ناول داسی قسط11 – daasi novel

novel-dasi-part11 ناول داسی قسط11
Written by kahaniinurdu

ناول داسی قسط11

مندر سے نکل کر وہ گھر نہیں گئی واپس جنگل کی طرف چل پڑی تھی۔

وہ خون آلود حلیے میں گاؤں نہیں جانا چاہتی تھی۔ اس نے سوچا تھا دوسرے پنڈت اور ٹھاکر کو عبرت کا نشان بنا کر ہی وہ گھر جاۓ گی۔ صبح کا سورج اوپر آچکا تھا وہ جب جنگل میں پہنچی تھی۔ وہ سیدھی یادیو کے پاس گئی اور اسے رات کی ساری کارگزاری سنائی۔ یادیو بہت خوش ہوا تھا۔ سرسوتی نے نہادھوکر کپڑے بدلے اتارے گئے کپڑے اس نے دھوکر سوکھنے کے لیے ڈال دیے۔

آج اس نے سیاہ لباس پہنا تھا جو اس پہ جچ بھی خوب رہا تھا اور رات کو اس کے چھپنے کے کام بھی آتا۔ وہ رات بھر سوئی نہیں تھی اس نے یادیو سے اجازت لی اور ایک جگہ لیٹ گئی۔ لیٹتے ہی اسے نیند نے اپنی آغوش میں لےلیا تھا۔ شام کچھ پہلے وہ جاگی اور یودیو سے اجازت لیکر اپنے گاؤں کی طرف چل پڑی۔ آج بھی اس نے مندر جانا تھا مگر یہ وہ مندر تھا جو وہاں کے غریبوں کے اور اچھوتوں کے لیے بنایا گیا تھا۔

اس کے پنڈت نے ہی سرسوتی کے گھر کچھ چیزیں پھینک کر اس کھیل کا آغاز کیا تھا اور آج سرسوتی اس کی بھیانک موت سے اس کا اختتام کرنا چاہتی تھی۔ وہ انتہائی دھیمی رفتار سے جارہی تھی۔ اسے کوئی جلدی نہیں تھی کیونکہ رات ہونے میں ابھی بہت وقت تھا۔ رات ہونے تک وہ اپنے گاؤں کے قریب پہنچ گئی تھی۔مگر وہ گاؤں داخل نہیں ہوئی بلکہ ایک جگہ چھپ کر بیٹھ گئی اسے رات گہری ہونے کا انتظار تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گاؤں میں پنڈت کے مرنے سے خوف وہراس پھیل گیا تھا۔

پنڈت کی لاش کا حلیہ دیکھ کر لوگ کانوں کو ہاتھ لگاتے تھے۔ شام سے پہلے ان پانچ لوگوں کی موت کا علم بھی ہوگیا تھا۔ مندر کی دو پرانی داسیاں جانتی تھیں کہ مندر میں پانچ اور لوگ بھی تھے۔ وہ جب شام تک نظر نہ آۓ تو انہوں نے مندر کے تہہ خانے کو دیکھا وہاں تالا لگا ہوا تھا۔ اور عقبی دروازہ کھلا پڑا تھا۔ انہوں نے لوگوں کو بتایا کہ مندر میں پانچ اور لوگ بھی تھے۔ لوگوں نے مندر چھان مارا مگر ان کا سراغ نہ ملا۔

پھر ان میں سے ایک نے تہہ خانے کا تالا توڑدیا۔ تہہ خانے میں جانے والے لوگ ڈر کر واپس پلٹے تھے۔ وہاں پانچ لاشیں پڑی تھیں ان کا بھی وہی حشر تھا جو پنڈت کی لاش کا تھا۔ لوگوں کو یقین ہوگیا تھا کہ ان کو کسی بدروح یا چڑیل نے مارا ہے۔ یا پھر کسی خونخوار درندے نے ۔ مگر درندہ کسی کو مار کر لٹکاتا نہیں بلکہ اسے کھاجاتا ہے۔ مگر ان لاشوں کو اگرچہ چیراپھاڑا گیا تھا مگر کھاۓ جانے کے آثار نہیں تھے۔ رات ہوتے ہی لوگ اپنے اپنے گھروں میں دبک گئے تھے۔

ٹھاکر اشونت نے بھی پنڈت کی لاش دیکھی تھی اور اپنے ان پانچ لوگوں کی بھی۔

اس کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ ان کو مارنے والا کون ہے؟؟؟ اور کیوں ماراگیا؟؟؟ پنڈت مندر کے ایک کمرے میں پڑا سورہا تھا۔ جب اچانک ہی کسی نے اس کے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ پنڈت ہڑبڑا کر اٹھا اور خوفزدہ نظروں سے دروازے کی طرف دیکھنے لگا۔ کک کون ہے؟؟؟ مہاراج دروازہ کھولیے میں بہت مصیبت میں ہوں۔ کسی بوڑھی عورت نے کانپتی آواز میں جواب دیا تھا۔

