ناول داسی قسط 4
دینا ناتھ اپنی بیوی کی چیخ سن کر کمرے سے نکل کر باہر کی طرف ہی آرہا تھا۔
اس کے پیچھے اس کی دونوں بیٹیاں بھی تھیں۔ انہوں نے بھی اپنی ماں کی آواز سن لی تھی۔ اور اب بد حواس سی باہر آرہی تھیں۔ کیا ہوا بھاگوان؟؟؟ دینا ناتھ نے اپنی بیوی سے سوال کیا۔ اتنی دیر میں وہ اس کے قریب پہنچ چکا تھا۔ جواب میں اس کی بیوی نے ہاتھ کے اشارے سے دروازے کی طرف اشارہ کیا۔ اس نے بولنا بھی چاہا تھا۔مگر بدحواسی میں اس کے منہ سے آواز نہ نکلی۔ دینا ناتھ اور اس کی بیٹیاں دروازے کی طرف چلے گئے۔
جونہی ان کی نظر دروازے کے قریب پڑی اس چیز پر پڑی۔ حیرت سے ان کی آنکھیں پھیل گئیں۔ وہ ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔ پھر دینا ناتھ نے ہمت کی اور آگے بڑھ کر اس پر سے کپڑا مکمل ہٹادیا۔ کپڑا ہٹتے ہی جو چیز واضع ہوئی۔ اس کو دیکھ کر تینوں دوقدم پیچھے ہٹ گئے تھے۔ وہ کسی بکرے کا کٹا ہوا سر کچھ سندور اور چند انسانی ہڈیوں کے ساتھ ایک انسانی کھوپڑی تھی۔ دیناناتھ ہکا بکا ان چیزوں کو تکے جارہا تھا۔ اس کی دونوں بیٹیاں ڈر کے اس کے پیچھے ہوگئی تھیں۔ پپ پپ پتا جی۔۔۔۔۔ یہ کیا ہے؟؟؟
سرسوتی نے کپکپاتے ہونٹوں سے اپنے والد سے پوچھا۔ خوف سے اس کا جسم ہولے ہولے کپکپارہا تھا۔ یہی حال دینا ناتھ کی دوسری بیٹی پاروتی کا بھی تھا۔ دونوں ایک دوسری سے لگی کھڑی تھیں۔ ان کی ماں بھی ڈرتے کانپتے ان کے ساتھ آ کھڑی ہوئی تھی۔ آخر دینا ناتھ نے ہی ڈرتے ڈرتے ہمت کی اور ان چیزوں کو اٹھا کر ایک بوری میں بند کر کیا۔ سمجھ نہیں آتی یہ یہاں کیسے آگئیں۔؟؟؟ دینا ناتھ اپنی بیوی اور بیٹیوں سے مخاطب تھا۔ جواب میں وہ سب خاموشی سی دینا ناتھ کو دیکھتی رہیں۔
ناول داسی قسط 4
میں ان کو دور کہیں دبا آتا ہوں۔ دینا ناتھ نے اپنی بیوی سے کہا۔اور بوری کندھے پر رکھ کر باہر نکل گیا۔ ماتا یہ کون پھینک گیا یہاں؟؟؟ سرسوتی اپنی ماں سے مخاطب تھی۔ جواب میں اس ماں نے لاعلمی سے سرہلادیا۔ بھگوان جانے کون مویا پھینک گیا؟؟؟ ان کی ماں بولی۔ میرا تو دل ہول رہا ہے۔ کوئی جادو ٹونے کا چکر نہ ہو؟؟؟ ماتا ہمارے پاس ہے ہی کیا جو کوئی ہم پہ جادو ٹونہ کریگا۔ سرسوتی معصومیت سے بولی۔ وہ یہ نہیں جانتی تھی ۔کہ دیناناتھ کے گھر سب سے قیمتی چیزیں دونوں بہنیں خود تھیں۔
اور یہ سب چکر ان کے لیے ہی چلایا گیا تھا۔ دیناناتھ اس بوری کو دور کہیں دباکر واپس آگیا تھا۔مگر وہ اب پریشان تھا۔ہندو ویسے بھی ایک توہم پرست قوم ہے۔ اور پھر جادو ٹونہ ان لوگوں میں ویسے بھی بہت کیاجاتا ہے۔ دیناناتھ ایک سیدھا سادھا دیہاتی تھا۔ اس کا واسطہ آج تک ایسی کسی چیز سے نہیں پڑا تھا۔ اور اب یہ سب دیکھ کر اس کے ذہن میں فقط ایک ہی بات جم گئی تھی۔کہ یہ جو کوئی بھی کررہا ہے۔ دیناناتھ سے ضرور کوئی قیمتی چیز چھیننا چاہتا ہے۔
