ناول داسی قسط 2
گاؤں والوں کو جب پتہ چلا کہ راجندر کسی جوان لڑکی کے پیچھے گیا تھا۔
اور پھر واپس نہ آیا تو ان کے ذہن میں پہلا خیال ہی کسی چڑیل یابدروح کا آیا تھا۔ جو لوگوں کو ماردیتی تھی۔ اگلے دن کئی لوگ مل کر جنگل میں اس جوان لڑکی کی تلاش میں نکل پڑے۔ صبح سے لیکر دوپہر تک پھرنے کے بعد بھی ان کو ایسی کوئی لڑکی نہ ملی۔ مایوس ہوکر وہ واپس آگئے۔ کئی ہفتے گزر گئے ۔ نہ کوئی جنگل کی طرف گیا اور نہ کوئی غائب ہوا۔ پھر ایک دن گاؤں کا ایک سیدھا سادا نوجوان موہن جنگل کی طرف گیا تو اس کی نظر اس لڑکی پر پڑی۔
وہ اچانک ہی اس کے سامنے آئی تھی۔ اس نے ایک پل ٹہر کر موہن کو دیکھا۔ اور پھر ایک طرف چل پڑی۔ موہن کو تجسس ہوا۔ وہ اس لڑکی کے پیچھے پیچھے چل دیا۔ پہاڑ کے قریب پہنچ کر وہ اپنی مخصوص جگہ غائب ہوگئی۔ موہن اس کے پیچھے پیچھے نیچے تہہ خانے میں اترگیا ۔ تہہ خانے کی فضا میں عجیب سی بساند رچی ہوئی تھی۔ موہن سامنے نظر آنے والے دروازے سے اندر گیا تو اس کے سامنے تین کمرے آگئے۔ وہ کچھ دیر وہاں کھڑا ادھر ادھر دیکھتا رہا۔ کوئی ہے؟؟؟ موہن نے صدا دی۔
اس کی آواز وہاں گونج کررہ گئی۔ کوئی ہے یہاں؟؟؟ کسی کا کوئی ردعمل نہ پاکر اس نے ایک بار پھر پکاراـ مگر اس بار بھی کوئی ردعمل نہ آیا۔ اس نے سوچا وہ لڑکی ضرور ان تین میں سے کسی ایک کمرے میں ہوگی۔ اس نے اپنے داہنے ہاتھ بنے کمرے میں جھانکا۔اور اچھل پڑا۔ وہاں بےشمار انسانی کھوپڑیاں اور ڈھانچے پڑے تھے۔ وہ خوف زدہ ہوکر پلٹا۔ پلٹتے ہی وہ کسی نازک سے جسم سے ٹکرایا تھا۔ خوف سےاس کی سانس رک گئی۔ پھٹی آنکھوں سےاس نے دیکھا وہی لڑکی اس کے بلکل پیچھےکھڑی تھی۔ ککک کون ہو تم؟؟؟
موہن نے ہکلاتے ہوۓ پوچھا۔
جواب میں اس لڑکی نے اسے وہی مظلومیت بھری کہانی سنائی جو اس نے راجندر کو سنائی تھی۔ کہانی سناتے وہ باقاعدہ روپڑی تھی۔ آخر میں اس نے یہ الفاظ بھی کہے تھے۔کہ اس کو کچھ نہ کہنا اس کی عزت خراب نہ کرنا۔ اس نے موہن کو بھی آفر کی تھی کہ وہ اسےاپنے گھر لےجاۓ۔اور اس سے شادی کرلے۔ موہن کی کچھ سال پہلے شادی ہوچکی تھی۔ اس نے پاروتی سے کہا کہ وہ اس کے ساتھ اس کے گھر چلے۔ وہ اسے اپنی بہن بناکر رکھے گا۔