پنڈت نے اٹھ کر فوراً دروازہ کھول دیا۔ اور دروازے پہ کھڑے انسان کو دیکھ کر وہ ایسے پیچھے ہٹا جیسے اسے دروازے سے کرنٹ لگا ہو۔ تت تت تم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟ پنڈت کے منہ سے ڈرتے ڈرتے نکلا تھا۔ ہاں میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سرسوتی نے اندر داخل ہوکر کہا۔اور دروازہ بند کردیا۔ سرسوتی کو دروازہ بند کرتے دیکھ کر پنڈت کی سانس رک گئی۔ مجھے تو تم لوگوں نے ماردیا تھا نا؟؟؟

سرسوتی نے غصے سے کہا ۔ دیکھ لو میں پھر زندہ ہوگئی۔

مرنے سے پہلے جان لو کہ میں اس لڑکی کی بہن ہوں۔ سرسوتی نے کہا۔اور جھپٹ کر پنڈت کا گلا پکڑلیا۔ اس کے منہ سے حیوانی آواز نکل رہی تھی۔ سرسوتی نے پنڈت کو مرنے سے پہلے ہی چیرپھاڑدیا تھا۔ پنڈت انتہائی اذیت میں مررہا تھا۔ پھر اس نے دم توڑدیا سرسوتی نے اس کے گلے میں رسی ڈالی اور اسے بھی ایک جگہ لٹکادیا۔ اس کے بعدوہ مندر سے نکل گئی۔ اس کا رخ ٹھاکروں کی حویلی کی طرف تھا۔

سیاہ رات میں سیاہ لباس پہنے سرسوتی رات کا ہی حصہ لگ رہی تھی۔ کوئی اسے دیکھ لیتا تو یہی سمجھتا کہ کوئی سایہ سا چلا جارہا ہے۔ ٹھاکروں کی حویلی کا گیٹ بند تھا۔ سرسوتی گھوم کر اس کے عقب میں چلی گئی اور ایک جگہ سے دیوار پھلانگ کر اندر داخل ہوگئی۔ حویلی سرسوتی کی سوچ سے بھی بڑی تھی۔ چاروں طرف کمرے ہی کمرے بنے ہوۓ تھے۔ اسے اشونت تک پہنچنا تھا مگر اسے یہ معلوم نہیں تھا کہ اشونت کا کمرہ کونسا ہے۔؟؟؟ حویلی میں اشونت اس کے ماں باپ اور ایک بہن رہتی تھی۔

باقی لوگ ان کے نوکر تھے

جو دن میں ہوتے تھے رات کو واپس چلے جاتے تھے سواۓ ایک دو کے۔ وہ اسی شش وپنج میں تھی کہ کیا کرے؟؟؟ پھر اس نے ایک ایک کمرہ دیکھنے کا فیصلہ کیا۔اور پہلے والے کمرے تک جاپہنچی۔ وہ ہر کمرہ آہستگی سے کھول کر دیکھتی رہی کسی بھی کمرے کے دروازے پر تالا نہیں تھا۔ اشونت کسی بھی کمرے میں نہیں تھا۔ سرسوتی کو اچانک ہی چھت کاخیال آیا تھا۔ وہ تیزی سے پلٹی ۔مگر اسے دیر ہوچکی تھی کسی نے اس پر رسی پھینکی اور اسے جکڑلیا۔

یہ دو آدمی تھے اور تیسرا ان کے ساتھ اشونت تھا۔ اشونت نے جیسے ہی سرسوتی کو دیکھا حیرت سے اس کا منہ کھل گیا۔ تم زندہ ہو؟؟؟؟؟ اشونت نے انتہائی حیرت سے کہا تھا۔ پنڈت سالا تو کہہ رہا تھا کہ میں نے دیناناتھ کی بیٹی کو مار کے گاڑدیا ہے۔ سرسوتی چپ چاپ اسے کھاجانے والی نظروں سے دیکھتی رہی۔ پھر اس کے اشارے پر ان دو آدمیوں نے سرسوتی کو ایک ستون سے باندھ دیا۔ سرسوتی نے کوئی مزاحمت نہیں کی تھی۔ اتنی دیر میں اشونت کا باپ بھی ایک طرف سے نکل کر سامنے آگیا تھا۔

