نشان حیدر پانی والے 11 شہیدوں کی لازوال داستان

نشان حیدر پانی والے 11 شہیدوں کی لازوال داستان
Written by kahaniinurdu

نشان حیدر پاکستان کا سب سے اعلی جنگی اعزاز ہے۔ اور یہ برطانیہ کے سب سے اعلی جنگی اعزاز وکٹوریہ کراس ،جرمنی کے آئرن کراس اور بھارت کے “مہا ویر چکر ” کے مساوی حیثیت رکھتا ہے۔۔یہ مسلح افواج کے ان افراد کو دیا جاتا ہے جو انتہائی پر خطر حالات میں بہاد ری کا بہت بڑا کارنامہ یا غیر معم ولی کارنامہ یا غیر معمولی جرات دکھاتے ہیں زمین پر سمندر میں یا فضا میں دشمن سے نبرد آزما ہوتے ہوئے اعلی ترین شجاعت ،فرض شناسی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

اس اعزاز کا نشان پانچ کونوں کا ایک ستارہ ہے – جو توپ کی دھات سے بنایا جاتا ہے ۔ان کونوں کے کنارے سفید انیمل کی ہوئی تانبے اور نکل کی مرکب دھات کے ہوتے ہیں۔چاند اور ستارہ ہیرا کا بنا ہوتا ہے۔ ربن ریشمی اور گہرے سبز رنگ کا ہوتا ہے جو ڈیڑھ انچ چوڑا ہوتا ہے جب یہ ربن تمغے کے بغیر پہنا جاتا ہے تو ربن کے اوپر اس پنج کونی ستارے کی ایکمحتصر سی شبیہ لگا لی جاتی ہے۔

یہ اعزاز پانے والا اپنے نام کے کے بعد این -ایچ لکھ سکتا ہےنشان حیدر کی پشت پر اعزاز حاصل کرنیوالے کے بارے میں محتصر معلومات درج ھوتی ہیں جن میں آرمی نمبر ،اعزاز پانے والے کا نام اور اس شہر کا نام جہاں اس نے یہ کارنا مہ سر انجام دیا، تاریح وصال اور شہادت کا دن بھی لکھا ہوتا ہے :اس اعزاز کے ساتھ الاؤنس تین نسلو ں تک چلتے ہیں ہر نسل کا الاؤنس پچیس 25 فیصد کم ہوتا جاتا ہے- نشان حیدر کو حضرت علی رضی اللہ تعالی سے منسوب کیا گیا ہے۔یہ ا عزاز سابق صدر پاکستان میجر جنرل اسکندر مرزا نے یوم پاکستان کے موقع پر 23 مارچ 1957ء کو جاری کیا۔

1۔کیپٹن محمد سرور شہید نشان حیدر

کیپٹن محمد سرور شہید

راجا محمد سرور (Raja Muhammad Sarwar) پاک فوج میں کپتان تھے۔ یہ تحصیل گوجرخان ضلع راولپنڈی کے ایک گاؤں سنگھوڑی میں 10نومبر 1910 میں ایک راجپوت گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام راجا محمد حیات خان تھا۔ پہلا نشان حیدر پانے والے کیپٹن راجا محمد سرور شہید نے اپنی ابتدائی تعلیم گورنمنٹ زمیندرہ اسلامیہ ہائی اسکول دسوہہ فیصل آباد سے حاصل کی۔

1929ء میں انہوں نے فوج میں بطور سپاہی شمولیت اختیار کی۔ 1944ء میں پنجاب رجمنٹ میں کمیشن حاصل کیا، جس کے بعد انہوں نے برطانیہ کی جانب سے دوسری عالمی جنگ میں حصہ لیا، شاندار فوجی خدمات کے پیشِ نظر 1946ء میں انہیں مستقل طور پر کیپٹن کے عہدے پر ترقی دے دی گئی۔قیام پاکستان کے بعد سرور شہید نے پاک فوج میں شمولیت اختیار کرلی۔

1948ء میں جب وہ پنجاب رجمنٹ کی سیکنڈ بٹالین میں کمپنی کمانڈر کے عہدے پر خدمات انجام دے رہے تھے، انہیں کشمیر میں آپریشن پر مامور کیا گیا۔27 جولائی 1948ء کو انہوں نے کشمیر کے اوڑی سیکٹر میں دشمن کی اہم فوجی پوزیشن پر حملہ کیا۔ اس حملے میں مجاہدین کی ایک بڑی تعداد شہید اور زخمی ہوئی لیکن کیپٹن سرور نے پیش قدمی جاری رکھی۔

دشمن کے مورچے کے قریب پہنچ کر انہیں معلوم ہوا کہ دشمن نے اپنے مورچوں کو خاردار تاروں سے محفوظ کر لیا ہے، اس کے باوجود کیپٹن سرور مسلسل فائرنگ کرتے رہے۔کارروائی کے دوران دشمن کی کئی گولیاں ان کے جسم میں پیوست ہوچکی تھیں لیکن انہوں نے بے مثال جذبے کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک ایسی گن کا چارج لیا جس کا جوان شہید ہوچکا تھا۔

اپنے زخموں کی پروا کیے بغیر 6 ساتھیوں کے ہمراہ انہوں نے خاردار تاروں کو عبور کرکے دشمن کے مورچے پرآخری حملہ کیا۔دشمن نے اس اچانک حملے کے بعد اپنی توپوں کارخ کپٹن سرور کی جانب کر دیا، یوں ایک گولی کپٹن سرور کے سینے میں لگی اور انہوں نے وہاں شہادت پائی، مجاہدین نے جب انہیں شہید ہوتے دیکھا تو انہوں نے دشمن پر ایسا بھرپور حملہ کیا کہ وہ مورچے چھوڑ کربھاگ گئے۔

ان کی شاندار خدمات کے اعتراف میں جہاں انہیں مختلف اعزازات سے نوازا گیا، وہیں 27اکتوبر 1959ء کو انہیں نشانِ حیدر کے اعلیٰ ترین اعزاز سے نوازا گیا، انہیں پہلا نشانِ حیدرپانے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ یہ اعزاز ان کی بیوہ محترمہ کرم جان نے 3 جنوری 1961ء کو صدرپاکستان محمد ایوب خان کے ہاتھوں وصول کیا تھا۔کیپٹن سرور کی شہادت کے وقت عمر 38 سال تھی۔

