میرے والدین کی یہ حسرت تھی کہ اللہ ایک بیٹا بھی دے دیتا تو بڑھاپے میں کوئی ان کا دکھ بانٹنے والا ہوتا ۔ خدا نے ان کی یہ آرزو پوری کردی اور ادھیڑ عمری میں بیٹا دے دیا ۔ جس کا نام انہوں نے عمر حیات رکھا ان کا خیال تھا کہ بڑھاپا محفوظ ہو کیا ہے ۔ مگر سب کچھ ہی الٹ ہو گیا عمر حیات کے آنے سے گھر میں اجالے کی بجائے اندھیرا ہو گیا ۔ میری ماں نے اس لاڈلے کو بہت پیار دیا ابا بھی اسے کچھ نہیں کہتے یوں وہ بچپن سے زدی ہو گیا ۔
بارہ سال کی عمر میں اسکول سے بھاگ نکلا محلے کے دو آوارہ لڑکوں کے ہتھے چڑھ گیا ۔ جو عمر میں اس سے بڑے تھے انہوں نے اس بھولے بھالے بچے کو ٹریک کر لیا ۔ ابا کو فکر لاحق ہو گئی اور وہ بیٹے پر سختی کرنے لگے مگر ماں آڑے آجاتی ۔ اور عمر حیات کو ہمیشہ بچالی لیتی والد سمجھاتے تو جھگڑنے لگتے ہیں ۔ اللہ نے منتوں مرادوں سے یہ نعمت دی ہے ۔ اور تم بیٹے کے پیچھے پڑ گئے ہو نتیجہ یہ نکلا کہ ماں کی عاقبت نااندیشی سے بچے کا خانہ خراب ہوگیا ۔
عمرحیات یا سترہ سال کا تھا تو والد صاحب کی وفات ہوگئی ۔نام نہاد غیرت
ان کی وفات کو دو ماہ بھی نہ ہوئے تھے کہ اس کو جیل ہوگئی ۔ ایک رات کسی جوئے کے اڈے پر پولیس کا چھاپہ پڑا میرا بھائی بھی وہاں موجود تھا ۔ یوں وہ حوالات چلا گیا تین دن تک خبر نہ ہوئی کہ وہ کہاں ہے ۔ اماں فکر میں ہلکان تھی کہ نہ جانے اس پر کیا بیتے گی جو گھر کا راستہ بھول گیا ۔ کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا یہ محلے کا ایک شریف آدمی تھا ۔ جو ابا مرحوم کا دوست تھا اس نے بتایا کہ تمہارا لڑکا حوالات میں ہے کچھ آوارہ لڑکوں کے ساتھ پکڑا گیا ہے ۔
اماں نے تو کلیجہ تھام لیا آپ ہی کسی طور پر عمر کو رہا کرانے کی کچھ تدبیر کرو ۔ بہن جی یہ کام میرے بس کا نہیں تو تم اکبر صاحب کے پاس جاؤ ۔ وہ محلے کے صاحب حیثیت آدمی ہیں ۔ اور تمہارے مرحوم شوہر کا احترام بھی کرتے تھے وہ تمہاری مدد کر سکتے ہیں ۔ یہ کہہ کر وہ چلے گئے اماں کا تو سکون جاتا رہا ۔ سر پر برکھا ڈال روتی روتی اس دم اکبر صاحب کے گھر تھوڑی شومئی قسمت کہ وہ کسی کام سے کراچی گئے تھے ۔
یہ آنسو پونچھتی گھر آگئی تین دن بعد اکبر صاحب کی بیگم نے ملازم لڑکی کو بھجوا کر کہلوایا ۔ کہ آکر بات کر لوں اماں پھر بھاگ گئی ۔ اکبر صاحب نے بات سنیں تسلی دی اور تھانے چلے گئے ۔ پتہ چلا کہ ایف آئی آر کٹ چکی ہے بہرحال انہوں نے کوشش کی ۔ مگر پولیس نے مزید تفتیش کی تو اور بھی کئی راز کھلے چھوٹی موٹی چوریاں بھی میرے بھائی کے کھاتے میں تھی ۔ کی دیگر کئی غلط سلط کاموں میں یہ لوگ ملوث تھے ۔نام نہاد غیرت
اکبر صاحب کا اثرورسوخ کام نہ آیا اور میرے بھائی کو جیل ہوگئ ۔