ہمیں یقین تھا پنڈت کو کسی چڑیل نے نہیں بلکہ کسی انسان نے ہی مارا ہے۔

اشونت کا باپ سرسوتی سے کہ رہا تھا۔ اور یہ بھی جانتے تھے کہ پنڈت کو جس نے بھی مارا انتقام کے لیے مارا ہے۔اور وہ اشونت کو بھی مارنے آۓ گا۔ ہم تو سمجھ رہے تھے کسی لڑکی کا بھائی باپ ہوگا۔مگر تم تو بہن نکلی۔ اشونت کے باپ کے آخری الفاظ پر سرسوتی چونکی تھی۔ ہم جانتے ہیں تم دو جڑواں بہنیں ہو اور ہم شکل بھی۔ یہ بات ہمیں کچھ دن پہلے ہی پتہ چلی تھی۔ مگر ہم نے پتہ کرایا تو یہ پتہ چلا کہ دیناناتھ کی ایک بیٹی تو غائب ہوگئی تھی۔

اور دوسری کچھ دن بعد کہیں چلی گئی تھی۔ ایک کا تو ہم کو پتہ تھا کہ وہ کہاں غائب ہوئی تھی۔ مگر دوسری کا نہیں پتہ تھا۔ وہ آج خود چل کر ہمارے پاس آگئی۔ اشونت اور اس کے باپ نے ایک قہقہہ لگایا۔ ہم نے اپنی عورتوں کو کہیں بھیج دیا تھا۔ اور ہم یہاں اس کا انتظار کررہے تھے جو اشونت کو مارنے آتا۔ مگر ایک لڑکی آۓگی یہ اندازہ نہیں تھا۔ اشونت۔۔۔۔۔بڑا ٹھاکر اشونت سے بولا۔ اس سے آج رات جی بھر کے کھیلو اور صبح اس کی لاش گاؤں میں لٹکادینا۔

تاکہ لوگوں کو پتہ چل جاۓ کہ ٹھاکروں سے ٹکرانے والے کا انجام کیا ہوتا ہے۔

اس کو اسی حالت میں ننگا کرو۔ پہلے میں اس کے جسم کا ذائقہ چکھوں گا۔ پھر تم ۔اور پھر یہ دونوں ۔۔۔ بڑے ٹھاکر نے اشونت سے کہا ۔ اس کے بعد اس کی لاش کو گاؤں میں کسی جگہ لٹکادیں گے۔ اشونت اپنے باپ کی بات سن کر مسکرایا۔ اور پھر سرسوتی کی طرف بڑھا۔ سرسوتی نے اس دوران ایک لفظ بھی منہ سے نہیں نکالا تھا۔ وہ خاموشی سے ستون سے بندھی ان کی بکواس سنتی رہی تھی۔

البتہ اس کے ہونٹ مسلسل حرکت کرتے رہے تھے۔ جیسے وہ کچھ پڑھ رہی ہو۔ اشونت نے سرسوتی کے قریب آتے ہی اس کے منہ پر ایک زوردار تھپڑ مارا۔ یہ سالے اچھوت ٹھاکروں کو مارنے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ ساتھ ہی اس نے حقارت سے کہا تھا۔ مگر اسے کیا معلوم کہ جو سب کا مالک ہے وہ اگر چاہے تو چڑیوں سے باز مروادیتا ہے۔ اشونت نے سرسوتی کا لباس اتارنے کے لیے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ سرسوتی آنکھیں نیچے کیے کھڑی تھی۔

اس نے اچانک ہی نظر اٹھائی اور منہ سے سانپ جیسی پھنکار نکالی۔

اشونت ڈر کر پیچھے ہٹا تھا۔ اس نے چونک کر سرسوتی کو دیکھا۔ سرسوتی لال انگارہ آنکھوں سے اسے ہی گھوررہی تھی۔ پھر وہاں کسی کو بھی سمجھ نہیں آئی کہ کیا ہواـ؟؟؟ اگلے ہی لمحے سرسوتی نے اشونت کا گلا اپنے دانتوں میں دبوچ رکھا تھا۔ اور وہ رسیاں جس سے سرسوتی کو باندھا گیا تھا زمین پر پڑی تھیں۔ سرسوتی نے اشونت کا گلا چھوڑ کر اس کے پیٹ میں ہاتھ مارا اور اندر سے انتڑیاں نکال دیں۔