2۔نائیک سیف علی جنجوعہ نشان حیدر

نائیک سیف علی جنجوعہ

آزاد جموں و کشمیر کے ضلع کوٹلی کی تحصیل نکیال کے ایک گاوں میں 25 اپریل 1922ء میں پیدا ہوئے،انہوں نے 18 سال کی عمر میں برٹش انڈین آرمی کی رائل کور میں بطور سپاہی شمولیت اختیار کی،اس دوران وہ دوسری جنگ عظیم میں چار سال بیرون ملک محاذ پر بھی تعینات رہے۔جنگ کے بعد ان کی یونٹ جالندھر اور لاہور میں تعینات ہوئی ،قیام پاکستان کے بعد وہ اپنے آبائی علاقے میں آگئے

سردار فتح محمد کریلوی کی حیدری فورس میں شامل ہوگئے، جو بعدازاں آزاد کشمیر رجمنٹ کا حصہ بنی ، سیف علی جنجوعہ کی قائدانہ صلاحیت کو دیکھتے ہوئے انہیں نائیک کے عہدے پر ترقی دے د ی گئی۔جس کے بعد انہیں پلاٹون کمانڈر بنا کر مینڈھر سیکٹر پر پیر کالیوا کے مقام پر دشمن کا حملہ روکنے کا حکم ملا، جہاں انہوں نے بھارتی فوج کے پورے بریگیڈ سے جوانمردی کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے جرات اور بہادری کی لازوال داستان رقم کی۔

ان کی پلاٹون نے دستیاب فائر پاور اور مختصر نفری کے ساتھ بھارتی بریگیڈ کے چار حملے پسپا کئے، نائیک سیف علی جنجوعہ نے بھارتی فوج کے وطن کی حرمنت کیلئے بے جگری اور جانبازی کی عظیم داستان رقم کرتے ہوئے 26اکتوبر 1948ء کو جام شہادت نوش کیا ۔جس پر 14 مارچ 1949ء کو حکومت آزاد جموں و کشمیر نے نائیک سیف علی خان جنجوعہ کو آزاد جموں و کشمیر کا سب سے بڑا جنگی اعزاز” ہلال کشمیر “ عطا کیا، جو نشان حیدر کے مساوی ہے۔

حکومت پاکستان نے ان کی لازوال قربانی کی یاد میں 30 اپریل 2013 کو ایک یادگاری ٹکٹ بھی جاری کئے۔اس وقت پاکستان کے تمغے نہیں بنے تھے اس لیے حکومت پاکستان نے “ہلال کشمیر” اعزاز کو برطانیہ کے “وکٹوریہ کراس” کے برابر لکھا تھا۔ جب پاکستان کے تمغے بنے تو سیف علی جنجوعہ کے کمپنی کمانڈ ر لیفٹیننٹ محمد ایاز خان (ستارہ سماج) صدر پاکستان سوشل ایسوسی ایشن نے حکومت پاکستان کو مسلسل اڑتالیس سال لکھا کہ نائیک سیف علی شہید کو نشان حیدر کے اعزاز کا اعلان کیا جائے۔

بالاخر 30 نومبر 1995ء کوحکومت پاکستان نے ہلال کشمیر کو پاکستان کے سب سے بڑے عسکری اعزاز نشان حیدر کے مساوی تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا۔ پی ایس اے کی سفارش پرچیف آف آرمی سٹاف جنرل پرویز مشرف نے6ستمبر 1999کو نائیک سیف علی جنجوعہ کے لیے نشان حیدر کے اعزاز کا اعلان فرما کر ان کے بیٹے صوبیدار میجر محمد صدیق کو”نشان حیدر” دیا۔

3۔میجر طفیل محمد نشان حیدر

میجر طفیل محمد

میجر طفیل محمد شہید (1914 – 7 اگست 1958) پاکستان کے صوبہ پنجاب میں ہوشیار پور میں پیدا ہوئے۔ آپ کا تعلق گجر برادری سے ہے۔ خدمات کے پیش نظر انہیں پاکستان کا اعلی ترین فوجی اعزاز نشان حیدر سے نوازا گیا۔ میجر طفیل محمد نے1943 میں16 پنجاب رجمنٹ میں کمیشن حاصل کیا۔ اپنی بٹالین کے علاوہ شہری مسلح فورسز میں مختلف کمانڈ اور تدریسی تقرریوں پر مشتمل ایک امتیازی کیرئیر کے بعد انہیں 1958ء میں کمپنی کمانڈر کی حیثیت سے مشرقی پاکستان رائفلز میں تعینات کر دیا گیا۔

اگست 1958 کی ابتدا میں انہیں چند بھارتی دستوں کا صفایا کرنے کا مشن سونپا گیا جو لکشمی پور میں مورچہ بند تھے۔ انہوں نے رات کے وقت ایک بے خطا مارچ مکمل کیا اور7 اگست کو بھارتی چوکی کو گھیرے میں لے لیا۔ اپنے ساتھیوں کی قیادت کرتے ہوئے دشمن سے 15 گز کے فاصلے پر پہنچ کر انہوں نے عقب سے حملہ آور پارٹی کی قیادت کی۔ جب بھارتیوں نے مشین گن سے فائر شروع کیے تو میجر طفیل اس کا نشانہ بننے والے پہلے سپاہی تھے۔

بے تحاشہ خون بہنے کی حالت میں انہوں نے ایک گرینیڈ پھینک کر دشمن کی مشین گن کو خاموش کر دیا۔ ان کی زندگی کا چراغ رفتہ رفتہ دھیما پڑ رہا تھا مگر انہوں نے آپریشن کی ہدایات دینا جاری رکھا۔ جب دشمن کی دوسری مشین گن نے فائرنگ شروع کی تو میجر طفیل کے سیکنڈ ان کمانڈ اس کا نشانہ بن گئے میجر طفیل نے ایک نہایت پختہ نشانے کے حامل گرینیڈ کے ذریعے اس گن کو بھی تباہ کر دیا۔

دوبدو ہاتھاپائی کے دوران میجر طفیل نے دیکھا کہ بھارتی چوکی کا کمانڈر خاموشی سے ان کے ایک جوان پر حملہ آور ہونے والا تھا باوجود شدید زخمی ہونے کے میجر طفیل رینگتے ہوئے دشمن کمانڈر کے پاس پہنچ گئے اور اپنی ایک ٹانگ پھیلا دی جیسے ہی دشمن ٹھوکر کھا کر گرا میجر طفیل نے اپنے اسٹیل ہیلمٹ سے اس کے چہرے پر ضربیں لگا کر اپنے جوان کو بچالیا۔ میجر طفیل نے اپنے دستے کی قیادت جاری رکھی یہاں تک کہ بھارتی اپنے پیچھے چار لاشیں اور تین قیدی چھوڑکر فرار ہو گئے۔

