ناول داسی قسط 5
دیناناتھ پاروتی کی بجاۓ سرسوتی کو مندر چھوڑکر خوشی خوشی گھر واپس آگیا تھا۔
اس نے زندگی میں پہلی بار ٹھاکروں والا مندر اندر سے دیکھا تھا۔ ان کا اپنا مندر تو بس یونہی ساتھا۔ غریبوں کا غریب سا مندر۔ اصل شان تو ٹھاکروں والے مندر کی تھی۔ وہاں آنے جانے والے لوگ نفرت اور حقارت سے دیناناتھ کو دیکھ رہے تھے۔ مگر کچھ بولے نہیں تھے۔ پجاری گوبندرلال بڑی چاہت سے دیناناتھ سے ملا تھا۔ عام حالت میں شاید پجاری دیناناتھ کی طرف دیکھنا بھی گوارہ نہ کرتا ۔
آخر ٹھاکروں والے بڑے مندر کا بڑا پجاری جو تھا۔ مگر اس وقت بات کچھ اور تھی۔ اس وقت دینا کے پہلو میں اس کی سندر بیٹی جو تھی۔ وہی بیٹی جس کو دیکھ کر پنڈت کی رال ٹپکی تھی۔ اور جس کے لیے یہ سب مایاجال بناگیا تھا۔ پنڈت نے اس دن پاروتی کو اپنی ماں کے ساتھ دیکھا تھا۔ اور اس وقت اس کے سامنے سرسوتی کھڑی تھی۔مگر پنڈت سمجھ رہا تھا۔کہ یہ وہی لڑکی ہے جس کو اس نے اس دن دیکھا تھا۔ پنڈت پہچان بھی نہیں سکتا تھا۔ کیونکہ دونوں ایک جیسی تھیں۔ ہوبہوایک جیسی ہم شکل۔ دیناناتھ چلاگیا تھا۔
سرسوتی خوشی خوشی پنڈت کے ساتھ ایک کمرے میں جاپہنچی تھی۔
مندر پانچ کمروں پر مشتمل تھا۔ مگر یہ وہ کمرے تھے جو سب کے سامنے تھے۔ مندر سے تھوڑا ہٹ کر ایک تہہ خانہ بھی تھا۔ جس کو راستہ مندر کے عقب سے جاتا تھا۔ یہ شیطانوں کی ہوس مٹانے کا اڈہ تھا۔ سرسوتی کو ایک کمرے میں بٹھاکر پنڈت چلا گیا تھا۔ سرسوتی دل ہی دل میں خوش ہورہی تھی۔ کہ اسے بھگوان نے اپنی سوا (خدمت) کا موقع دیا ہے۔ اس دن وہ سوچ رہی تھی کہ کاش اسے بھی داسی بننے کا موقع ملتا۔ اور آج وہ داسی بنی بیٹھی تھی۔
بھگوان کی داسی۔ کافی دیر گزرگئی تھی سرسوتی اس کمرے میں بیٹھی تھی۔ باہر سے لوگوں کے قدموں کی آواز اور ان کے باتیں کرنے کی ملی جلی آوازیں آرہی تھیں۔ یہ وہ لوگ تھے جو مندر میں پوجاکرنے کے لیے آجارہے تھے۔ بہت دیر بعد پنڈت واپس آیا تھا۔ اس کے ساتھ دولڑکیاں بھی تھیں۔ جنہوں نے داسیوں والے مخصوص مگر خوبصورت لباس پہن رکھے تھے۔ ان کے ہاتھ میں ایک تھال تھا جس میں داسیوں والا لباس رکھا ہوا تھا۔ اور دوسری کے ہاتھ میں کھانے پینے کی چیزوں کا تھال تھا۔
ناول داسی قسط 5
