57 سال کا بوڑھا اپنی 16سالہ پڑوسن سے پیار کر بیٹھا – love story in urdu

love story in urdu
Written by kahaniinurdu

ایک 57 سال کا بوڑھا اپنی 16سالہ پڑوسن سے پیار کر بیٹھا۔ گندم کی سنہری بالیوں سی سنہری رنگت والی لڑکی آج پھر منیب کے خواب میں آ ٹپکی ۔اور آج پھر وہ پریشاں صورت ، آنکھوں میں آدھی نیند بھرے اٹھ کے اپنے خواب کو سوچنے بیٹھ گیا۔ عجیب ہی معاملہ درپیش تھا اسے ۔ کتنے دنوں سے وہ خود کو ایک بیوہ کے سحر سے نکالنے میں ناکام ہو رہا تھا ۔بارہا سر کو جھٹکتا ، خیال تبدیل کرنے کی بھرپور سعی کرتا ، مگر بے سود ۔ زینب پھر سے کوئی روزن کھُلا پا کر ذہن کے دریچوں میں گھُس آتی ۔

خیالات کے بالا خانوں میں آنچل لہراتی ، منیب کی دھڑکنیں اتھل پتھل کرتی رہتی ۔

اب تو دماغ کے ساتھ دل کی ریاست پر بھی زینب نے زبردستی اپنی راجدھانی جما لی تھی ۔ گویا منیب کے دل و دماغ کی وہی اکلوتی وارث ہو ۔منیب خود کو سمجھاتا، کوستا اور ملامت کرتا کہ اب توقبر کی طرف رُخ کیے بیٹھے ہو ۔جب وقت تھا تب تو چراغوں میں تیل نہ تھا تو اب کیا سُوجھی تجھے عشق لڑانے کی دنیا ہنسے گی تجھ پر ۔ محلے میں کسی کو بھنک بھی پڑ گٸی تو کتنا کوسیں گے ،اندھے کو دنیا دیکھنے کیلیے دو آنکھیں درکار ہوتی ہیں اور بیناٶں کو بتنگڑ بنانے کیلیے صرف ایک بات ۔

کوٸی کنارہ ملا نہیں کہ مخلوق کے ہاتھ ٹھٹھا لگانے کو شُغل آگیا۔ منیب کی اپنے دل و دماغ سے یہ لڑائی پچھلے ایک ہفتے سے جاری تھی ۔ دن بھر خود سے لڑتا ، اپنی کیفیات پر قابو پاتا ، اپنی بے مہار سوچوں کے دھارے میں بہتا رہتا۔مگر شام پڑتے ہی خود پہ لگائے گئے سارے پہرے توڑ کر اُس کے قدم زینب کے کوچے کی اُور اُٹھ جاتے ۔ کوئی پہر وہ زینب کی صرف ایک جھلک دیکھنے کو یہاں وہاں ٹہلتا حیلوں بہانوں سے گزار دیتا ۔ایسا ہرگز نہ تھا کہ کمزور وجود اور درمیانے قد کا مالک بوڑھا منیب کوٸی رنگین مزاج شخص رہا تھا ۔

جوانی کے دورِ قیامت میں بھی اُس کی طبیعت میں رومانیت مفقود تھی۔

بلکہ اُس نے تو اپنے شباب میں بھی ایسی کوئی کہانی نہ چھوڑی تھی جو منیب کا نام زبان زدِ عام لانے کا باعث بنتی ۔ وہ تو اس قدر سادہ اور کم گو طبیعت کا مالک تھ کہ اپنا حق اور حصہ طلب کرنے سے پہلے بھی سو بار سوچا کرتا ۔پیدا ہوا تو باپ نے بڑے چاؤ سے اُس کا نام منظور احمد رکھا۔ مگر ماں پیدائشی توتلی تھی سو اُن کی زبان منظور سے آشنا نہ ہو سکی ۔ منظور پہلے اپنی ماں اور پھر رفتہ رفتہ سب کیلیے منیبر بن گیا اور کچھ سالوں بعد منیبر بھی مختصر ہو کے منیب بچ گیا ۔

گھر کی پہلی اور اکلوتی نرینہ اولاد ہونے کے ناطے منیب کے حصے میں والدین کی طرف سے بے پناہ محبت و اپنائیت آئی ۔ منیب کے بعد دو دو سال کے وقفوں سے تین بیٹیاں ہوئیں ۔ ابھی دسواں درجہ بھی پاس نہ کیا تھا ماں باپ اپنی تینوں بیٹیوں کا بوجھ اور ذمہ داری منیب کے کمزور کندھوں پر ڈال کے ملک عدم کے راہی ہو گئیں۔والدین کے گزر جانے کے بعد منیب نے اپنی پڑھائی ادھوری چھوڑ کر اور چار پیسے جوڑ کر محلے میں چھوٹی سی دکان ڈال دی ۔ دن بھر دکان داری کرتا اور رات گئے در بند کر کے گھر لوٹتا ۔

