ناول داسی آخری قسط12
گورکھ پور میں ان کو ایک مسلمان کے گھر ٹھہرایا گیا اور ان کی خوب آؤ بھگت کی گئی۔
شام ہوتے ہی وہ دوآدمیوں کو ساتھ لیکر پہاڑ کی طرف چل پڑے۔ ان کے ساتھ ایک آدمی گورکھ پور کا تھا جو ان کو راستہ بتانے کے لیے ساتھ گیا تھا۔ اور دوسرا ان کے ساتھ ہی آیا تھا۔ پہاڑ کے قریب پہنچنے پر بابا رحیم نے گورکھ پور والے آدمی کو واپس روانہ کردیا۔اور خود پہاڑ کے دوسری طرف بنے چھوٹے سے میدان میں حصار باندھ کر بیٹھ کر تلاوت کرنے لگے۔
عشاء کی نماز کا وقت ہونے پر ساتھ آۓ آدمی نے آذان دی پھر انہوں نے نماز پڑھی۔ رات کچھ گہری ہوگئی تھی۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد وہ ابھی بیٹھے ہی تھے کہ جنگل کے سناٹے کو چیرتی ایک خوفناک سی آواز آئی تھی۔ آواز ایسی تھی جیسے کوئی حیوان تکلیف سے چلایا ہو۔ بابا رحیم نے ایک بار پھر تلاوت شروع کردی۔ اب کی بار تلاوت اونچی آواز میں کی جارہی تھی۔ رات کی خاموشی کو چیرتی تلاوت کی آواز دور دور تک جارہی تھی۔
وہی عجیب سی آواز ایک بار پھر آئی تھی۔
اس کے بعد دوتین بار وہی آواز آئی اور پھر خاموشی چھاگئی۔ بابا رحیم سورۃ رحمٰن پڑھ رہے تھے آواز بھی بہت خوبصورت تھی۔ یقیناً پرندے بھی گھونسلوں میں بیٹھے اپنے رب کی بڑائی انہماک سے سن رہے ہونگے۔ اللہ بہت مہربان ہے۔ بے شک اسی (رحمٰن)نے انسان کو قران کی تعلیم دی القران اسی نے پیدا کیا اور بولنا سکھایا۔۔۔القران سورج اور چاند ایک حساب مقررہ سے چل رہے ہیں۔۔۔
القران جب کہا گیا۔۔۔اور ستارے اور درخت اسی (اللہ) کو سجدہ کرتے ہیں القران یقیناً درخت خوشی سے جھومیں ہونگے اور لبیک کہا ہوگا۔ اور انسان کو ٹھیکرے کی طرح کھنکھناتی ہوئی مٹی سے بنایا۔۔۔القران اور جنات کو آگ شعلےسے القران اور نیکی کا بدلہ نیکی کے سوا کچھ نہیں القران اے گروہ جن وانس اگر تم قدرت رکھتے ہو زمین اور آسمان کے کناروں سے نکل جاؤ تو نکل جاؤ۔ مگر تم نکل سکتے ہی نہیں بجز بڑے زور کے۔۔۔
القران۔ بابارحیم تلاوت میں مگن تھے جب کچھ دور سے ایک سایہ سا چلتا ان کی طرف آنے لگا۔
بابارحیم اور ساتھ بیٹھے شخص نے اس کو دیکھ لیا تھا۔ وہ سایہ دھیرے دھیرے چلتا ان کے قریب آتا رہا۔ قریب آنے پر بابارحیم نے دیکھا وہ ایک انتہائی حسین لڑکی تھی۔ جو کسی معمول کی طرح چلتی ہوئی ان کے سامنے آکر بیٹھ گئی تھی۔ بابارحیم نے تلاوت جاری وہ بلکل بھی خوفزدہ نہیں ہوۓ تھے
۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج پونم کی رات تھی سرسوتی پہاڑ کے قریب تہہ خانے میں موجود تھی ۔
آج رات اس پہ بھاری تھی ہر پونم کی رات اس کے لیے قیامت کی رات ہوتی تھی۔ اس کے گرو یادیو نے اسے عمل سیکھنے سے پہلے کہا تھا ۔کہ یہ عمل سیکھنے والا ہرپونم کی رات تکلیف سہتا ہے۔اور اسے کبھی مکتی نہیں ملتی ۔مر کر بھی نہیں۔ سرسوتی نے پھر بھی یہ عمل سیکھنے کی ضد کی تھی۔ اس پہ اس وقت بس ایک ہی دھن سوار تھی۔انتقام کی دھن۔۔۔۔۔۔۔
اور اب وہ تکلیف سہتی تھی اور ایک عرصے سے سہتی آرہی تھی۔ آج بھی پونم کی رات تھی وہ تہہ خانے سے نکل کر پہاڑ کی طرف چلی گئی اور وہاں ایک جگہ بیٹھ کر چاند نکلنے کا انتظار کرنے لگی۔ اچانک ہی فضا میں اللہ اکبر کی صدا گونجی تھی۔ سرسوتی نے چونک کر آواز کی طرف دیکھا۔ سرسوتی جانتی تھی کہ یہ آذان ہے۔ مگر یہاں اس جنگل میں کون آذان دےرہاتھا؟؟؟اور کیوں؟؟؟ آواز اسی میدان کی طرف سے آرہی تھی جہاں اس کا مسکن تھا۔ وہ اٹھ کر اس طرف چل پڑی۔
اس کے سامنے میدان میں دو آدمی تھے۔
آذان ختم ہوئی تو انہوں نے نماز نیت لی تھی۔ سرسوتی ان سے دور چلی گئی تھی۔ اتنے میں چاند نکل آیا تھا۔ چند لمحے بعد سرسوتی کو اسی کرب سے گزرنا تھا جس سے وہ پچھلے ڈیڑھ دوسوسال سے گزرتی آرہی تھی۔ چند لمحوں بعد سرسوتی کو محسوس ہونے لگا جیسے اس کے جسم میں سوئیاں چبھ رہی ہیں ۔ اور پھر چند پل بعد محسوس ہوا جیسے کوئی نوکیلے خنجر سے اس کے جسم کو کرید رہا ہے۔ پہلے وہ برداشت کرتی رہی پھر اس کا حوصلہ جواب دے گیا۔
وہ زور سے چلائی ۔مگر اس کے حلق سے کسی حیوان کی خوفناک سی آواز نکلی تھی۔ جیسے کوئی جانور تکلیف میں چلارہا ہو۔ وہ دوتین بار چلائی ۔ اچانک ہی اس کی تکلیف کم ہونے لگی۔ اس کے کانوں میں تلاوت کی آواز پڑرہی تھی۔اور جیسے جیسے وہ تلاوت سنتی گئی اس کی تکلیف کم ہوتی گئی۔ وہ خاموشی سے تلاوت سننے لگی۔ اس کی تکلیف ختم ہوگئی تھی۔ اس نے حیرانی سے اپنے آپ کو دیکھا تھا۔ ایسا اس کے ساتھ پہلی بار ہوا تھا۔کہ پونم کی رات میں وہ تکلیف میں نہیں تھی۔
ورنہ اس نے بڑے بڑے تانترک اور جادوگر عاملوں سے علاج کرایا تھا ۔
مگر اس کی تکلیف کم نہ ہوئی تھی۔اور آج خود بخود وہ ٹھیک ہوگئی تھی۔ وہ تلاوت کے الفاظ نہیں سمجھ سکتی تھی۔مگر اتنا ضرور جانتی تھی کہ یہ مسلمانوں کی آسمانی کتاب کے الفاظ ہیں۔ جن سے اسے سکون ملا تھا اور اس کی تکلیف ختم ہوگئی تھی۔ وہ وہاں سے اٹھی اور آہستہ آہستہ چلتی تلاوت کرنے والے کے سامنے جاکر بیٹھ گئی۔
