ناول داسی قسط 1 – daasi novel

ناول داسی قسط 1
Written by kahaniinurdu

داسی قسط1

امید ہے آپ لوگ ٹھیک ہونگے؟؟؟

انتظار ختم ہوا اور نیو سٹوری داسی کے ساتھ حاضر ہوں۔ امید ہے آپ کو پسند آۓ گی۔ ایک معصوم لڑکی کی انتقام کے لیے قاتل بننے کی داستان ۔

داسی قسط_____1

گورکھ پور میں کئی دن سے خوف کی فضا پھیلی ہوئی تھی۔ اس خوف کی وجہ کچھ اور نہیں گاؤں کے آدمیوں کا لگاتار غائب ہونا تھا۔ ایک ماہ کے قلیل عرصے میں سات آدمی غائب ہوگئے تھے۔ ساتوں کے سات آدمی قریبی جنگل میں لکڑیاں یا گھاس لینے گئے تھے اور پھر واپس نہیں آۓ۔ لوگوں کا خیال تھا کہ جنگل میں کوئی آدم خور درندہ آگیا ہے جو وہاں جانے والے لوگوں کو کھاجاتاہے۔مگر حیرت کی بات یہ تھی کہ غائب ہونے والوں میں ایک گدڑیا بھی تھا۔

جو صبح اپنی بکریاں چرانے جنگل لے گیا تھا۔اور شام کو ساری بکریاں تو سہی سلامت واپس آگئی تھیں مگر۔ رام یادیو گدڑیے کا کچھ پتہ نہیں چلا تھا۔ اب لوگ جنگل کی طرف جانے سے ڈرنے لگے تھے۔ پولیس کو بھی اطلاع دی گئی تھی مگر کوئی فائدہ نہ ہوا تھا۔ پولیس کی ایک پارٹی جنگل میں گئی تھی مگر شام تک چھپے رہنے سے بھی کوئی سرا ہاتھ نہ لگا تھا۔ اور نہ کوئی ایسا نشان ملا تھا جس سے یہ واضع ہوتا کہ جنگل میں کوئی آدم خور درندہ رہتا ہے جو انسانوں کا شکار کرتا ہے۔

پولیس پارٹی ایک دودن تک سراغ لگانے کی کوشش کرتی رہی پھر تنگ آکر گاؤں والوں کو جنگل میں نہ جانے کا کہہ کر چلے گئے۔ وہ کہ گئے تھے کہ اگر جنگل میں جانا بھی ہو تو دو چار آدمی مل کر جانا اور ہتھیار ساتھ لےجانا۔ گاؤں والوں نے جنگل میں جانا ہی چھوڑدیا تھا۔ مگر جنگل میں جاۓ بغیر ان کا گزارہ بھی نہیں تھا۔ کیونکہ جنگل سے وہ لکڑیاں اور جانوروں کے لیے چارہ لاتے تھے۔ مرتے کیا نہ کرتے کے مصداق کچھ دن بعد وہ چار پانچ آدمی مل کر جانے لگے ۔

ان کی زندگی میں یہ پہلا موقع تھا۔

کہ ان لوگوں کو جنگل سے خوف آتا تھا ورنہ یہ لوگ تو پلے بڑھے ہی جنگل میں تھے۔ اور اس جنگل میں آج تک کوئی خونخوار جانور بھی نہیں دیکھا گیا تھا۔ ایک صبح گاؤں کے کچھ لوگ مل کر لکڑیاں اور گھاس لینے جنگل گئے تھے۔ لکڑیاں اکھٹی کرتے ان میں سے ایک آدمی زرا آگے نکل گیا۔ اسے احساس ہی نہ ہوا کہ وہ اپنے ساتھیوں سے بچھڑ گیا ہے۔اور نہ اس کے ساتھیوں کو پتہ چلا کہ ان میں سے راجندر نام کا ایک آدمی کم ہے۔

