ناول داسی قسط10 – daasi novel

novel-dasi-part10 ناول داسی قسط10
Written by kahaniinurdu

ناول داسی قسط10

صبح سرسوتی کے لیے ایک نئی نوید لیکر طلوع ہوئی تھی۔

اس سے جتنا ممکن ہوسکا تھا۔ اپنے گروکی خدمت ایک بیٹی کی طرح دل سے کی تھی۔ اور اسے پتا سمان دیا تھا۔ استاد تو ویسے بھی روحانی باپ ہوتا ہے۔ باپ ہمیں آسمان سے زمین پر لاتا ہے۔اور استاد ہمیں زمین سے آسمان پر لےجاتا ہے۔ اور یادیو پنڈت نے بھی اسے بیٹی کی طرح ہی سمجھا تھا۔ پنڈت بھی بہت خوش تھا ۔کہ سرسوتی کامیاب ہوگئی ہے۔ اور اس کی توقع سے کہیں جلد کامیاب ہوگئی ہے۔

وہ ایک اچھی لڑکی،اچھی بیٹی اور اچھی شاگرد ثابت ہوئی تھی۔ اچھے اور اعلیٰ ظرف انسانوں کا ایک وصف یہ بھی ہوتا ہےکہ آپ ان کو زرا سی عزت دینگے تو بدلے میں وہ آپ کو اس سے کہیں زیادہ عزت دینگے۔ سرسوتی بھی ایسی ہی تھی۔ صبح سے شام ہوگئی تھی۔ اب سے چند گھنٹے بعد سرسوتی کو یہاں سے چلے جانا تھا۔ اس کی عجیب سی کیفیت تھی۔ خوشی اور کچھ کردینے کا خیال اس کے پورے جسم میں خون کی طرح دوڑرہاتھا۔ اور ایسا کچھ کرنے کا خیال جو کبھی اس کے لیے ناممکن تھا۔

شام ڈھلنے سے پہلے وہ اپنے گرو سے اجازت اور ان کا آشیرواد لیکر اپنے گاؤں کی طرف چل پڑی تھی۔

رات ہونے تک اسے مندر پہنچنا تھا۔ اسے اب کوئی ڈر خوف نہیں تھا۔ وہ بلا جھجک چلے جارہی تھی۔ لمبی لمبی گھاس اور درختوں کو پیچھے چھوڑتی وہ اپنی دھن میں مگن جارہی تھی۔ اسے اب یہ بھی خوف نہیں تھا ۔کہ اس لمبی گھاس میں کوئی کنگ کوبرا کنڈلی مارے بیٹھا ہوسکتا ہے۔ جس کا ڈسا پانی بھی نہیں مانگتا۔ اس کے پاس اب اس کنگ کوبرا کا توڑ بھی تھا۔

اب کسی بھی قسم کے سانپ کا زہر سرسوتی کے جسم میں اثر نہیں کرسکتا تھا۔ جنگل سے نکلنے سے پہلے اس کا سامنا ایک سوؤر سے ہوگیا۔ وہ اچانک ہی ایک طرف سے نکل کر اس کے سامنے آگیا تھا۔ اس جنگل میں یہ کہیں کہیں مل جاتے تھے۔ سرسوتی نے اسے نظرانداز کر کے جانا چاہا۔ مگر سوؤر کو شاید سرسوتی سے خطرہ محسوس ہوا تھا۔ اس نے بنا رکے سرسوتی پر حملہ کردیا۔ سرسوتی نے پھرتی سے ایک طرف ہوکر خود کو بچایا۔ سوؤر اپنی رو میں آگے بڑھ گیا۔

ویسے بھی سوؤر کے بارے مشہور ہے ۔

کہ یہ فوراً اپنا رخ نہیں موڑ سکتا مڑنے کے لیے اسے ایک تھوڑے سے لمبے چکر کی ضرورت پڑتی ہے۔ وہ زرا آگے سے مڑ کر آیا اور ایک بار پھر سیدھا سرسوتی کی طرف بڑھا۔ سرسوتی اس بار بھی ایک طرف ہٹ گئی۔ سوؤر کو شاید دوبار ناکام ہونے پر غصہ آیا تھا۔ وہ زرا آگے سے پھر مڑا۔اور رک کر اپنے کھر زمین پر مارنے لگا۔ پھر وہ دوڑا اور سرسوتی کی طرف لپکا۔ سرسوتی اسے دوبار موقع دےچکی تھی۔