بابا رحیم نے تلاوت ختم کرکے نظر اٹھائی اس کے عین سامنے ایک لڑکی بیٹھی بابارحیم کو ہی دیکھ رہی تھی۔ کون ہو بیٹی؟؟؟ بابارحیم جان گئے تھے کہ یہ وہی بدروح ہوگی جس کے لیے وہ یہاں آۓ تھے۔ کیونکہ رات کے اس پہر جنگل میں کوئی اکیلی لڑکی نہیں آسکتی تھی۔ میرا نام سرسوتی ہے۔ سرسوتی نے آہستگی سے جواب دیا تھا۔ گاؤں کے بھولے بھالے انسانوں کو کیوں ماردیتی ہو؟؟؟ کیا بگاڑا ہے انہوں نے تمہارا؟؟؟
بابارحیم کے سوال پر سرسوتی نے غور سے بابارحیم کو دیکھا ۔
جن کو میں نے مارا ہے وہ بھولے بھالے نہیں تھے۔ اور نہ ہی میں ہر کسی کو مارتی ہوں۔ سرسوتی نے جواب دیا۔ وہ سب کے سب ہوس پرست تھے انہوں نے مجھے ایک زندہ لڑکی سمجھ کر میری عزت سے کھیلنا چاہا ۔اور میں نے ان کو عبرتناک موت سے دوچار کردیا۔ ہوس پرستوں سے مجھے سخت نفرت ہے۔ میرا بس چلے تو میں دھرتی پہ ایک بھی ایسا انسان زندہ نہ چھوڑوں جو کسی کی بہن بیٹی پر بری نظر رکھتا ہے۔
سرسوتی کے لہجے میں غصے کا عنصر نمایا تھا۔ ان کے علاوہ بھی میں ان جیسے ہزاروں لوگوں کی قاتل ہوں۔ وہ سب کے سب ایسے ہی تھے ۔ ایسے لوگوں سے نفرت کی کوئی تو خاص وجہ ہوگی؟؟؟ بابارحیم کے سوال پر سرسوتی نے ان کو مختصر اپنی بہن پاروتی کا قصہ سنادیا۔ بابا ایک بات تو بتائیں۔؟؟؟ سرسوتی نے اچانک ہی بابارحیم سے کہا۔ پوچھو کیا پوچھنا چاہتی ہو؟؟؟ بابا رحیم نے نرم لہجے میں کہا۔ بابا آپ مسلمان ہو؟؟؟ سرسوتی نے تصدیق چاہی۔ ہاں بیٹی میں مسلمان ہوں مگر تم نے ایسا کیوں پوچھا؟؟؟
بابارحیم نے جواب دینے کے ساتھ ہی سوال بھی کردیا۔
بابا آپ کیا پڑھ رہے تھے۔؟؟؟ سرسوتی نے اشتیاق سے پوچھا۔ بابا رحیم نے اسے بتایا کہ وہ اپنی مذہبی کتاب قران کی تلاوت کررہے تھے۔ سرسوتی نے بابارحیم کو بتایا کہ وہ ہر پونم کی رات کو ایک خاص عمل سیکھنے کی تکلیف سہتی ہے۔ اور یہ مرنے کے بعد بھی جاری ہے۔ اسے مرے دوسوسال کے قریب ہوچلے ہیں مگر اسے نہ اس تکلیف سے نجات ملی اور نہ ہی مکتی ۔