ابا کی قبر کی مٹی گیلی تھی کہ یہ آفات پڑ گئی ۔ اس کے بعد حالات مزید خراب سے خراب ہوگئے ۔ گھر میں ابا ہی کمانے والے تھے میں نے ایف اے کر لیا تھا امی نے اکبر صاحب کی بیوی سے کہا بیٹا تو جیل چلا گیا ۔ اگر آپ صبور کی کہیں نوکری لگوا دیں گے تو ہمارا چولہا چلتا رہے گا ۔ اس بیچاری نے شوہر کی منت سماجت کی تو انہوں نے اپنی ایک دوست رمضان صاحب کے نام سفارشی خط لکھ کر دیا کہا کہ بچی سے کہو ان کے پاس چلی جائے ۔
یہ میرے دوست ہیں امید ہے میری بات نہیں ٹالیں گے ۔ اماں نے خط لا کر مجھے دیا اور میں اگلے دن ہی گھر سے نکل پڑی ۔ میں دو بجے تک ان کے آفس پہنچ گئی یہ والد کی وفات کے بعد میرا گھر سے پہلا قدم تھا آفس بہت شاندار تھا ۔ سفارشی خط میں نے چپڑاسی کے ہاتھ رمضان صاحب کو بھجوایا ۔ چند منٹ بعد چپراسی نے آ کر بتایا کہ صاحب نے آپ کو اندر بلایا ہے ۔
دھڑکتے دل کے کے ساتھ میں ان کے کمرے میں پہنچی ۔ تو انہوں نے ایک نظر مکھ پر ڈالی اور کہا کہ بیٹھ جائیے ۔ میں ان کے سامنے پڑی کرسی پر سہمی سی بیٹھ گئی ۔ انہوں نے میری اسناد پر سرسری نظر ڈالی اور پھر کسی صاحب کو بلایا ۔ وہ بھی دو منٹ میں حاضر ہو گئے کہا کہ ان کے لیے لیٹر ٹائپ کر دو اور کمرہ بتا دو پھر مجھ سے مخاطب ہوئے ۔
تمہیں احمد صاحب کام سمجھا دیں گے چلو آج سے جوائن کر لو ۔
یقین نہیں آ رہا تھا کہ اتنی جلدی ملازمت مل جائے گی ۔ اپنی خوش قسمتی پر میں حیران تھی احمد صاحب نے مجھے کمرہ دکھایا ۔ اور کہا فی الحال آپ کا کام فائلوں کو درست کرکے رکھنا ہے ۔ میں نے کام سمجھ لیا چاہو تو آج 2 بجے جا سکتی ہوں لیکن کل چار بجے تک ڈیوٹی دینا ہوگی ۔ جی سر میں نے تو الفاظ کہے اور کرسی پر بیٹھ گئی ۔ ذرا دیر بعد بھی چپڑاسی میرے لئے چائے لے کر آ گیا کہنے لگا میرا نام عرمان خان ہے ۔نام نہاد غیرت
میں یہاں پانچ سال سے ہوں صاحب بہت اچھے مہربان آدمی ہیں ۔ مگر لاپرواہی پسند نہیں کرتے کچھ دیر بعد احمد صاحب میرے کمرے میں آئے ۔ تو ان کے ہاتھ میں تقرر نامہ تھا میرے حوالے کیا اور بولے کہ پڑھ کر دو بجے تک بجوا دیں ۔ جاتے میں نے سرسری نظر ڈالی لیٹر پر ڈالی تو تنخواہ توقع سے بڑھ گئی تھی ۔ میں نے اس وقت سائن کر دیے بہت خوش خوش تھی گھر آ گئی ۔
امی کو فکر مند پایا بولی صبح گئی دوپہر کو آ رہی ہوں اتنی دیر کیوں کردی ۔ میں نے کہا مجھے ملازمت مل گئی امی نے خدا کا شکر ادا کیا کہ چلو کوئی کام تو سیدھا ہوا ۔ میں نے امی کے گلے میں باہیں ڈال دیں وہ خوش تھی ۔ مگر میں نے محسوس کیا کہ ان کی اس خوشی میں ایک عجیب سی اداسی تھی ۔ شاید انہیں اپنا بیٹا یاد آ رہا تھا گھر میں صرف ہم خواتین تھیں ۔