اس بار وہ بھی تیار تھی۔ وہ جیسے ہی قریب آیا سرسوتی نے ایک انگڑائی لی۔اور منہ سے انتہائی بھیانک آواز نکالی۔ آواز اتنی بھیانک تھی کہ درختوں پہ اپنے اپنے آشیانے میں بیٹھے بھی اڑگئے۔ سوؤر بھی خوف زدہ ہوگیا تھا۔مگر وہ اب رک نہیں سکتا تھا۔ وہ سرسوتی کے قریب آیا تو سرسوتی نےبھیڑیے کی طرح چھلانگ لگائی۔

اور سوؤر کو لیتی دور جاگری۔ سوؤر اس عجیب افتاد سے گھبرا کر فوراً اٹھا۔اور ایک طرف کو بھاگ نکلا۔ سرسوتی مسکرائی۔اور ایک طرف چل پڑی۔ رات ہونے سے پہلے وہ جنگل سے نکل آئی تھی۔ اس کا رخ اب اپنے گاؤں کی طرف تھا۔ اس کا دل کررہا تھا اس کے پر لگ جائیں اور وہ اڑ کر گاؤں پہنچ جاۓ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رات آدھی بیت چکی تھی۔ مندر کا پنڈت اپنے کمرے میں بیٹھا شراب پیے جارہا تھا۔

وہ آج بہت خوش تھا۔ آج تک وہ اشونت ٹھاکر کا “جھوٹا” ہی کھاتا آیا تھا۔مگر آج اس کے ہاتھ جو “مال” لگا تھا ۔ پنڈت نے اشونت کو اس کی بھنک بھی نہیں پڑنے دی تھی۔ سولہ سترہ سال کی یہ ایک کنواری دوشیزہ تھی۔ جس کو کسی گاؤں سے یہ پنڈت اس لیے ساتھ لایا تھا ۔کہ یہ لڑکی یہاں مندر میں کام کاج کردیا کریگی۔ جس کا اسے معاوضہ دیا جاۓ گا۔ وہ ایک غریب گھر کی لڑکی تھی۔

اس کا باپ دوسال سے بیمار ہوکر چارپائی پہ پڑا تھا۔ پانچ بہن بھائی تھے۔ یہ لڑکی ان میں سب سے بڑی تھی۔ اس کی ماں لوگوں کے گھروں میں کام کاج کر کے ان کا پیٹ پالتی تھی۔ پنڈت کے ایک جاننے والے نے پنڈت کو کہا تھا۔کہ وہ اس خاندان کی مدد کرے ۔اور پنڈت اس لڑکی کو یہ کہہ کر ساتھ لے آیاتھا۔کہ وہ اسے کام پہ رکھ لے گا۔ جس کا اسے معاوضہ دیا جاۓ گا۔ لڑکی کی ماں نے سوچا کہ چلو مندر میں ان کی بیٹی محفوظ رہےگی۔

مندر کا کام کرکے پیسہ بھی کماۓ گی اور پُن بھی۔

یہی سوچ کر اس نے اپنی بیٹی کو پنڈت کے ساتھ روانہ کردیا تھا۔ اس لڑکی کو مندر میں آج دوسرا دن تھا۔ اور پنڈت کا ارادہ تھا کہ وہ آج اس لڑکی کے ساتھ رات بتاۓ گا۔ اسی لیے وہ اپنے کمرے میں بیٹھا شراب پی رہا تھا۔اور آنے والے خوش کُن لمحات کو سوچ کر مسکراۓ جارہا تھا۔ وہ پانچ آدمی بھی کچھ دن پہلے ہی مندر میں آکر ٹھہرے تھے جو پاروتی کو اٹھاکرلاۓ تھے۔ پنڈت نے ان سے بھی کہا تھا کہ آج رات وہ بھی اس لڑکی کے ساتھ جشن مناسکتے ہیں۔