ہم اپنے گاؤں گنگا نگر سے اس لیے چلے گئے تھے کہ لوگ اس بات سے بےخبر رہیں۔ ہم گاؤں گاؤں پھرتے رہے میں نے اپنی دیدی کی محبت میں اپنا نام بھی پاروتی رکھ لیا تھا۔ جو بھی پوچھتا تھا میں اسے اپنا نام پاروتی ہی بتاتی تھی اصل میں میں سرسوتی ہی ہوں۔ ہر گاؤں ہمیں کچھ دن بعد چھوڑنا پڑتا تھا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ میرے ماں باپ کسی بدروح کو ساتھ لیے پھررہے ہیں۔ اور وہ ان کو نقصان پہنچاۓگی۔ تنگ آکر میں اپنے ماں باپ کو لیکر اپنے گرو یادیو کے پاس اس جنگل میں آگئی۔
میرے گرو سمیعت کسی بھی بڑے سے بڑے عامل تانترک کے پاس میری اس تکلیف کا حل نہیں تھا۔
میرے ماتا پتا کی خواہش تھی کہ میری شادی ہوجاۓ مگر میں جانتی تھی کہ جب تک میری اس مشکل کا حل نہیں ہوگا میرے لیے شادی کرنا ناممکن ہے۔اور پھر ایک ایک کرکے میرے ماں باپ میری شادی کا خواب لیے اس دنیا سے چلے گئے۔ اس کے بعد میرے گرو یادیو کا بھی دیہانت ہوگیا۔اور میں اس دنیا میں اکیلی رہ گئی۔ یہی جگہ ہمیشہ کے لیے میرا بسیرا بن گئی۔
اور پھر ایک دن مجھے بھی موت نے آلیا۔ میں مرگئی ۔مگر میں مرکر بھی نہیں مری ۔میں نے سوچا تھا کہ مر کر اس تکلیف سے نجات مل جاۓ گی۔مگر مرنے کے کچھ دن بعد میں بھٹکتی پھر یہاں آگئی۔ یہاں میرا جسم تہہ خانے میں پڑا تھا اور میں اسے دیکھ رہی تھی۔ کوئی میرا انتم سنسکار کرنے والا بھی نہیں تھا۔ میں خود اس لیے نہیں کرسکتی تھی کہ مجھے آگ سے ڈر لگنے لگ گیا تھا۔ میں نے اپنے جسم کو جیسے تیسے اٹھاکر وہاں پہاڑ کی ایک کھوہ میں چھپادیا۔
سرسوتی نے ایک طرف اشارہ کیا ۔
آج پھر پونم کی رات تھی اور میری تکلیف شروع ہوگئی تھی۔مگر عین اسی وقت آپ کی آواز میرے کانوں میں پڑی میں آپ کی طرف متوجہ ہوئی اور آہستہ آہستہ میری تکلیف ختم ہوتی چلی گئی۔ سرسوتی کے لہجے میں حیرت اور خوشی کی ملی جلی سی کیفیت تھی۔ بابارحیم سرسوتی کی بات سن کر دھیرے سے مسکراۓ تھے۔ بیٹی اس قران میں شفا ہی شفا ہے۔مگر شرط یہ ہے کہ کوئی اس کی طرف متوجہ تو ہو۔ یہ اپنے پڑھنے اور سننے والوں کو کبھی مایوس نہیں کرتا۔
بابارحیم نے عقیدت سے کہا ۔ بابا مجھے اس تکلیف سے نجات دلادیں۔ مجھے مکتی دلادیں۔ سرسوتی نے التجائیہ سے انداز میں بابارحیم سے کہا۔ میں تنگ آچکی ہوں اس تکلیف سے اس بھٹکنے سے اور اس دنیا سے بھی۔ میں ہمیشہ کے لیے انسانوں سے دور جانا چاہتی ہوں۔ سرسوتی کے لہجے میں چھپا دکھ بابارحیم بھی محسوس کررہے تھے۔ انہوں نے اسے تسلی دی کہ وہ اس کے دکھ کا مدوا کرنے کی کوشش کرینگے۔
صبح ہونے کے بعد بابا رحیم گورکھ پور واپس آگئے۔
