مولوی اور نوجوان لڑکی
چودھری جی کو علاقے کے پٹواری نے بتایا تھا ۔ ۔کہ جی جناب ۔ ۔گول چوک سے نکل کے جو سڑک سیدھی ۔صدر کو جاتی ہے ۔ اس سڑک پر جہاں مارکیٹ ختم ہوتی ہے اور قبرستان کی چار دیواری شروع ہوتی ہے ۔ وہاں آخر میں مسجد کے ساتھ ۔ قبرستان کی حدود میں آپ کی جو پانج مرلے جگہ ہے ۔ آپ چاہیں تو وہ پندرہ مرلے ہو سکتی ہے ۔ اور وہاں پر اک شاندار پلازہ بن سکتا ہے ۔ ۔ چودھری جی خوش ہو گئے ۔
پٹواری کو اک نوٹوں کی گڈی پکڑائی ۔ کہ نیک کام میں دیر نہیں کرنی چاہیے ۔ ۔ اور جہاں جہاں رکاوٹ بنے ۔ وہاں پیسہ لگا رستہ بنا ۔ اور چھیتی پلازہ بنا ۔ پٹواری نے ایسا ہی کیا ۔ جہاں جہاں رکاوٹ بنی ۔ وہاں نوٹ پھینکے ۔ کچھ ڈوریاں چودھری جی نے ہلائیں ۔ ۔اور یوں پانچ مرلے پندرہ مرلے بن گئے ۔ مسلہ تب بنا ۔ جب پانچ مرلے کی چار دیواری کو بڑھا کر پندرہ مرلے پر قبضہ کرنے کی کوشش کی گئ ۔
مسجد کے مولوی جی آڑے آئے ۔
کہ میں تیس سال سے یہاں ہوں یہ جو قطار در قطار پلازے سے دکھتے ہیں ۔سب اپنی آنکھوں سے بنتے دیکھے ۔ یہ جو قبرستان بھرتا بھرتا چار دیواری سے آ لگا ۔ اپنی آنکھوں سے بھرتے دیکھا ۔ کوئی پچاس فیصد کا تو جنازہ بھی میں نے پڑھایا ۔تب یہ جگہ قبرستان کی تھی ۔ اب یہ تبدیلی کیسی ؟ وہ بھی راتوں رات ۔ چودھری جی نے سمجھایا ۔ کہ بزرگو ۔ باپ دادا کی جائیداد تھی ۔کبھی سنبھالی نہیں ۔
اب جو سنبھالی ۔ تو پتا چلا ۔یہ تو ہماری ہے ۔دیکھیں یہ جو کاغذ ہے اس پر سب نقشہ ہے ۔یہ دیکھیں ۔ مولوی جی نے دیکھا ۔ ۔مولوی تھے ۔پردنیا بھی دیکھی تھی ۔ کچھ کاغذات سنبھال کے رکھے تھے ۔ نکال لائے ۔ ۔کہ ابا حضور مرحوم مغفور نے چالیس سال پہلے مسجد کا سنگ بنیاد رکھا تھا تب یہ کاغذات نکلوا کر لائے تھے ۔ سرکاری ادارے سے ۔تب تو آپ کے اجداد کے نام نہیں تھی ۔ چودھری جی تاڑ گئے ۔ کہ مولوی ایسے نہیں مانے گا ۔
سو وہاں سے چلے گئے ۔ ۔ کام رک گیا ۔ ۔ پھر اک دو ماہ بعد نہ جانے کیا ہوا ۔ کہ محلے میں نئے نئے آئے اک کرایا دار کے بیٹے نے مولوی جی پر ذیادتی کا الزام لگا دیا ۔ ۔پولیس کے پاس چلا گئے اس کے وارث ۔ ۔کہ جی دہائی ہے ۔ ۔یہ پچپن سال کا بڈھا ۔ ۔سفید ہوتی داڑھی ۔ ۔اور اس کے کرتوت ۔ اللہ توبہ اللہ توبہ ۔ ایویں کہتے ہیں پولیس سوئی رہتی ہے ۔ مظلوم کا ساتھ نہیں دیتی ۔ یہ بات وہاں غلط ثابت ہوئی ۔ ۔
ابھی محرر کا قلم رکا نہیں ۔ کہ تھانے دار بقلم خود ۔