آدھی رات کے قریب پنڈت لڑکھڑاتا ہوا اس لڑکی کے کمرے کے دروازے پہ جاپہنچا۔ اس نے ہاتھ سے زرا سا دبایا تو درازہ کھلتا چلا گیا۔ اس لڑکی نے شاید یہ سوچ کر کنڈی نہیں لگائی ہوگی کہ مندر میں بھلا کس بات کا ڈر ہوسکتا ہے؟؟؟ وہ یہاں محفوظ ہے۔ مگر یہ اس کی خام خیالی تھی۔ پنڈت جیسے شیطان کے ہوتے ہوۓ وہ بھلا کیسے محفوظ رہ سکتی تھی۔ پنڈت بےآواز کمرے میں داخل ہوا اور کھڑا ہوکر اسے للچائی نظروں سے دیکھنے لگا۔ وہ لڑکی بےسدھ آڑھی ترچھی پڑی سورہی تھی۔

اس بات سے بلکل بےخبر کہ ایک گدھ اس کے سر پہ کھڑا ۔

اس کے جسم کے نشیب وفراز کو للچائی نظروں سے دیکھ رہا ہے۔ پنڈت کچھ دیر اسے یونہی دیکھتا رہا اور پھر آہستہ سے اس کی چارپائی پر بیٹھ کر اس کے چہرے پر ہاتھ پھیرنے لگا۔ کسی کے ہاتھ کا لمس پاکر اس لڑکی نے کسمساکر آنکھیں کھول کر دیکھا۔ پنڈت کو اپنے اتنے قریب بیٹھے دیکھ کر اس کی نیند اڑگئی تھی۔ وہ جھٹکے سے اٹھ کر بیٹھ گئی۔ پپ پنڈت جی آآآپ؟؟؟

اس کے منہ سے حیرت بھرے الفاظ نکلے  لیٹی رہو۔۔۔۔۔۔۔۔ لیٹی رہو۔۔۔۔۔۔۔ لیٹی ہوئی تم بہت سندر لگتی ہو۔ پنڈت نے خباثت سے مسکراتے ہوۓ کہا تھا۔ اس لڑکی کی عمر اگرچہ زیادہ نہیں تھی مگر وہ پنڈت کی نیت بھانپ چکی تھی۔ دیکھ رادھا۔۔۔۔۔۔ پنڈت نے اس لڑکی کو نام سے مخاطب کیا۔ تم جان گئی ہوگی کہ میں اس وقت تیرے پاس کس لیے آیا ہوں؟؟؟ میری بات خاموشی سے مان لوگی تو میں تمہیں خوش کردونگا۔

ورنہ۔۔۔۔۔۔پنڈت ایک لمحے کو رکا۔

میں زبردستی کرلونگا۔ پنڈت نے اپنی بات مکمل کی۔ رادھا سہم کر پنڈت سے کچھ دور ہوگئی تھی۔ اسے اس موٹی توند والے پنڈت سے کراہت محسوس ہورہی تھی۔ رادھا کے پیچھے ہٹنے پر پنڈت نے ایک قہقہہ لگایا اور بولا۔ تم یہاں سے کہیں نہیں جاسکتی۔ میں تمہارے ساتھ جو چاہے کروں کوئی مجھے پوچھنے والا نہیں ہے۔ پنڈت یہ بھول چکا تھا کہ تکبر انسان کو لےڈوبتا ہے۔اور انسان کبھی خدا نہیں ہوسکتا۔ ایک نہ ایک دن اس کی رسی کھینچ لی جاتی ہے۔

اور وہ منہ کے بل ایسے گرتا ہے کہ پھر اٹھنے کے قابل نہیں رہتا۔ اگر تم نے میری بات نہ مانی تو میں تیرے ساتھ وقت بتانے کے بعد تمہیں مار کر گاڑدونگا۔اور کسی کو کو کانوں کان خبر بھی نہ ہوگی۔ تم سے پہلے بھی کئی لڑکیاں نخرے دکھاتی تھی۔ ان کا بھی کسی کو آج تک پتہ نہ چلا کہ وہ کہاں گئیں۔ رادھا پنڈت کے عزائم سن کر مزید سہم گئی۔ اس کا بس نہ چلا تو اس نے پنڈت کو بھگوان کے واسطے دینے شروع کردیے۔ پنڈت پہ بھلا کیا اثر ہوتا۔

