوتی نے تجسس سے کہا تھا۔ میں نےاس کا نام راجکماری رکھا تھا۔ اور اسے پالا بھی کسی راج کماری کی طرح تھا۔ پنڈت آہستہ آہستہ سرسوتی کو بتارہا تھا۔ وہ جب جوان ہوئی تو میرے دل میں خوف بیٹھ گیا تھا۔ وہ تھی ہی ایسی کہ دیکھنے والے کی نظر ٹہر جاتی تھی۔ بہت سندر تھی۔۔۔۔۔۔۔ اتی سندر اور پھر ایک دن وہ غائب ہوگئی۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔

اگلی قسط کل إن شاء الله

سٹوری کے بارے میں آپ کی راۓ میرے لیے بہت اہم ہوتی ہے اپنی راۓ سے ضرور آگاہ کیا کریں۔۔۔

ناول داسی قسط 9

میری اجازت کے بغیر کاپی پیسٹ کرنا سختی سے منع ہے۔۔۔  

✭ نوٹ :- عمدہ قسم کے سبق آموز واقعات وحکایات کیلئے آج ہی ہمارا ٹیلی گرام چینل جوائن کریں۔

 نوٹ :- ایسے ہی دل کو موہ لینے والے اور دل کو چھو لینے والے واقعات و حکایات پڑھنے کے لئے روز ویب سائٹ کا وزٹ کریں۔ اور اپنے دوست و احباب اور متعلقین کو بھی شیئر کریں تاکہ آپ کے ذریعے ان کا بھی فائدہ ہو ۔

 

novel-dasi-part4 ناول داسی قسط 4

شکریہ?

Leave a Comment