لے دے کر اکبر صاحب تھے جو دو ماہ بعد عمر سے ملاقات کے لیے کبھی کبھار اپنے ڈرائیور یا کسی اہلکار کو بھیج دیا کرتے ۔
خود وہ بہت کم جاتے تھے البتہ جیلر سے فون پر عمر کے بارے میں رابطے میں رہتے ۔ جب میں نے ڈیوٹی سنبھال لی کمپنی کے مالک کی عنائتیں دیکھ کر حیران ہو گئی ۔ سوچتی تھی کیا مالک اس قدر مہربان اور اچھے ہو سکتے ہیں ۔ ایک دن وہ آفس میں معائنے پر آئے میں کام میں گم تھی ۔ دو منٹ کمرے میں ٹھہرے اور چلے گئے ان کے ساتھ احمد صاحب بھی تھے ۔
واپس جانے کے بعد انہوں نے مجھے بلایا میں سمجھی مجھ سے کوئی غلطی ہوگئی ۔ ڈرتے ڈرتے ان کے سامنے پیش ہو گئی وہ تنہا بیٹھے تھے پوچھا مس صبور کام میں کوئی مشکل تو نہیں ۔ میں نے کہا جی نہی کام بالکل آسان ہے کہنے لگے دراصل اکبر میرا اچھا دوست ہے ۔ میں نے ان کی سفارش پر تمہیں رکھا ہے اسی لئے چاہتا ہوں تمہیں کوئی پریشانی نہ ہو ۔ فی الحال یہ کام دیا ہے بعد میں کوئی دوسرا کام دے دوں گا تاکہ تمہاری تنخواہ میں اضافہ جائے ۔نام نہاد غیرت
مجھے لگا وہ تسلی دے رہے ہیں تاکہ میرا حوصلہ بڑھ جائے ۔ میں نے ان کی باتوں کو شفقت پر محمول کیا کچھ دنوں بعد انہوں نے مجھے پھر بلایا ۔ مس صبور میں آپ کے لیے بہت زیادہ بہتر پوسٹ نکال چکا ہوں ۔ اپنے کمرے سے ملحقہ حصے کی جانب اشارہ کیا ۔ آج سے آپ یہاں بیٹھیں گیں احمد صاحب آپ کو کام سکھا دیں گے ۔ آپ میری پرسنل سیکرٹری کے فرائض انجام دیں گی ۔
مجھے ان کی یہ عنایت پسند نہیں آئی سوچا یہاں ہر وقت ان کی نظروں کے سامنے رہوں گی ۔
بیشک درمیان میں شیشے لگے تھے لیکن اس طرح وہ جب چاہتے مجھے دیکھ سکتے تھے ۔ میں نے خود کو بہت ان کمفرٹیبل محسوس کیا مگر دل کی کیفیت کو ظاہر نہیں ہونے دیا ۔ کیونکہ مجھے نوکری تو کرنا ہی تھی ایک روز رمضان صاحب اپنا نیا پروجیکٹ دکھانے کے بہانے مجھے اپنے گھر لے گئے ۔ کہنے لگے مس صبور آپ یہاں چند منٹ بیٹھیں مجھے ایک ضروری فائل لینی تھی تو یہاں آنا پڑا بس ابھی چلتے ہیں ۔نام نہاد غیرت
تب تک چائے کا ایک کپ انجوائے کرلیں ۔ تھوڑی دیر بعد وہ ہاتھ میں ایک فائل تھا ۔ میں آگے اور بلاتکلف میرے پاس صوفے پر بیٹھ گے کہنے لگے کہ آپ نے میرا گھر دیکھا کتنا سونا سونا اور خالی ہے ۔ میری بیگم وفات پا چکی ہیں ایک بیٹا ہے اسے میں نے کراچی کی ایک بہت اعلی تعلیمی ادارے میں داخل کروا دیا ہے ۔ ایک بات کہنا چاہتا ہوں برا مت ماننا میں تنہا زندگی سے تنگ آ چکا ہوں ۔
تم بہت اچھی لڑکی ہوں تمہارے حالات بھی مجھے اکبر صاحب کی زبانی معلوم ہو چکے ہیں ۔ اگر تم مجھ سے شادی کرلو تو تمہارے سارے مسئلے حل ہوجائیں گے ۔ مجھے ایک دم شاک لگا کیونکہ وہ میرے والد کے برابر تھے سوچ بھی نہیں سکتی تھی ۔ کہ وہ اچانک ایسی بات کہ دیں گے میں 19 سال کی تھی ۔ اور وہ چالیس سے دو تین سال اوپر ہی ہوں گے ۔ اس وقت کچھ کہنا مناسب نہیں تھا کیونکہ میں ان کے گھر پر تھی اور اکیلی تھی ۔