تھکن اتنی زیادہ ہوتی کہ بہنوں سے بھی نہ بانٹ پاتا ۔

اور چارپاٸی پر کمر ٹکاتے ہی سُدھ بُدھ جاتی۔ اگلے دن کا سورج ابھرنے سے بھی قبل منیب پھر اپنی چھوٹی سی دکان پر بیٹھا ہوتا ۔ زندگی یونہی گھن چکر بنی رہی اور جانے کتنے سال دبے پاؤں بیچ میں سے کھسک گئے ۔گھر میں پیچھے بیٹھی تین جوان اور کنواری بہنوں کا پاس تھا یا آخری درجوں کو پہنچی ہوئی ۔منیب کی شرافت کہ اپنی گلی سے گزرتے ہوئے بھی نگاہیں زمین پر رکھ کے چلتا کجا کہ کسی مٹیار سے عشق لڑاتا ۔

کسی غیر عورت پر پڑ جانے والی بے اختیاری نظر کے علاوہ دوسری نگاہ ڈالنا بھی حرام سمجھتا۔ کہ گھر میں اپنی بھی تین جوان بہنیں بیٹھی ہیں ۔ محلے بھر میں منیب کی شرافت ضرب المثل تھی۔ اور مائیں اپنے جوان بیٹوں کو منیب کی مثال دے کر شرافت کے سبق پڑھاتیں ۔کبھی خود کو سنوارنے کی تمنا نہ رہی ۔ کبھی بالوں کو تیل لگایا اور نہ ہی کبھی کسی نے منیب کو خوشبو لگا کر گھر سے باہر نکلتے دیکھا ۔ ہمیشہ مٹی رنگ کپڑے زیب تن کیے۔

ایک بار عید شوال پر بہنیں منیب کیلیے کڑکڑاتے ہوۓ سفید تھان سے جوڑا کٹوا کے لاٸیں۔

تو منیب نے پہننے سے انکار کر دیا ۔اور بولا من میلا ہو تو تن پہ اجلے کپڑے ڈالنے سے بھلا کیا حاصل ۔دکان چھوٹی سی تھی ، آمدن کم تھی اور مہنگائی زیادہ۔ فرنیچر اور سونے کے بھاؤ آسمان سے باتیں کرتے تھے۔ وقت گزرتا چلا گیا اور بڑی دو بہنوں کے جہیز جوڑتے جوڑتے منیب کے اپنے سر میں چاندی کے تار جھانکنے لگ گئیں ۔

تینوں بہنیں منیب سے بارہا اپنی شادی کیلیے اصرار کرتیں۔ مگر منیب نے جیسے قسم کھا رکھی تھی کہ جب تک تینوں ہمشیرگان کے ہاتھ پیلے نہیں ہوتے ۔وہ اپنے سر پر سہرا نہیں سجائے گا ۔دو بہنوں کے فرض سے سرخروٸی ہوٸی اور تیسری بہن کی بارات اٹھنے تک منیب اپنی عُمر کے اُس حصے میں آ پہنچا کہ اسے اپنی شادی کا سوچ کر ہی ہنسی آ جاتی ۔اُس نے اپنے اکلاپے سے یارانہ باندھ لیا تھا ۔عجیب ہی کوٸی سادگی اور خلوت پسندی بھری تھی اُس کی طبیعت میں ۔

دو وقت کی روٹی ہوٹل سے کھا لیتا مگر کسی پر بوجھ بننا منیب کو ہرگز گوارا نہ تھا ۔

اہلِ محلہ میں کوئی بڑے بزرگوں نے منیب کو پاس بٹھا کر سمجھایا اور شادی کا مشورہ دیا ۔مگر منیب مان کے ہی نہ دیا ۔ وہ اِس حقیقت کو تسلیم کر چکا تھا کہ اب خواب دیکھنے کی عمر گزر چکی ہے ۔ یوں بھی تنہا رہنے کی عادت اب اس قدر پختہ ہو چکی تھی ۔کہ وہ اپنے گھر میں کسی نئی ہستی کا وجود اضافی سمجھتا۔بلاآخر بڑے بزرگوں کے ساتھ ساتھ بہنوں کا اصرار بھی دم توڑ گیا ۔اور وہ اپنی اولاد اور زندگی کے بکھیڑوں میں یوں الجھ گئیں کہ مہینوں اکلوتے بھائی کی خیر خبر لینا یاد نہ رہتا ۔