انہوں نے آتے ہی دونوں تھال ایک طرف رکھ دیے۔ اور ہاتھ باندھ کر کھڑی ہوگئیں۔ دنوں نے ہی غور سے پہلے سرسوتی کو دیکھا۔اور پھر ایک دوسری کو۔ زیرلب وہ مسکرائی بھی تھیں۔ سرسوتی ان کی سوچ اور خیالات سے بےنیاز پنڈت کو دیکھ رہی تھی۔ پہلے تم کچھ کھاپی لو۔ پنڈت سرسوتی سے مخاطب تھا۔ پھر اشنان کرکے یہ لباس پہن لینا۔ آج سے تم اس مندر کی داسی ہو۔ اور بھگوان کی سیوک۔ پنڈت نے کہا تو سرسوتی کے پھول سے ہونٹوں پر خود بخود مسکراہٹ آگئی تھی۔ یہ داسیاں ہیں ۔
مگر یہ ہمیشہ کی داسیاں ہیں اور تم صرف تیرہ دن کے لیے آئی ہو۔ پنڈت سرسوتی سے کہہ رہاتھا۔ اور سرسوتی سوچ رہی تھی کیا پتہ اس کا دل ہی نہ کرے واپس جانے کو۔ اور بھگوان ہمیشہ کے لیے اسے اپنے چرنوں میں رہنے کی اجازت دےدیں۔ وہ سب چلے گئے تو سرسوتی نے کھانے کی تھال اپنے آگے رکھی۔ اس میں سجے کھانے دیکھ کر سرسوتی کی آنکھیں کھلی رہ گئیں۔ اس نے اپنی زندگی میں ایسے کھانے کبھی خواب میں بھی نہیں دیکھے تھے۔ سرسوتی نے پہلا لقمہ اٹھایا تو اس کو اپنے ماتاپتا اور دیدی یاد آگئے۔
کاش وہ بھی ایسا کھانا کھا سکتے۔ اس نے سوچا۔
غم اور خوشی میں ہمیشہ وہی سب سے پہلے یاد آتے ہیں جو خاص ہوں۔ اگر بھگوان نے مجھے ہمیشہ کے لیے اپنی سیوک (خدمتگار) رکھ لیا تو میں اپنے گھر والوں کو بھی ایسے ہی کھانے کھلایا کرونگی۔ سرسوتی نے سوچا اور لقمہ منہ میں ڈال لیا۔ کھانے سے فارغ ہونے کے بعد وہ وہیں بیٹھی کسی کے آنے کا انتظار کرتی رہی۔ اسے اشنان کرنے کی جگہ معلوم نہیں تھی۔ اس لیے وہ کسی کی منتظر تھی۔ جو اسے اشنان کی جگہ بتاتا اور وہ نہاکر کپڑے بدلتی۔ کچھ دیر بعد ان دولڑکیوں میں سے ایک آئی۔
سرسوتی کے پوچھنے پر وہ اسے ساتھ لیکر کمرے سے نکل اور کچھ دور بنے غسل خانوں کی طرف لےگئی۔ سرسوتی نے نہاکر داسیوں والا لباس پہنا۔ اور باہر نکل کر اسی کمرے میں آگئی۔ وہاں کوئی آئینہ نہیں تھا۔ورنہ سرسوتی اگر گیلے بالوں کے ساتھ خود کو اس لباس میں دیکھ لیتی تو خود پر ہی عاشق ہوجاتی۔ لباس اس پہ ایسے جچ رہا تھا جیسے بنا ہی صرف سرسوتی کے لیے تھا۔ اس وقت وہ سچ میں الپسرا ہی لگ رہی تھی۔ اپنے گیلے بالوں کو اس نے ایک کپڑے سے رگڑکر سکھانے کی کوشش کی اور پھر اسی کپڑے کو سر پہ لپیٹ لیا۔
ناول داسی قسط 5
اور جو لباس اتارا تھا اس کو اس نے ایک اور کپڑے میں باندھ کر ایک جگہ رکھ دیا۔ اور چارپائی پر بیٹھ کر انتظار کرنے لگی۔ کافی دیر بعد پنڈت آیا اور اس کو لیکر مورتی کے سامنے جاکھڑا ہوا۔ سرسوتی بھی اس کے ساتھ ہاتھے باندھے مورتی کے سامنے کھڑی تھی۔ اتنے میں وہی دونوں داسیاں گیندے کے پھولوں کے تھال اٹھاۓ خاموشی سے آکر ان کے دائیں بائیں کھڑی ہوگئیں۔ پنڈت کچھ دیر منتر پڑھتا رہا اور گیندے کے پھول اٹھااٹھا کر مورتی پہ پھینکتا رہا۔ پھر اس نے سرسوتی کو نیچے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