اردلی اور حوالدار انہیں سٹریچر پر اٹھا کر خیمے میں لے گئے، خصوصی ریل کے ذریعے سی ایم ایچ کومیلا می پیٹ کا آپریشن کر کے 4 گولیاں برآمد کی گئیں، گولیاں نکالنے کے بعد ٹانکے لگانے کے دوران شہید ہو گئے اور انہیں پاکستان کا اعلیٰ ترین فوجی اعزاز نشان حیدر عطا کیا گیا۔[1] میجر طفیل کے نام کی مناسبت سے گگو منڈی کے قریب ایک گاؤں کا نام طفیل آباد رکھا گیا۔ ان کی تدفین چک 253 ای بی میں کی گئی_میجر طفیل شہید کی جس وقت شہادت ہوئی ان کی عمر 44 سال تھی، وہ سب سے زیادہ عمر میں نشان حیدر حاصل کرنے والے فوجی ہیں۔

4۔میجر راجہ عزیز بھٹی شہید نشان حیدر

میجر راجہ عزیز بھٹی شہید

آپ 16 اگست 1928ء کو ہانگ کانگ میں پیدا ہوئے۔جہاں ان کے والد راجا عبد اللہ بھٹی اپنی ملازمت کے سلسلے میں مقیم تھے۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد یہ گھرانہ واپس لادیاں گجرات چلا آیا جو ان کا آبائی گاؤں تھا۔پاکستان بننے سے پہلے آپ پاکستان منتقل ہوئے اور ضلع گجرات کے گاؤں لادیاں میں رہائش پزیر ہوئے۔ آپ نے پاکستان آرمی میں شمولیت اختیار کی اور 1950ء میں پنجاب رجمنٹ میں شامل ہوئے۔

راجا عزیز بھٹی قیام پاکستان کے بعد 21 جنوری 1948ء کو پاکستان ملٹری اکیڈمی میں شامل ہوئے۔ 1950ء میں پاکستان ملٹری اکیڈمی کے پہلے ریگولر کورس کی پاسنگ آؤٹ پریڈ میں انہیں شہید ملت خان لیاقت علی خان نے بہترین کیڈٹ کے اعزاز کے علاوہ شمشیر اعزازی اور نارمن گولڈ میڈل کے اعزاز سے نوازا پھر انہوں نے پنجاب رجمنٹ میں سیکنڈ لیفٹیننٹ کی حیثیت سے شمولیت اختیار کی اور 1956ء میں ترقی کرتے کرتے میجر بن گئے۔

6 ستمبر 1965ء کو جب بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو میجر عزیز بھٹی لاہور سیکٹر میں برکی کے علاقے میں ایک کمپنی کی کمان کر رہے تھے۔ اس کمپنی کے دو پلاٹون بی آر بی نہر کے دوسرے کنارے پر متعین تھے۔ میجر عزیز بھٹی نے نہر کے اگلے کنارے پر متعین پلاٹون کے ساتھ آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا۔ ان حالات میں جب کہ دشمن تابڑ توڑ حملے کر رہا تھا اور اسے توپ خانے اور ٹینکوں کی پوری پوری امداد حاصل تھی۔

میجر عزیز بھٹی اور ان کے جوانوں نے آہنی عزم کے ساتھ لڑائی جاری رکھی اور اپنی پوزیشن پر ڈٹے رہے۔ 9 اور 10 ستمبر کی درمیانی رات کو دشمن نے اس سارے سیکٹر میں بھرپور حملے کے لیے اپنی ایک پوری بٹالین جھونک دی۔ میجر عزیز بھٹی کو اس صورت حال میں نہر کے اپنی طرف کے کنارے پر لوٹ آنے کا حکم دیا گیا مگر جب وہ لڑ بھڑ کر راستہ بناتے ہوئے نہر کے کنارے پہنچے تو دشمن اس مقام پر قبضہ کرچکا تھا

تو انہوں نے ایک انتہائی سنگین حملے کی قیادت کرتے ہوئے دشمن کو اس علاقے سے نکال باہر کیا اور پھر اس وقت تک دشمن کی زد میں کھڑے رہے جب تک ان کے تمام جوان اور گاڑیاں نہر کے پار نہ پہنچ گئیں۔ انہوں نے نہر کے اس کنارے پر کمپنی کو نئے سرے سے دفاع کے لیے منظم کیا۔ دشمن اپنے چھوٹے ہتھیاروں‘ ٹینکوں اور توپوں سے بے پناہ آگ برسا رہا تھا

راجا عزیز بھٹی نہ صرف اس کے شدید دبائو کا سامنا کرتے رہے بلکہ اس کے حملے کا تابڑ توڑ جواب بھی دیتے رہے۔ اسی دوران دشمن کے ایک ٹینک کا گولہ ان پر آن لگا جس سے وہ موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے۔ اس دن 12 ستمبر 1965ء کی تاریخ تھی۔ 26 ستمبر 1965ء کو صدر مملکت فیلڈ مارشل ایوب خان نے پاک فوج کے 94 افسروں اور فوجیوں کو جنگ ستمبر میں بہادری کے نمایاں کارنامے انجام دینے پر مختلف تمغوں اور اعزازات سے نوازا۔

ان اعزازات میں سب سے بڑا تمغا نشان حیدر تھا جو میجر راجا عزیز بھٹی شہید کو عطا کیا گیاتھا۔ راجا عزیز بھٹی شہید یہ اعزاز حاصل کرنے والے پاکستان کے تیسرے سپوت تھے۔میجر عزیز بھٹی شہید کی جس وقت شہادت ہوئی ان کی عمر 37 سال تھی۔یاد رہے کہ میجر راجہ عزیز بھٹی آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے ماموں تھے۔

5۔ راشد منہاس

راشد منہاس

اعزازِ نشان حیدر حاصل کرنے والے پائلٹ آفیسر۔ کراچی میں پیدا ہوئے۔پیدائش 17 فروری 1951 منہاس راجپوت گوت گھرانے کے چشم و چراغ تھے۔ 1968ء میں سینٹ پیٹرک سکول کراچی سے سینئر کیمبرج کیا۔ خاندان کے متعدد افراد پاکستان کی بری بحری اور فضائی افواج میں اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے۔ انھوں نے بھی اپنا آئیڈیل فوجی زندگی کو بنایا۔

اپنے ماموں ونگ کمانڈر سعید سے جذباتی وابستگی کی بنا پر فضائیہ کا انتخاب کیا۔ تربیت کے لیے پہلے کوہاٹ اور پھر پاکستان ائیر فورس اکیڈیمی رسالپور بھیجے گئے۔ فروری 1971ء میں پشاور یونیورسٹی سے انگریزی، ائیر فورس لا، ملٹری ہسٹری، الیکڑونکس، موسمیات، جہاز رانی، ہوائی حرکیات وغیرہ میں بی۔ ایس۔ سی کیا۔ بعد ازاں تربیت کے لیے کراچی بھیجے گئے۔ اور اگست 1971ء میں پائلٹ آفیسر بنے۔