راجندر لکڑیاں چنتے اپنی ہی دھن میں آگے بڑھتا جارہا تھا۔جب وہ اچانک ہی اس کے سامنے آئی تھی۔ راجندر کو لگا جیسے اسے زمین نے اچانک ہی اس کے سامنے اگل دیا ہو۔ وہ ٹھٹک کر رکا ۔اور حیرت سے اسے دیکھنے لگا۔ شاید الپسرا تھی وہ؟؟؟ بلا کی خوبصورت تھی۔لمبے لہراتے کھلے بال اسے اور بھی حسین بنا رہے تھے۔ اس کے چہرے پہ سب سے زیادہ متوجہ کرنے والی چیز اس کی آنکھیں تھیں۔ سحرزدہ کردینے والی سمندر سی نیلی آنکھیں۔ کک کون ہو تم ؟؟؟

راجندر نے ڈرتے ڈرتے اس سے پوچھا تھا۔ اس کے لہجے میں بلا کی حیرت تھی۔ اس پری وش نے کوئی جواب نہ دیا۔ کچھ دیر راجندر کو دیکھتی رہی اور پھر ایک طرف چل پڑی۔ راجندر جوان آدمی تھا۔ جنگل میں ایک انتہائی حسین اور جوان لڑکی کو تنہا دیکھ کر اس کی نیت خراب ہوگئی۔ ہوس نے اس کی عقل پر پردہ ڈال دیا۔ وہ بنا سوچے سمجھے اس کے پیچھے پیچھے چل دیا۔ وہ یہ بھی بھول گیا تھا کہ۔ اس جنگل میں ایک ماہ میں اس کے گاؤں کے کئی لوگ غائب ہوچکے ہیں۔

وہ پانی کی لہروں کی طرح چلتی جارہی تھی۔

اور راجندر اس کے پیچھے پیچھے۔ تعاقب کا یہ سلسلہ ایک پہاڑ کے قریب جاکے ختم ہوا۔ جنگل میں یہ پہاڑ راجندر نے پہلے بھی دیکھ رکھا تھا۔ وہ کئی بار یہاں آچکا تھا۔ اس حسینہ نے پہاڑ کے قریب پہنچ کر پیچھے مڑکر کر ایک نظر راجندر کو دیکھا۔ اور پہاڑ کے پیچھے چلی گئی۔ راجندر نے بھی اپنے قدم تیز کردیے۔ اور پہاڑ کے دوسری طرف جاپہنچا۔ وہ حسینہ متوالی چال چلتے سامنے چلی جارہی تھی۔ کچھ اور آگے جاکر اس نے رک کر ایک بار پھر مڑکر راجندر کو دیکھا۔

اور پھر اسے جیسے اچانک ہی زمین نے نگل لیا ہو۔ راجندر چلتے چلتے ٹھٹک کررکا تھا۔ اس نے اپنی آنکھیں مل کر ایک بار پھر اس طرف دیکھا جہاں وہ پری غائب ہوئی تھی۔مگر وہاں کچھ نہیں تھا۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا۔اور پھر جیسے وہ نیند سے جاگا ہو۔ اسے یاد آیا کہ وہ کچھ لوگوں کے ساتھ جنگل میں آیا تھا۔اور اب وہ جنگل میں نہ جانے کتنی دور نکل آیا ہے؟؟؟ اس کے ساتھی اسے ڈھونڈتے ہونگے۔ اس نے واپس جانے کا سوچا ۔مگر تجسس سے زیادہ ہوس اس پہ غالب آگئی۔

وہ آگے بڑھنے لگا۔ جنگل میں ایک حسین اور جوان تنہا لڑکی اس کا آسان شکار ثابت ہوسکتی تھی۔ ہوس نے اس کو پیچھے ہٹنے کی بجاۓ آگے بڑھنے پر مجبور کردیا تھا۔ دبے قدموں چلتا وہ وہاں جاکھڑا ہوا جہاں کچھ دیر پہلے وہ حسینہ غائب ہوئی تھی۔ اس کی آنکھوں کے سامنے زمین کے اندر سیڑیاں بنی ہوئی تھیں۔ آثار سے لگتا تھا کہ شاید کئی سوسال پہلے یہاں کوئی مندر ہوتا ہوگا۔؟؟؟ مگر وقت نے اس کا نام نشان مٹاکر اسے کھنڈر میں بدل دیا تھا۔ یقیناً وہ حسینہ ان سیڑھیوں کے زریعے نیچے اتری تھی۔