سرسوتی گھٹنوں کے بل ہاتھ جوڑکر مورتی کے سامنے بیٹھ گئی۔
پنڈت منتر پڑھنے میں مصروف تھا۔ ساتھ ساتھ وہ پھول بھی پھینکتا جارہا تھا۔ اب وہ کبھی کبھی ایک آدھ پھول سرسوتی پہ بھی پھینک دیتا تھا۔ آدھے پون گھنٹے کے تھکادینے والے عمل کے بعد پنڈت خاموش ہوا۔ اور سرسوتی کو مبارک دی کہ اس کو بھگوان نے سیوکار کرلیا ہے۔ اور آج سے وہ تیرہ دن کے لیے بھگوان اور مندر کی سیوک ہے۔ سرسوتی بہت خوش تھی۔ سرسوتی جب بھی کھانا کھانے لگتی اسے اپنے گھر والے ضرور یاد آتے تھے۔ ان کی محرومی یاد آتی کہ انہوں نے ایسے کھانے کبھی نہیں کھاۓ تھے۔ سرسوتی کو اپنے گھر والوں کے ساتھ کوئی اور بھی یاد آتا تھا۔
یہ کوئی اور وہ تھا جس پہ اپنے ماتا پتا کے بعد سب سے زیادہ بھروسہ کیا تھا۔ یہ اسی گاؤں اور ان کی ذات کا ہی ایک ہندو لڑکا شاموں تھا۔ اور یہ کچھ دن پہلے کی بات ہے جب نظروں کے تبادلے میں میں دلوں کا تبادلہ ہوا تھا۔ یہ بات سرسوتی نے کسی کو نہیں بتائی تھی۔ اپنی سہیلی جیسی بہن پاروتی کو بھی نہیں۔ سرسوتی نے سوچا تھا کہ پاروتی کو بتاۓ گی مگر اسے وقت ہی نہ ملا اور وہ داسی بن کو مندر آگئی۔ اس نے سوچا یہاں سے جانے کے بعد وہ ساری بات پاروتی کو بتادیگی۔
دو دن خیریت سے گزرگئے۔ سرسوتی کو کوئی کام نہیں تھا۔
وہ صبح مندر کے قریب باغیچے سے گیندے کے پھول توڑکر لاتی اور بھگوان کے چرنوں میں رکھ دیتی۔ اس کے بعد اگر بتیاں مہکاتی اور پوجا کر کے اپنے کمرے میں آجاتی۔ وہ اس بات سے بےخبر تھی۔کہ جس باغیچے سے وہ پھول توڑکر لاتی تھی۔ وہ باغیچہ اس جیسی پتہ نہیں کتنی معصوم اور حسین لڑکیوں کا مدفن تھا۔ اور یہ گیندے کے پھول ان کی ہڈیاں کھاکر اور ان کو خون پی کر جوان ہوۓ تھے۔ ایک رات سرسوتی سوئی پڑی تھی۔
آدھی رات کا وقت ہوگا جب اس کی آنکھ مندر میں بجتی گھنٹیوں سے کھلی۔
گھنٹیاں اتنی تیزی سے بج رہی تھی کہ سرسوتی ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی۔ اس کے حواس بحال ہوۓ تو دروازہ کھول کر باہرجھانکا۔ مورتی والے کمرے سے پنڈت کی آواز آرہی تھی۔ جو اونچا اونچا کچھ پڑرہا تھا۔ شاید پوجا کے کوئی منتر تھے۔ گھنٹیوں کی آواز مورتی والے کمرے کے علاوہ بھی اور کئی جگہوں سے آرہی تھی۔ یوں لگ رہا تھا جیسے کوئی بہت بڑا پوجاپاٹھ کیا جارہا تھا۔ کچھ دیرتک یہی صورت حال رہی اور پھر ایک دم خاموشی چھاگئی۔