20 اگست 1971ء کو راشد کی تیسری تنہا پرواز تھی۔ وہ ٹرینر جیٹ طیارے میں سوار ہوئے ہی تھے کہ ان کا انسٹرکٹر سیفٹی فلائٹ آفیسر مطیع الرحمان خطرے کا سگنل دے کر کاک پٹ میں داخل ہو گیا اور طیارے کا رخ بھارت کی سرحد کی طرف موڑ دیا۔ راشد نے ماڑی پور کنٹرول ٹاور سے رابطہ قائم کیا تو انھیں ہدایت کی گئی کہ طیارے کو ہر قیمت پر اغوا ہونے سے بچایا جائے۔

اگلے پانچ منٹ راشد اور غدار انسٹرکٹر کے درمیان طیارے کے کنٹرول کے حصول کی کشمکش میں گزرے مطیع الرحمان نے راشد منہاس سے طیارے کا کنٹرول حاصل کرنے کی پوری کوشش کی لیکن راشد منہاس نے اس کو ناکام بنا دیا۔ مطیع الرحمان کی تجربہ کاری کی بنا پر جب راشد منہاس نے محسوس کیا کہ طیارے کو کسی محفوظ جگہ پر لینڈ کرانا ممکن نہیں رہا  بعد ازاں راشد منہاس نے جہاز کو ہندوستان کے بارڈر سے 51 کلومیٹر دور ہی زمین سے ٹکرا دیا جس سے ان کی شہادت ہوئی۔

جس کے نتیجے میں راشد منہاس اور مطیع الرحمان دونوں وفات پا گئے لیکن ایک نے قابل رشک موت یعنی شہادت کا درجہ پایا اور تاریخ میں اپنا نام امر کر لیا۔ جبکہ دوسرا غدار کہلایا۔ راشد منہاس کے اس عظیم کارنامے کے صلے میں انھیں سب سے بڑا فوجی اعزاز نشانِ حیدر دیا گیا۔راشد منہاس فوج کا اعلیٰ ترین اعزاز نشان حیدر پانے والے کم عمر ترین فوجی ہیں شہادت کے وقت ان کی عمر صرف 20 سال اور 6 ماہ تھی جبکہ ان کو پاکستان ائر فورس کا حصہ بنے بھی صرف 5 ماہ ہوئے تھے۔

6۔میجر محمد اکرم اعوان شہید

میجر محمد اکرم اعوان شہید

میجر اکرم اعوان شہید 4 اپریل 1938ء کو پیدا ہوئے۔ آبائی گائوں ’’نکہ کلاں‘‘ ہے جو کہ ضلع جہلم میں واقع ہے۔ آپ کے والد گرامی جناب حاجی ملک سخی محمد صاحب نے بھی پاک فوج کی پنجاب رجمنٹ کی شیر دل بٹالین میں خدمات انجام دیں۔ اُن کا یہ نظریہ تھا کہ فوج میں شامل ہو کر ملک و قوم کی بہترین خدمات سرانجام دی جاسکتی ہیں۔ اسی نظریے کی بنا پر انھوں نے میجر اکرم سمیت تین بیٹوں کو فوج میں بھیجا۔

میجر محمد اکرم اعوان نے اکتوبر 1963ء میں فوج میں کمیشن حاصل کیا اور پاک فوج کی مایہ ناز رجمنٹ 4 فرنٹیر فورس رجمنٹ میں شامل ہو گئے۔ انھوں نے 1965ء میں پاک بھارت جنگ کے دوران سیالکوٹ کے ظفروال سیکٹر پر بہادری کے جوہر دکھائے۔ 1971ء کی پاک بھارت جنگ میں آپ کی کمپنی سابق مشرقی پاکستان کے ملی سیکٹر پر دفاعِ وطن کے فرائض سرانجام دے رہی تھی۔

دُشمن کو اپنے ارادوں کی تکمیل کے لیے آپ کے دفاعی مورچوں پر قبضہ کرنا ضروری تھا۔ دشمن کا مقصد ہِلّی ریلوے اسٹیشن پر قبضہ کر کے شمالی علاقوں میں پاک فوج کے دستوں تک ہر قسم کی رسد اور ترسیل کو روکنا تھا۔ اس لیے دشمن ایک ڈویژن فوج کی مدد اور تمام فضائی اور زمینی قوت کے ساتھ آپ کی پوزیشن پر پے در پے 15روز تک حملے کرتا رہا مگر میجر محمد اکرم اپنے بہادر ساتھیوں کے ہمراہ اُن کی ہر کوشش کو ناکام بناتے رہے۔

میجر محمد اکرم جذبہ حُبُّ الوطنی، جنگی فہم و فراست اور انسانی حوصلوں کی معراج بن کر نہ صرف ڈٹے رہے بلکہ دشمن کو بھاری جانی و مالی نقصان پہنچایا اور خود راکٹ لانچر سے دشمن کے تین ٹینکوں کو نشانہ بنایا۔ آپ جب تک زندہ رہے دشمن پاک سرزمین پر ناپاک قدم رکھنے کی جرأت نہ کر سکا۔ بالآخر ربِ ذوالجلال نے آپ کو اپنا پسندیدہ قرار دیتے ہوئے 5 دسمبر 1971ء کو شہادت کے بلند مرتبے پر فائز کیا۔

31 سال 8 ماہ کی عمر میں شہید ہونے والے میجر محمد اکرم کو مشرقی پاکستان (موجود بنگلہ دیش) میں ہی دفنایا گیا، البتہ بعد ازاں ان کے آبائی علاقے جہلم میں یاد گار تعمیر کی گئی۔آپ کی بے مثال جرأت اور بہادری کے اعتراف میں حکومتِ پاکستان نے آپ کو اعلیٰ ترین جنگی اعزاز نشانِ حیدر کا حق دار ٹھرایا اور آپ کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے جہلم شہر میں ایک عظیم الشان یادگار تعمیر کی۔

میجر اکرم شہید کی یادگار کی تعمیر کا کام 1996ء میں اُس وقت کے 23 ڈویژن کے جی-او-سی میجرجنرل محمد مشتاق اور ڈپٹی کمشنر جناب صفدر محمود نے اپنی نگرانی میں شروع کرایا اور اس کا باقاعدہ افتتاح 20 نومبر 1999ء کو اُس وقت کے جی-او-سی میجرجنرل تاج الحق نے کیا۔ یادگار کے متصل قائم لائبریری کے لیے سابق صدر جناب رفیق تارڑ صاحب نے خصوصی گرانٹ دی۔