ظلم پر غصے سے تھر تھر کانپتے لاولشکر کے ساتھ ۔ظالم درندے کو پکڑنے جا پہنچے ۔ ۔ مولوی کی ایسی کی تیسی ۔ اتنا ظلم ۔ حیا نہیں آئی اسے ۔ مولوی جی بتاتے رہے ۔ کہ میں معزز امام ہوں ۔سالوں سے یہاں ہوں ۔پوچھ لو محلے والوں سے ۔اس محلے کے اب باپ ہوتے کل کے بچے اور اب ان کے بچے سب مجھ سے نمازہ روزہ سیکھ کر گئے ہیں ۔کبھی کسی نے ایسا الزام نہیں لگایا ۔ یہ جھوٹ ہے ۔
تھانے دار نے موچھوں کو تاو دیا ۔ ۔کہ بچے ہوتے من کے سچے ۔ کون قبول کرتا ایسا ۔ ۔چل اگے لگ ۔ ۔ مولوی جی ۔نے تمام عمر دعائیں مانگتے گزاری تھی ۔وہ قائل تھے دعا کا ثمر یہاں نہ ملے تو وہاں ملتا ہے ۔ پر اب جو وہ دعا کر رہے تھے اس سے پہلے اک دعا اور بھی کر رہے تھے ۔ کہ مالک ۔ اس دعا کو ثمر تو یہی پر دے ۔ ۔کہ تیری دھرتی شق ہو اور میں گڑھا جاوں ۔ دھرتی میں لپیٹ دے مجھے ۔ یہ دعا دنیا میں قبول کر ۔ایسا ہوا نہیں ۔ ۔
الطاف کانسٹیبل نے جس نے دعا سنی تھی ۔ اس نے مولوی جی کو ٹھوکر ماری ۔ کہ ابے تجھے معلوم نہیں ۔ اللہ ظالموں کی دعائیں نہیں سنتا ۔ قضہ مختصر یہ کہ مولوی جی حوالات گئے ۔ گھر میں تلاشی ہوئی ۔ تو منشیات بھی برآمد ہوئی مولوی جی نے ڈرائنگ روم کی سیر کی تو معلوم ہوا کہ کس کس کو چرس سپلائی کرتے ہیں ۔ شام تک مولوی جی کے چار کلائنٹ پکڑے گئے ۔ کہ جی مولوی تو بڑا سپلائیر ہے ہول سیل ڈیلر ۔ اس سے لیتے تھے ۔بیچتے تھے ۔
مولوی جی کا کہنا تھا کہ وہ ان کو جانتے تک نہیں ۔
پر مجرم تو ایسے ہی کہتے ہیں محلے سے ہی ۔ دو بندے پکڑے گئے ۔ مولوی جی کی معلومات کی وجہ سے ۔ ۔مولوی جی ان کو نوخیز لڑکے سپلائی کرتے تھے پرلے محلے کے چار نوعمر لڑکے خود چلے آئے کہ جی مولوی زبردستی گندہ کام کرنے پر مجبور کرتا تھا ۔اس نے ہماری فلمیں بنا رکھی تھیں ۔ بلیک میل کرتا تھا تھانے دار نے الطاف کانسٹبیل کو دوڑایا ۔کہ ذرا تسلی سے تلاشی لے ضرور یہ فلمیں مولوی کے گھر میں ہوں گئ ۔ایسا ہی ہوا ۔ ۔
مولوی جی کے گھر سے میموری کارڈ برآمد ہوئے ۔ سب فلمیں اس میں تھیں ۔ ۔ مزید تفتیش سے معلوم ہوا ۔ ۔کہ مولوی جی کے طالبان سے بھی کچھ روابط تھے ۔ ۔یہ تو جی دہشت گردی کا کیس ہے ۔ ۔ محلے میں تو افراتفری سی مچی تھی لوگ کانوں کو ہاتھ لگاتے پھرتے ۔ ۔اللہ توبہ اللہ توبہ کیسا معصوم بنتا تھا اور اس کے کرتوت ۔ ۔ ۔ تقریر کیا کرتا تھا ۔ ۔اور اس کے کرتوت سلیمی صاحب تو پرلے محلے کی بڑی مسجد کے مولوی سے فتوی لینے پہنچ گئے ۔
کہ تیس سالوں میں میں نے جو عیدین جمعے ملا کر نمازوں کی جو سنچری کی اس منحوس امام کے پیچھے ۔کیا وہ قبول ہوئیں کہ نہیں ۔ پرلے محلے کی بڑی مسجد کے مولوی جی نے سیدھا کہہ دیا کہ نجس بندے کی اپنی نماز نہیں ہوتی امامت تو دور کی بات ہے ۔ سلیمی صاحب نے یہ فتوی بتانے کی سنچری ٹوٹل گھنٹے میں مکمل کی ۔نیک کام تو ذرا جلد جلد ہونا چاہیے ۔ اب کچھ مولوی کے ہمدرد بھی تھے ۔ ۔ظالموں کے ظالم ہمدرد ۔ موذن ۔غلام رسول قسمیں کھا رہا تھا ۔