ناول داسی قسط 1

راجندر بناسوچے سمجھے سیڑیاں اترنے لگا۔

کوئی دس بارہ سیڑیاں اتر کر وہ ایک انتہائی پرانے اور بوسیدہ سے کمرے میں جاپہنچا۔ کمرہ خالی تھا۔ یہ ایک چھوٹا سا کمرہ تھا ۔اس کی ایک دیوار میں دروازے جتنی جگہ بنی ہوئی تھی۔ شاید اس پہ کبھی دروازہ بھی لگایا گیا ہوگا۔مگر وہاں اب لکڑی کا فقط نشان ہی رہ گیا تھا۔ دروازہ دھیمک نے کھالیا تھا۔ راجندر اس دروازے سے گزر کر اندر داخل ہوگیا۔ اس کے نتھنوں نے عجیب سی باس محسوس کی تھی۔ مگر اسے سمجھ نہیں آئی تھی کہ۔ یہ کس چیز کی باس ہے؟؟؟

اندر مزید تین کمرے تھے۔ ایک بلکل سامنے اور دو سائڈوں پر۔ وہ اس وقت ایک چھوٹی سی گیلری میں کھڑا تھا۔ کسی بھی کمرے کا دروازہ نہیں تھا۔ البتہ دروازوں کی جگہ ضرور تھی۔ راجندر کو اب خوف نے آگھیرا تھا۔ اس نے واپس پلٹنے کا سوچا۔ عین اسی لمحے ایک کمرے سے وہ حسینہ برآمد ہوئی۔ راجندر وہیں جم گیا۔ کون ہو تم؟؟؟ راجندر نے اسے دیکھتے ہی سوال کیا تھا۔ وہ کچھ پل راجندر کو گھورتی رہی اور پھر اس کے ہونٹوں نے جنبش کی۔ میرا نام پاروتی ہے۔

اس نے جواب دیا۔ میرا دنیا میں کوئی نہیں ہے۔ میں پہلے گنگانگرمیں رہتی تھی۔ مگر میرے ماتاپتا کے دیہانت کے بعد لوگوں نے مجھ پر بری نظر ڈالنا شروع کردی ۔ میں وہاں سے دوسرے گاؤں اور شہر چلی گئی مگر سب جگہ میرے ساتھ یہی ہوا۔ کوئی مجھ سے بیاہ نہیں کرنا چاہتا تھا۔ سب لوگ مجھے اپنی رکھیل بنانا چاہتے تھے۔ تنگ آکر میں اس جنگل میں آگئی۔ میں یہاں لوگوں سے چھپ کررہتی ہوں۔ اس نے اپنی بات ختم کی تو راجندر کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ راجندر کی آنکھوں میں اس وقت وہی چمک تھی۔

جو کسی بھی درندے کی آنکھوں میں اس کی توقع سے زیادہ آسان اور مزیدار شکار ملنے پر ہوتی ہے۔

ادھر آؤ میرے پاس۔ راجندر کا خوف ختم ہوگیا تھا۔ ہوس مزید بڑھ گئی تھی۔ بھگوان کے لیے مجھے کچھ مت کرنا۔ پاروتی نے خوف زدہ سے انداز میں راجندر سے کہا۔ ڈرو نہیں میں تمہیں کچھ نہیں کہونگا۔ راجندر نے اسے تسلی دی ۔مگر اس کا لہجہ اس کے الفاظ سے الگ تھا۔ تم مجھے اپنے گھر لےجاؤ۔ مجھ سے بیاہ کرلو۔ میں ساری عمر تیری داسی بن کر رہونگی۔