وہ چارپائی سے اٹھا اور لڑکھڑاتا ہوا دور کھڑی رادھا کے قریب جانے لگا۔

رادھا پیچھے ہٹتے ہٹتے دیوار سے جالگی تھی۔ پنڈت نے آسانی سے اسے قابو کرکے اپنی بانہوں میں جھکڑلیا۔ رادھا روتے ہوۓ اسے واسطے دے رہی تھی۔اور خود کو بچانے کی کوشش بھی کررہی تھی۔ پنڈت کسی اور ہی خماری میں تھا۔ اس نے رادھا کو نیچے گرادیا اور اس کے اوپر چڑھ بیٹھا۔ وہ رادھا کو بےلباس کرنا چاہ رہا تھا۔اور رادھا اپنی استطاعت کے مطابق اپنے بچاؤ کی کوشش کررہی تھی۔

اسی کشمکش میں رادھا کا آدھا لباس پھٹ چکا تھا۔ پھٹے لباس سے رادھا کا سندر جسم جھلکتے دیکھ کر پنڈت پہ وحشت سی طاری ہوگئی تھی۔ اس کے ہاتھ مزید تیزی سے چلنے لگے۔ اس کی کوشش تھی کہ رادھا کو جلد از جلد بےلباس کر کے اپنی ہوس کی پیاس بجھالوں۔ رادھا روتی جارہی تھی اور پنڈت کو واسطے دیتی جارہی تھی۔

قریب تھا کہ پنڈت اسے مکمل بےلباس کرتا۔ ایک جھٹکے سے دروازہ کھلا اور کوئی بجلی کی سی تیزی سے اندر آیا ۔ پنڈت نشے اور خماری میں کنڈی لگانا بھی بھول گیا تھا۔ ویسے بھی اسے کسی کا ڈر بھی نہیں تھا۔ اور نہ کسی کی ہمت تھی کہ پنڈت کے کام میں خلل ڈالتا۔ پنڈت اور رادھا نے ایک ہی وقت میں چونک کر اندر آنے والے کو دیکھا تھا۔ تت تت تم۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟ آنے والے کو دیکھ کر پنڈت کے منہ سے نکلا۔ اور وہ اچھل کر رادھا کے اوپر سے پیچھے ہٹا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سرسوتی تیز تیز قدموں سے اپنے گاؤں کی طرف جارہی تھی۔

رات گہری ہوگئی تھی ہر طرف ہوکا عالم تھا۔ مگر سرسوتی کو اس بات کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔ وہ اپنی دھن میں مگن جتنا ممکن ہوسکتا تھا تیز چلی جارہی تھی۔ آدھی رات کے قریب وہ اپنے گاؤں پہنچ گئی تھی۔ مگر وہ اپنے گھر نہیں گئی اس کا رخ ٹھاکروں والےمندر کی طرف تھا۔ مندر کا باہر آنے جانے والا دروازہ بند تھا۔ سرسوتی کو اس کی توقع بھی تھی۔ وہ گھوم کر مندر کے پیچھے والے حصے میں آئی جہاں باغیچہ تھا۔

وہ دروازہ بھی بند تھا مگر سرسوتی کو اب کوئی پریشانی نہیں تھی۔ باہر باغیچے میں بےشمار قدآور درخت دیوار کے ساتھ ساتھ کھڑے تھے۔ سرسوتی نے ایک درخت کو منتخب کیا اور بلی کی طرح اس پہ چڑنے لگی۔ اوپر پہنچ کر وہ ایک مظبوط شاخ کے زریعے دیوار پہ آرام سے اتر گئی۔ دیوار کافی اونچی تھی سرسوتی نے اندر کی جانب لٹک کر دیوار سے ہاتھ چھوڑدیے۔ نیچے لمبی گھاس تھی وہ دھپ کی آواز کے ساتھ نیچے گری اور وہیں گھاس میں دبک کر سن گن لینے لگی۔

یا تو کسی نے آواز نہیں سنی تھی اور اگر سنی بھی تھی تو بلی سمجھ کر نظرانداز کردیا تھا۔

وہ کچھ دیر وہیں دبکی سن گن لیتی رہی جب کسی طرف سے کوئی ردعمل نہ ہوا تو وہ دبے قدموں وہاں سے نکلی اور پنڈت کے کمرے کی طرف بڑھنے لگی۔ دروازے پہ پہنچ کر اس نے دروازے کو ہاتھ سے دبایا تو وہ کھل گیا۔ اسے خوشی ہوئی دروازہ کھول کر وہ آہستہ سے اندر داخل ہوگئی۔ کمرے میں ایک دیا اپنی زرد سی روشنی پھیلانے کی کوشش کررہا تھا۔

