khofnak kahani – ٹھنڈی سڑک مکمل سچی کہانی

khofnak kahani - ٹھنڈی سڑک مکمل سچی کہانی
Written by kahaniinurdu

ٹھنڈی سڑک مکمل سچی کہانی  ۔ یہ واقع پوری طرح حقیقی واقعات میں سے ایک ہے ۔ ہمارے ساتھ یہ خوفناک واقع ہوا ، لیکن وہیں پر بہت سے لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ سب جھوٹ ہے ۔ ایسا ویسا کچھ نہیں ہوتا اور ایسی چیزیں صرف قصے کہانیوں میں ہی ہوتیں ہیں ۔ اور شاید میں بھی ایسا ہی تھا لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ کچھ تو ہوتا ہے ۔ جس سے بہت سے لوگ گھبرا جاتے ہیں ۔

جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے ۔ پھر بھی بہت سے لوگ آج بھی کہیں نہ کہیں کسی ڈراؤنے واقعے سے خوفزدہ نظر آتے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ جیسے ہم لوگ اس دنیا میں موجود ہیں ۔ اسی طرح اور بھی بہت سی مخلوقات اس دنیا میں ہمارے ارد گرد موجود ہے ۔ ان میں سے کچھ تو وہ مخلوقات ہیں جن کو ہم دیکھ سکتے ہیں ۔ جیسا کہ جانور چرند پرند کیڑے مکوڑے سمندری مخلوقات وغیرہ وغیرہ ۔

لیکن کچھ مخلوقات ایسی بھی ہیں جن سے ہم ڈر بھی جاتے جیسا کہ ۔ جنگلی جانور شیر چیتا بھیڑیا سانپ بچھو وغیرہ وغیرہ ۔ کیونکہ یہ سب مخلوقات کو ہم صاف صاف دیکھ سکتے ہیں ۔ لیکن اس دنیا میں بہت سی ایسی بھی مخلوقات جن کو شاید آج تک ہم نے دیکھا ہی نہیں ہے ۔ پر وہ اس دنیا میں ہمارے ساتھ موجود ہیں جیسے کہ وہ مخلوق جن کو ہم ہوائی چیزیں کہتے ہیں ۔ ان میں ( جنات) (چڑیل) چھلاوا ڈائن اور بدروح شامل ہیں ۔

یہ وہ چیزیں ہیں جو کہ زیادہ تر ویران جگہوں پر خالی پڑے مکانوں میں پرانے درختوں پر گندی جگہوں پر اکثر پائی جاتی ہیں ۔ٹھنڈی سڑک

اور جس خالی جگہ پر 40 دن تک سورج کی روشنی نہ پڑے اور لائٹ نہ جلے تو یہ چیزیں وہاں اکثر بسیرا کر لیتی ہیں ۔ کیونکہ کہ ان چیزوں کو ویرانی اور اندھیرا ہی زیادہ پسند ہوتا ہے ۔ تاکہ ان کا کسی بھی انسان سے سامنا نہ ہو اور جب ہمارا ان سے سامنا ہوتا ہے ۔ تو ان کو بھی اتنا ہی برا لگتا ہے جتنا کہ کوئی اگر ہماری جگہ پر قبضہ کرے تو ہمیں برا لگتا ہے ۔ اس وجہ سے یہ ہمیں وہاں سے ڈرا کر بھگانے کی کوشش کرتیں ہیں ۔

تاکہ ہم اس جگہ کو چھوڑ دیں اور وہ اپنا بسیرا قائم رکھیں ۔ اور دوستو ان میں بھی بہت سی اقسام ہوتی ہیں ۔ جن میں سے کچھ تو انسان کو صرف ڈراتی ہیں اور کچھ ایسی بھی ہیں ۔ جو کہ انسان کو نقصان بھی پہنچا دیتی ہیں اور ایسی چیزیں اکثر ہمیں اکیلے میں ہی ڈراتی ہیں ۔ جیسا کہ ہم جب اکیلے کسی سنسان جگہ سے گزرتے ہیں ۔ تو اچانک سے اس جگہ پر کسی خوفناک آواز کے آنے سے ہمارے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔

تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ آپ اس چیز کی حدود میں سے گزر رہے ہوتے ہیں ۔ اور یہ ضروری نہیں کہ وہ جگہ صرف گھر سے باہر ہی ہو بلکہ یہ جگہ کوئی بھی ہو سکتی ہے ۔ جیسے کے آپ گھر کا کوئی ایسا حصہ جہاں پر آپ رات میں کم ہی جاتے ہیں سٹوروم بیسمنٹ چھت وغیرہ ۔ تو کبھی کبھی ہم ان کو دیکھ نہیں پاتے لیکن ان کو محسوس ضرور کر لیتے ہیں ۔ اور کبھی جب ان میں سے ایک بھی چیز ہمیں سامنے رونما ہو جائے تو ۔ ہم بہت زیادہ ڈر جاتے ہیں ۔

کیونکہ کے ہمارا ان چیزوں سے کبھی واسطہ نہیں پڑا ہوتا ۔

تو اس وجہ سے ان کو اپنے سامنے دیکھ کر ہم بہت زیادہ ڈر جاتے ہیں ۔ اور ہوش کھو دیتے ہیں تو دوستو میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا ۔ میں بھی دوسرے لوگوں کی طرح ان چیزوں پر یقین نہیں رکھتا تھا ۔ جبکہ ان چیزوں نے ہمارے ایک پرانے بیسمنٹ میں قبضہ کیا ہوا تھا ۔ اور مجھے تب اچھی خاصی ہوش تھی جب میرے بابا کے ایک دوست عالم صاحب نے ان چیزوں کا خاتمہ کیا تھا ۔ اس بیسمنٹ سے اور اس کے بعد بھی بہت سارے واقعات میرے آنکھوں کے سامنے ہو چکے تھے ۔

لیکن میں وہ سب بھول کر پھر سے اس بات پر قائم ہو گیا تھا ۔ کہ اب ایسا ویسا کچھ نہیں ہے ۔ کیونکہ میں ان واقعات سے ابھر آیا تھا ۔ اور اب میں خود کو ایک بہادر انسان سمجھتا تھا اور یہی چیز میں اپنے دوستوں کو سکھانا چاہتا تھا ۔ جب بھی کوئی دوست مجھے ان چیزوں کے بارے میں بتاتا تو میں اس کا مذاق اڑایا کرتا تھا ۔ میں اس کو کہتا تم بہت ہی بڑے ڈرپوک ہو ایسا ویسا کچھ نہیں ہوتا ۔ یہ چیزیں پرانے دور میں ہوتیں تھیں اب نہیں ۔

اور پھر ایک بار میں دوستوں کے ساتھ سینما گیا ۔ 9 سے 12 کا شو دیکھا اور سب دوست سینما سے باہر نکل آئے ۔ تبھی میرے ایک دوست نے کہا یار دیکھو تو دھند اتنی نیچے تک آگئ ہے ۔ کہ کچھ نظر ہی نہیں آرہا ۔ کیونکہ دسمبر کا مہینہ تھا اور سردی بہت ہی زیادہ تھی ۔ اس لیئے سینیما سے نکلتے ہی میرے تو دانت آپس میں بجنے لگے تھے ۔ دھند اتنی شدید تھی کہ حد نگاہ صرف دس قدم ہی رہ گئی تھی ۔

میں نے کہا ارے یار اب تو بائیک بھی کچھوے کی رفتار سے چلانی پڑے گی ۔

دیکھو تو واقعی میں کچھ دکھائی نہیں دے رہا ۔ ایسے میں ٹائم پر گھر کیسے پہنچیں گے ۔ دوستوں نے کہا یار کوئی بات نہیں اب گھر تو جانا ہی ہے نا ویسے بھی ہم یہاں رک کر دھند ختم ہونے کا انتظار تھوڑی نا کریں گے ۔ چلو نکلتے ہیں ۔ اس کے بعد ہم سب نے اپنی اپنی بائیک سٹارٹ کی اور وہاں سے ایک ساتھ گھر کی طرف چل دیئے ۔ ابھی کچھ ہی دور گئے تھے کہ ایک دوست بولا یار سڑک بالکل خالی ہے ۔

کوئی ٹریفک نہیں کوئی نہ ہی کو روکنے والا تو کیوں نہ ریس ہو جائے ۔ دیکھتے ہیں کہ محلے میں سب سے پہلے کون پہنچتا ہے ۔ ؟؟ یہ سن کر باقی دوستوں نے کہا تو چلو پھر آج دیکھ لیتے ہیں ۔ کس میں کتنا دم ہے میں نے کہا ارے کیوں مرنے والے کام کر رہے ۔ ہو دس قدم سے آگے تو کچھ نظر نہیں آرہا اور اوپر سے تم لوگ ریس کی بات کر رہے ہو ۔ ؟ اتنے میں عامر نے کہا دیمی سیدھے سے بول تجھے ڈر لگ رہا ہے ۔ کیونکہ تم اس وقت ہم سے جیت نہیں سکتا ۔