ایسی خاموشی جو رات کے وقت صرف قبرستانوں یا شمشان گھاٹ میں ہی ہوتی ہوگی۔ جانے کس وقت سرسوتی کی آنکھ لگ گئی تھی۔ صبح حسب معمول اس نے باغیچے سے پھول توڑے اور مورتی کے قدموں میں ڈال کر دیر تک اس کے سامنے ہاتھ جوڑے پوجا کرتی رہی اور پھر اپنے کمرے میں آگئی۔ دن میں پنڈت اس کے کمرے میں آیا تو سرسوتی نے پوچھ لیا کہ۔ رات کیا ہورہا تھا؟؟؟ گھنٹیاں کیوں بجائی جارہی تھیں؟؟؟ رات بھگوان اس سیوک کو درش دینے آۓ تھے۔ پجاری نے اپنی طرف اشارہ کیا۔
سرسوتی پنڈت کی بات سن کرحیرت زدہ رہ گئی تھی۔
اور اسے افسوس بھی ہوا کہ۔ وہ بھگوان کے درشن سے محروم رہ گئی ہے۔ اس نے اپنی محرومی کا ذکر پنڈت سے بھی کیا۔ جواب میں پنڈت نے یہ کہ کر اس کا افسوس کم کردیا کہ۔ بھگوان سرسوتی کے یہاں آنے سے اور اس کی سوا سے بہت خوش ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ اس لڑکی کو ہمیشہ کے لیے ان کی داسی بنادیا جاۓ۔ بدلے میں وہ اس لڑکی اور اس کے خاندان کا ہر کشٹ دور کردینگے۔ سرسوتی کو یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ اتنی بھاگے شالی ہے کہ بھگوان نے خود اس کا پوچھا تھا۔
وہ حیرت اور خوشی سے پنڈت کا منہ دیکھے جارہی تھی۔
اور پنڈت اسکی نیلی آنکھوں میں ڈوباجارہا تھا۔ اس بےچاری معصوم لڑکی کو کیا پتہ تھا ۔کہ یہ شیطان پنڈت سفید جھوٹ بول رہا ہے۔ بھگوان کے نام پہ مندر میں رکھی مورتی میں اتنی بھی طاقت نہیں تھی۔کہ اپنے اوپر بیٹھی مکھی ہی اڑاسکتی۔ اور خود تراشی مورتی کبھی کسی کا خدا نہیں ہوسکتی۔ اور نہ خدا کسی سے بدلے میں کچھ مانگتا ہے۔ جو حقیقی خدا ہے۔وہ تو صرف نوازتا ہے۔ اور نوازتا ہی رہتا ہے۔ بنا کسی لالچ یا بدلے کے۔کیونکہ وہ حقیقی خدا ہے۔ اور خدا کبھی کسی محتاج نہیں ہوتا۔
سرسوتی رات تک ان کی خوش گمانیوں میں مست رہی۔کہ بھگوان کو اس کی سوا پسند آ گئی ہے۔ اور وہ خود بھی۔ پنڈت اشونت ٹھاکر کو بتاآیا تھا۔کہ وہ لڑکی مندر میں آگئی ہے۔مگر اسے دوچاردن صبر رکھنا ہوگا۔ پنڈت راستہ صاف کرتے ہی اسے اطلاع دےدیگا۔ کہ کب آنا ہے؟؟؟ یہ وہی مندر تھا جہاں دیناناتھ اور اس جیسے لوگوں آنا سخت ممنوع تھا۔ کیونکہ ان کم ذات لوگوں کے چرن مندر میں پڑنے سے مندر ناپاک ہوسکتا ہے۔ مگر اب ان کی کم ذاتوں میں سے ایک لڑکی کئی دن سے مندر میں تھی۔ اب نہ تو مندر ناپاک ہوا تھا۔
