ناول داسی قسط 7
سرسوتی جس دن ان کو چکر دیکر غائب ہوئی تھی۔
اسی دن سے پنڈت اور ٹھاکر انتقام کی آگ میں جل رہے تھے۔ انکو پتہ چل گیا تھا کہ سرسوتی اپنے گھر پہنچ گئی ہے۔ پنڈت کو کچھ زیادہ ہی تکلیف تھی کیونکہ اس کو ٹھاکر سے انعام کی بجاۓ گالیاں ملی تھیں۔ اور پھر سرسوتی کے ساتھ وقت گزارنے کا اس کا خواب بھی چکنا چور ہوگیا تھا۔ انہوں نے سوچ لیا تھا کہ وہ لوگ سرسوتی کو ان کے ارمان توڑنے کی سزا ضرور دینگے۔ کچھ دن کے لیےدانستہ وہ لوگ سرسوتی کو بھول گئے تھے۔
تاکہ سرسوتی اور اس کے گھر والے بےفکر ہوجائیں۔ ایک ماہ کا عرصہ انہوں نے جیسے تیسے گزارا تھا۔ اور پھر ٹھاکر نے اپنے دو خاص آدمیوں کی ڈیوٹی لگادی تھی۔کہ وہ سرسوتی پہ نظر رکھیں اور جس دن ان کو موقع ملے اس کو اٹھالائیں۔ کچھ دن سے وہ آدمی سرسوتی کے گھر پہ نظر رکھے ہوۓ تھے۔ ایک دن ان کو موقع ملا تھا۔ مگر عین وقت ایک لڑکا آگیا تھا۔ وہ لڑکا شاید سرسوتی کا کچھ لگتا تھا۔ وہ دونوں کچھ دیر کھڑے باتیں کرتے رہے اور پھر سرسوتی واپس گھر چلی گئی۔
انہوں نے ہمت نہیں ہاری تھی۔ وہ مسلسل موقع کی تلاش میں تھے۔
اور وہ موقع جلد ہی ان کو مل گیا تھا۔ جب سرسوتی کسی کے گھر گئی تھی۔ اور اسے وہاں شام ہوگئی تھی۔ وہ جب اس گھر سے نکلی تو راستے میں ان کو موقع مل گیا۔ انہوں نے ایک بوری اس پہ ڈالی اور اسے کندھے پہ اٹھاکے قریبی کھیتوں میں اتر گئے۔ کھیتوں میں جانے سے انکو دیکھ لیے جانے کا بھی ڈر نہیں تھا۔ وہ کھیتوں کے بیچ و بیچ مندر کی طرف جانے لگے۔ ان کو یہی کہا گیا تھا کہ وہ لڑکی اٹھاکر مندر پہنچادیں۔
وہ لوگ یہ نہیں جانتے تھے۔کہ وہ سرسوتی کی بجاۓ پاروتی کو اٹھالاۓ ہیں۔ نہ وہ جان سکتے تھے۔کیونکہ دونوں ایک جیسی ہی تھیں۔ ان کے کندھے پہ پاروتی تھی۔ پاروتی نے بہت ہاتھ پاؤں مارے چلانے اور خود کو چھڑانے کی کوشش کی مگر ناکام رہی۔ کھیتوں میں لیجا کر انہوں نے اس کے ہاتھ پاؤں باندھے۔ اور پھر کاندھے پہ ڈال کے چل پڑے۔ مندر وہ پچھلے دروازے سے داخل ہوۓ تھے۔ اس دروازے سے دن میں بھی کوئی نہیں آتاجاتا تھا۔ اس وقت تو رات تھی۔
وہ سیدھا پنڈت کے کمرے میں پہنچے۔ پنڈت انکو لیکر تہہ خانے کی سیڑیاں اتر گیا۔
انہوں نے اسے وہاں پھینکا اور اس کے سر سے بوری اتاردی۔ پنڈت اسے دیکھ کر خباثت سے مسکرایا۔ پنڈت بھی نہیں جانتا تھا کہ یہ سرسوتی نہیں پاروتی ہے۔مگر ان کو اس سے غرض نہیں تھی۔ ان کو نیلی آنکھوں والی داسی چاہیے تھی۔ جس کے حسین جسم سے کھیل کر وہ اپنی ہوس کی پیاس بجھاسکتے۔ اور نیلی آنکھوں والی ان کو مل گئی تھی۔ پنڈت کے اشارے پر انہوں نے اس کا منہ کھول دیا۔