بے شک ملازم موجود تھے تاہم ایسی صورتحال میں دانشمندی کا تقاضا یہی تھا کہ ان سے تمیز سے بات کروں ۔
میں نے کہا کہ اس معاملے پر والدہ کے بغیر بات نہیں کر سکتی ۔ ان سے مشورہ کرکے آپ کو جواب دوں گی بولے ٹھیک ہے ۔ ان سے شادی کسی طور پر مجھے منظور نہیں تھی اگلے دن ڈاک سے استیفاء ارسال کردیا ۔ یوں یہ ملازمت چھوٹ گئی سوچتی تھی ۔ کہ اگر درمیان میں اکبر صاحب کا حوالہ نہ ہوتا تو ممکن تھا کہ رمضان صاحب کوئی اور بات کر جاتے ۔ والدہ کو بتا دیا کہ باس مجھ سے شادی کے آرزو مند ہو گئے تھے ۔
میں نے انہیں والد کی طرح ایک شفیق ہستی سمجھا تھا ۔ اب ان کا سامنا کرنا محال ہے امی نے کہا ٹھیک ہے بیٹی ۔ مجھے تمہاری خوشی سے عزیز کچھ نہیں ہے ٹھیک ہے رزق کہیں اور سے مل جائے گا ۔ میں نے اپنی مشکل کا ایک سہیلی سے تذکرہ کیا ۔ اس نے بتایا میری والدہ کے ایک عزیز کو اپنے بچوں کے لئے ایک استانی درکار ہے ۔ پیسے والے لوگ ہیں معقول پیسے ادا کریں گے ۔
مگر ان کے گھر جا کر تین گھنٹے ٹیوشن دینا ہوگی ۔ اور آمدورفت کا بندوبست بھی خود کرنا ہوگا وہ آنے جانے کا کرایہ بھی البتہ دے دیں گے ۔ میں یہ ٹیوشن کرنے پر تیار ہوں کچھ نہ ہونے سے کچھ ہاتھ آنا بہتر ہے ۔ کیونکہ والدہ اور چوٹی بہن تو گھر چلانے کے لائق نہیں ہے ۔ اب میں نے نوکری بھی چھوڑ دی ہے کہ تہنیت اگلے دن مجھے رشتے کے ماموں کے گھر لے گئیں وہ اچھی ٹیوشن دے رہے تھے ۔
شام کے وقت پڑھنے جانا تھا کیونکہ صبح کے وقت بچے سکول جاتے تھے ۔
میں نے قبول کرلیا جہاں ان کا گھر تھا وہاں نزدیک ہی بس سٹینڈ تھا ۔ اس سہولت کو غنیمت جانا کہ فی الحال آمدنی کا کوئی ذریعہ تو نکل آیا ۔ خاتون خانہ سے بات چیت ہو گی اگلے دن سے میں ٹیوشن پڑھانے جانے لگی ۔ ایک دن ٹیوشن پڑھا کر گھر لوٹ رہی تھی کہ مجھے اپنے محلے کا ایک نوجوان عاقب نظر آگیا ۔ وہ موٹر سائیکل پر تھا اور میں بس کے انتظار میں کھڑی تھی وہ خالبآ دفتر سے اپنے گھر جا رہا تھا ۔نام نہاد غیرت
یہ مغرب کا وقت تھا عاقب نے مجھے دیکھا تو موٹر سائیکل قریب روکی اور پوچھا کیا گھر جانے کو یہاں کھڑی ہوں ۔ میں نے جواب دیا ہاں کہنے لگا آج اس طرف کچھ ہنگامہ ہو کیا ہے ۔ شاید بسوں کی ہڑتال ہے تم کب تک کھڑی رہو گی ۔ اندھیرا ہونے لگا ہے میرے ساتھ چلو ۔ وہ محلے کا شریف لڑکا تھا میری والدہ کی اس کی والدہ سے دوستی تھی لہذا میں اس کے ساتھ بیٹھ گئی ۔