اور وہ یہ بھی جانتا تھا ۔کہ قیمتی چیزوں کے نام پر اس کے گھر میں اس کی دو بیٹیاں ہی تھیں۔ اور جس قدر وہ غریب تھا۔اس کی بیٹیاں اسی قدر حسن کی دولت سے مالا مال تھیں۔ دینا ناتھ کی بیوی اگلی صبح مندر میں چڑھاوا چڑانے اور اور اپنے گھر میں آنے والے کشٹ کے توڑ کی خاطر پنڈت سے پراتھنا کرانے گئی تھی۔ اس نے ساری بات پنڈت کو بتائی تھی۔ پنڈت نے اس سے کہا تھا۔کہ وہ حساب لگاکر بتاۓگا کہ یہ کون اور کیوں کرہا ہے۔ اور پھر اس کا توڑ بھی کردیگا۔
دیناناتھ کی بیوی کسی حد تک مطمئن ہوکر گھر واپس آگئی تھی۔
مگر اس کے دل سے وہم نہیں گیا تھا۔ کچھ دن خیریت سے گزرے۔اور ایک دن پھر وہی سب ان کے گھر سے ملا۔ اور پھرتویہ معمول ہی ہوگیا۔ ایک دودن کے وقفے سے کچھ نہ کچھ ان کے گھر سے ملتا تھا۔ جس میں بکرے کی سری کے ساتھ اور کچھ نہ کچھ ہوتا۔
اکثر اوقات صرف انسانی ہڈیاں ہوتی تھیں۔ دیناناتھ اور اس کی بیوی بیٹیاں اب انتہائی خوف زدہ ہوگئی تھیں۔ پنڈت نے حساب لگاکر جو بتایا تھا۔ اس کو سن کر ان کی نیندیں حرام ہوگئی تھیں۔ پنڈت نے کہا تھا ۔کہ کوئی ان کی بیٹیوں کو حاصل کرنے کے لیےکالا جادو کروا رہا ہے۔ مگر دینا ناتھ اور اس کی بیوی بیٹیاں اس بات سے بے خبر تھیں۔کہ یہ سب کرنے والا کوئی اور نہیں مندر کا یہی پنڈت ہے۔ جس کو وہ اپنا مسیحا سمجھ بیٹھے ہیں
ناول داسی قسط 4
۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس دن ٹھاکروں والے مندر کا پنڈت گوبندرلال اس مندر کے پجاری مشرا جی سے مل کر گیا تھا۔ اس دن کے دوچار دن بعد ہی دیناناتھ کے گھر سے عجیب و غریب چیزیں ملنا شروع ہوگئی تھیں۔ اور یہ چیزیں خود نہیں آتی تھیں۔اور نہ کوئی دوسرا ان کو پھینک کر جاتا تھا۔ بلکہ ان کے مندر کا پنڈت ہی یہ کام کررہا تھا۔ یہ کوئی کالا جادو نہیں تھا۔ صرف کالاجادو کا وہم ڈالنے کے لیے یہ سب چکر چلایا جارہا تھا۔ تاکہ خوفزدہ ہوکر وہ لوگ پنڈت کے پاس آئیں۔
اور پنڈت ان کو مزید خوفزدہ کرکے اپنا مطلب نکال سکے۔ مختصر یہ کہ سیدھے سادھے لوگوں کے گرد توہم پرستی کا جال بنا جارہا تھا۔ اور وہ شیطان اس میں کامیاب بھی رہے تھے۔ دیناناتھ کی بیوی اسی پنڈت کے پاس گئی تھی۔ اور اس نے اپنا حساب لگا کر یہ بتادیا تھا۔ کہ ان کی بیٹی پر کوئی جادو کروارہا ہے۔ تاکہ وہ اسے حاصل کرسکے۔ بس اس نے یہ نہیں بتایا تھا۔کہ یہ سب وہ خود کررہا ہے۔ دوسرے مندر کے پجاری کے کہنے پر اشونت ٹھاکر کے لیے۔