کہ جی مولوی جی ایسے نہیں ہو سکتے ۔ ۔
کبھی نہیں ہو سکتے ۔یہ تو سازش ہے روتا منہ بسورتا ۔ وہ حاجی صاحب کے ہاں جا پہنچا ۔ کہ جی کچھ کیجیے ۔ ۔حاجی صاحب ۔کو تامل تھا ۔کہ غلام رسول گندہ کیس ہے پر غلام رسول تو گوڈھے سے لگ گیا ۔ ۔ بہت مجبور کرنے پر وہ راضی ہوئیے ۔ فرمایا ۔ اچھا چل ۔ ۔چلتے ہیں چودھری ۔ریحان کے پاس ۔ ۔پولیس کے معاملے وہی سلجھاتے ہیں ۔ ۔ غلام رسول ساتھ ہو لیا ۔ ۔ پرلے محلے سے پرلے محلے میں چودھری جی کی بڑی کوٹھی تھی وہاں جا دروازہ ہلایا ۔
جس پر لکھا ہذا من فضل ربی ۔ دربان کو تمام تلاشی دے کر جو اندر داخل ہوئے تو غلام رسول نے اللہ کے فضل کو اپنی نگاہوں سے دیکھا ۔ اس کے محلے کے بڑے پارک سے بڑا تو چوہدری جی کی کوٹھی کا صحن تھا ۔ ۔اور کیا شاندار ۔پھولے پودے لگے تھے ۔ اسے جنت کا گماں ہوا ۔پھر مولوی جی کی بات یاد آئی کئی بار کہی ۔ کہ غلام رسول جیسے اللہ ہمارے گماں سے بڑا ہے اللہ کی جنت بھی ہمارے گماں سے بڑی ہو گئ ۔ اس نے استغار باآواز خاموشی پڑھی ۔ دربان انہیں لیتا ۔
بڑی بیٹھک میں جا داخل ہوا ۔ ۔جو محلے کی بڑی مسجد سے بھی بڑی تھی ۔وہاں غلام رسول کی نظر اک مونچھوں والے بارعب شخض کی تصویر پر پڑی وہ پہچان گیا ۔ یہ تو وہی ہے جو مسجد کے ساتھ قبرستان کی جگہ پر قبضہ کرنے آیا تھا وہ حاجی صاحب کے کان سے جا لگا ۔ ساری کہانی سرگوشی میں بیان فرمائی ۔جسے سن کر حاجی صاحب نے اسے استغفار پڑھنے کو کہا ۔اور بولے غلام رسول ۔میں نہیں مانتا ۔
چودھری صاحب کے تو مربعوں کے مربعے ہیں
یہ پانچ مرلے کو کیا جانیں محلے میں گندے نالے کے ساتھ جس زمین پر اب دھڑا دھڑ مکان بن رہے ہیں وہ زمین چودھری جی کی تو ہے آدھے ریٹ پر غریبوں کو دے دی ۔کئ مسجدیں بنوائی ہیں کئ مدرسے ان کے پیسوں سے چلتے ہیں ۔ ۔ نہیں غلام رسول ایسا نہیں ہو سکتا ۔ غلام رسول خاموش ہو گیا جو حاجی صاحب نے کہا تھا وہ اس نے پہلے بھی دینو پان والے سے سنا تھا ۔ پر الجھن برقرار رہی ۔
کوئی گھنٹے بعد چودھری جی بیٹھک میں آئے ۔خوشبو سے گویا نہا کر آئے تھے ۔ غلام رسول کی پھر جنت کی خوشبو کو گماں ہوا ۔ پھر مولوی جی یاد آئے ۔ کہ غلام رسول اللہ کی جنت کی ہر چیز ہمارے گماں سے بڑی ہے ۔اسے پھر خاموشی سے استغفار پڑھی ۔ چودھری جی پندرہ منٹ کسی سے فون پر بات کرتے رہے فون تھے کہ اک کٹتا تھا دوسرا آجاتا ۔ اب وہ کسی سے بات کرتے ہوئے ایک لاکھ روپے مدرسے پہنچانے کی یقین دہانی کر رہے تھے ۔ ۔