اس نے مجھے گھر کے قریب اتار دیا امی کو بتایا کہ یہ معاملہ ہوا ۔ والدہ نے کہا بیٹی کچھ دن پہلے اس کی ماں نے عاقب کے لیے تمہارا رشتہ مانگا ہے ۔ میں نے ابھی سوچ بچار میں تھی کہ تم نے یہ بات بتادی ۔ چلو پھر یہ بھی بتا دو کہ اگر میں عاقب کی ماں کو تمہارے رشتے کے لیے ہاں کہہ دوں ۔ تو تمہیں اعتراض تو نہیں ہوگا ۔ مجھے عاقب اچھا لگا تھا لہذا ماں سے کہا مجھے کوئی اعتراض نہیں ۔ میں آپ کی پسند پر راضی ہوں مگر ان سے پوچھ لیں ۔
کیا وہ عمر بھائی کی رہائی تک ہمیں یہ مہلت دیں گے کیونکہ میں ان کے آنے تک گھر سے نہیں جا سکتی ۔
امی نے کہا کہ وہ یہ مہلت دینے کو بھی تیار ہیں شادی کی تیاری کے لیے ان کو بھی ایک سال چاہیے ۔ والدہ کی اس بات سے میرے دل کو سکون ہوگیا ۔ دو دن بعد ٹیوشن پڑھا کر لوٹ رہی تھی کہ عاقب پھر آ گیا کہا کہ یہ سنسان سا علاقہ ہے ۔ تمہیں سڑک تک آتے ہوئے دس منٹ لگ جاتے ہیں ۔ بس کے انتظار میں کھڑی رہوں گی تو رات ہو جائے گی یہی سوچ کر میں تمہیں لینے آیا ہوں ۔
والدہ مجھے رشتے کا بتا چکی تھی سمجھ چکی تھی کہ عاقب کی بھی یہی مرضی ہے ۔ اسی لیے لینے آ گیا اندھیرا بڑھ رہا تھا سردیوں کے دن تھے ۔ میں نے عافیت جانی کہ عاقب کے ساتھ ہی چلی جاؤں مجھے بھی چند منٹ کا راستہ بہت کھلتا تھا ۔ راستے میں عاقب نے بتایا کہ امی تمہیں بہو بنانے کا ارادہ رکھتی ہیں ۔ مجھے یہ بات بتائی تو سوچا کیوں نہ میں روز لینے آ جاؤں گا اگر تمہیں اعتراض نہ ہو تو ٹھیک ہے ۔نام نہاد غیرت
عاقب مجھے کیوں اعتراض ہو گا ویسے بھی مجھے بہت ڈر لگتا ہے ۔ یہاں خیر ابھی ہم یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ ایک گاڑی ہمارے سامنے سے آتی دکھائی دی ۔ جس کی لائٹیں ہم دونوں پر پڑی تو عاقب نے موٹر سائیکل دائیں طرف کرلی ۔ تیز روشنی کی وجہ سے بس اس قدر دیکھ پائیں یہ گاڑی اسی گھر کی تھی ۔ جس گھر میں ٹیوشن دینے جاتی تھی کون چلا رہا تھا ۔ یہ دیکھ نہیں پائی خیر عاقب روز مجھے مغرب کے وقت لینے آنے لگا ۔
ایک روز امی نے کہا بیٹی تمہارا بھائی جیل سے آ رہا ہے اب تم ذرا دھیان رکھا کرو ۔
ایسا نہ ہو کہ کسی دن وہ دیکھ لے اور کوئی فساد ڈال دے ۔ بہتر ہے کہ ٹیوشن چھوڑ دو میں نے کہا اماں چھوڑ دوں گی ۔ بھائی کو گھر تو آنے دو وہ آتے ہیں کمانے تو نہیں لگے گا ہم کھائیں گے کہاں سے ۔ کیا اپنے گھر کا خرچہ بھی عاقب کی ماں سے مانگیں گے ۔ خدا نہ کرے کیسی باتیں کرتی ہو میں نے تو ویسے ہی کہا تھا ۔ کہ عمر کا مزاج جانتی ہوں ماں کا خدشہ بھی صحیح تھا کیونکہ عمر انسان نہیں حیوان بن کر آیا تھا ۔