اور کوئی اچھا سا لڑکا دیکھ کر اس کی شادی کردیگا۔ پاروتی چپ ہوگئی تھی۔ اس نے غور سے موہن کو دیکھا۔اور اٹھ کر ایک کمرے میں چلی گئی۔ موہن وہیں بیٹھا رہا۔ جب کافی دیر گزرگئی اور پاروتی واپس نہ آئی تو موہن اٹھ کر اس کمرے میں گیا۔ کمرہ خالی تھا۔ موہن حیران رہ گیا۔ پاروتی اس کے سامنے اس کمرے میں گئی تھی۔اور باہر نہیں نکلی۔ نہ ہی اس کمرے میں کوئی اور دروازہ نظر آرہا تھا۔ موہن نے پاروتی کو آوازیں دی۔مگر پاروتی وہاں ہوتی تو جواب دیتی۔ کچھ دیر موہن یونہی وہاں کھڑا رہا۔
پھر اس کمرے سے نکلا اور باہر جانے لگا۔ تب اچانک ہی اس کی نظر اس سامنے والے تیسرے کمرے پر پڑی۔ وہ جب یہاں آیا تھا تواس نے وہ کمرہ دیکھا تھا۔ دو کمرے وہ اندر سے دیکھ چکا تھا۔مگر اس سامنے والے کمرے کے اندر نہیں گیا تھا۔ اس نے سوچا یہ کمرہ بھی دیکھ ہی لوں۔ اور واپس ہوگیا۔ موہن جیسے ہی اس کمرے میں داخل ہوا۔ بدبو کا ایک بھبکا اس کی ناک سے ٹکرایا۔ خوف سے اس کی آنکھیں پھیل گئی تھیں۔ سامنے کئی لاشیں جلی پڑی تھیں۔
موہن نے نہ کچھ اور دیکھا نہ سوچا۔ وہ پلٹا اور جتنا تیز ہوسکتا تھا بھاگ کر تہہ خانے سے نکل گیا۔
ناول داسی قسط 2
تہہ خانے سے نکل کر وہ گاؤں کی طرف جانے والے راستے پر دوڑنے لگا۔ اس کی سانس پھولی ہوئی تھی۔اور سارا جسم پسینے سے شرابور تھا۔ وہ اندھا اندھ دوڑتا جارہا تھا۔ اسے یہ نہیں پتہ تھا ۔کہ وہ جب تہہ خانے سے نکلا تو کچھ دور کھڑی پاروتی اسے دیکھ رہی تھی۔ اور پاروتی نے اسے صرف اس وجہ سے چھوڑ دیا تھا ۔کہ موہن ہوس پرست نہیں تھا۔
ورنہ اس کا انجام بھی وہی ہوتا جو راجندر اور اس کے گاؤں کے سات دوسرے آدمیوں کے ساتھ ہوا تھا۔ وہ بھی اب تک ایک لاش میں تبدیل ہوچکا ہوتا۔ موہن نے جو ایک کمرے میں انسانی ہڈیاں بکھری دیکھی تھیں۔ وہ بھی ایسے ہی ہوس پرستوں کی تھی۔ جو پاروتی کو جنگل میں تنہا دیکھ کر اس کے جسم سے کھیلنے کی حسرت لیے دردناک موت مارے گئے تھے۔ اس جنگل کے آس پاس بہت سے گاؤں دیہات تھے۔ یہ ان گاؤں میں سے ہی کچھ لوگوں کی ہڈیاں تھیں۔
اور یہ سلسلہ آج سے نہیں کم از کم دو سوسال سے چلا آرہا تھا۔ موہن بھاگم بھاگ گاؤں کی طرف جارہا تھا۔ وہ جلد ازجلد یہ بات لوگوں کو بتانا چاہتا تھا۔ پاروتی کے ہاتھوں بچنے والا موہن پہلا انسان نہیں تھا۔ اس سے پہلے بھی کئی ایسے لوگ پاروتی نے صرف اس لیے چھوڑدیے تھے کہ وہ عورت کو صرف ہوس پوری کرنے کازریعہ نہیں سمجھتے تھے۔بلکہ اس کے ہر روپ کی قدر کرنا جانتے تھے۔ وہ روپ چاہے ماں کی صورت ہو،بہن بیٹی یا پھر بیوی کی صورت۔ آج موہن نے بھی پاروتی کا دل جیت لیا تھا۔