دیناناتھ اور اس کی بیوی کا کھانا پینا سونا حرام ہوگیا تھا۔ ہر وقت ان کو یہی دھڑکا لگا رہتا تھا۔کہ جیسے ابھی کوئی ان کی بیٹیوں کو ان سے چھین کر لےجاۓ گا۔ ماں باپ کو خود کوئی تکلیف ہو تو وہ چپ چاپ سہہ لیتے ہیں۔مگر اولاد کی تکلیف یا ان پر آنے والی متوقع مصیبت سے وہ لڑنہ سکیں تو۔ یہ بےبسی اور دکھ ان کے لیے زمین و آسمان سے بڑھ کر ہوتا ہے۔ یہی کچھ صورتحال آج کل دیناناتھ اور اس کی بیوی کی تھی۔ ان کا بس نہیں چل رہا تھا۔ورنہ وہ اپنی بیٹیوں کو لیکر اس دنیا سے دور کہیں لیجاکر چھپ جاتے۔
اور اپنے جگر کے ٹکڑوں کو دنیا کی بری نظروں سے بچالیتے۔
مگر ایسا وہ صرف سوچ سکتے تھے۔ اپنی سوچ کو عملی جامہ پہنانا ان کے بس میں نہیں تھا۔ جس کا سب سے بڑا سبب ان کی مالی حالت تھا۔ اور ویسے بھی وہ جاتے بھی تو کہاں جاتے؟؟؟ جب دشمن ہی کوئی انسان تھا تو انسان تو پھر ہرجگہ تھے۔ اس گاؤں میں لوگ ان کو جانتے تو تھے۔ دال روٹی چل رہی تھی۔ دوسری کسی جگہ جاکر کون جانے دووقت کھانے کے بھی لالے پڑجاتے۔ اور سر پہ چھت بھی میسر نہ ہوتی۔
جب یہ سلسلہ نہیں رکا تو دینا ناتھ اپنی بیوی کو لیکر مندر جاپہنچا۔ انہوں نے روتے ہوۓ پجاری کو بھگوان کا واسطہ دیا اور کہا کہ وہ کچھ کرے اور ان کو اس جادو کے چکر سے نجات دلاۓ۔ پنڈت تو چاہتا ہی یہی تھا۔ اس نے ان کو دو دن کا وقت دیا اور تسلی دی کہ وہ دودن کے اندر اندر ان کی مصیبت کا اپاۓ کرلےگا۔ دونوں پنڈت کی باتوں سے مطمئن ہوکر اور دل میں اس مصیبت سے نجات کی امید لیکر گھر واپس آگئے۔ تیسرے دن پنڈت بنفس نفیس خود چل کر دیناناتھ کے گھر آیاتھا۔
شام کا وقت تھا۔دیناناتھ کچھ دیر پہلے ہی گھر آیا تھا۔ پنڈت کو اپنے گھر دیکھ کر دیناناتھ اور اس کی بیوی پھولے نہ سمارہے تھے۔ پنڈت کو بھگوان کا اوتار سمجھنے والے بےچارے سیدھے سادھے لوگ کیا جانتے کہ یہ اوتار نہیں بلکہ سواچار ہے۔ سرسوتی اس وقت کسی کے گھر گئی ہوئی تھی۔ گھر میں دیناناتھ اس کی بیوی اور پاروتی تھی۔ پنڈت نے آتے ہی پورے گھر کا ایک چکر لگایا۔ اور ساتھ لاۓ پیتل کے لوٹے سے گنگاجل چھڑکا۔ اور پھر ایک ٹوٹی سی چارپائی پر بیٹھ گیا۔
تمہارے کشٹ کا اپاۓ کردیا ہے میں نے۔
پنڈت نے گویا ان پر احسان جتایا۔ اب کوئی درگھٹنا نہیں ہوگی تم لوگوں کے ساتھ۔ اب چنتا کی کوئی بات نہیں۔ پنڈت کی بات سن کر ان کو لگا وہ کسی بہت ہی بڑی مصیبت سے بچ گئے ہیں۔ انہوں نے باری باری پنڈت کے چرن چھوۓ۔ اور گھر میں جو کچھ میسر تھا خدمت میں حاضرکردیا۔ پنڈت جی آپ کا یہ احسان زندگی بھر نہیں بھولیں گے ہم لوگ۔ دیناناتھ کا بس نہیں چل رہاتھا ورنہ وہ پنڈت کے قدموں میں لیٹ ہی جاتا۔