میں نے کہا یار ایسی بات نہیں ہے ۔ دھند کی وجہ سے کچھ نظر تو آ نہیں رہا تو ایسے میں ریس کیسی ۔ ؟؟ تمہیں نہیں لگتا کہ ہمیں اس وقت بہت احتیاط سے جانا چاہیئے ۔ ؟؟ تبھی میرے دوسرے دوست نے کہا ارے ہم سب لوگ لگاتے ہیں ریس ۔ اس کو آرام آرام سے آنے دو پیچھے ویسے بھی جب ہم اس کے سامنے بجلی کی رفتار سے جائیں گے ۔ تو مجھے یقین ہے کہ اس کی ساری احتیاطی نصیحتیں یہ خود ہی بھول کر بائیک کو ہوا کی طرح اڑائے گا ۔

کیونکہ اس کو چھیڑنے کا یہی طریقہ ہے جب بھی کوئی اس سے آگے جاتا ہے ۔

تو یہ خودبخود اس سے ریس لگا لیتا ہے اور اس سے آگے نکل جاتا ہے ۔ بھلا سب لوگ جانتے نہیں ہو اسے ۔ ؟ یہ صرف ڈرامے بازی کر رہا ہے اور کچھ نہیں ۔ اتنے میں ایک دوست نے کہا چلو تو پھر شروع کرتے ہیں ۔ ۔ تھری، ٹو، ون چلو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نے یہ کہہ کر سب نے اپنی اپنی بائیکس کی سپیڈ تیز کر لی اور دیکھتے ہی دیکھتے دھند میں غائب ہوگئے ۔ میں نے عام سی جیکٹ پہن رکھی تھی اور میں نے ہاتھوں میں دستانے بھی نہیں پہنے ہوئے تھے ۔

جس کی وجہ سے میرے ہاتھ پوری طرح سردی سے ٹھر گئے تھے ۔ مجھے بہت ہی زیادہ ٹھنڈ لگ رہی تھی ۔ اس وجہ سے میں نے اپنی بائیک کی سپیڈ آہستہ ہی رکھی ۔ کیونکہ میں سردی سے کانپ رہا تھا اس وجہ سے میں بہت زیادہ سلو ہو گیا تھا ۔ اب پوری سڑک ویران تھی اور میں اکیلا ہی اس سڑک پر پاگلوں کی طرح جارہا تھا ۔ اب میں بہت پریشان ہو رہا تھا کیونکہ سڑک پر بہت سناٹا تھا ۔ بہت ہی دیر بعد کوئی ایک آدھ گاڑی یا بائیک پاس سے گزر جاتی ۔

اس کے بعد سڑک پھر سے ویران ہو جاتی ۔ میں چپ چاپ بس چلتا جا رہا تھا اور ایسی خاموشی تھی کہ مجھے سوائے میری بائیک کی آواز کے اور کسی کی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی ۔ میں چلتے چلتے ایک موڑ پر جا کر رک گیا یہ ایک شارٹ کٹ راستہ تھا ۔ اس شارٹ کٹ راستے کا نام ٹھنڈی سڑک تھا ۔ ( اور یہ اس سڑک کا نیا نام ہے) جبکہ کے یہ سڑک اس وقت بانسوں والی سڑک کے نام سے مشہور تھی ۔ کیونکہ کے اس سڑک کے دونوں اطراف میں میں بانسوں کے بڑے بڑے درخت لگے ہوئے تھے ۔

دونوں اطراف کے درخت اس طرح اس سڑک پر جھکے ہوئے تھے کہ جیسے ۔

اس سڑک پر کسی نے بانسوں کی چھت ڈالی ہو اور سورج کی روشنی بھی بہت کم ہی اس سڑک پر پڑتی تھی ۔ بس یوں سمجھ لو یہ سڑک ایک بہت بڑی سرونگ کی طرح تھی ۔ جو درختوں سے پوری طرح ڈھکی ہوئی تھی ۔ میں نے سوچا اگر میں بانسوں والی سڑک سے جاؤں تو جلدی ہی اپنے دوستوں تک پہنچ جاؤں گا ۔ کیونکہ میرے دوستوں جانا تو دھرم پورہ ہی ہے ۔ وہ سیدھا مال روڈ کی طرف سے دھرم پورہ جائیں گے ۔ میں ان کے پاس پہنچ جاؤں گا ۔

