آسیب زدہ مکان
اسلام وعلیکم۔ آج میں ھمیشہ کی طرح ایک سچی تحریر لے کر حاضر ھوئی ھوں امید ھے آپ کو پسند آئے گی۔
یہ کہانی میری بہت قریبی جاننے والی کی ھے۔ تو آپ بھی انکی زبانی سنیں میرا نام نسیم اختر ھے لیکن سب مجھے سیما کہتے ہیں۔ بچپن میں ماں باپ فوت ھو گئے تھے مجھے میری سگی خالہ نے پالا پوسا ۔میں اکلوتی ھوں خالا نے بہت کم عمری میں میری شادی اپنے کسی جاننے والے سے کر دی۔ خالا کے اپنے بھی بچے تھےسو اس نے مجھے تین کپڑوں میں غربت کی وجہ سے بیاہ دیا تھا۔ آگے میرے شوہر بھی خود لاوارث ھی تھے ۔انکی پرورش بھی یتیم خانے میں ھوئی انکا کوئی آگے پچھے نہیں تھا۔
وہ کسی دوکان پر سیلز مین تھے یوں میں بیاہ کر انکی زندگی میں آگئی۔ میرے خاوند کا نام صابر تھا وہ بھی زیادہ عمر کے نا تھے۔ اور اچھے انسان بھی تھے یہ بات 90 کی دھائی کی ھے۔ ان دنوں ایک سیاسی جماعت کا بڑا چرچا تھا میرے شوھر بھی اس کے کارکن تھے۔ میں ایک سال کے بعد دو جڑواں بیٹیوں کی ماں بھی بن گئی تھی۔ صابر بہت خوش تھے کہ انکی بھی فیملی ھو گئی ھے ۔ھم روکھی سوکھی کھا کر گزارہ کر رھے تھے کبھی کبھار خالا سے ملنے بھی چلے جایا کرتے تھے۔
لیکن بچوں کی پیدائش کے بعد اخرجات بڑھ گئے تھے۔
تو صابر نے سوچا کوئی اور اچھی نوکری تلاش کی جائے یوں نوکری کے سلسلے میں سکھر سے کراچی آ گئے ۔یہاں میرے میاں کا دوست تھا اس نے بلایا اور نوکری کا کہا یوں کچھ دن کے بعد میرے میاں کو ایک فیکٹری میں ملازمت مل گئی تھی۔ اور پھر اسی دوست نے فیکٹری کے تھوڑا نزدیک ایک مکان بھی ڈھونڈ دیا تھا۔ سکھر سے ھم کچھ گھر کی اشیاء ساتھ لائے تھے ان کے ساتھ ھی اس گھر میں شفٹ ھو گئے۔
صابر کی فیکٹری ھمارے گھر سے تقریباً آدھے گھنٹے کی مسافت پر واقع تھی ۔گھر انسانی ابادی سے کافی ھٹ کے تھا اور اس کے ساتھ بہت سارے خالی پلاٹ تھے۔ پھر جا کر کے کچھ گھر تھے۔ ایک بڑا سا کمرہ تھا کچن بابر صحن میں بنا تھا کھلا کچن جیسے عام طور گاوں میں ھوتے ھیں۔ چولہا ھوتا ھے اور ساتھ دیوار پر ایک جالی کے دروازے والی الماری تھی۔ صحن میں اینٹوں سے بنی ٹایلٹ اور غسل خانا تھا ۔صحن میں ایک بہت بڑا کیکر کا درخت بھی تھا۔
لیکن ھم خوش تھے کہ اچھی قیمت پر مکان ملا ورنہ تو کرانے بہت زیادہ تھے۔
ویسے بھی میں ایسے ھی گھروں میں رہ کر پلی بڑھی تھی۔ میرے لیے کچھ نیا نہیں تھا دو دن تو صفائی ستھرائی میں گزر گئے۔ لیکن تیسرے دن ایک عجیب وغریب بات ھوئی دونوں بچوں کو سلا کر میں کچن میں دوپہر کے کھانے کی تیاری کر رھی تھی۔ کیونکہ میں شام سے پہلے کھانا پکا کر کمرے میں لے جاتی تھی۔ شام کو میں باہر کھانا نہیں بناتی تھی مجھے اس طرح بہت خوف سا محسوس ہوتا تھا۔
آسیب زدہ مکان – khoofnak kahani
میں نے آلو کاٹے تو صحن میں دھڑک کی آواز آئی ۔میں نے دیکھا موٹا سیاہ رنگ کا بلا جس کی آنکھیں سبز تھیں اندر داخل ھو گیا ھے ۔اور مجھے وہ ٹکٹکی باندھ کر دیکھے جا رھا ھے ۔میں نے اسے بہت بھگانے کی کوشش کی مگر وہ ٹس سے مس نا ھوا۔ اور مجھے دیکھتا رھا ڈھیٹ بن کر اب مجھے بھی بہت خوف آنے لگا تھا۔ اس سے میں نے مٹی کے تیل کا چولہا بند کیا اور کمرے میں چلی گئی اور اندر سے دروازہ بند کر دیا۔