میجر اکرم شہید کے لواحقین حکومتِ پاکستان اور پاک فوج کے شکر گزار ہیں، جنھوں نے شہید کی یادگار تعمیر کرائی۔ یہ یادگار آنے والی نوجوان نسل کے اندر جذبہ حُب الوطنی اور جذبۂ جاںنثاری پیدا کرنے کے لیے ہمیشہ مشعلِ راہ رہے گی۔

7۔میجر شبیر شریف

میجر شبیر شریف

میجر شیبر شریف شہید 28 اپریل 1943 کو پنجاب کے ضلع گجرات میں ایک قصبے کنجاہ میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے لاہور کے سینٹ انتھونی اسکول سے او لیول کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد وہ گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھ رہے تھے جب انہیں پاکستان فوجی درسگاہ کاکول سے آرمی میں شمولیت کا اجازت نامہ ملا۔میجر شبیر شریف نے 1965ء کے پاک بھارت معرکے میں ٹروٹی کے محاذ پر دوران گشت بھارتی آرٹلری بیٹری کی گن پوزیشنوں پر حملہ کرکے اس پر کنٹرول حاصل کیا اور چار فوجیوں کو جنگی قیدی بناکر دو گنز تباہ کرکے اور ایک قبضے میں لے لی۔

ان کی اس کامیابی سے 10 انفینٹری بریگیڈ، 6 ایف ایف، 13 لانسرز اور 14 پنجاب ریجمنٹ کو نمایاں پیش رفت کا موقع ملا اور بھارتی فوجی ٹروٹی اور جوڑیاں سے بوکھلا کر میدان چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہوگئے۔اس بہادری پر انہیں ستارہ جرأت سے نوازا گیا،میجر شبیر شریف شہید 3 دسمبر 1971 ء کو سلیمانکی سکیٹر میں فرنٹئیر رجمنٹ کی ایک کمپنی کی کمانڈ کر رہے تھے اور انہیں ایک اونچے بند پر قبضہ کرنے کا ٹارگٹ دیا گیا تھا۔

میجر شبیر شریف کو اس پو زیشن تک پہنچنے کے لیے پہلے دشمن کی بارودی سرنگوں کے علاقے سے گزرنا اور پھر 100 فٹ چوڑی اور 18فٹ گہری ایک دفاعی نہر کو تیر کر عبور کرنا تھا،دشمن کے توپ خانے کی شدید گولہ باری کے باوجود میجر شبیر شریف نے یہ مشکل مرحلہ طے کیا اور دشمن پر سامنے سے ٹوٹ پڑے۔تین دسمبر 1971ءکی شام تک دشمن کو اس کی قلعہ بندیوں سے باہر نکال دیا۔

6 دسمبر کی دوپہر کو دشمن کے ایک اور حملے کا بہادری سے دفاع کرتے ہوئے میجر شبیر شریف اپنے توپچی کی اینٹی ائیر کرافٹ گن سے دشمن ٹینکوں پر گولہ باری کر رہے تھے ۔میجر شبیر شریف اگلے 3 دن اور راتیں منظم کوشش اور اعلیٰ مہارت سے دشمن کے لیے چھلاوا بنے رہے۔ انہوں ںے دشمن کے 43 فوجی جہنم واصل کرتے ہوئے 4 ٹینک تباہ کرکے حریف پر کاری ضرب لگائی۔

میجر شبیر شریف اور ان کے ساتھیوں نے دشمن کی 2 بٹالین کو سخت مزاحمت دی، اس مقام پر دوران جنگ بھارتی میجر نارائن سنگھ نے میجر شبیر شریف کو للکارا جس کا جواب میجر شبیر شریف نے دشمن کے سامنے کھڑے ہوکر دیا۔میجر نارائن سنگھ کے پھینکے گرنیڈ سے میجر شبیر شریف کی شرٹ آگ لگنے سے جل گئی، دونوں کے درمیان دو بدو مقابلہ ہوا۔

جس میں میجر شبیر شریف نے اپنے دشمن کو زمین پر گرا کر اپنا گھٹنا اس کے سینے پر رکھ کر قابو کیا اور پھر مشین گن کا پورا برسٹ اس پر خالی کردیا۔اس جنگ میں وہ ہیڈ سلیمانکی (ضلع اوکاڑہ) کے محاذ پر تعینات تھے اس دوران انہوں نے دشمن فوجیوں اور ٹینکوں کو بھاری نقصان پہنچایا اور 6دسمبر 1971کو ملک اور قوم کے لیے اپنی جان قربان کردی۔

3 دسمبر 1971 کو وہ سلیمانکی ہیڈ ورکس پر پاکستانی فوج کے لیے ان کی بے لوث خدمات کے اعتراف میں انہیں پاکستان کے اعلی ترین فوجی اعزاز نشان حیدر سے نوازا گیا۔پیش کردہذ؛والفقار علی بھٹویاد رہے کہ میجر شبیر شریف سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے بڑے بھائی تھے۔میجر شبیر شریف پاک فوج کے واحد آفیسر ہیں جنہیں دو اعزاز ستارہ جرأت اور نشان حیدر سے نوازا گیا۔

8۔سوار محمد حسین

سوار محمد حسین

سوار محمد حسین نشان حیدر ٭10 دسمبر 1971ء کو پاکستان آرمی کے جوان سوار محمد حسین نے شکرگڑھ کے محاذ پر جام شہادت نوش کیا  سوار محمد حسین 18 جون 1949ء کو ڈھوک پیر بخش نزد ماتلی ضلع راولپنڈی میں پیدا ہوئے تھے جس کا نام بدل کر اب ڈھوک محمد حسین جنجوعہ رکھ دیا گیا ہے۔ سوار محمد حسین 3 ستمبر 1966ء کو پاکستان کی مسلح افواج میں شامل ہوئے اور ڈرائیور کے طور پر خدمات انجام دینے لگے۔

دسمبر 1971ء میں وہ ظفر وال اور شکر گڑھ کے محاذ جنگ پر گولہ بارود کی ترسیل کرتے رہے اور کٹھن اور پرخطر مہمات میں پاک فوج کے گشتی دستوں کے ساتھ ساتھ رہے۔ 10 دسمبر 1971ء کو انہوں نے موضع ہرڑخورد میں دشمن کی موجودی کا پتا چلایا اور اس کی اطلاع فوراً اپنے یونٹ کے افسران کو دی‘ پھر وہ خود یکے بعد دیگرے اپنی ایک ایک ٹینک شکن توپ کے پاس پہنچے اور دشمن کی صحیح نشاندہی کرتے ہوئے توپچیوں سے فائر کرواتے رہے