لیکن اس کے ساتھ ساتھ میں تھوڑا گھبرا بھی رہا تھا ۔ کیونکہ یہ سڑک پہلے ہی عجیب و غریب واقعات سے بہت بدنام تھی ۔ بہت سے لوگوں سے میں نے اس سڑک کے بارے میں سنا تھا ۔ کہ اس راستے پر بہت سی ہوائی چیزوں کا بسیرا ہے ۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جو بھی رات 7 بجے کے بعد اس سڑک سے گزرتا ہے ۔ اس کے ساتھ ضرور کچھ انہونی ہو جاتی ہے ۔ کافی لوگ تو اس سڑک سے دن کے وقت بھی نہیں گزرتے تھے ۔ کیونکہ وہ اس سڑک کو لے کر بہت ڈرے ہوئے تھے ۔

کیونکہ اس سڑک کے دونوں اطراف میں کوئی آبادی نہیں تھی ۔ بس کچھ جنگل نما جھاڑیاں اور بانس کے درخت ہی تھے ۔ بس کچھ دور جا کر ایک سائیڈ پر پرانا سا کالج تھا پر اس کالج میں جانے کا راستہ بھی نہر والی سائیڈ پر تھا ۔ یعنی اس سڑک پر صرف کالج کی پیچھے والی دیوار ہی تھی ۔ اور رات 7 بجے کے بعد یہاں سے کوئی نہیں گزرتا ۔ جبکہ میں تو تقریباً رات 12:38 کے قریب اس سڑک پر کھڑا تھا ۔

پھر میں نے سوچا یار میں تو ایسے ہی ڈر رہا ہوں ۔

لوگوں کا کیا ہے لوگ تو ایسے ہی سنی سنائی باتوں پر یقین کرلیتے ہیں ۔ جب کہ میرے نزدیک یہ صرف افواہیں ہی ہیں ۔ یہ سوچ کر میں اس سڑک پر چل پڑا اور آہستہ آہستہ بائیک چلاتا ہوا آگے بڑھنے لگا ۔ اس سڑک پر دھند اور بھی زیادہ تھی ۔ بس بائیک کی لائٹ میں ہی تھوڑا بہت نظر آرہا تھا ۔ میں ابھی تھوڑا دور ہی گیا تھا ۔ کہ مجھے ایسے لگا کہ سڑک کے بائیں طرف کوئی سفید کپڑے پہن کر کھڑا ہے ۔ لیکن مجھے صاف دکھائی نہیں دے رہا تھا ۔

میں بائیک کی سپیڈ بلکل کم کر لی اور تھوڑا اور آگے گیا ۔ بائیک کی لائٹ اس کی سفی کپڑے والی چیز طرف ڈالی تو دیکھا کہ سڑک کے بائیں طرف ایک بہت ہی خوبصورت اور دلکش سفید لباس پہنے ایک عورت کھڑی ہے ۔ اس کے کالے گھنگرالے لمبے لمبے بال تھے ۔ جو کہ اس نے کھلے چھوڑے ہوئے تھے ۔ اس کا چہرہ بہت ہی پرکشش اور خوبصورت تھا ۔ اس نے بہت ساری جیولری پہن رکھی تھی ۔ ایسا لگ رہا تھا کہ یہ کسی امیر ترین گھرانے سے تعلق رکھتی ہے ۔

پھر میں نے سوچا کہ یار رات کا 1 بجنے والا ہے ۔ یہ عورت اس ٹائم یہاں کیا کر رہی ہے ۔ یاں یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ کوئی دو نمبر عورت ہے ۔ جو کہ رات کو دھندہ کرنے نکلی ہے ۔ یا پھر یہ کوئی ڈاکوؤں کے ساتھ ملی ہوئی عورت ہو گی جو لفٹ لینے کے بہانے لوگوں کو لوٹ لیتی ہو گی ۔ اس کے ساتھی بھی یہاں آس پاس ہی چھپے ہونگے ۔ میں نے بائیک کی سپیڈ اور زیادہ سلو کرلی ۔ میں بہت دھیرے دھیرے یہ سب سوچتا ہوا اس کی طرف بڑھ رہا تھا ۔