زندگی اپنی مخصوص ڈگر پر چلتی رہی اور منیب کا سر مکمل سفید ہو گیا ۔ ڈھونڈنے سے بھی کوئی کالا بال نہ ملتا ۔ اُس نے زندگی کے پانچ عشرے بھی گئے برسوں میں پورے کر لیے تھے۔ اور اب چھٹے کی طرف دوڑ تھی ۔ اب تو اُس کا اپنا شمار بھی محلے کے بڑے بزرگوں میں ہونے لگا تھا ۔اور چھوٹے لڑکے لڑکیاں سب اسے چاچا منیب کے نام سے مخاطب کرتے ۔پھر اب اس بڑھاپے میں دل پر ایسی کیا آفت آ پڑی تھی کہ وہ زینب کی اداس آنکھوں میں جا گرا ۔

ابھی ہفتہ بھر پہلے ہی اُس نے محلے کی ایک شادی میں سیاہ لبادے میں ملبوس مغموم صورت اداسی کے مجسمے کو دیکھ لیا ۔

تب سے حرام ہے جو رات کو مکمل آنکھ لگی ہو یا دن میں دکان پر بیٹھے چین آیا ہو ۔رات کو بستر پر کروٹیں بدلتا رہتا اور دن میں دکان پر پہلو ۔ اندر ایک کشمکش تھی جو بڑھتی چلی جا رہی تھی ۔ اُس نے ہر ممکن کوشش کی کہ اس نٸی نویلی محبت کے احساس کو دل میں ہی دبا دے مگر بے سود ۔باہر نکلتا تو گھبراہٹ بڑھ جاتی کہ کوئی اس کی آنکھوں میں زینب کی تصویر نہ دیکھ لے یا پھر اُس کے چہرے پہ درج اُس کا بھید ہی نہ جان لے ۔

ہفتے بھر سے یہی حال تھا ۔ دن بھر زینب کو سوچتا رات ہوتی وہ منیب کی پلکوں پر آبیٹھتی اور پھر منیب ستارے گننا شروع کر دیتا ۔گنتی بھول جاتی اور خیال ٹوٹ جاتا تو خود کو ڈانٹتا یہ کیا بچپنا ہے منیب کچھ تو ہوش کر۔ من کا بوجھ طاقت سے بڑھنے لگا تو وہ آدھی رات کو اُٹھ کھڑا ہوا اور خود سے سات آٹھ سال چھوٹے اپنے اکلوتے یار عبدالصمد کا دروازہ دھڑا دھڑ پیٹنے لگا ۔سب خیر تو ہے نا بڈھے کیا ہو گیا ہے تجھے ادھ کھلی آنکھوں میں حیرت سموئے عبدالصمد نے اپنے یار کو دیکھتے ہی دریافت کیا ۔

وہ ہمیشہ منیب سے اپنی کم عمری کا فائدہ اٹھایا کرتا تھا۔

اور منیب کو بڈھےکے لقب سے چڑاتا خیر ہی تو نہیں ہے صمدو تو چل میرے ساتھ گھر کیوں ایسی کیا آفت آ پڑی ہے ۔ کچھ پھوٹو گے بھی صمدو کا فکری لہجہ اچھنبے کی بات نہ تھی۔مگر منیب یہاں گلی میں کھڑے ہو کر بھلا کیسے اپنے دل پہ ہوٸی واردات کا قصہ سنا سکتا تھا ۔ صمدو کے بازو سے پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے اپنے ساتھ گھر لے آیا ۔اور شروع سے آخر تک رام کہانی کہہ سنائیاور اب صمدو کے قہقے دیواروں سے سر ٹکرا رہے تھے ۔

منیب نے بمشکل صمدو کے منہ پر ہاتھ رکھ کے اُس کے قہقہوں کا گلا گھونٹا ۔ تو آج ثابت ہوا کہ ساٹھ کو پہنچتے ہی بڈھے سٹھیا جاتے ہیں ۔ صمدو کے قہقہے تھم چکے تھے مگر مسکراہٹ اور شرارت نہیں ۔ ساٹھ نہیں صرف ستاون منیب نے آنکھیں دکھا کر اپنی عمر کی تصیح کرنا بھی لازمی سمجھا۔ ← لڑکی کے من میں آپ کے لئے پیار ہے یا نہیں۔ اپنی والدہ کے پاؤں دھو کر وہ پانی پی لیتا تھا →۔

57 سال کا بوڑھا اپنی 16سالہ پڑوسن سے پیار کر بیٹھا

✭ نوٹ :- عمدہ قسم کے سبق آموز واقعات وحکایات کیلئے آج ہی ہمارا ٹیلی گرام چینل جوائن کریں۔

 نوٹ :- ایسے ہی دل کو موہ لینے والے اور دل کو چھو لینے والے واقعات و حکایات پڑھنے کے لئے روز ویب سائٹ کا وزٹ کریں۔ اور اپنے دوست و احباب اور متعلقین کو بھی شیئر کریں تاکہ آپ کے ذریعے ان کا بھی فائدہ ہو ۔

Leave a Comment