پنڈت کی چارپائی خالی تھی اسے مایوسی ہوئی۔ باہر نکل کر اس نے ایک ایک کمرہ کے دروازے سے کان لگاکر سن گن لینے کی کوشش کی۔ آخری دروازے پہ پہنچتے ہی اسے اندر سے پنڈت اور ایک لڑکی کی آواز آئی۔ لڑکی رورہی تھی اور پنڈت سے فریاد کررہی تھی کہ وہ اسے چھوڑدے۔ سرسوتی کاغصہ آسمان کو چھونے لگا۔ اس نے دروازہ کھولا اور اندر داخل ہوگئی۔ اس لڑکی اور پنڈت نے بیک وقت اسے دیکھا تھا۔ اسے دیکھ کر پنڈت کا منہ کھل گیا تھا۔ اور اس کے منہ سے عالم میں حیرت میں نکلا تھا۔

تم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟؟

سرسوتی خاموش رہی۔ تت تت تم زندہ کیسے ہوگئی؟؟؟ پنڈت کے الفاظ سرسوتی پہ بجلی بن کر گرے تھے۔ جن کا واضع مطلب تھا کہ انہوں نے اس کی بہن پاروتی کو ماردیا ہے۔ اور پنڈت نے پاروتی کو سرسوتی ہی سمجھا تھا۔ اور وہ اسے اب بھی سرسوتی ہی سمجھ رہا تھا جس کو انہوں نے ماردیا تھا۔ مگر شاید وہ نہیں جانتا تھا کہ یہ دو بہنیں ہم شکل ہیں۔ اگرچہ سرسوتی کو یقین تھا کہ پاروتی زندہ نہیں ہوگی۔ مگر پھر بھی پنڈت کے منہ سے سن کر اس کا دل کٹ گیا تھا۔

غصے میں سرسوتی کی آنکھیں لال انگارہ ہوگئی تھیں۔ ہاں میں زندہ ہوں ۔ سرسوتی نے پنڈت سے کہا۔ رادھا چپ چاپ ایک طرف کھڑی ہوگئی تھی۔ اور مشکور نظروں سے سرسوتی کودیکھ رہی تھی۔ جس نے عین وقت پر آکر اسے بچالیا تھا۔ تت تت تم زندہ کیسے ہوگئی؟؟؟ پنڈت کو یقین نہیں آرہا تھا کہ جس لڑکی کو وہ مار کر دفناچکے ہیں آج اچانک زندہ کیسے ہوگئی۔ میں پاروتی کی روح ہو۔ سرسوتی نے غصے سے کہا تھا۔ میں پاروتی ہوں۔ہاں میں پاروتی ہوں۔

اور تم سے انتقام لینے آئی ہوں۔

تم نے جس کو مارا وہ میری جڑواں بہن پاروتی تھی۔ داسی بننے میں آئی تھی۔مگر میری جگہ تم لوگ میری دیدی پاروتی کو اٹھالاۓ۔ اور۔۔۔۔اور۔۔۔۔ اسے ماردیا۔ سرسوتی نے انتہائی دکھ سے کہا۔ تو تم بھی مرنے آئی ہو؟؟؟ پنڈت نے ہنس کر کہا۔ یہ جان کر کہ سرسوتی روح نہیں ہے ایک نازک سی لڑکی ہے پنڈت کا خوف ختم ہوگیا تھا۔ شاموں کہاں ہے؟؟؟ سرسوتی نے پنڈت سے پوچھا۔ کون شاموں؟؟؟ پنڈت نے حیرت سے کہا۔

اوہ اچھا تم اس لڑکے کی بات تو نہیں کررہی جو مجھے مارنے آیا تھا؟؟؟ پنڈت کو شاید یاد آگیا کہ ایک لڑکا بھی آیا تھا۔ شاید وہی شاموں ہو۔ اس کو بھی تیری دیدی کے ساتھ ہی مار کر گاڑدیا تھا۔ اب تک تو ان کی ہڈیاں بھی گل چکی ہونگی۔ پنڈت نے قہقہہ لگایا تھا۔ اور یہ اس کی زندگی کا آخری قہقہہ ثابت ہوا۔ سرسوتی کو اور کچھ سننے کی ہمت نہ ہوئی۔ اس نے ایک جھرجھری لی اور منہ سے بھیڑیے جیسی آواز نکالی اس کی حالت دیکھ کر پنڈت کے ہوش اڑگئے۔