بڑا ٹھاکر شور مچاتا اس تک آیا۔ دوسرے دونوں آدمی بھی اس کی طرف دوڑے تھے۔ یہ سب بس چند سیکینڈ میں ہوا تھا۔ سرسوتی نے اشونت کو چھوڑا اور اپنی طرف آتے بڑے ٹھاکر پر جست لگائی۔ اس نے جو آواز نکالی تھی اسے سن کر دونوں آدمی ٹھٹک کر رک گئے تھے۔ اشونت زمین پر پڑا تڑپ رہا تھا۔ بڑے ٹھاکر کا بھی وہی حال ہوا جو اشونت کا ہوا تھا۔ اس کے بعد ان دونوں آدمیوں کی باری آئی۔ وہ بھاگنے لگے تھےمگر بھلا موت سے بھی کوئی بھاگ سکتا ہے؟؟؟

اور سرسوتی اس وقت ان کی موت ہی تھی۔ سرسوتی نے ٹھاکر کے سامنے اس کے بیٹے اشونت کو چیرا پھاڑا۔ ٹھاکر یہ منظر نہ دیکھ پایا اس نے آنکھیں بند کرلیں۔ اس کے بعد بڑے ٹھاکر کو سرسوتی نے گلے میں رسی ڈال کر حویلی کی چھت پہ سامنے کی طرف لٹکادیا۔ موت کا یہ کھیل چند لمحوں میں ہی ختم ہوگیا تھا۔ اور ٹھاکر سرسوتی کو مارنے کا خواب لیے خود دردناک موت مارا گیا تھا۔ سرسوتی نے اشونت کے گلے میں رسی ڈالی اور اسے کھینچتی حویلی سےباہر کی طرف لےجانے لگی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگلی صبح گاؤں والوں کے لیے ایک خوفناک صبح تھی۔

گاؤں کے چوراہے پر اشونت کی ٹوٹی پھوٹی آدھی کھائی لاش لٹکی ہوئی تھی۔ آدھی شاید کتے نوچ کر لے گئے تھے۔ کوئی بھی ڈر اور دہشت کے مارے اس کے قریب نہیں جارہا تھا۔ دوسری طرف مندر سے پنڈت کی لٹکتی لاش نے مزید خوف پھیلادیا تھا۔ اور اس بھی بڑھ کر بڑا ٹھاکر اپنی ہی حویلی میں چھت سے لٹکتا ہوا ملا تھا۔ رات کے کسی پہر اس نے انتہائی اذیت میں دم توڑا تھا۔ اذیت ٹھاکر کے چہرے پہ ثبت ہوگئی تھی۔

دو اور آدمی حویلی سے مردہ ملے تھے۔ پانچوں لاشوں سے لگتا تھا ان کو کسی ایک ہی درندے نے مارا ہوگا۔ سب کا ایک جیسا حال تھا ویسا ہی حال پہلے پنڈت اور ان پانچ آدمیوں کی لاشوں کا بھی تھا۔ گاؤں والے قاتل سے انجان تھے۔ مگر ٹھاکروں کے مرنے پر سب خوش بھی تھے۔ سرسوتی اشونت کی لاش گاؤں کے چوراہے پر لٹکاکر سیدھا اپنے گھر گئی تھی۔ اس کے ماں باپ اسے اس حالت میں دیکھ پریشان ہوگئے تھے۔ سرسوتی نے انہیں سب بتادیا۔ وہ بہت خوش ہوۓ تھے۔

وہ اس لیے بھی زیادہ خوش تھے کہ ان کی بیٹی سہی سلامت لوٹ آئی ہے۔

گاؤں میں کئی دن خوف و ہراس پھیلا رہا۔ لوگ قاتل کے بارے میں اندازے لگاتے رہے مگر ان کو قاتل کا پتہ نہ چل سکا۔ سرسوتی گاؤں میں آگئی ہے یہ بات اس کے ماں باپ نے شوموں کے گھر والوں کے سواکسی کو نہیں بتائی تھی۔ اسے گھر آۓ دس پندرہ دن ہوگئے تھے وہ ایک بار بھی گھر سے نہیں نکلی تھی۔ پھر ایک رات دیناناتھ کے گھر سے عجیب و غریب آتی آوازوں نے پڑوسیوں کو خوف میں مبتلا کردیا۔

وہ پونم کی رات تھی۔ لوگ دیناناتھ کے گھر کے باہر جمع ہوگئے تھے۔ وہ یہ جاننے آۓ تھے کہ دیناناتھ کے گھر سے یہ کیسی اور کس کی آوازیں آرہی ہیں۔؟؟؟ ایسے لگ رہا تھا جیسے کوئی جانور انتہائی تکلیف میں چلارہا ہو۔ لوگ دیناناتھ کا دروازہ پیٹ رہے تھے۔ کافی دیر بعد دیناناتھ باہر نکلا۔ اس کے چہرے پہ پریشانی کے ساتھ ساتھ کسی حد تک خوف بھی تھا۔ اس لوگوں کو بتایا کہ اس کی بیٹی بیمار ہے۔ وہ چلے جائیں یہاں سے صبح بات کرونگا۔ لوگ واپس چلے گئے تھے۔

