ناول داسی قسط 3 – daasi novel

ناول داسی قسط 3
Written by kahaniinurdu

ناول داسی قسط 3

گورکھ پور سے تقریباً پچاس میل کے فاصلے پر ایک چھوٹا سا گاؤں تھا۔

جس کی آبادی کل ساٹھ ستر نفوس پر مشتمل تھی۔ جس میں ہندو مسلم سکھ اور عیسائی شامل تھے۔ کھیتی باڑی اور بکریاں پالنا ان کا پیشہ تھا۔ جس سے یہ گزر بسر کرتے تھے۔ گاؤں میں مختلف ذات پات کے ہندو آباد تھے۔ جن میں ٹھاکر بھی تھے اور شودر بھی۔ شودر ہندوؤں میں سب سے نچلی ذات مانی جاتی ہے۔ شودرو کو وہاں انسان نہیں سمجھا جاتا۔ نہ ان کی کوئی عزت کی جاتی ہے۔ حتیٰ کے ان کو کوئی بڑی ذات کا ہندو اپنے برتن تک چھونے نہیں دیتا۔

ان کا ماننا ہے کہ شودر ذات کا کوئی آدمی اگر ان کے برتن کو ہاتھ لگادیگا تو وہ ناپاک ہوجائیں گے۔ اس گاؤں میں دینا ناتھ نام کا ایک ہندو بھی رہتا تھا۔ ذات کا چمار تھا۔اور شودروں میں شمار ہوتا تھا۔ ٹھاکروں کی حویلی میں ان کے کام کاج کردیتا تھا۔ کام کاج سے مراد ان کے ڈھور ڈنگروں کی دیکھ بھال یا ان کا حقہ بھرنا تھا۔ جس کے بدلے اس کو کھانے کو کچھ نہ کچھ مل جاتا تھا۔ دینا ناتھ اور اس بیوی ٹوٹے پھوٹے سے ایک جھونپڑ نما مکان میں رہتے تھے۔ دینا ناتھ اور اس کی بیوی کا دنیا میں اور کوئی نہیں تھا۔

اگر کوئی ایک آدھ رشتےدار تھا بھی تو وہ نہ ان سے ملتے تھے۔نہ آتے جاتے۔ دینا ناتھ کی شادی کو پندرہ سال گزر گئے تھے۔مگر ابھی تک اولاد جیسی نعمت سے محروم تھے۔ گاؤں میں ایک چھوٹی سی مسجد ایک گردوارہ اور دو مندر تھے۔ ایک مندر ٹھاکر اور بڑی ذات کے ہندوؤں کے لیے مخصوص تھا۔ اس میں نچلی ذات کا کوئی ہندو نہیں جاسکتا تھا۔ اور دوسرا ایک چھوٹا سا مندر سب کے لیےتھا۔مگر اس میں صرف نچلی ذات کے ہندو ہی جاتے تھے۔

بڑی ذات کے ہندو وہاں جانا اپنی توہین سمجھتے تھے۔

دینا ناتھ نے اولاد کے لیے بڑے جتن کیے تھے۔ کوئی حکیم وید نہیں چھوڑا تھا ۔ جہاں وہ نہ گیا ہو۔ پندرہ سال کا عرصہ گزرگیا تھا۔مگر وہ ابھی تک بےاولاد ہی تھے۔ اب وہ دونوں میاں بیوی مایوس ہوگئے تھے۔اور ان ہی دنوں میں دیناناتھ کی بیوی امید سے ہوگئی ۔ دینا ناتھ اور اس کی بیوی کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ دینا ناتھ اپنی حثیت کے مطابق بیوی کی دیکھ بھال کرتا تھا۔ وہ اپنی بیوی کو اب کام پہ بھی نہیں بھیجتا تھا۔

اور پھر دینا ناتھ کے گھر دو جڑواں بیٹیوں نے جنم لیا۔ دیکھنے والے حیران تھے کہ۔ گدڑیوں میں لال کہاں سے آگئے۔؟؟؟ دونوں بچیاں اپنے ماں باپ کے برعکس بےحد حسین تھیں۔ دونوں نے ایک جیسی شکل پائی تھی۔ ان کے چہرے پہ سب سے نمایا چیز ان کی آنکھیں تھیں۔ سمندر کے پانیوں سی گہری نیلی آنکھیں۔ دیکھنے والے حیران ہوجاتے تھے۔کہ دینا ناتھ جیسے آدمی کے گھر پریاں کہاں سے پیدا ہوگئیں۔؟؟؟ دینا ناتھ نے ان کا نام پاروتی اور سرسوتی رکھا تھا۔ وقت گزرتا رہا۔