اور شام ہونے سے پہلے پھر جنگل میں جاپہنچے تھے۔ گاؤں والے حیران تھے کہ بڑے بڑے جادوگر عامل ایک رات تو کیا ایک گھنٹہ بھی نہیں ٹک پاۓ تھے۔ بابارحیم کے پاس ایسی کونسی شکتی تھی۔کہ وہ رات بھر جنگل میں بھی رہے اور اب پھر واپس جارہے ہیں۔ گورکھ پور کے مسلمان جانتے تھے بابارحیم کی اس شکتی کو۔ وہ شکتی (طاقت) کچھ اور نہیں ان کا ایمان عقیدہ اور خدا کی ذات پہ بھروسہ تھا۔
یہ طاقت ہر مسلمان میں ہوتی ہے مگر ہر کوئی اس طاقت کو استعمال کرنا نہیں جانتا۔ اس طاقت کو محسوس کرنا ہو تو اللہ کی ذات پہ بھروسہ اور توکل رکھیے۔ اوراسی ذات سے ہمیشہ ڈرتے رہو۔ بابا رحیم لگاتار تین دن تک جنگل میں جاتے رہے۔ اور سرسوتی کی تکیلف کا ازالہ کرنے کی کوشش کرتےرہے۔ انہیں اپنے اللہﷻ اور اس کی پاک کلام پہ پورا بھروسہ تھا۔ ان کو یقین تھا اللہ ﷻپاک ان کا بھرم رکھیں گے۔ اور اللہﷻپاک نے ان کا بھرم رکھ لیا تھا۔
آج ان کو جنگل میں تیسری رات تھی۔
آدھی رات کے قریب وہ تلاوت میں مصروف تھے۔اور سرسوتی ان کے سامنے آنکھیں بند کیے بیٹھی تھی۔ اچانک ہی وہ اٹھ کر ایک طرف جانے لگی۔ بابارحیم تلاوت میں مشغول اسے دیکھے جارہے تھے۔ وہ چند قدم دور جاکر کھڑی ہوگئی۔ اس نے مڑکر بابارحیم کو مشکور نظروں سے دیکھا۔ اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ واضع تھی۔ پھر اس نے ہاتھ جوڑ کر بابارحیم کو پرنام کیا۔ جیسے ان کا شکریہ ادا کررہی ہو۔ اس کے بعد وہ پلٹی دوچار قدم چلی اور آسمان کی طرف اٹھنے لگی۔
سرسوتی نےایک بار پھر مسکراکر بابارحیم کو دیکھا اور دونوں ہاتھ جوڑدیے۔ بابارحیم کے دیکھتے دیکھتے وہ کچھ اور اوپر اٹھی اور پھر دھواں سا بن کر ہمیشہ کے لیے ہوا میں تحلیل ہوگئی۔ بابارحیم نے مسکراکر اسے آخری بار دیکھا اور ہاتھ اٹھا دیا تھا۔ انہوں نے تلاوت مکمل کی اور مسکرادیے۔ پھر انہوں نے دونفل بطور شکرانہ ادا کیے۔کہ اس بابرکت ذات نے ان کا بھرم رکھ لیا تھا۔ اور ہمیشہ کی طرح اس بار بھی واضع کردیا تھا ۔کہ اللہﷻہی سب سے بڑا ہے۔
اور اللہﷻ ہی ہرشے پر قادر ہے۔
اگلے دن گورکھ پور اور آس پاس کے گاؤں میں جشن کا سا سماں تھا۔ ان کی بہت بڑی پریشانی ختم ہوگئی تھی۔ بابارحیم چند آدمیوں کو ساتھ لیکر ایک بار پھر جنگل میں اسی جگہ آۓ تھے۔ ان کو وہاں تھوڑی سی تلاش کے بعد تہہ خانے کا سراغ مل گیا تھا۔ تہہ خانے میں ہڈیوں ڈھانچوں اور لاشوں کا ڈھیر ملا تھا۔ بابارحیم کو اچانک ہی کچھ یاد آیا تھا۔ وہ پہاڑ کی طرف گئے اور سرسوتی نے جس طرف اشارہ کیا تھا وہاں کھوہ تلاش کرنے لگے۔