مگر صبح گاؤں میں چہ مگوئیاں شروع ہوگئی تھیں۔

ان کے لیے یہ اطلاع بھی حیران کن تھی کہ دیناناتھ کی بیٹی واپس آگئی؟؟؟ کب آئی؟؟؟ کیسے آئی؟؟؟ اور کہاں تھی؟؟؟ یہ الگ سوال تھے جو گاؤں والوں کو بےچین کیے ہوۓ تھے۔ گاؤں والے تو سمجھ بیٹھے تھے کہ دیناناتھ کی دوسری بیٹی بھی پہلی کی طرح کسی نے غائب کردی ہے۔ اور پھر یہ ہر پونم کی رات ہونے لگا دیناناتھ کے گھر سے ہر پونم رات کسی درندے کی سی عجیب آوازیں آتی تھیں۔ صبح سب معمول پہ ہوتا تھا۔

گاؤں والوں کے ذہن میں بھی کچھ کچھ قاتل کا خاکہ بننے لگا تھا۔ پھر ایک رات دیناناتھ خاموشی سے گاؤں چھوڑکر جانے کہاں چلا گیا۔ اس کے بعد اس کا آج تک پتہ نہ چلا۔ ٹھاکروں کی حویلی اجڑے قبرستان کی طرح ویران ہوگئی تھی۔ ڈر کے مارے کوئی اس طرف نہیں جاتا تھا۔ چڑیوں سے باز مروانے والے بےنیاز بادشاہ نے ایک نرم و نازک سی لڑکی کے ہاتھوں ٹھاکر جیسے فرعون کی خدائی کا نام و نشان مٹادیا تھا۔ بے شک وہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔

موہن نے اپنی ماں سے یہ داستان ٹکروں میں ایک ماہ کے عرصے میں سنی تھی۔

اسے ایک سوال بےچین کیے ہوۓ تھا کہ اس سے ملنے والی سرسوتی ہے یا پاروتی؟؟؟ موہن کی ماں کو یہ داستان اس کی دادی نے سنائی تھی۔ موہن کی ماں ساری تفصیل اس لیے جانتی کہ اس کی دادی سرسوتی کے منگیتر شاموں کی سگی بہن تھی۔ اور گاؤں میں صرف دوگھرہی یہ جانتے تھے۔کہ پنڈت اور ٹھاکروں کی قاتل سرسوتی ہے۔ موہن کا دل کررہا تھا کہ وہ ایک بار پھر جنگل جاۓ اور سرسوتی سے پوچھے کہ وہ کون ہے؟؟؟

سرسوتی ہے یا پاروتی؟؟؟ اور وہ اگر پاروتی ہے تو سرسوتی کہاں گئی؟؟؟ اس کا کیا بنا؟؟؟ گورکھ پور کے لوگ اب بھی ڈرتے جنگل کی طرف نہیں جاتے تھے۔ اور گورکھ پور اور آس پاس کے گاؤں میں سے کئی آدمی مزید غائب ہوۓ تھے۔ ان میں سے دو آدمیوں کی لاشیں ملی تھیں۔اور لاشوں کی حالت سے لگتا تھا ۔کہ ان کو کسی درندے نے مارا ہے۔ مگر کسی نے بھی آج تک اس جنگل میں درندہ نہیں دیکھا تھا۔

پھر جنگل کے آس پاس کے گاؤں والوں نے مل کر منصوبہ بنایا۔

کہ ہر گاؤں سے دس بارہ آدمی اکٹھے ہوکر جنگل میں اس درندے کاسراغ لگاتے ہیں جو انسانوں کو ماررہا ہے۔ کچھ لوگوں نے جنگل میں ایک لڑکی کو بھی دیکھا تھا۔مگر بہت تلاش کے بعد بھی ان کو وہ لڑکی نہیں ملی تھی۔ موہن کا ارادہ تھا کہ گاؤں والوں کو پاروتی اور اس کے ٹھکانے کا بتاۓ گا۔مگر اپنی ماں سے اس پہ ہوۓ ظلم کی داستان سن کر اس نے ارادہ کینسل کردیا تھا۔ ویسے بھی موہن جان گیا تھا ۔