اب تو نشہ بھی کرنے لگا تھا وہ بہت بے حس ہو گیا تھا ۔ اماں نے سوچا تھا بیٹا آجائے گا تو سب سے پہلے گھر کی بدحالی کو محسوس کرے گا ۔ کمانے کی طرف دھیان کرے گا مگر ایسا نہ ہوا ۔ اور مجھے مجبورا پڑھانا پڑا ایک روز میں پڑھانے گئی بچے اور ماں باپ گھر پر نہیں تھے ۔ بچوں کا چچا موجود تھا واپس جانے لگی تو اس نے آگے بڑھ کر میرا راستہ روک لیا ۔ کہنے لگا ذرا دیر کو دم تو لے لو دور سے آئی ہو ایسی بھی کیا جلدی بھابی اور بچے آنے ہی والے ہیں ۔نام نہاد غیرت
میں نے کہا میرا راستہ چھوڑ دو مجھے جانا ہے ان کا انتظار نہیں کرنا ۔ بڑی شریف بنتی ہو یہ تو بتاؤ اس دن سڑک کنارے اندھیرے میں تم کس کے ساتھ بائیک پر تھی ۔ ان کی یہ بات سن کر مجھے غصہ آگیا میں نے کہا اس بات سے آپ کا کیا سروکار ہے ۔ خیر میں نے بھی اسے بتا دیا کہ وہ میرا منگیتر تھا اور یہ کہہ کر میں جلدی سے گھر سے نکل آئی ۔ پتا نہیں عاقب اس وقت مجھے لینے کیسے آ گیا تھا ۔
میں اس کے بائیک پر بیٹھ گئی مگر راستے میں ہمیں ایک آدمی نے روک لیا ۔
وہ عاقب سے مخاطب ہوا اوئے یہ کیا تیری بہن ہے ۔ کہ سرےراہ اس کو اچک لیا ہے ۔ میری بہن نہیں ہے شاید تیری ہو عاقب نے غصے سے جواب دیا ۔ اس جگہ گھنے درختوں کی وجہ سے اندھیرا سا ہو گیا تھا اسٹیٹ لائٹ بھی آف تھی ۔ میں نے چہرے پر نقاب کر لیا تھا ۔ جس نے موٹر سائیکل روکی وہ مجھے پہچان نہیں سکا ۔ لیکن میں اس کی آواز سے پہچان گئی کہ یہ میرا بھائی عمر ہے ۔
اسی دم اسٹریٹ لائٹ آن ہو گی روشنی ہوگی تو میں نے نقاب الٹ دیا ۔ دو غنڈے عاقب سے الجھ رہے تھے ۔ عمر نے مجھے بازو سے پکڑا اس کا علاقہ مجھے گھسیٹ کر گاڑی کی طرف لے جانے کا تھا ۔ نقاب الٹنے سے میری صورت پر روشنی پڑ گئی اس نے مجھے پہچان لیا تو حیران ہو گیا ۔ تم یہاں کیا کرنے آئی تھی اس وقت وہ لڑکا کدھر لے جا رہا تھا ۔
تمہیں میں نے کہا یہ عاقب ہے خدا نے مجھے ان غنڈوں سے بچانے کو اسے ادھر بھیجا ہے ۔ اور تم تم میرے سگے بھائی ہو شرم نہیں آتی ۔ تمہیں کیا سمجھ کر تو میری طرف بڑھے تھے اپنی بہن کو گنڈوں کے حوالے کرنے کے لیے ۔ یہ الفاظ عاقب پر انگاروں کی طرح پڑھے اس نے مجھے ایک زور کا تھپڑ رسید کرتے ہوئے کہا ۔ بے شرم لڑکی شرم نہیں آتی تم رات کے اس پہر غیر لڑکے کے ساتھ بائیک پر بیٹھ کر آ رہی تھی ۔نام نہاد غیرت
ادھر عمر کی گرفت میں میرا بازو تھا ادھر دو گھنڈے عاقب کو بیٹ رہے تھے ۔
جب اس کے چہرے سے خون بہنے لگا وہ اسے چھوڑ کر ہماری طرف آئے ۔ ہاں بھائی شکار آگیا عمر بکواس بند کرو عمر غرایا اور دفع ہو جاؤ ۔ یہاں سے اس نے ان ڈپٹت کر ان سے کہا وہ حیران ہو کر اس کا منہ تکنے لگے ۔ پھر ایک نے دوسرے سے کہا ابے کیا ہو گیا ہے ۔ اسے ہاں تو بہن ہے میری ان سے بات کرنے کے بعد وہ مجھے گھر لے آیا ادھر آ کر وہ اپنے ہوش میں نہیں تھا ۔