منہ کھلتے ہی پاروتی نے لمبے لمبے سانس لیے۔ اور پھر نفرت و غصے سے گھور کر پنڈت کو دیکھا۔ تمہیں کہا تھا نا لڑکی۔۔۔۔۔۔ پنڈت پاروتی سے مخاطب تھا۔ کہ تم اگر ٹھاکر کو انکار کروگی تو اس کا انجام بہت برا ہوگا۔ دیکھ لو تم پھر واپس آگئی ہوکہ نہیں؟؟؟ اس وقت تو تم بھاگ گئی تھی۔مگر اب تم یہاں سے زندہ نہیں جاسکوگی۔ پنڈت بکے جارہا تھا۔اور پاروتی چپ چاپ اسے دیکھے جارہی تھی۔ اتنا تو وہ جان گئی تھی کہ وہ اپنی بہن کی جگہ اس وقت موجود ہے۔ یہ لوگ سرسوتی کو اٹھانے گئے تھے۔
اور سرسوتی کے دھوکے میں پاروتی کو اٹھالاۓ تھے۔
پنڈت نے بھی اسے نہیں پہچانا تھا۔ سرسوتی نے اسے پنڈت کے بارے میں بتایا تھا۔کہ ٹھاکر کا اصل دلال پنڈت ہی ہے۔ پاروتی نے بتانا ضروری نہیں سمجھا تھا۔ کہ وہ سرسوتی نہیں بلکہ اس کی جڑواں بہن پاروتی ہے۔ وہ مطمئن تھی کہ اس کی بہن بچ گئی ہے۔ اپنی بہن کے لیے وہ ہرطرح کی قربانی دینے کو تیار تھی۔ دوسرے دن ایک بےہوش لڑکے کو لاکر اس کے کمرے میں ڈال دیا گیا۔
اس نے اس کا چہرہ دیکھا۔اور چونک گئی شاموں۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!!!!!!! بےساختہ اس کے منہ سے نکلا تھا۔ شاموں کی حالت بہت بری تھی۔ شاید اس پہ بہت تشدد کیا گیا تھا۔ پاروتی نے گھڑے سے پانی کا پیالہ بھرا اور شاموں کے قریب آکر اس کے ہونٹوں پہ قطرہ قطرہ ٹپکانے لگی۔ کچھ دیر بعد شاموں نے کراہ کر آنکھیں کھول دیں۔ اس نے پلکیں جھپکاکر پاروتی کو دیکھا۔ پہلے تو اس کی آنکھوں میں شناسائی کی چمک ابھری اور پھرحیرت کی۔ اس نے اٹھنے کی کوشش کی ۔
مگر اس میں اتنی طاقت ہی نہیں تھی۔
کہ اٹھ سکتا۔ پپ پپ پاااااررررتت تی
شاموں کے منہ سے ٹکڑوں میں اس کا نام نکلا تھا۔ شاموں شاموں ہاں میں پاروتی ہوں۔ پاروتی نے روتے ہوۓ کہا۔ آہستہ آہستہ شاموں نے اسے جو کچھ بتایا۔ پاروتی کو یہ سمجھ آئی کہ پاروتی کے گم ہونے کے بعد وہ سمجھ گیا تھا کہ یہ کس کا کام ہے۔؟؟؟ آج صبح وہ پنڈت کو مارنے آیا تھا۔ اور اس سے پوچھنے کہ پاروتی کہاں ہے۔مگر پہلے تو لوگوں نے اسے مندر میں ہی داخل نہ ہونے دیا۔
کیونکہ وہ اچھوت تھا۔ جب وہ بھاگ کر مندر میں داخل ہوا۔ اور پنڈت تک پہنچنے کی کوشش کی تو پکڑلیا گیا۔ جو آدمی پاروتی کو اٹھاکر لاۓ تھے۔ وہ ابھی مندر میں ہی تھے۔ اور اس کے علاوہ تین آدمی ٹھاکر نے مزید بھیج دیے تھے۔ انہوں نے پنڈت کے کہنے پر شاموں پہ بےپناہ تشدد کیا تھا۔ شام تک کوئی نہ آیا۔شام کو وہ لوگ آۓ اور شاموں کو اٹھا کر لے گئے۔ پاروتی روتی چلاتی رہی مگر انہوں نے اس کی ایک نہ سنی اور شاموں کو لیکر چلے گئے۔