کہ وہ پاروتی تھی یا سرسوتی وہ ہر کسی کو نہیں مارتی ورنہ وہ اسے کبھی زندہ نہ چھوڑتی۔ وہ یقیناً ایسے ہی لوگوں کو مارتی ہوگی جو اس پہ بری نظر رکھتے ہونگے۔ اور بات بھی یہی تھی۔ پھر ایک دن علی الصبح آس پاس کے گاؤں کے دو تین سو آدمی ہاتھوں میں برچھیاں کلہاڑیاں اور ڈنڈے لیے جنگل میں ایک طرف سے داخل ہوگئے۔ بہت لوگوں کے ہاتھ میں لوہے کے ٹین بھی تھے۔ جن کو وہ بجاکر اس درندے کو ڈراکر آگے بھاگنے پر مجبور کرتے۔اور جنگل کے چاروں طرف بیٹھے لوگ اس درندے کو ماردیتے۔

جنگل میں عجیب سماں تھا۔

سینکڑوں لوگوں کی ہو ہا اور ٹینوں کی آواز سے پرندے اپنے اپنے گھونسلے چھوڑکر اڑگئے تھے۔ اور دور آسمان پہ چکر کاٹ رہے تھے۔ کئی خرگوش اور دوسرے چھوٹے موٹے جانور یا تو اپنی اپنی بلوں میں دبک گئے تھے یا پھر حیران پریشان ہوکر ان کے آگے بھاگ رہے تھے۔ سینکڑوں آدمی دیوار کی صورت شورمچاتےچل رہے تھے۔ پہلے یہ جنگل بہت بڑا ہوتا تھا مگر آبادی بڑھی تو انسانوں نے درخت کاٹ کر بیچ دیے اور وہاں رہائش اختیار کرلی۔

بنتے بنتے جنگلوں کی جگہ گاؤں بن گئے اور جنگل سمٹ کر مختصر ہوگئے یا پھر بلکل ہی ختم ہوگئے۔ جنگل زیادہ بڑا نہیں تھا شام سے کچھ پہلے انہوں نے سارا جنگل چھان مارا مگر وہاں کسی درندے کا نام و نشان نہ ملا۔ ایک سرے سے چلنے والے دوسرے سرے پہ کسی درندے کے انتظار میں بیٹھے لوگوں سے جاملے تھے۔مگر کوئی ایسا درندہ یا کسی درندے کے رہنے کے نشان بھی نہیں ملے تھے۔ تھک ہار کر سب اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔اور اگلے دن سے اعلان ہوگیا کہ جنگل میں کوئی درندہ نہیں لوگ آجاسکتے ہیں۔

لوگ پھر جنگل میں آنے جانے لگے۔

کچھ دن سکون سے گزرے کوئی آدمی غائب نہ ہوا۔ پھر ایک دن کسی گاؤں کا ایک آدمی غائب ہوگیا۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ آج تک جتنے بھی لوگ غائب ہوۓ تھے سب کے سب جوان ہی تھے ان میں ایک بھی بوڑھا نہیں تھا۔ لوگوں کے ذہن میں پہلا خیال اسی لڑکی کا آیا تھا۔ جس کو کچھ لوگوں نے دیکھا تھا۔ کیونکہ اس جنگل میں کوئی آدم خور درندہ نہیں تھا۔ بلکہ سرے سے کوئی درندہ ہی نہیں تھا۔ درندہ ہوتا تو جنگل میں جانے والےہر انسان کوبلا تفریق مارتا۔

لوگوں نے سمجھ لیا کہ کسی بدروح جنگل میں بسیرا کرلیا ہے۔ جو وہاں جانے والے جوان انسانوں کو مار کے ان کا خون پی جاتی ہوگی۔ خوف نے ایک بار پھر اپنے پر پھیلادیے تھے۔ ان کو یقین ہوگیا تھا کہ ان کا واسطہ کسی بدروح سے پڑگیا ہے۔ اور اگر اس کو قابو نہ کیا گیا تو وہ ایک ایک کرکے سب کو ماردیگی۔ آس پاس کے گاؤں والوں نے بہت سوچ بچار کی کہ اس کو کیسے قابو کیا جاسکتا ہے۔ یا پھر کیسے اسے یہاں سے بھاگنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔ لوگوں نے آپس میں مشورہ کیا۔

اور دودن بعد ایک مہایوگی کو گورکھ پور میں بلالیا گیا۔

اگلے اس یوگی نے جنگل میں جاکر اس بدروح یاچڑیل کو قابو کرنا تھا یا پھر ہمیشہ کے لیے یہاں سے بھگادینا تھا۔ یوگی نے کہا تھا کہ وہ لوگ اب چنتا نہ کریں۔ وہ جو کوئی بھی ہے یوگی اس کو جلاکر بھسم کردیگا۔ اگلے دن یوگی گاؤں کے کچھ آدمیوں کے ساتھ جنگل میں داخل ہوگیا۔ اس کا رخ پہاڑ کی طرف تھا۔ پہاڑ کے بارے میں اسے گاؤں کے لوگوں نے بتایا تھا۔اور اس نے سوچا تھا کہ پہاڑ عمل کے لیے بہترین جگہ ہے۔