پاروتی نے راجندر سے کہا تھا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ۔راجندر پاروتی کی اس آفر کو قدرت کا انعام سمجھتا اور اسے ہاں کردیتا۔مگر وہ ایک ہوس زدہ انسان تھا۔ عزت کی زندگی اسے راس نہیں تھی شاید۔ اس نے آگے بڑھ کر پاروتی کو دبوچ لیا۔ اور اسے فرش پر گرا کر اس کو بےلباس کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ پاروتی روتی چلاتی ہاتھ پاؤں مارہی تھی۔ اور زبان سے اسے منع کررہی تھی ۔ بھگوان کے لیے ایسا مت کرو۔ مجھے داغدار مت کرو۔ مگر راجندر پر ہوس کا بھوت سوار تھا۔

پاروتی کی کوئی منت کوئ التجااس پر اثر انداز نہیں ہوسکتی تھی۔ پاروتی کا جسم چھونے کے بعد راجندر کا صبر جواب دےگیا تھا۔ وہ جلد از جلد اپنی ہوس کی تکمیل چاہتا تھا۔ اس نے پاروتی کی قمیص کے گلے میں ہاتھ ڈالا اور ایک جھٹکے سے قمیص پھاڑدی۔ پاروتی کے جسم پہ نظر پڑتے ہی راجندر کی آنکھیں خوف سے ابل پڑیں۔ اس کا نرم و نازک جسم ایک ڈھانچہ بن چکا تھا۔کئی سوسال پرانا ڈھانچہ۔ اس نے پاروتی کے چہرے کی طرف دیکھا۔ عین اسی لمحے خنجر نما کوئی چیز اس کی پسلیوں کو توڑ کر اس کے دل تک جاپہنچی۔

راجندر کے حلق سے ایک خوفناک چیخ نکلی۔

اس نے اپنی پسلیوں کی طرف دیکھا۔ پاروتی کا بازو کہنی تک اس کے جسم میں گھسا ہوا تھا۔ خون فوارے کی طرح نکلا۔ راجندر کو کچھ اور پوچھنے یا سوچنے کی مہلت ہی نہ ملی۔ وہ بےجان ہوکر ایک طرف لڑھک گیا۔ پاروتی نے راجندر کے جسم سے اپنا ہاتھ نکالا تو اس کے ہاتھ میں راجندر کا دل اب بھی ہلکی سی لرزش میں تھا۔ اس نے نفرت سے اسے ایک طرف پھینک دیا۔اور مسکراتی ہوئی اٹھ کھڑی ہوئی۔

ہوس زدہ انسانوں سے اس کا ایک اور انتقام پورا ہوگیا تھا۔ دھرتی سے ایک اور ہوس پرست کم ہوگیا تھا۔ اس نے راجندر کی لاش کو گھسیٹ کر سامنے والے کمرے میں پھینک دیا۔ جہاں راجندر جیسے اور اسی کے گاؤں کے سات اور ہوس پرست لاشوں کی صورت عبرت کا نشان بنے پڑے تھے۔ اگلے دن گورکھ پور میں راجندر کے غائب ہونے کی باتوں کے ساتھ ساتھ خوف کی فضا بھی اپنے عروج پر تھی۔ اس کے ساتھ جانے والوں میں سے ایک نے بتایا تھا کہ۔ اس نے راجندر کو ایک جوان لڑکی کے پیچھے جاتے دیکھا تھا۔

اگلی قسط کل إن شاء الله اپنی راۓ سے ضرور آگاہ کیجیے گا۔۔۔

ناول داسی قسط 1

ناول داسی قسط 2

میری اجازت کے بغیر کاپی پیسٹ کرنا سختی سے منع ہے۔۔۔  

✭ نوٹ :- عمدہ قسم کے سبق آموز واقعات وحکایات کیلئے آج ہی ہمارا ٹیلی گرام چینل جوائن کریں۔

 نوٹ :- ایسے ہی دل کو موہ لینے والے اور دل کو چھو لینے والے واقعات و حکایات پڑھنے کے لئے روز ویب سائٹ کا وزٹ کریں۔ اور اپنے دوست و احباب اور متعلقین کو بھی شیئر کریں تاکہ آپ کے ذریعے ان کا بھی فائدہ ہو ۔

 

novel-dasi-part4 ناول داسی قسط 4

شکریہ

Leave a Comment