اب میں بار بار کھڑکی سے صحن کی طرف دیکھتی رھی۔
کہ وہ جائے تو میں باہر واپس جاؤں کھانا پکاوں۔ کافی دیر وہ صحن میں گھومتا رھا اور پھر چلا گیا باھر تو تب میں بابر نکلی ۔رات کو میں نے صابر سے بھی بات کی تو انہوں نے کہا کہ ایسا ھوتا ھے ۔جانور ھے آگیا ھو گا دوسرے دن میں صحن میں جھاڑو لگا رھی تھی۔ تو اچانک درخت سے نیچے کوئی چیز گری ایک چھوٹی سی پوٹلی تھی ۔پرانے کپڑے کی میں نے ارد گرد دیکھا کوئی بھی نہیں تھا۔ میں بہت حیران ھوئی کہ کس طرح درخت سے گری ھے۔
میں نے ڈر کے مارے اسے وھیں پڑا رھنے دیا ۔اور کمرے میں بچوں کے پاس چلی گئی ۔میری بیٹیاں تین سال کی ھو چکیں تھیں۔ کہ اللہ تعالیٰ کی ذات نے ایک اور خوشخبری دے دی۔ میری طبیعت بھی خراب رھنے لگی تھی۔ شام کو صابر آئے تو ان کو سب بتایا وہ صحن میں خود گئے۔ لیکن وہاں تو کچھ بھی نہیں تھا میں بہت حیران تھی۔ کہ کدھر گئی وہ پوٹلی صابر نے مجھے تسلی دی۔ کہ تھمیں کچھ غلط فہمی ھے تم آرام کیا کرو کام نا زیادہ کرو۔ مگر مجھے کوئی غلط فہمی نہیں تھی میں خود بھی صابر کو پریشان نہیں کرنا چاھتی تھی۔
وہ تھکے ھوئے کام سے واپس آتے تھے۔
اور کھانا کھانے کے بعد بستر پر ڈھیے جاتے تھے۔ ان کا کام بھی بہت سخت ھوتا تھا میں نے بحث کرنا مناسب نہیں سمجھا ۔رات کو سوتے میں میں نے ایک عجیب خواب دیکھا کہ میری خالا ھے۔ اور مجھے جھنجوڑ کر کہتی ھے سیما تیرے گھر میں مجھے بہت گھٹن ھو رھی ۔اٹھ کر قرآن پاک کی تلاوت کر میری آنکھ کھل گئی اور پھر ساری رات میں نہیں سو پائی۔ صبحِ چھٹی تھی ناشتے کے بعد میں نے اپنا خواب بھی سنایا تو وہ بولے۔ کہ تمہیں خالا یاد آ رھی ھے کچھ سیٹ ھونے دو پھر چلیں گے۔
ایک رات کو تو بلیوں کے رونے کی آوازیں ھمارے چھت پر سے آتی رھیں۔ ٹین کی چھت تھی ساری رات وہ کبھی بھاگتی رہیں تو کبھی روتی رھیں۔ صابر نے بھی بولا کہ میں آج ھی کسی سے دوسرے مکان کا کہتا ھوں ساری رات چھت بجتا رھا ھے۔ ھر روز کچھ نا کچھ انہونی ھوتی رھتی تھی کبھی دیوار پر کالا کوا بیٹھا مجھے گھورتا کبھی مجھے ایسے محسوس ھوتا تھا۔ جیسے کہ کوئی میرے پیچھے چل رھا ھو دبے پاؤں کبھی مجھے تیز قسم کی بدبو کا جھونکا محسوس ہوتا ۔کبھی کبھی ویسے ھی مجھے خوف آتا بیٹھے بیٹھے ھی ایسے جیسے کچھ ھو جائے گا۔
مگر خراب حالات کی وجہ سے اور ھم کیا کرتے۔
اتنے بڑے شہر میں گھر ملنا بھی تو آسان نہیں تھا۔ دوسرا فیکٹری آنے جانے کا کرایہ بچ رھا تھا روزگار لگا ھوا تھا ۔دو وقت کی روٹی مؤثر تھی بچوں کی بھی ضرورت پوری ھو رھی تھی ۔اور کچھ نا کچھ پیسے بھی جمع کر رھی تھی کہ کچھ بنا لونگی ۔یہ سب باتیں سوچ کر سب برداشت کر رھی تھی ایک دن میں آٹا گوندھنے لگی ۔تو بابر کسی نے دروازے پر دستک دی میں نے دروازہ کھولا تو کوئی بھی نہیں تھا ۔میں نے گلی میں بھی دیکھا دور دور تک کوئی بھی نہیں تھا۔