جہاں سے وہ جنگل میں چاروں طرف نظر بھی رکھ سکتا ہے۔ وہ لوگ پہاڑ پہ پہنچ گئے تھے۔ یوگی نے پہاڑ پر ایک جگہ منتخب کی اور اپنی لاٹھی سے بڑا سا حصار کھینچ کر لوگوں سمیعت اس کے اندر بیٹھ گیا۔ اس نے ساتھ آۓ لوگوں سے کہا کہ وہ خاموشی سے سب دیکھیں ۔ ڈرنا اور بھاگنا مت ورنہ نقصان کربیٹھوگے۔ بس خاموشی سے بیٹھ کر سب دیکھنا۔ گاؤں لوگ بےچارے سہم گئے تھے۔ ان کو لگ رہا تھا جیسے کوئی بڑی مصیبت آنے والی ہے۔

یوگی نے اپنے سامنے آگ جلائی اور آلتی پالتی مار کر آنکھیں بند کر کے بیٹھ گیا۔

ساتھ آۓ لوگ سہم کر چاروں طرف دیکھ رہے تھے۔ جیسے ابھی کوئی بدروح یا چڑیل آۓگی اور ان کو کھا جاۓگی۔ یوگی آنکھیں بند کیے کچھ پڑھ رہا تھا۔اور ساتھ آۓ لوگ خوفزدہ سی نظروں سے ادھر ادھر دیکھے جارہے تھے۔ بہت دیر تک کچھ نہ ہوا پھر اچانک سیاہ دھوئیں کا ایک بادل سا ان پر چھاگیا۔ اور یوگی سمیعت ان سب کو اپنی لپیٹ میں لےلیا۔ دھوئیں میں وہ گویا قید ہوگئے تھے۔

دھواں ان کے ناک کے زریعے پھیپھڑوں میں پہنچا تو ان کا سانس اکھڑنا شروع ہوگیا۔ یوگی سمیعت وہ سب اٹھ کر بھاگے۔ اور گرتے پڑتے پہاڑ سے اترنے لگے۔ کھانس کھانس کر ان کی پسلیاں درد کرنے لگ گئی تھیں۔ پہاڑ سے اترتے ہی وہ سب سر پہ پاؤں رکھ کر بھاگے۔اور جس کا جدھر منہ اٹھا سر پر پیر رکھ کر بھاگتا چلا گیا۔ یوگی کا پتہ ہی نہ چلا کہ وہ کدھر نکل گیا۔ باقی لوگ کسی نہ کسی طرح گاؤں پہنچ گئے تھے۔

لوگوں نے کئی پہنچے ہوۓ جوگی، پنڈت یوگی۔

تانترک اور جادوگر بلاۓ مگر سب کے سب ڈر کر ایسے بھاگے کہ پلٹ کر بھی نہیں دیکھا۔ کئی مہینے اسی طرح گزرگئے گاؤں والوں کی پریشانی بڑھتی جارہی تھی۔ پھر ایک دن گورکھ پور کے کسی آدمی کو کچھ دور ایک گاؤں کا آدمی ملا باتوں باتوں میں گورکھ پور کے باشندے نے اس آدمی سے اپنی مصیبت کا ذکر کردیا۔کہ وہ لوگ اور آس پاس کے گاؤں والے سب بہت پریشان ہیں اور اس پریشانی کی وجہ جنگل میں ایک بدروح کا بسیرا کرلینا ہے۔ اس آدمی نے گورکھ پور کے باشندے کو تسلی دی اور کہا کہ وہ اپنے گاؤں کے چند لوگوں کو لیکر اس کے گاؤں آجاۓ۔ اور بابارحیم سے درخواست کرے کہ وہ ان کی مدد کریں۔

اگر وہ راضی ہوگئے تو سمجھو تمہاری مصیبت ٹل جاۓگی۔ پھر اس نے اپنا قصہ سنایا کہ وہ پہلے ہندو تھا اور بابارحیم کی وجہ سے ہی کچھ دن پہلے مسلمان ہوا ہے۔ ہوا کچھ یوں تھا کہ اس کی اکلوتی بیٹی پر کسی سخت آسیب کا سایہ ہوگیا تھا میں نے بہت مندر پھرے،یوگی تانترک بلاۓ مگر کوئی بھی اس آسیب کے آگے نہ ٹک سکا۔ میری بیٹی روزبروز موت کی طرف جارہی تھی۔ مجھ سے اس کی حالت دیکھی نہ جاتی تھی میری بیوی کا روروکر برا حال تھا۔