یہی حال اس کی بیوی اور پاروتی کا بھی تھا۔ وہ بھی دل سےپنڈت کی احسان مند تھیں۔ کشٹ ختم ہوگیا ہے۔مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پنڈت نے جان بوجھ کربات ادھوری چھوڑدی۔ مگر کیا پنڈت جی۔۔۔۔؟؟؟ دیناناتھ نے بےتابی سے پوچھا۔ مگر خطرہ ابھی باقی ہے۔ پنڈت نے اپنی بات مکمل کی۔اور ان کو دیکھا۔ وہ شاید ان کے تاثرات دیکھنا چارہاتھا۔ کک کیسا خطرہ پنڈت جی؟؟؟؟ دیناناتھ نے پوچھا۔ پریشانی اس کے چہرے پر واضع تھی۔
اس کی بیوی اور بیٹی بھی سوالیہ نظروں سے پنڈت کو دیکھ رہی تھیں۔ تمہاری بیٹی بہت سندر ہے۔؟؟؟ اس پر بہت سخت حملہ کیا گیا تھا۔ پنڈت کے الفاظ سے پاروتی کے چہرے پر حیاکا رنگ آکرگزرگیا تھا۔ اس پر کالی طاقتوں سے حملہ ہوا تھا۔مگر میں نے اپنی طاقتوں سے اس کو ناکام بنادیا۔ پنڈت نے بات مکمل کرکے دادطلب نظروں سے ان کو دیکھا۔ جیسے کوئی قلعہ فتح کرلیا ہو۔ دھنےواد آپ کا پنڈت جی۔ دینا ناتھ کی بیوی بولی۔ میں نے ان کالی طاقتوں کو بھگاتودیا ہے۔
مگر ہوسکتا ہے وہ دوبارہ وار کریں۔
اور یہ بھی ہوسکتا ہے اس بار ان کا وار چل جاۓ۔ پنڈت نے ان کو ڈراتے ہوۓ کہا۔ اس کا ایک ہی اپاۓ ہے۔ جو مجھے کل رات بھگوان نے خواب میں بتایا۔ اپنی بیٹی کو تیرہ دن کے لیے ٹھاکروں والےمندر کی داسی بنادو۔ مندر میں ان کالی طاقتوں کا وار نہیں چل سکے گا۔ تب تک میں اس کشٹ کا کوئی پورا اپاۓ نکال لونگا۔ پھر ساری عمر کوئی اس کا کچھ نہیں بگاڑسکے گا۔ مندر میں یہ بھگوان کے ساۓ میں رہےگی۔
پنڈت نے اپنی بات مکمل کرکے جواب طلب نظروں سے دینا ناتھ کی طرف دیکھا۔ دیناناتھ بےچارے کو کیاپتہ تھا۔کہ مندر میں اس کی بیٹی بھگوان کے ساۓ میں نہیں بلکہ شیطان کے ساۓ میں رہےگی۔ وہ نہیں جانتا تھا۔کہ اس کی بیٹی کے لیے سب سے محفوظ جگہ اس کا ٹوٹا پھوٹا گھر ہی تھا۔ پنڈت کی بات سن کر دیناناتھ اور اس کی بیوی خوش ہوگئے تھے۔ ان کی بیٹی مندر کی داسی بنے گی؟؟؟ ان کے لیے یہ بہت بڑا اعزاز تھا۔ اور داسی بھی اس مندر کی بنے گی جہاں ان کا جانا ایک خواب ہی ہوسکتا تھا۔
اور سب سے بڑا اعزاز کہ بھگوان نے خود آکر پنڈت کو کہا تھا کہ اس لڑکی کو میری داسی بنادو اس کے سارے کشٹ ختم ہوجائیں گے۔ یہ پنڈت نے ہی کہا تھا ان کو اور وہ بےچارے پنڈت کی بات پہ بناسوچے ایمان لےآۓ تھے۔ ٹھاکروں والے مندر کی داسی بننے کا اعزاز الگ ۔لوگ سنیں گے تو رشک کرینگے۔ دیناناتھ دل ہی دل میں ملنے والی عزت کے خیال سے خوش ہورہاتھا۔ پاروتی کو تھوڑی سی جھجک ضرور تھی مگر اندر سے وہ بھی خوش تھی۔ بھگوان کی داسی بننا اسے بھی اچھا لگ رہا تھا۔
ویسے بھی تیرہ دن کی ہی تو بات تھی۔