کچھ دیر کی تلاش کے بعد ان کو ایک جگہ کھوہ کے آثار محسوس ہوۓ اس کے آگے پتھر لگے ہوۓ تھے۔ انہوں نے آدمیوں کی مدد سے وہ پتھر ہٹاۓ تو چھوٹی سی ایک کھوہ سامنے آگئی۔ لگتا تھا جیسے یہ جگہ کئی سوسال سے بند ہو۔ انہوں نے اللہﷻ کا نام لیکر اندر قدم رکھا تو ان کی نظر سامنے پڑی چند انسانی ہڈیوں پر پڑی۔ یہ یقیناً سرسوتی کی ہڈیاں تھیں۔ انہوں نے اسے اسی طرح رہنے دیا اور باہر نکل کر کھوہ کو پتھروں سےپھر ویسے ہی بند کردیا۔ شام کو بابا رحیم اجازت لیکر اپنے گاؤں واپس آگئے تھے۔
اگلے ہی دن گورکھ پور اور آس پاس کےگاؤں سے کچھ لوگ بابارحیم سے ملنے آۓ۔
ان کے آنے کا مقصد اس شکتی کو حاصل کرنا تھا جو بابارحیم اور دوسرے مسلمانوں کے پاس تھی۔ وہ مسلمان ہونا چاہتے تھے۔ بابارحیم نے اللہﷻ کا شکرادا کیا اور ان کو کلمہ پڑھاکر مسلمان کردیا۔ پھر اکثر بیشتر یہی ہونے لگا۔ آس پاس کے گاؤں سے کچھ نہ کچھ لوگ مسلمان ہونے کی خواہش لیکر بابارحیم کے پاس آجاتے تھے۔اور ایمان کی دولت لیکر واپس جاتے تھے۔ پھر یہ سلسلہ بڑھتا چلا گیا۔
گاؤں کے گاؤں مسلمان ہونے لگے۔ یہ سب صرف ایک اچھے مسلمان مومن انسان کی وجہ سے تھا۔ بابارحیم کی وجہ سے ۔جنہوں نے ان کو دیکھا یا ان کے بارے میں سنا وہ ضرور متاثر ہوا۔ اور مسلمان کو ہونا بھی ایسا ہی چاہیے ۔کہ دوسرے مذاہب کے لوگ اسے دیکھیں تو یہ کہنے پر مجبور ہوجائیں۔کہ بے شک اسلام ہی کامل دین ہے۔ اور یہی بہترین مذہب ہے۔ حسن کردار سے نورِ مجسم ہوجا کہ ابلیس بھی تجھے دیکھے تو مسلمان ہوجاۓ۔۔۔
ختم شد
پچھلی قسطیں پڑھنے کے لئے لنکس نیچے موجود ہیں۔
میری اجازت کے بغیر کاپی پیسٹ کرنا سختی سے منع ہے۔۔۔
✭ نوٹ :- عمدہ قسم کے سبق آموز واقعات وحکایات کیلئے آج ہی ہمارا ٹیلی گرام چینل جوائن کریں۔
نوٹ :- ایسے ہی دل کو موہ لینے والے اور دل کو چھو لینے والے واقعات و حکایات پڑھنے کے لئے روز ویب سائٹ کا وزٹ کریں۔ اور اپنے دوست و احباب اور متعلقین کو بھی شیئر کریں تاکہ آپ کے ذریعے ان کا بھی فائدہ ہو ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امید ہے سٹوری کے بارے میں آپ کو کوئی تشنگی نہیں رہی ہوگی؟؟؟
زندگی رہی تو ملیں گے ایک نیوسٹوری کے ساتھ إن شاء الله ۔
سٹوری پڑھنے اور پسند کرنے کا تہہ دل سے مشکور ہوں۔?سلامت رہیں?
Leave a Comment