اسے اپنی بہن بناکر رکھنے کی بات کرکے۔
موہن گاؤں پہنچا تو پسینے سے شرابور ہانپ رہاتھا۔ وہ ابھی بھی ہرچیز سے بےنیاز بس گھر پہنچنے کی فکر میں جتنا ہوسکتا تیز چل رہا تھا۔ آنے جانے والے لوگ حیرانی سے اسے دیکھتے تھے۔ ایک دو نے اس کی حالت دیکھ کر تجسس سے اس سے پوچھا بھی تھا کہ کیا ہوا ہے؟؟؟؟ وہ کیوں ایسی حالت میں ہے؟؟؟؟مگر موہن جیسے گونگا ہوگیا تھا۔ کوشش کے باوجود بھی اس کے منہ سے آواز نہیں نکل سکی تھی۔ شاید خوف نے اس کی قوت گویائی چھین لی تھی۔
وہ لوگوں کے سوالوں پر بھی رکا نہیں تھا۔ سیدھا گھر آیا تھا۔ گھر میں داخل ہوتے ہی اس کا حوصلہ جواب دے گیا۔ صحن عبور کرتے ہی وہ گرپڑا تھا۔ اس کی بوڑھی ماں اور بیوی اس کی حالت دیکھ کر پریشان ہوگئی تھیں۔ وہ بھاگ کر موہن تک پہنچی تھیں۔ اس سے پہلے کہ وہ موہن سے اس کی حالت کے بارے استفسار کرتیں۔ وہ عالم بےہوشی میں جاچکا تھا۔ اس کی ماں اور بیوی اس کی حالت دیکھ کر رونے بیٹھ گئیں۔ ان کی آواز سن کر پڑوس کے کچھ لوگوں ان کے گھر آگئے۔
انہوں نے موہن کو اٹھا کرچارپائی پہ لٹادیا۔ اور اس کے منہ پہ پانی کے چھینٹے مارے۔ مگر موہن کی حالت میں فرق نہ آیا۔ اتنی دیر میں ایک آدمی بھاگ کر وید کو بلالایا۔ وید نے آتے ہی اس کی نبض چیک کی۔ جو چل رہی تھی۔ اس نے اس کی آنکھوں کے پپوٹوں کو اٹھا کر دیکھا۔ اور پھر مطمئن سے انداز میں سرہلادیا۔ وید جی کیا ہوا میرے بچے کو؟؟؟ موہن کی ماں نے بےتابی سے پوچھا تھا۔ کچھ نہیں چنتا کی کوئی بات نہیں۔ شاید اس نے کوئی خوفناک چیز دیکھ لی ہے۔ یہ کہاں گیا تھا؟؟
وید نے اس کی ماں سے پوچھا۔ مجھے نہیں پتہ وید جی یہ کہاں سے آیا ہے؟؟؟
موہن کی ماں نے لاعلمی کا اظہار کیا۔ وید ان کو تسلی دےکر چلا گیا۔ لوگ بھی اپنے اپنے گھروں کوچلے گئے۔ موہن کی ماں اور بیوی اس کے پاس بیٹھ گئیں۔ دس پندرہ منٹ بعد موہن کے جسم نے حرکت کی اور اس نے آنکھیں کھول دیں۔ پانی۔۔۔۔۔۔اس کے منہ سے نکلنے والا پہلا لفظ پانی تھا۔ اس کی ماں بےتابی سے آگے بڑھی اور اسے پانی پلایا۔ پانی موہن کے حلق سے اترا تو اسے کچھ سکون ہوا۔
