میں اس وقت امریکہ کی ریاست ٹیکساس کے مشہور شہر سان انٹونیو میں مقیم ہوں۔ میری شادی بازل افضل سے ہوئی ہے اس کا اپنا گارمنٹس کا کاروبار ہے۔ دھن دولت روپیہ پیسہ سب کچھ ہے بازل کو پانے کے لیے ۔میں اور میری ماں نے بہت سارے گناہ کبیرہ کئیے۔ مگر پا لینے کے بعد مجھے ایک پل بھی سکون کا نصیب نہیں ہوا ۔ بازل کی پہلی شادی میری خالہ زاد سمبل سے ہوئی تھی ۔سمبل کا والد اس کے بچپن میں ہی فوت ہو گیا تھا۔
سمبل کی ماں نے بڑی مشقت سے اسے پالا۔ اور قسمت نے میری خالہ کے نصیب میں اچھا داماد اور خالہ زاد سمبل کے نصیب میں اچھا شوہر لکھ دیا۔ یوں بازل افضل پاکستان آیا اور سمبل سے شادی کر لی شادی کے تین ماہ بعد بازل واپس چلا گیا ۔اور سمبل کے پیپر جمع کروا دئیے پیپر میں کچھ مسائل ہونے کی وجہ سے پہلی بار ویزہ نہ لگ سکا ۔اسی دوران سمبل نے یہاں ایک بیٹی کو جنم دیا ۔تو بیٹی کی پیدائش کے پانچ ماہ بعد بازل واپس آیا ۔اور کچھ ماہ گھر رہنے کے بعد واپس امریکہ چلا گیا۔
اب کچھ ذاتی مصروفیات کی وجہ سے بازل سمبل کے پیپر جمع نہ کروا ۔سکا کاروباری معاملات میں الجھا رہا اسی دوران سمبل نے ایک بیٹے کو جنم دیا ۔اور بیٹا پیدا ہونے کی خوشی میں بازل سمبل کے لئیے فیملی ویزہ اپلائی کرنے کے بعد ۔کچھ عرصہ کے لئے پاکستان آیا تا کہ بیوی بچوں کے ساتھ وقت بتا سکے۔ اور پھر واپس چلا گیا ۔ دوسری طرف میری ماں کو سمبل کی خوش قسمتی سے حسد ہونے لگا۔
اور سمبل کو طلاق دلوا کر بازل سے میری شادی کروانے کا منصوبہ بنا کر۔ رشتے داری کے چادر اوڑھے ہوئے سمبل کی خیر خواہ بن کے بازل کی فیملی کے قریب ہونے لگیں۔ جوں ہی ان کے پیر جم گئیے تو انہوں نے اپنے ارادوں کو عملی جامعہ پہنانے پر عمل شروع کر دیا۔ لاکھ کوششوں کے باوجود بھی جب میری ماں کو کسی بھی طرح سمبل کا گھر اجڑتا نظر نہ آیا۔ تو میری ماں نے عاملوں اور جادو گروں کا سہارا لیا ۔کتے اور خنزیر کے خون سے لکھے گئیے تعویز بنوا کر سمبل کے گھر میں دبا دئیے۔
اور کالا علم کرنے والے عاملوں کے بتائے ہوئے کچھ سفلی وظائف خود بھی پڑھنے لگیں۔ ان کی اس محنت کا ثمر اس صورت میں جلد سامنے آنے لگا۔ ایک طرف سمبل کا ویزہ نکلا تو دوسری طرف اس کی ماں( میری خالہ) سخت بیمار ہو گئی۔ ڈاکٹرز نے اسے جگر کا کینسر بتایا اور ساتھ بتا دیا کہ کینسر پھٹ چکا ہے۔ چھ ماہ کے اندر اندر یہ مر جائے گی سمبل جسے ماں نے ماں اور باپ دونوں بن کر پالا تھا۔ وہ اپنی ماں کو کسی بھی صورت میں بستر مرگ پر چھوڑ کر جانے کے لئے تیار نہ تھی۔
دوسری طرف بازل کی جانب سے سمبل پر بچوں سمیت امریکہ آنے کا دباؤ بڑھنے لگا ۔جب سمبل کسی صورت بھی اپنی ماں کو اس حالت میں چھوڑ کر امریکہ جانے پر راضی نہ ہوئی۔ تو دونوں میاں بیوی کے درمیان کی یہ ضد جھگڑے کی شکل اختیار کر گئی ۔ میری ماں ایک عرصہ سے اس موقع کی تلاش میں تھی۔ لہذا موقع ملتے ہی میری ماں نے سمجھانے کے نام پر سمبل کے سسرال کو اس کے خلاف کر دیا ۔اس کی ماں کے متعلق جھوٹی سچی کہانیاں بھی بیان کر دیں۔
میری ماں نے یہ تک کہہ دیا کہ کینسر لا علاج واقع ہے ۔مگر نہیں معلوم کب تک وہ اسی حالت میں بستر مرگ پر پڑی رہے گی۔ چھ مہینے میں مر جانے والا جھوٹ ہے اصل میں سمبل چاہتی اس کی ماں کو بھی امریکہ لے جایا جائے۔ اور وہاں اس کا علاج کروایا جائے ۔بس اسی وجہ سے وہ ضد لگا کر بیٹھی ہے ۔دوسری طرف میری ماں کے منہ سے نکلی ہوئی یہ باتیں جب بازل تک پہنچی ۔تو اس نے ان باتوں کو سمبل کی انا سمجھتے ہوئے سمبل کو اسی وقت امریکہ آنے یا دوسری صورت میں طلاق لینے کی شرط رکھ دی۔