اور نہ ہی پجاری ۔ آج سرسوتی کو مندر میں ساتواں روز تھا۔
رات کو وہ چارپائی پہ لیٹی اپنے گھر اور شاموں کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ کہ اچانک دروازہ بجا۔ کون ہے؟؟؟ سرسوتی نے پوچھا اور پنڈت کی آواز پہچان کر اٹھ کر دروازہ کھول دیا۔ پنڈت اندر آیا تو اس کے ساتھ ایک اور شخص بھی اندر آیا تھا۔ یہ اشونت ٹھاکر ہیں؟؟؟
پنڈت نے ساتھ آنے والے شخص کا تعارف کرایا۔
سرسوتی نے ہاتھ جوڑ کر ٹھاکر کو پرنام کیا۔ جواب میں ٹھاکر نے صرف سر ہلانے پر اکتفاکیا۔ ٹھاکر پینتیس چالیس کے قریب ایک ہٹاکٹا شخص تھا۔ بڑی بڑی مونچھوں نے اسے اور بھی بارعب بنادیا تھا۔ وہ بڑی گہری نظروں سے سرسوتی کا جائزہ لینے میں مصروف تھا۔ جیسے قصائی جانور خریدنے سے پہلے اسے جانچتا ہے۔کہ اس میں سے اسے کتنی بچت ہوسکتی ہے؟؟؟ سرسوتی نے ٹھاکروں کا سن رکھا تھا ۔مگر کبھی دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا۔
سرسوتی کے کہنے پر پنڈت اور ٹھاکر دونوں چارپائی پر بیٹھ گئے تھے۔ اشونت سوچ رہا تھا ۔کہ پنڈت نے اس لڑکی کی تعریف میں کنجوسی سے کام لیا ہے۔ یہ اس سے کہیں زیادہ سندر ہے جتنا پنڈت نے اسے بتایا تھا۔ سرسوتی نظریں جھکاۓ ہاتھ باندھے کھڑی تھی۔ ایک دوبار اس نے ٹھاکر کی طرف دیکھا تھا۔ اور پھر نظریں جھکالیں تھیں۔ البتہ ٹھاکر کی نظریں اسے اپنے جسم سے چپکی ہوئی محسوس ہورہی تھیں۔ کچھ دیر وہ یونہی بیٹھے رہے۔ کسی نے کوئی بات نہ کی۔ پھر ٹھاکر اور پنڈت اٹھ کر چلے گئے۔
ان کے جانے کے بعد سرسوتی نے سکھ کا سانس لیا تھا۔
ورنہ اب تک وہ بےچین ہی رہی تھی۔ پتہ نہیں ایسی کیا بات تھی۔ جس نے اسے بےچین کردیا تھا۔ شاید اس کی چھٹی حس اسے کسی خطرے سے خبردار کررہی تھی۔ دروازے کی کنڈی لگاکر وہ لیٹ گئی۔اور اپنے گھر والوں کے بارے میں سوچنے لگی۔ اپنے ماں باپ اور بہن کے ساتھ اس کی نظروں میں ایک اور چہرہ بھی گھوم رہا تھا۔ اور وہ تھا اس کے محبوب شاموں کا چہرہ۔ رات کے کسی پہر اس کی آنکھ لگ گئی۔ صبح اس نے معمول کے مطابق اپنے کام نپٹاۓ۔
اور اپنے کمرے میں آگئی۔