اس سے پہلے کہ وہ کسی کو مدد کے لیے بلاتا یا بھاگتا۔

سرسوتی نے اس پہ چھلانگ لگائی اور اسے لیتی نیچے جاگری۔ سرسوتی نے اس کے منہ پہ ہاتھ رکھ کر اس کی آواز دبادی تھی۔ پنڈت اپنا پورا زور لگاکر بھی سرسوتی کا ہاتھ اپنے اوپر سے نہیں ہٹاسکا تھا۔ خوف سے پنڈت دیدے پھیل گئے تھے۔ سرسوتی نے ایک ہاتھ پنڈت کے منہ پہ رکھا اور اس کے کندھے پہ دانت گاڑدیے۔ پنڈت مچھلی کی طرح تڑپا ۔ سرسوتی نے اس کے کندھے سے گوشت کا لوتھڑا نکال لیا تھا۔

پھر اس نے پنڈت کے جسم کو دانتوں سے نوچنا شروع کردیا۔ وہ جہاں دانت گاڑتی وہاں سے گوشت الگ کردیتی۔ پنڈت ماہی بےآب کی طرح نیچے پڑا مچل رہا تھا۔ اس کے منہ پہ اگر سرسوتی کا ہاتھ نہ ہوتا تو اس کی چیخیں پورا گاؤں سنتا۔ رادھا سکتے کے عالم میں کھڑی یہ منظر دیکھ رہی تھی۔ سرسوتی اسے لڑکی کی بجاۓ ایک بھیڑیا لگ رہی تھی جو اپنے شکار کو نوچ نوچ کر موت کی طرف دکھیل رہا تھا۔ پنڈت کی ہمت جواب دے چکی تھی۔

سرسوتی نے اس کے منہ سے ہاتھ ہٹادیا اور اس کے اوپر سے ہٹ گئی۔

اس نے غصے اور نفرت سے پنڈت کو تڑپتے دیکھا۔اور یہ منظر دیکھ اس کی روح کو سکون آگیا۔ پھر اس نے پنڈت کے جسم کو ہاتھوں سے ادھیڑنا شروع کردیا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے بھیڑیا غصے میں کسی انسان کو نوچ رہا ہو۔ پنڈت نے آخری سانس لی اس کی کھلی آنکھوں میں اب بھی خوف واضع جھلک رہا تھا۔ سرسوتی نے آنکھیں بند کرکے لمبے لمبے سانس لیے۔ تم چلی جانا صبح یہاں سے۔

وہ رادھا سے مخاطب تھی۔ اور کسی سے اس بات کا ذکر نہ کرنا۔ دھنے واد دیدی ۔۔۔۔۔رادھا نے مشکور لہجے میں سرسوتی سے کہا۔ میں کبھی بھی اس بات کا ذکر نہیں کرونگی ۔کسی سے بھی نہیں۔ رادھا نے ایک چادر اٹھائی اور دوسرے کمرے میں جاکر خاموشی سے لیٹ گئی۔ سرسوتی نے پنڈت کو کندھے پر اٹھایا اور اس کے گلے میں رسی ڈال کر ایک کمرے کے دروازےپہ لٹکادیا۔ اسے اب باہر جانا تھا اس نے پنڈت کے کمرے کی تلاشی لی اسے چابیوں کا گچھہ ملا۔

وہ لیکر عقبی باغیچے والے دروازے کی طرف بڑھی۔

وہ دروازہ کھول رہی تھی جب اچانک کسی نے اس سے پوچھا۔ اے کون ہے وہاں؟؟؟ یہ ایک آدمی تھا سرسوتی وہیں جم گئی۔ اے کون ہے تو؟؟؟ اتنی دیر میں وہ آدمی سرسوتی کے قریب پہنچ چکا تھا۔ اس نے آتے ہی سرسوتی کا بازو پکڑکر اپنی طرف گھمادیا۔ تت تت تم؟؟؟؟؟؟؟؟ اس آدمی کے منہ سے نکلا اور وہ ڈر کر دوقدم پیچھے ہٹ گیا۔ جیسے اس نے کوئی بدروح دیکھ لی ہو۔ پھر وہ پلٹا اور تہہ خانے کی طرف دوڑا۔