بابارحیم میرے گاؤں کا تھا اور دوادارو کے ساتھ دم درود بھی کرتا تھا۔

مگر میں صرف اس لیے اس کے پاس نہیں جاتا تھا کہ وہ مسلمان ہے۔مگر جب ہر طرف سے مایوس ہوگئے تو مجھ سے پوچھے بغیر ایک دن میری بیوی میری بیٹی کو لیکر بابارحیم کے پاس جاپہنچی۔ بابا رحیم کسی سے اس کا مذہب یا ذات نہیں پوچھتا تھا وہ بےلوث اور بلاتفریق سب کی مدد کرتے تھے۔ انہوں نے میری بیٹی کا علاج بھی شروع کردیا۔ میری بیوی پورا ایک ہفتہ میرے علم میں لاۓ بغیر بابارحیم کے پاس جاتی رہی۔

اور اس ایک ہفتے میں میری بیٹی زندگی کی طرف لوٹنا شروع ہوگئی تھی۔ میں اس کی بدلتی حالت پہ حیران بھی تھا اور خوش بھی۔ پھر ایک دن میری بیوی نے ہی مجھے بتایا کہ یہ سب بابا رحیم کے علاج سے ممکن ہوا ہے۔ میری ایک ہی بیٹی تھی اور وہ مرتے مرتے جی اٹھی تھی مجھے اور کیا چاہیے تھا؟؟؟ ورنہ سچی بات تو یہ ہے کہ میں اس کی طرف سے اب مایوس ہوگیا تھا۔ مجھے امید ہی نہیں رہی تھی کہ میری بیٹی زندہ رہے گی مگر اسے بہتر حالت میں دیکھ کر میں جی اٹھا تھا۔

اگلی بار میں بھی اپنی بیوی اور بیٹی کے ساتھ بابارحیم کے پاس گیا تھا۔

وہ ایک عام سے شخص تھے لمبی داڑھی صاف رنگت اور خوبصورت چہرہ۔مگر ان کے چہرے پہ ایک عجیب سی کشش تھی۔ ان کے ہونٹوں پہ ہر وقت مسکراہٹ کھیلتی رہتی تھی۔ انتہائی شفیق لہجے میں بات کرتے تھے۔ پھر ایک ماہ کے اندر میری بیٹی بلکل ٹھیک ہوگئی۔ وہ مکمل زندگی کی طرف لوٹ آئی۔اور میں بھی اصل زندگی کی طرف لوٹ آیا۔ میں نے اسلام قبول کرلیا۔

اب الحَمْد لله میں مسلمان ہوں میری بیوی اور بیٹی بھی میرے ساتھ مسلمان ہوگئی تھیں۔ تم لوگ بھی ان کے پاس جاؤ وہ کسی سے کچھ نہیں لیتے ہندو مسلمان سب کی مدد اور علاج کرتے ہیں شاید تمہارا بھی مسلہ حل ہوجاۓ؟؟؟

دو دن بعد گورکھ پور اور قریبی گاؤں کے چند بزرگ آدمی بابارحیم کے پاس بیٹھے انہیں اپنی پریشانی بتارہے تھے۔ جانے والے سب ہندو تھے ان میں بس ایک مسلمان تھا۔مگر بابا رحیم نے ان سے یہ نہیں پوچھا کہ ان کا مذہب کیا ہے؟؟؟ وہ آنے کے لیے تیار ہوگئے تھے۔ وفد واپس آگیا تھا اور اگلے ہی دن بابا رحیم ایک آدمی کے ساتھ گورکھ پور آپہنچے تھے۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔

آخری قسط کل إن شاء الله

ناول داسی قسط11

ناول داسی قسط 12

میری اجازت کے بغیر کاپی پیسٹ کرنا سختی سے منع ہے۔۔۔  

✭ نوٹ :- عمدہ قسم کے سبق آموز واقعات وحکایات کیلئے آج ہی ہمارا ٹیلی گرام چینل جوائن کریں۔

 نوٹ :- ایسے ہی دل کو موہ لینے والے اور دل کو چھو لینے والے واقعات و حکایات پڑھنے کے لئے روز ویب سائٹ کا وزٹ کریں۔ اور اپنے دوست و احباب اور متعلقین کو بھی شیئر کریں تاکہ آپ کے ذریعے ان کا بھی فائدہ ہو ۔

ناول داسی قسط11

novel-dasi-part4 ناول داسی قسط 4

اپنی راۓ دینا مت بھولیے گا۔۔۔شکریہ

Leave a Comment