کچھ دیر بعد پنڈت بھی اس کے کمرے میں چلا آیا۔ پنڈت نے آتے ہی بنا کسی لگی لپٹی کے سرسوتی کو صاف صاف کہا۔کہ ٹھاکر اشونت اس کے ساتھ رات بتانا چاہتا ہے۔ بدلے میں وہ سرسوتی کو مالا مال کردیگا۔ ایک پنڈت کے منہ سے اس قدر ننگی اور صاف بات سن کر حیرت سے اس کا منہ کھل گیا۔ پپ پنڈت جی۔۔۔۔۔یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟؟؟ اسے لگا اس نے سننے میں غلطی کی ہوگی۔ میں وہی کہہ رہا ہوں جو ٹھاکر نے مجھ سے کہا ہے۔ پنڈت نے خود کو معصوم ثابت کرنے کی کوشش کی۔جیسے اس سب سے وہ لاعلم ہے۔ مم مم مگر میں تو یہاں بھگوان کی داسی بن کر آئی ہوں۔ میں کیسے ایسا گندہ کام کرسکتی ہوں؟؟؟
بھگوان ناراض ہونگے۔ بھگوان تم سے خوش ہونگے داسی۔ پنڈت نے لفظوں کا جال بننا شروع کیا۔ یہ مندر ٹھاکروں کا ہے۔ اور بھگوان بھی ٹھاکروں کا ہے۔ اگر تم اشونت ٹھاکر کو خوش کردوگی تو بھگوان تم سے خوش ہوجاۓگا۔ پھر تم ہمیشہ کے لیے یہاں داسی بن کر رہ سکتی ہو۔ پنڈت نے شاید اسے لالچ دیا تھا۔ مگر سرسوتی جان گئی تھی۔کہ وہ یہاں داسی نہیں بلکہ داشتہ بن کررہے گی۔ بھلے وہ ایک غریب اور کم ذات خاندان سے ہی تھی۔مگر تھی تو ایک لڑکی ہی نہ۔ اور ہرعورت اور لڑکی اگر غیرت مند ہو تو وہ کسی کو اپنے جسم کی طرف دیکھنے بھی نہیں دیتی چھونا تو دور کی بات ہے۔ سرسوتی کے ذہن میں ایک چہرہ ابھرا۔ شاموں کا چہرہ۔ سرسوتی خود کو شاموں کی امانت سمجھتی تھی۔ مم میں یہ کام نہیں کرسکتی۔
آخر کار سرسوتی نے زبان کھولی۔
پنڈت نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔ جیسے اسے سرسوتی سے ایسے جواب کی توقع نہ ہو۔ پنڈت کچھ دیر اسے گھورتا رہا۔ سنو لڑکی۔۔۔۔۔۔پنڈت کے لہجے میں غصہ بھی تھا۔ تم انکار کرو یا اقرار تمیہں ہر صورت ٹھاکر کی مرضی پوری کرنی ہوگی۔ورنہ انجام بہت برا ہوگا۔ رات کو تیار رہنا لڑکیاں تمہیں تیار کرنے آجائیں گی۔ پنڈت یہ کہ کر اٹھ کر چلاگیا۔ اور سرسوتی رونے بیٹھ گئی۔ اس سے زیادہ وہ کربھی کیا سکتی تھی۔ اس نے تو کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا۔
کہ اس کوایسی کسی صورتحال سے بھی دوچارہونا پڑیگا۔ شام تک روروکر کر وہ تھک گئی تھی۔ اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا ۔کہ وہ کیا کرے؟؟؟ بس ایک ہی صورت تھی۔ وہ کسی طرح یہاں سے بھاگ جاۓ۔ اور اپنے گھر پہنچ جاۓ۔ مگر بھاگنا اب اتنا آسان نہ تھا۔ رات ہونے والی تھی۔ اور سرسوتی نے سوچ لیا تھا۔کہ وہ اپنی جان دےدیگی یا ٹھاکر کی جان لےلےگی۔مگر اپنی عزت کا سودا نہیں کریگی۔ رات ہوئی تو دونوں داسیاں دلہنوں والا ایک سرخ جوڑا اور پھولوں کے گجرے لیے اس کے کمرے میں آگئیں۔