اور وہ مکمل ہوش میں آگیا۔ اس نے اپنی ماں اور بیوی کو یوں بیٹھے دیکھا تو ایک جھٹکے سے اٹھ کر بیٹھ گیا۔ میں گھر ہوں؟؟؟ اس نے حیرانی سے ادھر ادھر دیکھا۔ جیسے اسے یقین نہ ہو کہ وہ اپنے گھر میں ہے۔ شاید اس کے ذہن سے ابھی تک تہہ خانے کا وہ منظر نہیں اترا تھا۔ بیٹا کیا ہوا تھا تمہیں؟؟؟ اس کی ماں نے پیار سے اس کے سر پہ ہاتھ پھیرتے ہوۓموہن سے پوچھا۔ یہی سوال اس کی بیوی نے بھی کیا تھا۔ اس نے ان دونوں کو دیکھا۔ کچھ دیر وہ ان کو دیکھتا ہی رہا۔ جیسے فیصلہ کررہا ہو کہ ان کو بتاؤں یا نہ بتاؤں ؟؟؟
ماتا۔۔۔۔۔۔۔شاید وہ کسی فیصلے پر پہنچ گیا تھا۔ ماتا۔۔۔۔۔۔۔اس نے اپنی ماں سے کہا۔ میں جنگل گیا تھا آج۔ ہیں؟؟؟ تو جنگل گیا تھا؟؟؟ اس کی ماں کو جیسے یقین نہ آیا۔ ارے تو کیوں جنگل میں گیا تھا؟؟؟ موہن کا جنگل میں جانے کا سن کر اس کی ماں اور بیوی کا دل اچھل کر حلق میں آگیا تھا۔ وہ دونوں خوف زدہ سی اسے دیکھے جارہی تھیں۔ شاید سوچ رہی ہوں کہ۔۔۔اگر اس کو کچھ ہوجاتا تو۔۔۔۔۔؟؟؟ ان کے ذہن میں اپنے گاؤں کے غائب ہونے والے آٹھ لوگوں کا خیال گھوم رہا تھا۔
آج موہن بھی ان میں شامل ہوسکتا تھا۔ کیونکہ وہ آج جنگل گیا تھا۔
اور وہ بھی اکیلا موہن نے اپنے ساتھ ہونے والا واقعہ ان دونوں کو بتادیا۔ موہن کے ساتھ پیش آۓ حالات کا سن کر ان کا کلیجہ دہل گیا تھا موہن تم نے کیا نام بتایا اس لڑکی کا؟؟؟ موہن کی ماں نے اچانک ہی اس سے پوچھا تھا۔ جیسے اسے کچھ یاد آیا ہو۔ ماتا۔پاروتی نام بتایا تھا اس نے۔ موہن نے جواب دیا۔اور اپنی ماں کی طرف دیکھنے لگا۔ شاید اسے اپنی ماں سے کسی بڑے گہرے انکشاف کی توقع تھی۔ پاروتی ۔پاروتی ۔۔۔۔۔
اس کی ماں نام دہراتے کچھ سوچ رہی تھی۔ پتہ نہیں کیوں مجھے یہ نام کچھ سنا سنا سا لگ رہا ہے۔۔۔؟؟؟ کچھ دیر سوچنے کے بعد موہن کی ماں نے کہا۔ ماتا ایسے ہزاروں لاکھوں نام کی عورتیں پورے ہندوستان میں ہیں۔ موہن نے اپنی ماں سے کہا۔ نہیں بیٹا۔۔۔۔۔اس کی ماں ابھی بھی کسی خیال میں گم تھی۔ یوں تو کئی عورتوں کے نام ہیں مگر۔ اس نام کے ساتھ کوئی بڑا راز جڑا ہے۔ جو مجھے یاد نہیں آرہا۔ موہن کی ماں شاید سوچ کی چھڑی سے ماضی کھنگال رہی تھی۔