پھر اس کے بعد شاموں کا کبھی پتہ نہ چلا۔
پاروتی کو مندر میں آج تیسری رات تھی۔ آدھی رات کے قریب پنڈت ایک آدمی کے ساتھ تہہ خانے میں آیا۔ لونڈیاں نے مہاراج کو پہچان تو لیا ہوگا۔ پنڈت نے کہا تو پاروتی نے چونک کر آنے والے کو دیکھا تھا۔ اس عقل میں یہی آیا تھا ۔کہ یقیناً یہ درندہ اشونت ٹھاکر ہی ہوگا۔ مگر اس نے پوچھا نہیں تھا۔ وہ چاہتی تھی کہ ان لوگوں کو علم ہی نہ ہو کہ وہ سرسوتی کی بجاۓ پاروتی ہے۔ ورنہ وہ اس کی بہن کو بھی اٹھا کر لاسکتے تھے۔
اس دن تو بچ گئی تھی۔مگر آج تو نہیں بچے گی۔ ٹھاکر نے رعونت سے کہا تھا۔ تمہیں کیا لگتا تھا۔کہ تم ٹھاکر سے بچ جاؤگی؟؟؟ تم جانتی نہیں تھی کہ ہم یہاں کے ٹھاکر ہیں ۔ یہاں پہ ہمارا راج چلتا ہے۔ اور کوئی ہمیں پوچھنے والا بھی نہیں ۔ ہم جو چاہیں کریں۔ ٹھاکر شاید شراب کے نشے میں بھی تھا۔ وہ جھومتا آگے آیا۔اور پاروتی کے گال کو اپنی انگلی سے چھونا چاہا۔ پاروتی بدک کر پیچھے ہٹی۔ ہاہاہاہاہاہا۔۔۔۔۔۔ تہہ خانے میں ٹھاکر کا قہقہہ گونجا تھا۔ پاروتی کو لگا جیسے بہت سے شیطان ہنس رہے ہوں۔
اس نے سہم کر پنڈت اور ٹھاکر کو دیکھا۔
وہ ان سے رحم کی بھیک نہیں مانگنا چاہتی تھی۔ کیونکہ وہ جانتی تھی۔ الفاظ اور جزبات انسانوں پہ اثر کرتے ہیں درندوں پر نہیں۔ ٹھاکر ایک بار پھر آگے ہوا۔ اور پاروتی کا بازو پکڑ کر اسے اپنے قریب کرنا چاہا۔ پاروتی نے بازو چھڑانے کے لیے زور لگایا۔ اس کے بازو میں درد کی لہر اٹھی۔ اس کی نیلی آنکھوں سے بےساختہ آنسو نکل آۓ۔ ہاہاہاہاہاہاہاہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٹھاکر نے ایک بار پھر شیطانی قہقہہ لگایا۔ اور پاروتی کو کھینچ کر اپنے سینے سے لگالیا۔
پنڈت قریب کھڑا مسکرا رہا تھا۔ پاروتی نے اپنا پورا زور لگاکر ٹھاکر کو اپنے سے دور کرنا چاہا۔ ٹھاکر نے خود ہی اسے چھوڑ دیا۔ پاروتی نے پیچھے ہٹ کر ٹھاکر کے منہ پہ تھوک دیا۔ پنڈت اور ٹھاکر ہکابکا رہ گئے تھے۔ پھر پنڈت نے ہی نمک حلال کرنے کے چکر میں آگے بڑھ کر پاروتی کے منہ پہ زوردار تھپڑ مارا۔ تھپڑ کھا کر وہ لڑکھڑائی اور پھر سنبھل کر پورے جنون اور وحشت سے پنڈت کو دھکا دےدیا۔ پنڈت دھکا کر دیوار سے ٹکرایا تھا۔ اس کو اپنے چاروں طرف تارے سے ناچتے نظر آنے لگے۔
اتنی دیر میں ٹھاکر اس تک پہنچ چکا تھا۔