سرسوتی نے ان سے کچھ نہ کہا۔ چپ چاپ تیارہوگئی۔ کچھ دیر پنڈت آیا اور اس کو یوں تیار دیکھ کر خوش ہوگیا۔ میں جانتا تھا تم سمجھدار لڑکی ہو۔ میری بات مان لوگی۔ پنڈت نے سرسوتی سے کہا۔ جواب میں سرسوتی سرجھکاۓ چپ بیٹھی رہی۔ پنڈت اور دونوں لڑکیاں چلی گئیں۔ وہ چپ چاپ بیٹھی آنسو بہاتی رہی۔ رات کچھ اور گہری ہوگئی تھی۔ سرسوتی کے دل کی دھڑکن بھی تیز ہوتی جارہی تھی۔ کچھ دیر وہ اٹھی دروازہ کھول کر باہر جھانکا۔اور دبے قدموں باہر نکل گئی۔ مندر میں شام ہوتے ہی دیے جلادیے جاتے تھے۔
ان کی روشنی اتنی ہی ہوتی تھی ۔
کہ اس کے بلکل قریب کوئی ہو تو نظر آجاتا۔ وہ دبے قدموں سب کمروں کے آگے سے گزررہی تھی۔ اس کا رخ باہر والے بڑے دروازے کی طرف تھا۔ دروازے بند ہونے کی وجہ سے بس جھریوں سے ہی پتہ چل رہا تھا۔کہ اندر کمروں میں بھی دیے روشن ہیں۔ وہ بنا کسی رکاوٹ کے باہر والے دروازے کے پاس پہنچ گئی تھی۔ اس نے دروازہ کھولنا چاہا مگر یہ دیکھ اس کی امیدوں پر پانی پھرگیا کہ۔ دروازے کو اندر سے تالا لگایا گیا تھا۔
اس نے ایک پل سوچا دوسرے ہی لمحے وہ پلٹی۔اور باغیچے والے دروازے پہ جاپہنچی۔ جو مندر کے عقب میں تھا۔مگر یہاں بھی تالا لگا ہوا تھا۔ اس نے چاروں طرف دیکھا۔ دیواریں اتنی اونچی تھیں ۔کہ کوئی سات فٹ لمبا انسان بھی انہیں نہیں پھلانگ سکتا تھا۔ مایوس ہوکر وہ واپس اپنے کمرے کی طرف جارہی تھی۔ جب اچانک ہی اس کی نظر کاٹھ کباڑ کے ایک ڈھیر پر پڑی۔ یہ ڈھیر اس نے آج سےپہلے نہیں دیکھا تھا۔ اس کی ذہن میں فوراً ہی ایک خیال آیا اور بھاگ کر اس ڈھیر تک جاپہنچی۔
اس نے اس کا جائزہ لیا اس نے ایک پل ہڈیوں میں اترتی سردی کے بارے میں سوچا۔ اور پھر کاٹھ کباڑ کو ہٹاکر اس کے نیچے اپنے لیے جگہ بنائی اور وہاں لیٹ کر کاٹھ کباڑ کو اپنے اوپر ڈال لیا۔ اسے اب صبح ہونے کا انتظار تھا۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔
اگلی قسط کل إن شاء الله اپنی راۓ دینا مت بھولیے گا۔۔
ناول داسی قسط 6
میری اجازت کے بغیر کاپی پیسٹ کرنا سختی سے منع ہے۔۔۔
✭ نوٹ :- عمدہ قسم کے سبق آموز واقعات وحکایات کیلئے آج ہی ہمارا ٹیلی گرام چینل جوائن کریں۔
نوٹ :- ایسے ہی دل کو موہ لینے والے اور دل کو چھو لینے والے واقعات و حکایات پڑھنے کے لئے روز ویب سائٹ کا وزٹ کریں۔ اور اپنے دوست و احباب اور متعلقین کو بھی شیئر کریں تاکہ آپ کے ذریعے ان کا بھی فائدہ ہو ۔
شکریہ
Leave a Comment