غلام رسول کی الجھن برقراری سے تیزی سے ہٹنے لگی ۔ پندرہ منٹ بعد چودھری جی فون سے فارغ ہوئے ۔ تو حاجی صاحب سے آنے کی وجہ پوچھی ۔حاجی صاحب نے تمام کہانی سنائی مدد کے طالب ہوئیے ۔ چودھری جی نے سگریٹ سلگایا پھر فون پر مصروف ہو گئے اب تھانے دار آن لائن تھا ۔ وہ سپیکر اوپن کیے ۔ گفتگو کر رہے تھے ۔ تھانے دار سے سب معلومات لے کر وہ حاجی صاحب سے گویا ہوئے ۔ حاجی صاحب ۔
بندہ تو خادم۔ہے آپ کا پر سب سنا آپ نے ۔ ۔
اب ایسے کیس میں ہاتھ ڈالیں گئے تو عزت دو کوڑی کی رہ جائے گئ ۔اور یہ مولانا صاحب تو کافی سرکش قسم کے ہیں ۔پچھلے سے پچھلے ماہ مجھے یوں ہی زمینوں کے کاغذات گھنگالتے مجھے معلوم۔ہوا کہ اس مسجد کے ساتھ میری کچھ جگہ ہے میں نے سوچا اس کی چار دیواری کو ذرا نئے سرے سے بنا لیتے ہیں سو وہاں چلا گیا ۔تو یہ حضرت میرے سر ہو گئے۔کہ تم قبضہ کرنے آئے ہو ۔میں لاکھ سمجھایا پر نہ۔مانے میں تو بس چھوڑ کر چلا آیا ۔
کہ چلو پانچ دس مرلے سے کیا ہوتا ہے مولوی جی کا رانجھا راضی ہو جائے۔آپ دیکھ لو جا کر ۔ وہاں کام ایسے ہی ادھورا پڑا ہے ۔خیر یہ تو بس یوں ہی بتا دیا آپ کو ۔ تو حاجی صاحب ۔ اب اگر میں کیس لے لوں تھانے سے چھڑا دوں بے عزتی ہو گئ ۔ لوگ ظالم کا ساتھی کہیں گئے چلو لوگوں کی تو عادت ہے باتیں کرنا ۔پر حاجی صاحب رب کے پاس بھی تو جانا ہے وہاں پکڑ ہو گئ تو پھر نہ۔حاجی صاحب ۔آپ میں یہ نہیں کر سکتا ۔ غلامرسول کی الجھن جو تصویر دیکھ کر ہوئی تھی ۔
وہ مکمل طور پر ختم ہو چکی تھی ۔ اس نے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں پھر سے چودھری جی کو راضی کرنے کی کوشش کی ۔ حاجی صاحب نے کچھ ساتھ دیا ۔ ۔ ۔ چودھری جی راضی ہو گئے ۔ اسی وقت تھانے روانے ہونے کے لیے تیار ہو گئے تھانے میں چودھری جی کا وہ استقبال ہوا ۔ کہ غلام۔رسول آنکھیں مل مل کر دیکھتا رہا ۔ ۔تھانے دار اپنی کرسی سے اٹھ کر ملا اپنی کرسی پیش کی ۔چودھری جی ۔نے مسکرا کر انکار کردیا ۔ ۔
اور وزیٹر کی کرسی پر بیٹھ گئے ۔
سیدھا مدعا زبان پر لائے ۔ کہ مولوی صاحب کو یہاں لایا جائے ۔ ۔ حکم -کی تعمیل ہوئی مولوی جی ۔مجرموں کی طرح آ کھڑے ہوئیے چودھری جی کو دیکھا تو حیران ہوئیے ۔ چودھری جی نے حیرت دور کی ۔ مولوی جی میں وہی ہوں جسے آپ قبضہ کرنے والا سمجھے تھے میں نے تو قبضہ بھی چھوڑ دیا ۔یہ آپ کے بارے میں کیا سن رہا ہوں ہم تو چلو گناہ گار ۔پر آپ تو امام۔مسجد تھے ۔