اس نے پاروتی کو تھپڑ مارا۔ اسے اپنے چہرے پہ تھوکے جانے کا بھی غصہ تھا۔ پھر اس نے لگاتار پاروتی کو مارنا شروع کردیا۔ وہ نیچے گری روتی بلبلاتی رہی مگر اس نے بس نہ کیا۔ پنڈت بھی اس کے ساتھ شامل ہوگیا تھا۔ وہ لاتوں ٹھڈوں سے ایک بےبس لاچار لڑکی کو اپنی مردانگی دکھارہے تھے۔ پاروتی ادھ موئی ہوگئی تھی۔ وہ اب اپنا بچاؤ کرنے کے قابل بھی نہ رہی تھی۔ اس کے بعد انہوں نے اس کے کپڑے اتار کر اسے برہنہ کردیا۔
اور پھر مندر کے تہہ خانے میں شیطان کا کھیل شروع ہوگیا۔ صبح تک وہ باری باری اس کے جسم سے کھیلتے رہے۔ اور پھر اسے اسی حالت میں چھوڑکر واپس چلے گئے۔ سارا دن کسی نے پاروتی کی خبر نہ لی تھی۔ شام کو پنڈت کھانا لیکر آیا اور وہاں رکھ کر چلا گیا۔ پاروتی نیم بےہوشی میں پڑی سسک رہی تھی۔ اگلی رات پنڈت نے اس کے ساتھ پھر وہی کھیل کھیلا۔ اور پھر اس کے گلے میں رسی ڈال کر پاروتی کو ہمیشہ کے لیے سلادیا۔ اگلی صبح مندر کے عقبی باغیچے میں ایک اور گمنام قبر کا اضافہ ہوگیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سرسوتی اپنی بہن کی جدائی میں دن رات روتی رہتی تھی۔
اسے اور اس کے ماں باپ کو نہ کھانے کا ہوش تھا نہ پینے کا۔ یہی حال شاموں کے گھر والوں کا بھی تھا۔ شاموں واپس نہیں آیا تھا۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ شاموں اور پاروتی مندر کے عقبی باغیچے میں لگے گیندے کے پھولوں کا رزق بن چکے ہیں۔ ویسے ہی جیسے کئی اور معصوم لڑکیاں بنی تھیں۔ دیناناتھ دن رات گاؤں کی گلیوں میں گھومتارہتا تھا۔ اور ٹھاکروں کو بددعائیں دیتا رہتا تھا۔
ٹھاکروں والے مندر کا پنڈت بھی اس کی بددعاؤں میں شامل تھا۔ بےبس انسان پہ کوئی ظلم کرے تو وہ یا تو بددعاہی دے سکتا ہے۔ یا پھر گالی۔ لوگ سمجھتے تھے کہ دیناناتھ پاگل ہوگیا ہے۔مگر دیناناتھ پاگل نہیں ہوا تھا۔البتہ بےخوف ضرور ہوگیا تھا۔ ہر شے سے بےخوف۔ موت سے بھی۔ اسی لیے وہ ٹھاکروں کو سرعام بدعائیں دیتا پھرتا تھا۔ ورنہ عام حالات میں وہ ایسا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ دیناناتھ اپنی دوسری بیٹی کے لیے جی رہا تھا۔
ورنہ شاید وہ خودکشی کرلیتا۔
یا پھر پنڈت اور ٹھاکر کو مارنے کی کوشش میں مارا جاتا۔ وہ اب پچھتارہا تھا کہ وہ اس منحوس گاؤں سے چلا کیوں نہیں گیا؟؟؟ جہاں سارے ٹھاکروں کے غلام بن کر جی رہے تھے۔ کسی میں اتنی ہمت نہیں تھی۔کہ ان کے سامنے سر اٹھاتا۔ گاؤں کے صرف وہ لوگ دیناناتھ کے ساتھ تھے۔ جن کی بیٹیاں غائب ہوئیں تھیں۔ اور ان کو ٹھاکر اشونت پہ صرف شک تھا۔مگر اب ان کو یقین ہوگیا تھا ۔کہ یہ کام ٹھاکر نے ہی کیا تھا۔