‘ جس کے نتیجے میں دشمن کے 16 ٹینک تباہ ہوئے۔ اسی شام کو جب وہ اپنے ایک ریکائل لیس رائفل بردار کو دشمن کے ٹھکانے دکھا رہے تھے کہ ایک مشین گن کی گولیوں کی بوچھاڑ نے ان کا سینہ چھلنی کردیا اور وہ شہادت کے عظیم مرتبے پر فائز ہوگئے۔ سوار محمد حسین کی اعلیٰ خدمات کے اعتراف کے طور پر حکومت پاکستان نے انہیں نشان حیدر کا اعزاز عطا کیا۔

انہیں یہ اعزاز بھی حاصل ہوا کہ وہ یہ اعزاز حاصل کرنے والے پاک فوج کے پہلے’’جوان‘‘ تھے۔ سوار محمد حسین کی میت کو پہلے شکرگڑھ میں امانتاً دفن کیا گیا پھر اسے ڈھوک محمد حسین جنجوعہ میں منتقل کردیا گیا۔ میجرسوار محمد حسین شہید کا نشان حیدر کا اعزاز 3 فروری 1977ء کو ایوان صدر اسلام آباد میں منعقدہ ایک خصوصی تقریب میں ان کی بیوہ نے حاصل کیا۔جس وقت سوار محمد حسین کی شہادت ہوئی ان کی عمر محض 22 سال اور 6 ماہ تھی۔وہ پاک فوج کے پہلے سب سے نچلے رینک کے اہلکار یعنی سپاہی تھے جن کو ان کی بہادری پر نشان حیدر دیا گیا۔

9۔محمد محفوظ

محمد محفوظ

لانس نائیک محمد محفوظ شہید ضلع راولپنڈی کے ایک گاؤں پنڈ ملکاں (اب محفوظ آباد) میں 25 اکتوبر 1944 کو پیدا ہوئے اور انہوں نے 25 اکتوبر 1962 کو پاک فوج میں شمولیت اختیار کی۔ انیس سو اکہترکی جنگ کے وقت واہگہ اٹاری سیکٹر میں تعینات تھے۔16 دسمبر1971ء کوجب جنگ بندی کا اعلان ہوا توپاک فوج نے اپنی کارروائیوں کو بندکردیا۔دشمن نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا اورپل کنجری کا جوعلاقہ پاک فوج کے قبضے میں آچکا تھا

واپس لینے کے لیے سترہ اور اٹھارہ دسمبرکی درمیانی شب زبردست حملہ کر دیا۔پاک فوج میں لانس نائیک محمد محفوظ کی پلاٹون نمبرتین ہراول دستے کے طورپرسب سے آگے تھی چنانچہ اسے خود کارہتھیاروں کا سامنا کرنا پڑا، محفوظ شہید نے بڑی شجاعت اور دلیری سے مقابلہ کرتے ہوئے دشمن کی گولہ باری سے شدیدزخمی ہونے کے باوجود غیر مسلح حالت میں دشمن کے بنکرمیں گھس کرہندوستانی فوجی کودبوچ لیا

سترہ دسمبرکو ایسی حالت میں جام شہادت نوش کیا مرنے کے بعد بھی دشمن کی گردن انکے ہاتھوں کے آہنی شکنجے میں تھی انہوں نے پاک بھارت جنگ حصہ اور بڑی شجاعت اور دلیری سے دشمن کا مقابلہ کیا۔ ان کی اسی بہادری کے اعتراف میں پاک فوج نے انہیں اعلی ترین فوجی اعزاز نشان حیدر سے نوازا۔23 مارچ 1972ء کو وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو نے بعد از شہادت لانس نائیک محمد محفوظ کو نشان حیدر کے اعزاز سے نوازا

جو اُن کے والد نے وصول کیا۔لانس نائیک محمد محفوظ کی بہادری کا اعتراف ہندوستان کے فوجیوں نے بھی کیا۔ان کی شہادت کے بعد 23 مارچ 1972 کو بہادری پر سب سے بڑے فوجی اعزاز نشان حیدر انہوں سے نوازا گیا۔بعد ازاں ان کے گاؤں پنڈ مالیکان کو محفوظ آباد کا نام بھی دیا گیا۔

10۔کیپٹن کرنل شیرخان نشان حیدر

کیپٹن کرنل شیرخان

َوہ پاکستانی فوجی جس کی بہادری کا اعتراف دشمن نے بھی کیا”کیپٹن کرنل شیر خان پاکستان کے موجودہ صوبے خیبرپختونخوا کے گاؤں نواکلی میں پیدا ہوئے تھے۔ان کی پیدائش 1 جنوری 1970 کو ہوئی_کیپٹن شیر خان چار بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ اُنکی والدہ کا انتقال 1978 میں ہوا جب شیر خان کی عمر صرف آٹھ سال تھی۔ اُنکی پرورش پھوپھیوں اور چچیوں نے کی۔ اُنکا خاندان مکمل طور پر مذہبی ہے۔

جس کی وجہ سے شیر خان مکمل طور پر اسلامی تعلیمات اور افکار پر عمل کرتے تھےان کے دادا نے کشمیر میں سنہ 1948 کی مہم میں حصہ لیا تھا۔ انھیں یونيفارم میں ملبوس فوجی اچھے لگتے تھے چنانچہ ان کے یہاں جب پوتا پیدا ہوا تو انھوں نے کرنل کا لفظ ان کے نام کا حصہ بنا دیا۔تاہم اس وقت انھیں اندازہ نہیں تھا کہ اس نام کی وجہ سے ان کے پوتے کی زندگی میں مسائل بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔

کارگل پر لکھی گئی کتاب ‘وٹنس ٹو بلنڈر-کارگل سٹوری انفولڈز’ کے مصنف اشفاق حسین بتاتے ہیں کہ ‘کرنل’ لفظ شیر خان کے نام کا حصہ تھا اور ‘وہ اسے بہت فخر سے استعمال کرتے تھے۔ کئی بار اس سے کافی مشکلیں پیدا ہو جاتی تھیں۔‘جب وہ فون اٹھا کر کہتے تھے ‘لیفٹیننٹ کرنل شیر سپیکنگ’ تو فون کرنے والا سمجھتا تھا کہ وہ کمانڈنگ افسر سے بات کر رہا ہے اور وہ انھیں ‘سر’ کہنا شروع کر دیتا تھا۔