دینا ناتھ کی بیٹیاں بڑی ہوتی گئیں۔ لڑکپن میں پہنچی تو ان کی اٹھان سے لگتا تھا۔کہ جوان ہوکر دونوں بہنیں شہزادیاں بنیں گی۔ دونوں کی شکل اتنی ملتی جلتی تھی۔کہ ان کے ماں باپ کے سوا کوئی اور ان کو نہیں پہچان سکتا تھا۔ وقت مزید گزرا۔اور دنوں بہنیں لڑکپن کی دہلیز پار کرکے جوانی کے حد میں قدم رکھ چکی تھیں۔ جو بھی ان کو دیکھتا عش عش کر اٹھتا۔ دودھ اور سندور کے ملاپ سا رنگ۔لمبے بال اور گہری نیلی آنکھیں۔

پاروتی اور سرسوتی نے جوانی میں قدم رکھا تو گاؤں میں کئی جوانوں کے دل ان کے قدموں کی دھمک پہ دھڑکنے لگے۔

گاؤں میں ان کے حسن کے چرچے تھے۔ غریب کی بیٹی کا حسن اس کے لیے وبال جان ہوتا ہے۔ یہی کچھ ان کے ساتھ بھی تھا۔ پہلے تو وہ گھر سے نکلتی ہی نہیں تھیں۔ اگر مجبوری میں کہیں جانا پڑجاتا تو ہر آنے جانے والے کی نظروں کی چبھن ان کو اپنے جسم سے آرپار ہوتی محسوس ہوتیں تھیں۔ جب وہ دونوں انیس سال کی ہوئیں تو بدنصیبی نے ان کا گھر دیکھ لیا۔

ایک دن پاروتی اپنی ماں کے ساتھ مندر سے نکل کر گھر واپس آرہی تھی۔ راستے میں ان کا سامنا ٹھاکروں والے مندر کے پنڈت گوبندر لال سے ہوگیا۔ جو کسی کام سے اس عام لوگوں کےمندر والے پنڈت مشرا جی کے پاس آرہا تھا۔ پاروتی اور اس کی ماں کو محسوس بھی نہ ہوا۔کہ پنڈت نے ان کو کتنی گہری اور جانچنے والی نظروں سے دیکھا ہے۔ گاؤں میں کوئی نہیں جانتا تھا۔کہ یہ پنڈت دراصل ٹھاکروں کے لیے دلال کا کام کرتا تھا۔

آج تک نہ جانے کتنی لڑکیاں مندر مذہب کے نام پر اپنی عزت اور زندگی گنوا بیٹھی تھیں۔ پاروتی اپنی ماں کے ساتھ گھر آگئی تھی۔اور ان کو تاڑنے والا پنڈت مندر سے سیدھا ٹھاکر کی حویلی گیا تھا۔ ٹھاکر بھیروں رام کے چھوٹےبیٹے ٹھاکر اشونت رام کو یہ بتانے ۔کہ اس نے آج گاؤں میں جل پری دیکھی ہے۔ پنڈت اشونت کا خاص رازدار تھا۔ مندر میں آنے والی کوئی عورت لڑکی اگر پنڈت کو بھاجاتی تو وہ اشونت کو اطلاع دیتا تھا۔ حالانکہ مندر میں آنے والی لڑکیاں بھی اونچے خاندانوں سے ہی ہوتی تھیں۔

پھر بھی پنڈت کوئی نہ کوئی چکر چلاکر ان کو اپنے دام میں لےآتا تھا۔

اشونت کے بعد پنڈت اپنی ہوس پوری کرتا تھا۔ اور اس کے بعد ایک دو دوسرے پنڈت ہوس کا کھیل کھیلتے۔ کوئی لڑکی جب ایک بار ان کے چنگل میں پھنس جاتی تو اس کا اس گھن چکر سے نکلنا ناممکن ہوتا تھا۔ اور اگر کسی کم ذات کی کوئی لڑکی ان کو بھاجاتی تو پنڈت اسی مذہبی داؤ پیچ سے اسے رام کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ جو لڑکی اس کے داؤ میں آجاتی وہ پھر یا تو خودکشی کرلیتی یا پھر زبان کھولنے کے خوف سے اسے اشونت اور پنڈت خود ماردیتے۔