یا پھر گاؤں کے مسلمان کھلم کھلا دیناناتھ کے ساتھ تھے۔ کیونکہ ان کو کبھی بھی کسی ٹھاکر کا ڈر نہیں رہا تھا۔ اور نہ ٹھاکر ان سے الجھتے تھے۔ وہ جانتے تھے۔کہ یہ قوم صرف اپنے خدا سے ڈرتی ہے۔ ان کو چھیڑنا بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے کے برابر تھا۔ ایک دو سکھ گھرانے بھی دیناناتھ کے حامی تھے۔ اس وقت پولیس کا کوئی چکر نہیں ہوتا تھا۔ جس گاؤں میں جو بڑا آدمی ہوتا تھا۔اسی کی حکمرانی چلتی تھی۔ ہندوستان اس وقت برصغیر تھا۔ اور اس پہ انگریزوں کی حکمرانی تھی۔
ان کو اس سے کوئی سروکار نہیں تھا۔
کہ ان کی حکومت میں کسی غریب پہ ظلم ہورہا ہے یا نہیں۔ وہ خود غریب کسانوں کا خون چوسنے میں پیش پیش رہتے تھے۔ سرسوتی کا بس نہیں چل رہا تھا۔ سوچ سوچ کر اس کا دماغ جواب دےچکا تھا۔ اسے سمجھ نہیں آرہی تھی۔ کہ وہ اپنی بہن اور اپنے محبوب کا انتقام کیسے لے؟؟؟ ماں باپ کی حالت سے اس کا دل کٹ جاتا تھا۔ اور پھرایک دن اس کو انتقام لینے کا راستہ نظر آگیا۔
ہوا کچھ ہوں تھا کہ شام کے وقت ان کے گھر کے باہر ایک جادوگر اپنے کرتب دکھا نے آیا تھا۔ وہ گاؤں گاؤں پھر کر اپنے کرتب دکھاتا اور اپنا پیٹ پالتا تھا۔ آج وہ سرسوتی کے گاؤں آیا تھا۔ اور وہ کرتب بھی سرسوتی کے گھر کے عین سامنے دکھارہا تھا۔ سرسوتی اپنے دروازے سے لگی سب دیکھ رہی تھی۔ لوگوں کا کافی ہجوم تھا۔ اس جادوگر نے اپنے ساتھ آئی لڑکی کو زمین پر سیدھا لٹایا۔ اور پھر اس کے اوپر کپڑا ڈال دیا۔ اس نے منہ میں کچھ بڑبڑایا تو لڑکی کپڑے سمیعت ہوا میں معلق ہوگئی۔
ناول داسی قسط 7
اس جادوگر نے تلوار نکالی اور لڑکی پہ زور سے ماری۔ مگر یہ کیا؟؟؟ کپڑا تلوار سے لگ کر نیچے آگیا اور لڑکی غائب تھی۔ دیکھنے والے حیران رہ گئے۔ اچانک وہی لڑکی مجمع میں ایک طرف سے نکل کر مسکراتی ہوئی سامنے آگئی۔ اسی وقت سرسوتی کے ذہن میں ایک خیال بجلی کی طرح کوندا تھا۔ اسے انتقام لینے کی راہ نظر آنے لگ گئی تھی۔ وہ جادوگر تو چلا گیا۔مگر سرسوتی کو ایک راہ دکھاگیا تھا۔ سرسوتی اسی دن سے دن رات بس یہی سوچتی رہتی تھی کہ وہ جادو کس سے سیکھے؟؟؟
اسے لگتا تھا کہ وہ جادو سیکھ کر ہی اپنا انتقام لے سکتی ہے۔ ورنہ انتقام اس کے بس کی بات نہیں۔ کیونکہ وہ ایک لڑکی تھی۔ایک کمزور اور کم ذات خاندان کی لڑکی۔ عورت اگر انتقام پہ اتر آۓ تو وہ اپنا آپ بھی داؤ پہ لگادیتی ہے۔ یہ سوچے بغیر کہ اس میں اس کی جان بھی جاسکتی ہے۔ کئی مہینوں کی سوچ بچار اور تلاش کے بعد آخر کار سرسوتی کو من کی مراد مل ہی گئی ۔ اسے ایک بہت بڑے جادوگر کا پتہ مل گیا۔ جو یہاں سے کچھ دور ایک جنگل میں اپنا ڈیرے جماۓ ہوۓ تھا۔