اسی طرح تین بار دستک ھوئی تینوں بار کوئی بھی نہیں تھا ۔میں بہت حیران تھی کہ کون ھے خیر میں نے آٹا گوندھ کر بابر بنی الماری میں رکھا ھانڈی کل کی بنی تھی۔ میں نے سوچا صابر آئیں گے تو روٹیاں بنا لوں گی اور دروازے کو اندر سے بند کر دیا ۔کچھ دیر بعد دروازہ ویسے ھی بجنا شروع ھو گیا بلکہ بہت بری طرح سے دروازے کو کسی نے پیٹنا شروع کر دیا۔ میری دونوں بچیاں جاگ گیں شور سے میں نے بھی تنگ آ کر اندر سے کہا کون ھو کیا چاہتے ھو ۔میرا یہ کہنا تھا کہ دروازہ کسی نے پیٹنا ھی بند کر دیا۔
پرانا دروازہ تھا مجھے ڈر تھا کہ ٹوٹ ھی نا جائے۔
اس کے بعد مجھے باقاعدہ کسی کے پاؤں رگڑ رگڑ کر واپس جانے کی قدموں کی آواز سنائی دی ۔میری اتنی ھمت نہیں تھی کہ میں کھڑکی ھی سے دیکھ لوں اس کے بعد میں خوفزدہ ھو چکی تھی۔ رات کو میں نے جب ساری بات ان کو سنائی تو وہ بھی بہت پریشان ھو گئے ۔انہوں نے مجھے بہت تسلی دی اور کہا کہ تم نے صحن میں جانا ھی نہیں ھے۔ اور میں اپنے مالک سے بات کرتا ھوں۔ وہ میری ڈیوٹی کا وقت بدل دے دوپر تک میں گھر آ جایا کروں گا۔
ایک دن تو میں صحن میں نہیں نکلی ڈر بہت گئی تھی۔ دوسرے دن دروازہ پھر بجا میں نے کمرے سے ھی کہا کون ھے تو باہر سے باقاعدہ آواز آئی بہن میں آپکے ساتھ والی گلی کی ھوں بارھویں کی نیاز لای ھوں۔ تو میں نے لپک کر دروزاہ کھولا آگے ایک عورت پلیٹ پکڑے تھی ۔میں نے اس کو اندر آنے کا کہا تو آگئی کہنے لگی کہ آپ کو ایک دو بار اپنے میاں کے ساتھ دیکھا تو پتا چلا کہ مکان کرائے پر لیا ھے۔ ویسے ایک بات ھے آپ بہت دل گردے والی ھو اکیلے رہ لیا اس میں مجھے اسکی بات نے چونکا دیا تھا۔
میں نے پوچھا جی کیا مطلب وہ بولی بہن
دیکھو اللہ تعالیٰ سب کو اپنی رحمت تلے رکھے اس مکان کو تو کھنڈر کہتے ہیں۔ اسی نام سے مشہور ھے اسکی وجہ تھی کہ گر گیا تھا پھر اس کو کسی نے خریدا اور بنایا لیکن دس سال ھو گئے ھیں۔ مالک تو خود بھی یہ مکان چھوڑ گیا تھا اسکے بعد سے اب لگا ھے تو حیرت ھوئی۔
میں نے پھر پوچھا کیسی حیرت تو بولی دیکھو بہن تم لوگ نئے ھو ۔میرا مقصد ھرگز تم لوگوں کو بہکانا یا ڈرانا نہیں ھے۔ لیکن میری مانو تو جتنی جلدی ھو اس گھر کو چھوڑ دو بہن چھوٹے بچوں کا ساتھ ھے۔ اوپر سے تمھاری حالت میری مانو تو چھوڑ دو یہ مکان اسے کھنڈر کہتے ہیں۔ کوئی بھی آباد نہیں ھوا ھے ادھر تم لوگ چلے جاؤ تو بہتر ھے ۔یہ بول کر وہ آٹھ کھڑی ھوئی اور چلی گئی لیکن مجھے بہت زیادہ پریشان کر گئی۔
اس کہانی کا پارٹ ٹو انشاءاللہ کچھ دنوں کے بعد اے گا شکریہ آصفہ گلزار
آسیب زدہ مکان
✭ نوٹ :- عمدہ قسم کے سبق آموز واقعات وحکایات کیلئے آج ہی ہمارا ٹیلی گرام چینل جوائن کریں۔
نوٹ :- ایسے ہی دل کو موہ لینے والے اور دل کو چھو لینے والے واقعات و حکایات پڑھنے کے لئے روز ویب سائٹ کا وزٹ کریں۔ اور اپنے دوست و احباب اور متعلقین کو بھی شیئر کریں تاکہ آپ کے ذریعے ان کا بھی فائدہ ہو ۔
Leave a Comment