پھر وہ واپس اپنے گھر آجاتی۔ اس کے لیے اتنا ہی کافی تھا۔کہ وہ تیرہ دن بھگوان کی داسی رہےگی۔ بھگوان کی خدمت کریگی۔اس کے چرن دھوۓگی۔ دیناناتھ نے اپنی بیوی اور بیٹی کی رضامندی سے پنڈت کوہاں کردی تھی۔ اور پنڈت دل میں بہت سے خواب سجاۓواپس مندر آگیا تھا۔ اس نے فوراً یہ خبر پنڈت گوبندرلال کو جاسنائی تھی۔ اور گوبندرلال نے اشونت کو بتادیا تھا۔کہ شکار خود چل کر شکاری کے جال میں آرہاہے۔
اسے اب زیادہ دن صبر نہیں کرنا پڑیگا۔ دودن بعد پاروتی نے تیرہ دن کی داسی بن کر مندر جانا تھا۔ سرسوتی کو جب یہ پتہ چلا تو وہ بھی بہت خوش ہوئی تھی۔ اس کا بھی دل چاہا کہ وہ بھی داسی بنتی اور بھگوان کی خدمت کرتی۔ اس نے سوچا دیدی واپس آجاۓ پھر وہ بھی پنڈت کو کہے گی ۔کہ اسے بھی کچھ دن کے لیے بھگوان کی سیوا کا موقع دیاجاۓ۔ جس دن پاروتی کو مندر جانا تھا۔ اسی رات اس کی طبیعت خراب ہوگئی۔ اور اس قدر خراب ہوئی کہ وہ بےہوش ہوگئی۔ دیناناتھ کے ہاتھ پاؤں پھول گئے تھے۔
اس کی بیوی تو صبح تک روتی ہی رہی تھی۔ یہی حال سرسوتی کا بھی تھا۔ اپنی بہن کی حالت دیکھ کر اس کا دل کٹ رہا تھا۔ جیسے تیسے کرکے صبح ہوئی۔ سورج ایک نئی داستان لیکر طلوع ہوا۔ پاروتی کی حالت قدرے بہتر ہوئی تھی۔مگر وہ ابھی بھی اس قابل نہیں تھی۔کہ اپنے پاؤں پر چل پھرسکتی۔ مندر سے ایک آدمی بلاوا لیکر آگیا تھا۔ پنڈت پاروتی کا انتظار کررہا ہے۔ دیناناتھ اور اس کی بیوی پریشان تھے۔ کہ اب کیا کیاجاۓ۔ پاروتی کو اس حال میں مندر نہیں بھیج سکتے تھے۔
اور کل پہ بھی نہیں ٹال سکتے تھے۔ کیونکہ پنڈت نے کہا تھا ۔
کہ آنے والی پونم کی جو رات ہوگی۔اس کی صبح ہر صورت اپنی بیٹی کو مندر چھوڑآنا۔ ورنہ دیر ہوسکتی ہے۔ آخر اس مشکل کا حل ان کی بیٹی سرسوتی نے نکالا۔ اس نے اپنے پتا سے کہا کہ وہ اسے دیدی کی جگہ مندر چھوڑآۓ۔
دونوں بہنیں ہیں۔ایک ہی خون ہیں کوئی فرق نہیں پڑتا پاروتی جاۓ یاسرسوتی۔ دیناناتھ نے اپنی بیوی سے پوچھا۔ اس نے بھی سرسوتی کی ہاں میں ہاں ملائی۔ سرسوتی تیار ہوکردیناناتھ کے ہمراہ مندر کی طرف چل پڑی۔ اس بات سے بےخبر کہ اپنی بہن پہ آنے والی مصیبتوں کو وہ اپنے سر لینے جارہی ہے۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔
ناول داسی قسط 5
میری اجازت کے بغیر کاپی پیسٹ کرنا سختی سے منع ہے۔۔۔
✭ نوٹ :- عمدہ قسم کے سبق آموز واقعات وحکایات کیلئے آج ہی ہمارا ٹیلی گرام چینل جوائن کریں۔
نوٹ :- ایسے ہی دل کو موہ لینے والے اور دل کو چھو لینے والے واقعات و حکایات پڑھنے کے لئے روز ویب سائٹ کا وزٹ کریں۔ اور اپنے دوست و احباب اور متعلقین کو بھی شیئر کریں تاکہ آپ کے ذریعے ان کا بھی فائدہ ہو ۔
اگلی قسط کل إن شاء الله
اپنی راۓ سے آگاہ کیجیے گا۔شکریہ
Leave a Comment