سرسوتی نے اپنا ارادہ اپنے ماں کو بتایا۔ وہ اسے کسی صورت اجازت نہیں دےسکتے تھے۔ وہ سرسوتی کو کھونا نہیں چاہتے تھے۔مگر سرسوتی نے بھی قسم کھالی تھی۔کہ کوئی بھی صورت ہو وہ انتقام لےکر رہے گی۔ پھر ایک دن سرسوتی گاؤں سے غائب ہوگئی۔ دیناناتھ سے کوئی پوچھتا تو وہ لاعلمی کا اظہارکردیتا۔ گاؤں والوں نے سمجھا شاید سرسوتی بھی ٹھاکر کی ہوس کی بھینٹ چڑھ گئی ہے۔؟؟؟ مگر یہ صرف دیناناتھ اور اس کی بیوی جانتے تھے۔
ناول داسی قسط 7
کہ سرسوتی ٹھاکروں کو انتقام کی بھینٹ چڑھانے کی نیت سے کچھ عرصے کے لیے کہیں گئی ہے۔ سرسوتی کو گئے پندرہ مہینے ہوگئے تھے۔ گاؤں والے بھول گئے تھے۔کہ سرسوتی بھی کوئی تھی۔ گاؤں والے سب بھول کر اپنی اپنی زندگی میں مصروف ہوگئے تھے۔ یہ بھی کہ اس گاؤں میں ظلم ہوا تھا۔اور ہوتا آرہا ہے۔ اور یہ بھی کہ ظالم ابھی زندہ ہے۔ مگر دیناناتھ اور شاموں کے گھر والے کچھ نہیں بھولے تھے۔
اور پھر ایک صبح لوگ مندر گئے تو چیختے چلاتے واپس دوڑے۔ مندر کے اندر پنڈت والے دروازے پر پنڈت کی ننگی اور کٹی پھٹی لاش لٹک رہی تھی۔ پنڈت کی آنکھیں کھلی تھیں۔ اور چہرے کے تاثرات سے لگتا تھا پنڈت نے مرنے سے پہلےکوئی بھوت دیکھ لیا تھا۔ اور وہ انتہائی اذیت سے مرا ہے۔ اس کی کٹی پھٹی لاش سے لگ رہا تھا اسے کسی جنگلی درندے نے مارا ہے۔ مگر درندہ کسی کو مار کر ایسے لٹکاتا نہیں ہے۔ مندر میں کسی کو پنڈت کے مرنے کا علم نہیں ہوا تھا۔
انہوں نے بھی صبح پنڈت کی لاش ہی لٹکی دیکھی تھی۔ یہ ضرور کسی چڑیل یا بھوت کا کام ہوگا۔ گاؤں میں خوف ہراس پھیل گیا تھا۔ لوگ اس بات سے بے خبر تھے کہ مندر کے تہہ خانے میں کٹی پھٹی ایسی پانچ لاشیں اور پڑیں ہیں۔ یہ وہ لوگ تھے جو پاروتی کو اٹھاکر مندر لاۓ تھے۔ اور ان لوگوں نے ہی سرسوتی کے محبوب شاموں کو بھی مارا تھا۔ البتہ چند ایک گھروں میں پنڈت کے مرنے سے خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی۔ ان گھروں میں ایک گھر شاموں اور دیناناتھ کا بھی تھا۔
ناول داسی قسط 7
ناول داسی قسط 8
میری اجازت کے بغیر کاپی پیسٹ کرنا سختی سے منع ہے۔۔۔
✭ نوٹ :- عمدہ قسم کے سبق آموز واقعات وحکایات کیلئے آج ہی ہمارا ٹیلی گرام چینل جوائن کریں۔
نوٹ :- ایسے ہی دل کو موہ لینے والے اور دل کو چھو لینے والے واقعات و حکایات پڑھنے کے لئے روز ویب سائٹ کا وزٹ کریں۔ اور اپنے دوست و احباب اور متعلقین کو بھی شیئر کریں تاکہ آپ کے ذریعے ان کا بھی فائدہ ہو ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Leave a Comment