مگر اسے کچھ مل نہیں رہا تھا۔ایسا کچھ جسے وہ بھول بیٹھی تھی۔ موہن کی ماں کی عمرسوسال کے قریب ہوگئی تھی۔ اس عمر میں بھولے بسرے واقعات کم ہی یاد آتے ہیں۔ ہاں یاد آگیا۔۔۔۔۔اچانک ہی وہ بول اٹھی۔ ماتا کیا یاد آگیا؟؟؟ موہن نے حیرانی سے پوچھا۔ پاروتی کون ہے؟؟؟ مجھے یاد آگیا۔ اس کی ماں نے کہا تو موہن نے چونک کر اپنی ماں کو دیکھا۔ اسے لگا اس کی ماں ضرور کسی گہرے راز سے پردہ اٹھانے جارہی ہے۔ وہ پوری طرح اپنی ماں کی طرف متوجہ ہوگیا۔
اس کی بیوی بھی حیرانی اور تجسس کے جزبات لیے اپنی ساس کے بولنے کی منتظر تھی۔
بیٹا میں جب پندرہ سولہ سال کی تھی۔ اس وقت میری دادی نے مجھے دو بہنوں کی ایک سچی کہانی سنائی تھی۔ ان میں سے ایک کا نام پاروتی تھا۔ شاید اس لیے مجھے پاروتی کا نام سن کر پتہ نہیں کیوں وہ لڑکی یاد آگئی۔مگر وہ تو بہت پرانی بات ہے۔ شاید ڈیڑھ دوسوسال پرانی۔ میری دادی اسی گاؤں کی رہنے والی تھی۔ جہاں پاروتی رہتی تھی۔ پاروتی کو کسی نے قتل کردیا تھا۔ شاید یہ اسی پاروتی کی روح ہو۔؟؟؟
جو لوگوں سے انتقام لےرہی ہے۔ ماتا۔۔۔۔۔اگر ایسا ہے تو مجھے کیوں چھوڑدیا اس نے؟؟؟ موہن نے اپنی ماں سے سوال کیا۔ یہی تو میں بھی سوچ رہی ہوں۔ اس کی ماں نے کہا۔اور کسی گہرے خیال میں گم ہوگئی۔ ماتا مجھے وہ کہانی سناؤ۔جو آپ کی دادی نے آپ کو سنائی تھی۔ موہن نے اپنی ماں سے فرمائش کی۔ ماتا آپ کی دادی کس گاؤں میں رہتی تھی۔ موہن نے کسی خیال کے تحت اچانک ہی پوچھ لیا۔ گنگا نگر۔ اس کی ماں نے جواب دیا تو موہن اچھل پڑا۔
ماتا اس لڑکی نے بھی یہی کہا تھا۔
کہ وہ پہلے گنگا نگر میں رہتی تھی۔ موہن کی بات سن کر اس کی ماں حیرت سے موہن کو تکنے لگی۔ شاید سوچ رہی تھی۔کہ یہ جنگل میں موہن کو ملنے والی پاروتی اور ان کی دادی کے گاؤں گنگا نگر میں رہنے والی پاروتی یقیناً ایک ہی ہے۔ یا پھر دونوں کا کوئی تعلق ضرور ہے۔ موہن کے اصرار پر اس کی ماں نے اپنی دادی سے سنی کہانی دہرانا شروع کردی۔
اگلی قسط کل إن شاء الله اپنی راۓ دینا مت بھولیے گا۔۔۔
ناول داسی قسط 3
میری اجازت کے بغیر کاپی پیسٹ کرنا سختی سے منع ہے۔۔۔
✭ نوٹ :- عمدہ قسم کے سبق آموز واقعات وحکایات کیلئے آج ہی ہمارا ٹیلی گرام چینل جوائن کریں۔
نوٹ :- ایسے ہی دل کو موہ لینے والے اور دل کو چھو لینے والے واقعات و حکایات پڑھنے کے لئے روز ویب سائٹ کا وزٹ کریں۔ اور اپنے دوست و احباب اور متعلقین کو بھی شیئر کریں تاکہ آپ کے ذریعے ان کا بھی فائدہ ہو ۔
ناول داسی قسط 2
شکریہ
Leave a Comment