جب اس کے اور میرے بیچ صرف دس قدم کا فاضلہ رہ گیا ۔

تو میں نے بائیک سڑک کے دائیں طرف کرلی اور روک لی جبکہ وہ سڑک کے بائیں طرف ہی کھڑی تھی ۔ میں نے سوچا اگر میرے ساتھ کچھ بھی برا ہونے لگے گا تو مجھے بھاگنے میں آسانی رہے گی ۔ اس وجہ سے بائیک میں نے سٹارٹ ہی رکھی ۔ میں نے دور سے ہی بائیک پر بیٹھے ہوئے اس کو پوچھا کون ہو تم ۔ اس نے مجھے کوئی جواب نہیں دیا ۔ میں نے سوچا شاید اس کو میری آواز سنائی نہیں دی ۔ میں نے چار قدم بائیک اور آگے لے لی اور پھر سے تھوڑا اونچی آواز میں کہا کون ہو تم اور یہاں کیا کر رہی ہو ۔ ؟؟

لیکن اس نے پھر سے کوئی جواب نہ دیا ۔ اب میں تھوڑا گھبرانے لگ گیا تھا کیونکہ میں سوچ رہا تھا ۔ کہ یہ جو مجھے جواب نہیں دے رہی اس کا مطلب ضرور کوئی نہ کوئی گڑبڑ ہے ۔ اس کے ساتھ میں ادھر اُدھر بھی دیکھ رہا تھا کہ کہیں اس کے ساتھی تو نہیں آرہے ۔ میں نے آخری بار اونچی آواز میں کہا دیکھو اگر تم نے اب بھی جواب نہ دیا تو میں پھر جانے لگا ہوں ۔

تو اس نے اچانک سے رونا شروع کر دیا ۔ اور روتے ہوئے بولی میں بہت ہی مشکل میں ہوں ۔ میں اپنے شوہر کے ساتھ اپنے رشتے داروں کی شادی کی تقریب سے واپس آرہی تھی ۔ کہ اچانک سے ہماری بائیک پنکچر ہو گئی اور ہم پیدل چل رہے تھے ۔ کہ میں تھک گئی تو میرے شوہر نے مجھے سے کہا تم یہاں رکو میں جلدی ہی کہیں سے پنکچر لگوا کر لاتا ہوں ۔ میں تب سے یہاں کھڑی ہوں پر میرا شوہر ابھی تک لوٹ کر نہیں آیا اور اس سنسان جگہ پر مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے ۔

کہیں کوئی چور ڈاکو مجھے کوئی نقصان نہ پہنچا دے اور اس وجہ سے مجھے بہت رونا آرہا ہے ۔ ۔

اس کی باتیں سن کر میرے دل میں رحم آگیا ۔ میں بائیک سے اتر کر اس کی طرف گیا پھر میں نے کہا دیکھیں آپ روئیں مت مجھے یہ بتائیں کہ آپ کا شوہر کس طرف گیا ہے ۔ تو اس عورت نے دھرم پورہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا وہ ادھر کی طرف گئے ہیں ۔ تو میں نے اس عورت سے کہا اگر آپ کو برا نہ لگے تو آپ میرے ساتھ بیٹھ جائیں میں آپ کو دھرم پورہ اتار دوں گا ۔ پھر آپ ادھر سے اپنے گھر چلی جانا کیونکہ دھرم پورہ میں اس ٹائم بھی آپ کو رکشہ وغیرہ مل ہی جائے گا ۔

ویسے بھی میں بھی دھرم پورہ ہی جارہا ہوں ۔ تو اگر جانا ہے تو بتائیں ۔ ؟؟ اس عورت نے اپنی آنکھوں سے آنسوں پوچھتے ہوئے کہا آپ کا بہت بہت شکریہ ۔ آپ مجھے بس رکشہ تک لے جائیں آگے میں خود ہی چلی جاؤں گی ۔ میں واپس بائیک کی طرف گیا اور بائیک سٹارٹ کر کے اس کے پاس لے گیا ۔ وہ بائیک پر بیٹھ گئی پھر ہم وہاں سے چل پڑے اور اچانک سے مجھے بہت زیادہ ٹھنڈ لگنے لگی ۔ میں کانپتے ہوئے بائیک چلا رہا تھا ہم دونوں بلکل خاموش تھے ۔