کم ذات اور غریب لڑکیوں کو اکثر اٹھوا بھی لیا جاتا تھا۔ اور پھر اس کا کوئی پتہ نہ چلتا۔ مندر کے قریب کا علاقہ ایسی بہت سی مظلوم لڑکیوں کی گمنام قبروں سے بھرا پڑا تھا۔ جن کو گمشدہ یا گھر سے بھاگ جانے کے خیال سے ان کے گھر والوں نے بھلادیا تھا۔ پنڈت اشونت کو ساری بات بتاآیا تھا۔ اشونت نے بھی اڑتی اڑتی سنی تھی۔کہ گاؤں میں دو لڑکیاں بہت حسین ہیں۔مگر اس نے زیادہ غور نہیں کیا تھا۔ اور اب جب پنڈت نے اس لڑکی کا نقشہ کھینچا تھا۔اور جیسے کھینچا تھا۔

اشونت کی رال ٹپکنے لگ گئی تھی۔ اس کے اندر کا ہوس زدہ درندہ جاگ اٹھا تھا۔ اس نے پنڈت سے کہا تھا کہ وہ کچھ بھی کرے کسی بھی طرح اس لڑکی کو پھانسے۔ پنڈت نے سوچ لیا تھا۔کہ اسے کیا کرنا ہے۔وہ اشونت کو جلد ہی کسی خوشخبری کا کہ کر اور اس سے اپنا انعام لیکر واپس مندر آگیا تھا۔ اگلے دن وہی پنڈت عام لوگوں کے مندر کے پجاری کے پاس بیٹھا اسے اشونت کا حکم سنارہا تھا۔ اس مندر کا پنڈت بھی ٹھاکروں کے مندر کے پنڈت کا خاص چیلا تھا۔

دونوں نے پہلے بھی مل کر اشونت کے لیےکئی ایسے کام کیے تھے۔

جن کو دیکھ کر درندے بھی انسانوں سے ڈر جائیں۔ بدلے میں ان کو انعام کرام کے ساتھ ان لڑکیوں کے جسم سے کھیلنے کا موقع بھی ملا تھا۔ اور اب ایک بار پھر وہی انسانیت سوز کھیل رچاۓ جانے کا منصوبہ بنایا جارہا تھا۔ ہوس انسان کی غیرت عزت خوف اور انسانیت چھین کر اسے درندوں سے بھی بدتر بنادیتی ہے۔ انسان بھول جاتا ہے ۔کہ وہ انسان ہے درندوں میں عقل نہیں ہوتی۔اور ہوس انسان کی عقل پہ پردہ ڈال دیتی ہے۔

اس لحاظ سے دونوں برابر ہوجاتے ہیں۔ دونوں کے شکار کا مقصد بھوک مٹانا ہوتا ہے۔ ایک پیٹ کی بھوک مٹانے کے لیے۔اور دوسرا ہوس کی بھوک مٹانے کے لیے۔ میری نظر میں ایسے انسان سے درندہ قدرے بہتر ہے۔ کیونکہ وہ صرف پیٹ کی بھوک مٹاتا ہے۔ اور نہ ہی اسے اشرف المخلوقات کہا جاتا ہے۔ اس لیے بھی اس کا جرم انسان سے ہلکا مانا جاۓ گا۔ پنڈت نے اسے سب سمجھادیا تھا۔کہ اس نے کیا کرنا ہے۔اور کیسے ان کے گرد مذہب اور توہم پرستی کا جال بننا ہے۔

دوچار دن بعد ایک صبح دینا ناتھ کی بیوی سوکر اٹھی منہ دھوکر وہ باہر کے دروازے کی کنڈی کھولنے آئی تو اس کی نظر کپڑے میں لپٹی دروازے کے قریب کسی چیز پر پڑی اس نے حیرت سے اس چیز کو دیکھا۔اور ڈرتے ڈرتے کپڑا ہٹایا۔ کپڑا ہٹاتے ہی اس کے منہ سے ایک چیخ نکلی۔ اور وہ ڈر کر پیچھے ہٹی۔ خوف زدہ سی نظروں سے وہ اس چیز کو تکے جارہی تھی۔ پھر وہ پلٹی اور اپنے شوہر کو آوازیں دیتی اندر کی طرف بھاگی۔

جاری ھے

ناول داسی قسط 4

میری اجازت کے بغیر کاپی پیسٹ کرنا سختی سے منع ہے۔۔۔  

✭ نوٹ :- عمدہ قسم کے سبق آموز واقعات وحکایات کیلئے آج ہی ہمارا ٹیلی گرام چینل جوائن کریں۔

 نوٹ :- ایسے ہی دل کو موہ لینے والے اور دل کو چھو لینے والے واقعات و حکایات پڑھنے کے لئے روز ویب سائٹ کا وزٹ کریں۔ اور اپنے دوست و احباب اور متعلقین کو بھی شیئر کریں تاکہ آپ کے ذریعے ان کا بھی فائدہ ہو ۔

 

novel-dasi-part4 ناول داسی قسط 4

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Leave a Comment