تب شیر مسکراکر کہتے تھے کہ وہ لیفٹیننٹ شیر ہیں۔ میں ابھی آپ کی بات کمانڈنگ افسر کے ساتھ کرواتا ہوں۔‘کرنل شیر نے اکتوبر سنہ 1992 میں پاکستانی فوجی اکیڈمی میں شمولیت اختیار کی تھی۔ جب وہ وہاں پہنچے تو انھوں نے داڑھی رکھی ہوئی تھی۔ انھیں داڑھی صاف کرنے کو کہا گیا تھا تو انھوں نے انکار کر دیا۔ان کے آخری سیشن میں ان سے دوبارہ کہا گیا کہ آپ کی کارکردگی اچھی رہی ہے اگر آپ داڑھی صاف کر دیتے ہیں تو آپ کو اچھی پوسٹنگ مل سکتی ہے۔

لیکن انھوں نے دوبارہ انکار کر دیا۔ اس کے باوجود انھیں بٹالین کوراٹر ماسٹر کی پوزیشن دی گئی۔پاکستانی فوجی اکیڈمی میں ان کے ایک سال جونيئر کیپٹن علی الحسین بتاتے ہیں: ‘ان کی انگلش بہت اچھی تھی وہ دوسرے افسروں کے ساتھ ‘سکریبل’ کھیلا کرتے تھے اور اکثر جیتتے تھے۔ جوانوں کے ساتھ بھی وہ آسانی سے گھل مل جاتے تھے اور ان کے ساتھ لوڈو کھیلتے تھے۔’حکام کے حکم پر واپس ہوئےکیپٹ شیر خان جنوری سنہ 1998 میں ڈومیل سیکٹر میں تعینات تھے۔

سردیوں میں جب انڈین فوجی پیچھے چلے گئے تو وہ چاہتے تھے ان کے ٹھکانے پر قبضہ کر لیں۔اس سلسلے میں وہ اعلیٰ افسران سے ابھی اجازت لینے کے بارے میں سوچ رہے تھے کہ کیپٹن شیر خان نے اطلاع بھیجی کہ وہ چوٹی پر پہنچ چکے ہیں۔کرنل اشفاق حسین اپنی کتاب میں لکھتے ہیں: ‘كمانڈنگ افسر تذبذب میں تھے کہ کیا کریں۔ اس نے اپنے اعلیٰ حکام تک بات پہنچائی اور اس ہندوستانی چوکی پر قبضہ جاری رکھنے کی اجازت مانگی لیکن اجازت نہیں دی گئی اور کیپٹن شیر سے واپس آنے کے لیے کہا گیا۔

’وہ واپس آ گئے لیکن آتے آتے ہندوستانی پوسٹ کی بہت سے علامتی چیزیں مثلا انڈین فوجیوں کی وردیاں، دستی بم، وائکر گن کے ميگزن، گولیاں اور کچھ سلیپنگ بیگ اٹھا لائے۔‘کپیٹن کرنل شیر خان کا تعلق پاکستانی فوج کی سندھ رجمنٹ سے تھا اور کارگل کی لڑائی میں وہ ناردرن لائٹ انفنٹری سے منسلک تھے۔نام کے کرنل، فوج کے کپتانٹائیگر ہل پر جان دیچار جولائی سنہ 1999 کو کیپٹن شیر کو ٹائیگر ہل پر جانے کے لیے کہا گیا۔

وہاں پاکستانی فوجیوں نے تین دفاعی لائنیں بنا رکھی تھی جنھیں کوڈ نمبر 129 اے، بی اور سی دیا گیا تھا۔انڈین فوجی 129 اے اور بی دفاعی لائن کو کاٹنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ کیپٹن شیر شام کو چھ بجے وہاں پہنچے تھے اور حالات کا جائزہ لینے کے بعد دوسری صبح انھوں انڈین فوجیوں پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا۔کرنل اشفاق حسین لکھتے ہیں: ‘رات کو انھوں نے سارے سپاہیوں کو جمع کیا اور شہادت پر ایک تقریر کی۔

صبح پانچ بجے انھوں نے نماز ادا کی اور کیپٹن عمر کے ساتھ حملے پر نکل گئے۔ وہ میجر ہاشم کے ساتھ 129 بی پر ہی تھے کہ انڈین فوجیوں نے جوابی حملہ کر دیا۔‘خطرناک صورتحال سے بچنے کے لیے میجر ہاشم اپنے توپ خانے سے اپنی پوزیشن پر ہی گولہ باری کی بات کہی۔ جب دشمن فوجی بہت قریب آتے ہیں تو فوجی ان سے بچنے کے لیے اس قسم کا مطالبہ کرتے ہیں۔’کرنل اشفاق حسین آگے لکھتے ہیں

ہماری اپنی توپوں کے گولے ان چاروں طرف گر رہے تھے۔ پاکستانی اور انڈین جوانوں کی دست بدست لڑائی ہو رہی تھی۔ تبھی ایک انڈین نوجوان کا برسٹ کیپٹن کرنل شیر خان کو لگی اور وہ نیچے گر گئے۔‘حال ہی میں کارگل پر شائع ہونے والی کتاب ‘کارگل ان ٹولڈ سٹوریز فرام دی وار’ کی مصنفہ رچنا بشٹ راوت کا کہنا ہے کہ ‘پاکستانیوں نے ٹائیگر ہل پر پانچ مقامات پر اپنی چوکیاں قائم کر رکھی تھیں۔

پہلے آٹھ سکھ رجمنٹ کو ان پر قبضہ کرنے کا کام دیا گیا لیکن وہ یہ نہیں کر پائے۔’بعد میں جب 18 گرینیڈیئرز کو بھی ان کے ساتھ لگایا گیا تو وہ کسی طرح اس پوزیشن پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوئے لیکن کیپٹن شیر خان نے ایک جوابی حملہ کیا۔ پہلی بار ناکام ہونے کے بعد انھوں نے اپنے فوجیوں کو دوبارہ تیار کرکے حملہ کیا۔’جو یہ جنگ دیکھ رہے تھے وہ سب کہہ رہے تھے کہ یہ ‘خودکش’ حملہ تھا۔

وہ جانتے تھے کہ یہ مشن کامیاب نہیں ہوگا، کیونکہ انڈین فوجیوں کی تعداد ان سے کہیں زیادہ تھی۔‘یہ بات شاذونادر ہی دیکھنے میں آتی ہے کہ دشمن کی فوج اپنے مقابل کے کسی فوجی کی بہادری کی داد دے اور اپنے حریف سے یہ کہے کہ فلاں فوجی کی بہادری کی قدر کی جانی چاہیے۔سنہ 1999 کی کارگل جنگ کے دوران ایسا ہی واقعہ پیش آیا جب ٹائیگر ہل کے محاذ پر پاکستانی فوج کے کپتان کرنل شیر خان نے اتنی بہادری کے ساتھ جنگ کی کہ انڈین فوج نے ان کی شجاعت کا اعتراف کیا۔