یہ کیا کیا آپ نے مولوی جی زمین پر نظریں گاڑھے کھڑے رہے ۔ چودھری جی تھانے دار سے بولے ۔ حضور ۔ غلطی ہو جاتی بندے سے ۔امام مسجد ہیں لگتے نہیں ایسے کسی نے پھنسایا ہے ان کو جانے دیجیے ۔ تھانے دار نے ثبوت سامنے رکھے ۔ دہشت گردی کا کیس ہے ۔چودھری صاحب اس میں تو ضمانت بھی نہیں ہوتی ۔ یہ دفعہ ۔ ۔ چودھری جی نے بات کاٹی ۔ مسکرائے مطلب سرکار ۔اوپر ہی رابطہ کریں ؟آپ تو انکار کر رہے ہو ۔
تھانے دار کو چپ لگ گئ ۔ چودھری جی ذرا دیکھتے رہے ۔ پھر بولے ۔ سرکار آپ کو پتا ہے چودھری ریحان آپ کے در پر آتا ہی نہیں آ جائے تو بندہ لیے بغیر جاتا۔ہی نہیں اب یہ آپ کی مرضی ہے کہ میری درخواست آپ قبول کرتے ہو یا میں اپنی درخواست آپ سے قبول کروانے کے لیے کسی اور در پر جاوں ؟ تھانے دار کچھ نہ بولا ۔ بندہ۔میں نے لے کر جانا ہے آپ بھیجو گئے۔تو خادم کے دل میں آپ کی عزت بڑھے گئ ۔
نہیں تو بندہ۔تو لے کر جانا ہی ہے ۔ تھانے دار اب کچھ دیر بعدبولا ۔
چودھری صاحب اب آپ کو انکار تو نہیں کر سکتا ۔ پر یہ بھی سوچیے ۔ یہ مولوی صاحب اسی محلے میں جائیں گئے وہاں کسی نے اوپر درخواست کر دی تو پھر ۔میں کہاں جاوں گا چودھری جی نے سگریٹ سلگایا کانوں میں تیلی ماری میل کو بغور دیکھا ۔ اور بولے ۔یہ تو کوئی مسلہ ہی نہیں یہ تو۔میں بھی جانتا ہوں اب مولوی جی کا وہاں رہنا ٹھیک نہیں اور تھوڑی ہے خدا کی دھرتی ۔
یہ میری ذمہ داری ۔ تو پھر بندہ آپ کا ۔ میری طرف سے ویسے بھی آپ نے چھڑا لے جانا ہے اس کے چار گھنٹے بعد۔رات کے اندھیرے میں مولوی جی بھیگی آنکھوں سے اپنا سامان باندھے بیوی اور بچوں کو ساتھ لیے اس مسجد سے روانہ ہو رہے تھے جس میں ان کی خوبصورت آواز تیس سال گونجی تھی ۔
اور آج سسکیاں گونج رہی تھیں اور اس کے تین ماہ بعد مسجد کے ساتھ قبرستان کی سائیڈ پر چودھری جی کے پانچ مرلے کی زمین بڑھ کر پندرہ مرلے کے بجائے کنال ہو چکی تھی اور یہاں خوبصورت پلازہ تعمیر ہو رہا تھا ۔ اب نئے مولوی کو زمین کے کاغذات کا کچھ علم نہ تھا بلکہ اس نے تو آتے ہی مسجد کے غسل خانوں کو نئے سرے سے بنانے کے لیے تمام کا تمام فنڈ چودھری ریحان سے لے لیا تھا۔
مولوی اور نوجوان لڑکی
✭ نوٹ :- عمدہ قسم کے سبق آموز واقعات وحکایات کیلئے آج ہی ہمارا ٹیلی گرام چینل جوائن کریں۔
نوٹ :- ایسے ہی دل کو موہ لینے والے اور دل کو چھو لینے والے واقعات و حکایات پڑھنے کے لئے روز ویب سائٹ کا وزٹ کریں۔ اور اپنے دوست و احباب اور متعلقین کو بھی شیئر کریں تاکہ آپ کے ذریعے ان کا بھی فائدہ ہو ۔
Leave a Comment