سمبل نے طلاق لینا گوارا کر لیا مگر ماں کو چھوڑ کر امریکہ نہ گئی ۔لہذا بازل نے سمبل سے دونوں بچے چھین کر اسے طلاق دے دی ۔سمبل کو طلاق دینے کے ڈیڑھ ماہ بعد ہی سمبل کی ماں مر گئی۔ اور سمبل ماں کے سوئم والے دن میرا اور بازل کا نکاح ہو گیا ۔گو کہ سمبل بھی اب میری ماں کے زیر کفالت تھی ۔مگر اس نے کسی قسم کا کوئی رد عمل ظاہر نہ کیا۔ ماں کی موت کے کچھ ماہ بعد سمبل نے اپنے بچوں سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا۔
مگر میں نے نہ ملنے دیا اور بہانہ کر دیا کہ بازل نے بچے تو کیا مجھ پر بھی پابندی لگا رکھی ہے۔ کہ جب تک سمبل تمہاری ماں کے پاس ہے تم ماں کے گھر بھی نہیں جاؤ گی ۔ شادی کے ایک سال بعد میرا ویزہ نکلا ۔اور میری ماں نے سمبل کے بچوں کو راستے سے ہٹانے کا منصوبہ بنا لیا۔ تا کہ بڑے ہو کر یہ ہی بچے میرے لئیے مسائل پیدا نہ کریں۔ لہذا اپنی ماں کے کہنے پر میں نے ان معصوم بچوں کو کرنٹ لگا کر۔ ان کی جان لے لی اور اپنا راستہ صاف کر لیا۔
بچوں کی موت کا سن کر سمبل بہت تڑپی مچلی ۔آخری بار بچوں کے دیدار کی التجائیں کیں۔ مگر پھر بھی میری ماں کا دل نہ پسیجا اس نے کہا کہ بازل کی اجازت نہیں ہے۔ لہذا وہ سمبل کو کمرے میں بند کر کے خود میرے گھر آ گئیں۔ اور میرے سسرال یعنی بازل کی فیملی کے پوچھنے پر بتایا کہ سمبل کہتی ہے۔ وہ بچے میرے نہیں بازل کے ہی تھے۔مجھے ان کی موت سے کوئی فرق نہیں پڑتا لہذا وہ نہیں آئی ۔
میری ماں کے ایسے جواب نے بازل کی فیملی اور بازل کو سمبل سے اور زیادہ متنفر کر دیا ۔بازل بچوں کی موت پر پاکستان نہ آ سکا کیونکہ ہماری جانے کی ٹکٹس ہو چکی تھیں۔ لہذا بچوں کی موت کو حادثاتی موت قرار دے کر دفن کر دیا گیا ۔اور بعد ازاں میں اکیلی ہی بازل کے ساتھ امریکہ چلی گئی۔ مجھے وہ سب کچھ مل گیا جو میری ماں اور میں نے چاہا تھا۔ مگر میری زندگی کا وہ سکون جاتا رہا ۔جو بازل سے پہلے میری زندگی میں تھا۔
شروع کا سال ڈیڑھ میں نے بازل سے اپنے تاثرات چھپائے رکھے۔ مگر آہستہ آہستہ ظاہر ہونے لگے پہلے پہل بازل مجھ سے پریشان رہنے اور خاموشی کی وجہ پوچھتا تھا ۔مگر اب وہ بھی مجھ سے اکتا چکا ہے۔ میری کوئی بھی اولاد نہیں ہے سوائے شروع کے چند دنوں کے ہم دونوں کو کبھی بھی بطور میاں بیوی۔ ایک دوسرے کا قرب نصیب نہیں ہوا بازل نے اپنی لذت کا سامان کلبوں میں ڈھونڈ لیا ہے۔ اور میں بنجر زمین کی طرح گھر میں پڑی رہتی ہوں ۔
میری ماں کی زبان فالج کی وجہ سے ناکارہ ہو گئی ہے۔ وہ بول نہیں پاتی ہیں نہ وہ کچھ چبا سکتی ہیں نہ ہی کسی چیز کا ذائقہ معلوم کر سکتی ہیں ۔بلکہ بقول میری بہن کے ان کو بہوئیں اب تین وقت کا کھانا بھی نہیں دیتی ہیں۔ بھائیوں کی شادی کے بعد سمبل کو لاوارث لوگوں کے ایک ادارے کی تحویل میں دے دیا گیا ہے۔ میری ماں اتنے سارے ورثاء کے ہوتے ہوئے بھی لاوارث زندگی گزار رہی ہے۔ بازل کو اولاد جیسی نعمت دے کر چھین لی گئی۔
جبکہ میری ماں کی وہ زبان جس پر کبھی ہر وقت سفلی وظائف جاری رہتے تھے ۔اب کلمہ طیبہ پڑھنے اور اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے سے بھی عاری ہے۔ میں کہانی کے آخر میں اتنا کہوں گی جو نصیب سے مل جائے اس پر شکر الحمدللہ کہو ۔جو آپ کسی سے چھین کر لیتے ہیں وہ رہتا آپ کا بھی نہیں ہے۔
اختتام
Zong Free Internet Trick (Lifetime Free)
Leave a Comment