اس لڑائی کی کمانڈ سنبھالنے والے انڈین بریگیڈیئر ایم ایس باجوہ نے بی بی سی کو بتایا کہ: ‘جب یہ جنگ ختم ہوئی تو میں اس افسر کا قائل ہو چکا تھا۔ میں سنہ 71 کی جنگ بھی لڑ چکا ہوں۔ میں نے کبھی پاکستانی افسر کو ایسے قیادت کرتے نہیں دیکھا۔ باقی سارے پاکستانی فوجی کرتے پاجاموں میں تھے اور وہ تنہا ٹریک سوٹ میں تھا۔’بریگیڈیئر باجوہ کہتے ہیں: ‘کیپٹن شیر خان بہت بہادری سے لڑے۔

آخری میں ہمارا ایک نوجوان کرپال سنگھ جو زخمی پڑا ہوا تھا، اس نے اچانک اٹھ کر 10 گز کے فاصلے سے ایک ‘برسٹ’ مارا اور شیر خان کو گرانے میں کامیاب رہا۔’ان کے مطابق پاکستانی حملے کے بعد ‘ہم نے وہاں 30 پاکستانیوں کی لاشوں کو دفنایا۔ لیکن میں نے پورٹرز بھیج کر کیپٹن کرنل شیر خان کی لاش کو نیچے منگوایا اور ہم نے اسے بریگیڈ ہیڈکوارٹر میں رکھا۔

باقی پاکستانی فوجیوں کو تو انڈین فوجیوں نے وہیں دفن کر دیا لیکن کیپٹن شیر خان کے جسد خاکی کو پہلے سرینگر اور پھر دہلی لے جایا گيا۔جب کیپٹن شیر خان کی لاش واپس کی گئی تو ان کی جیب میں بریگیڈیئر باجوہ نے کاغذ کا ایک پرزہ رکھ دیا جس پر لکھا تھا: ’12 این ایل آئی کے کپتان کرنل شیر خان انتہائی بہادری اور بےجگری سے لڑے اور انھیں ان کا حق دیا جانا چاہیے۔

18 جولائی سنہ 1999 کی نصف شب کو ملیر چھاؤنی کے سینکڑوں فوجی کراچی کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پہنچ گئے تھے جنھوں نے کیپٹن کرنل شير خان کی لاش حاصل کی۔ ان کے دو بھائی اپنے آبائی گاؤں سے وہاں آئے تھے۔کرنل اشفاق حسین لکھتے ہیں: ‘صبح پانچ بج کر ایک منٹ پر طیارے نے رن وے کو چھوا۔ اس کے پچھلے حصے سے دو تابوت اتارے گئے۔

ایک میں کیپٹن شیر خاں کا جسد خاکی تھا۔ دوسرے تابوت میں رکھی لاش کی شناخت نہیں ہو سکی تھی۔’ان تابوتوں کو ایمبولینس میں رکھا گیا اور اس جگہ لے جایا گیا جہاں ہزاروں فوجی اور عام شہری موجود تھے۔ بلوچ رجمنٹ کے جوانوں نے ایمبولینس سے تابوت اتار کر عوام کے سامنے رکھا جہاں خطیب نے نماز جنازہ پڑھائی۔نماز کے بعد اس تابوت کو پاکستانی فضائیہ کےطیارے پر دوبارہ رکھا گیا۔

یہ طیارہ کراچی سے اسلام آباد پہنچا جہاں ایک بار پھر نماز جنازہ ادا کی گئی۔اس موقع پر پاکستان کے صدر رفیق تاڑر بھی موجود تھے۔ اس کے بعد کیپٹن شیر کی لاش ان کے آبائی گاؤں لے جائی گئی جہاں ہزاروں افراد نے پاکستانی فوج کے اس بہادر فوجی کو الوداع کہا۔ ان کے اس گاؤں کا نام اب ان کے نام پر رکھ دیا گیا ہے۔کیپٹن کرنل شیر خان کو ان کے آبائی گاؤں میں سپردِ خاک کیا گیا تھا_کرنل شیر خان خیبر پختونخوا سے پہلے فوجی اہلکار تھے جن کو نشان حیدر دیا گیا، شہادت کے وقت ان کی عمر 29 سال 7 ماہ تھی۔پاکستان کے محکمۂ ڈاک نے کیپٹن کرنل شیر خان کے اعزاز میں ڈاک ٹکٹ جاری کیا

11۔لالک جان نشان حیدر

لالک جان

یکم اپریل 1967 کو گلگت بلتستان کےضلع غذر میں پیدا ہوئے، انہوں نے 1984 میں پاک فوج میں 17 سالہ کی عمر میں سپاہی کی حیثیت میں شمولیت اختیار کی۔ھ1999 میں جب کارگل جنگ کا آغاز ہوا تو وہ نادرن لائت انفنٹری ڈویژن کے ہیڈ کوارٹر میں تعینات تھے انہوں نے زمینی جنگ کی اطلاع ملنے پر اصرار کرکے اپنی تعیناتی جنگ کے محاذ پر کروائی۔

7 جولائی 1999 کو شہادت سے قبل لالک جان نے اپنی پوسٹ پر 3 دن کے دوران ہونے والے ہندوستانی فوج کے 17 حملوں کو ناکام بنایا۔7 جولائی کو تین اطراف سے ہونے والے حملے میں لالک جان کو کمپنی کمانڈر کی جانب سے پوسٹ چھوڑنے کی بھی تجویز دی گئی مگر انہوں نے اسے مسترد کر دیا اور ہندوستانی فوج سے مقابلہ کیا۔

اس دوران ان کے سینے پر مشین گن کا برسٹ لگا البتہ زخمی حالت میں بھی انہوں نے تین گھنٹوں تک مخالف فوج کا مقابلہ کیا، بعد ازاں جب پاک فوج کی نفری چوکی پر پہنچی تو ان کی شہادت ہو چکی تھی۔جس وقت لاک جان کی شہادت ہوئی ان کی عمر 32سال تین ماہ تھی، وہ نشان حیدر حاصل کرنے والے اب تک کے آخری فوجی اہلکار ہیں۔مختلف جگہوں سے جمع کی گئی معلومات ایک پوسٹ کی صورت میں۔

⇓  مزید پڑھنے کیلئے یہاں کک کریں

Leave a Comment