سرسوتی سوچ میں پڑگئی۔ اس آدمی نے پنڈت کی طرح ہی حیرانی سے کہا تھا۔کہ تت تم؟؟؟؟ اس کا مطلب تھا یہ آدمی بھی دیدی کو جانتا تھا؟؟؟ کیا پتہ اس نے ہی دیدی کو اغوا کیا ہو؟؟؟ یا مارا ہو؟؟؟ سرسوتی نے جانے کا ارادہ کینسل کیا اور تہہ خانے کی طرف چل پڑی۔ جہاں وہ آدمی گیا تھا وہاں اس نے سیڑیاں دیکھیں تو بلا خوف ان پر قدم رکھ دیا۔ اور نیچے اترنے لگی۔ اس نے ابھی ایک دو سیڑیاں ہی اتری ہونگی جب سامنے سے پانچ آدمی آتے دکھائی دیے۔

ان میں سے ایک وہ بھی تھا جو ابھی ڈر کر تہہ خانے میں گیا تھا۔ انہوں نے پہلے تو ٹھٹک کر حیرت سے سرسوتی کو دیکھا اور پھر واپس دوڑ پڑے۔ دوڑ کر وہ جاتے کہاں؟؟؟ تہہ خانے میں آنے اور جانے کا ایک ہی راستہ تھا جس پر سرسوتی کھڑی تھی۔

ناول داسی قسط10

بب بب بھو بھوت۔۔۔۔۔۔۔ان کے منہ سے ایک ساتھ نکلا تھا۔ سرسوتی ان کے سامنے گئی اور کہا۔ میں اس لڑکی کی روح ہوں جس کو تم لوگوں نے ایک سال پہلے ماردیا تھا۔ یاد آیا؟؟؟ میں پاروتی کی روح ہوں۔۔۔ سرسوتی نے یہ جان بوجھ کر کہا تھا وہ تصدیق چاہتی تھی کہ پاروتی کو اٹھانے یا مارنے میں ان کا ہاتھ ہے یا نہیں۔ تت تم کو مارنے کے لیے اشونت ٹھاکر اور پنڈت نے کہا تھا۔ ہم نے تمہیں مارا نہیں تھا مم مم مارا تو پپ پپ پنڈت نے تھا۔

ہم نے تو ددد دفف دفن کیا تھا۔ ان میں سے ایک نے کانپتے ہوۓ کہا تھا۔ بھگوان کے لیے ہمیں کچھ مت کہنا۔ ان کے الفاظ سے تصدیق ہوگئی تھی۔ سرسوتی نے غصے سے ان کی طرف دیکھا۔ تم ہی مجھے اٹھاکر لاۓ تھے نا؟؟؟سرسوتی نے غصے سے کہا۔ یہ یہ لاۓ تھے ؟؟؟ اسی نے دو لوگوں کی طرف اشارہ کیا تھا۔ سرسوتی کے منہ سے ایک خوفناک آواز نکلی۔ اور پھر ان سب کا وہی حشر ہوا جو کچھ دیر پہلے وہ پنڈت کا کرچکی تھی۔

باہر نکل کر اس نے تہہ خانے کا دروازہ لگایا اور عقبی دروازے کا تالا کھول کر تہہ خانے والے دروازے پہ لگادیا۔ وہ آرام سے باہر نکلی اور واپس چل پڑی۔ باہر نکل کر اس نے چابیوں کا گچھہ دور پھینک دیاتھا۔ ٹھاکر اور دوسرے مندر کے پجاری کے لیے اس نے اگلی رات منتخب کی تھی۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔

اگلی قسط کل إن شاء الله

ناول داسی قسط10

ناول داسی قسط 11

میری اجازت کے بغیر کاپی پیسٹ کرنا سختی سے منع ہے۔۔۔  

✭ نوٹ :- عمدہ قسم کے سبق آموز واقعات وحکایات کیلئے آج ہی ہمارا ٹیلی گرام چینل جوائن کریں۔

 نوٹ :- ایسے ہی دل کو موہ لینے والے اور دل کو چھو لینے والے واقعات و حکایات پڑھنے کے لئے روز ویب سائٹ کا وزٹ کریں۔ اور اپنے دوست و احباب اور متعلقین کو بھی شیئر کریں تاکہ آپ کے ذریعے ان کا بھی فائدہ ہو ۔

novel-dasi-part4 ناول داسی قسط 4
آپ کی تعریف اور تنقید میرے لیے بہت اہم ہوتی ہے۔کنجوسی مت کیا کریں۔شکریہ

Leave a Comment