باورچی خانے کی طرف دوڑا چھری اٹھانے کو آج تو میں اس کا خاتمہ کرکے رہوں گا ۔ ماں سمجھ گئی کہ عاقب کے ساتھ مجھے موٹرسائیکل پر عمر نے دیکھ لیا تھا ۔ جس بات کا ان کو ڈر تھا وہی ہو گیا میں نے منگنی کر دی ہے ۔ اس کی عاقب منگیتر ہے صبور کا ٹیوشن پڑھانے جاتی ہیں یہ بیچاری ہمارا پیٹ پالنے جاتی ہے ۔ نہ کچھ ہوش کرو اماں سر پیٹنے لگی بھائی کے ہاتھ میں چھری دیکھ کر میں تو ڈر کے کمرے میں جا گھسی اندر سے کنڈی لگا لی ۔
عمر امی سے لڑنے جھگڑنے لگا جب وہ دونوں غنڈے گاڑی میں بیٹھ کر چلے گئے ۔ تو عاقب کے پاس قریبی بنگلے سے نکل کر ایک شخص آیا وہ اپنی بالائی منزل سے یہ سارا تماشہ دیکھ رہا تھا ۔ اس نے ہی اسے گھر تک پہنچایا بھائی اپنے دروازے کی دہلیز پر بیٹھا اس کا انتظار کر رہا تھا ۔ ماں نے اسے بتا دیا تھا کہ یہ ہمارے پڑوسی تمہاری جیل جانے کے بعد سامنے والے گھر میں آئے ہیں ۔
اس لڑکے کی ماں نے صبور کا رشتہ اپنے بیٹے کے لیے مانگا تو میں نے منگنی کردی ۔
صبور اب عاقب کی منگیتر ہے تو جیل میں بیٹھا تھا کون لینے جاتا اسے ۔ میں ہی لینے کے لیے بھیجتی ہوں عاقب کو ماں کی ان باتوں پر عمر کب کان دھرنے والا تھا ۔ عاقب کو دیکھتے ہی اس نے اس پر چھری سے حملہ کر دیا وہ بے چارہ نہتہ کیا مقابلہ کرتا ۔ زخمی تو پہلے سے تھا اچانک حملے کی تاب نہ لا کر گر پڑا ۔ یوں میرا بےحس بھائی جس کو یہ غیرت نہ تھی کہ کما کر کھلاتا ۔
نام نہاد غیرت کی وجہ سے ایک نیک ارادہ رکھنے والے لڑکے کا قاتل بن گیا ۔ اور لمبی مدت کے لئے جیل چلا گیا میرا گھر بسانے سکون سے زندگی گزانے کا خواب ہمیشہ کے لئے چکنا چور ہو گیا ۔ بالآخر میں ایک نرس بن گئی باقی زندگی مریضوں کی دیکھ بھال میں کٹ گئی ۔ یہاں تک کہ جب بھائی سزا کاٹ کر آیا تو ماں مر چکی تھی چھوٹی بہن کی میں نے شادی کر دی تھی ۔نام نہاد غیرت
عمر جیل سے ایسا مرض لگا کر نکلا تھا کہ ایک سال بھی جی نہ پایا ۔ اس کو ہسپتال میں داخل کرا دیا مگر اس کا مرض لا علاج تھا ۔ بالآخر میرے اکلوتے بھائی نے میرے ہی ہاتھوں میں دم دے دیا ۔ حالانکہ وہ میرے خوابوں کا قاتل تھا مگر اس کے مرنے پر میں پھوٹ پھوٹ کر روئی تھی ۔ اب میں اکیلی جینے پر مجبور تھی نوکری کرتی رہی ۔ یہاں تک کہ بڑھاپے نے آ لیا شکر کہ سرکاری ہسپتال میں نوکری ملی تھی ۔
آج پنشن ہی میرا سب کچھ ہے کہ دو وقت کی روٹی کے دو وقت کی روٹی بغیر کسی کے آگے ہاتھ پھیلائے مل جاتی ہے ۔
✭ نوٹ :- عمدہ قسم کے سبق آموز واقعات وحکایات کیلئے آج ہی ہمارا ٹیلی گرام چینل جوائن کریں ۔
نوٹ :- ایسے ہی دل کو موہ لینے والے اور دل کو چھو لینے والے واقعات و حکایات پڑھنے کے لئے روز ویب سائٹ کا وزٹ کریں ۔ اور اپنے دوست و احباب اور متعلقین کو بھی شیئر کریں تاکہ آپ کے ذریعے ان کا بھی فائدہ
Leave a Comment