لیکن میں بہت خوش تھا کہ میرے ساتھ بہت خوبصورت عورت بیٹھی ہوئی ہے ۔ ایسے میں اس سے دوستی کرنے کا موقع بھی مل جائے گا ۔ ہو سکتا ہے کہ یہ بیسٹ فرنڈ بن جائے تو میں نے سوچا کہ اس سے کوئی بات چیت ہی کرلوں ۔ میں نے اس کو اپنے بارے میں بتایا کہ میرا نام دیمی ہے اور ہم فلاں جگہ رہتے ہیں ۔ آج میں فلاں فلم دیکھ کر آیا ہوں لیکن وہ خاموشی سے بیٹھی میری باتیں سنتی رہی پر اس نے مجھ سے کوئی بات نہیں کی ۔

اب میں سوچ رہا تھا کہ شاید اس نے مجھے کوئی گھاس نہیں ڈالی ۔

تو میں کچھ دیر کے لیئے واپس چپ ہو گیا اور خاموشی سے بائیک چلاتا رہا اور تھوڑی دیر کے بعد میں نے اس سے پوچھا آپ کا نام کیا ہے اور آپ کہا رہتی ہو لیکن اس نے کوئی جواب نہیں دیا میں آگے دیکھتے ہوئے اس سے ادھر اُدھر کی باتیں کرتا رہا پر اس نے مجھے پھر سے کوئی بات نہ کی ۔ اب مجھے اس پر غصہ آرہا تھا میں سوچ رہا تھا لگتا ہے یہ اپنی خوبصورتی پہ بہت زیادہ گھمنڈ کر رہی ہے اور مجھے نظر انداز کر رہی ہے

میں نے کہا دیکھو میں نہیں جانتا کہ تم میری بات کا جواب کیوں نہیں دی رہی لیکن کچھ تو بات کریں مجھے لگتا ہے کہ میں خود سے باتیں کرتا جارہا ہوں اب کچھ بولو بھی ؟؟ تبھی کسی نے مجھے خوفناک آواز میں غصے سے کہا چپ چاپ آگے دیکھ کر چلو ورنہ پچھتاؤ گے ۔ میں چونک گیا اور اب میں تھوڑا سا ڈرنے لگا کیونکہ میں سوچ رہا تھا کہ کہیں یہ غصے میں آ کر میرے اوپر کسی قسم کا الزام نہ لگا دے

لیکن میں نے پیچھے نہیں دیکھا میں نے بائیک تیز کر لی پر وہ سڑک ختم ہی نہیں ہو رہی تھی اور جب میں نے غور کیا تو بائیک ابھی بھی بلکل سلو تھی جب کہ میں اس کو چوتھے گئیر میں فل تیز چلا رہا تھا ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے بائیک پر کسی نے بہت زیادہ وزن رکھ دیا ہو اور یہ سب دیکھ کر میں اب پوری طرح گھبرانے لگا کیونکہ کے میں ابھی آدھی سڑک پر بھی نہیں جا پایا تھا جبکہ پوری سڑک صرف دو کلومیٹر کی تھی میں پوری طرح سے بائیک کو بھگانے کی کوشش کر رہا تھا

کہ اتنے میں میرے پیچھے سے زور زور سے سانس لینے کی آواز سنائی دینے لگی ۔

جیسے کوئی میرے کان کے پاس ہی کوئی تیزی سے سانس لے رہا ہے میرے رونگٹے کھڑے ہونے شروع ہو گئے اب میں کچھ کچھ سمجھ گیا تھا کہ میرے ساتھ کوئی عورت نہیں ہے بلکہ کچھ اور ہی چیز ہے اتنے میں اس عورت نے میرے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور اچانک سے میرے پورے جسم میں ایک ڈر کی لہر دوڑ پڑی ۔ میں نے ڈرتے ہوئے جب اپنے کاندھے پر نظر ڈالی تو مجھے ایک عجیب سا بڑے بڑے نوکیلے ناخن والا کالا سا ہاتھ دکھائی دیا

وہ ہاتھ آہستہ آہستہ سے میری گردن کی طرف بڑھنے لگا اور میرے پیچھے سے ایک خوفناک ہنسی کی آواز آنے لگی وہ ہنسی ایسی تھی کہ اس کے آگے میری بائیک کی آواز بھی دب گئی اور بائیک جیسے کسی جگہ میں پھنس گئی تھی اس کے ٹائر تو گھوم رہے تھے پر بائیک ایک ہی جگہ کھڑی تھی تبھی کسی نے پیچھے سے میرے دوسرے کاندھے پر اپنا منہ رکھ دیا میں ڈر سے تھر تھر کانپنے لگا ابھی میں بائیک سے گرنے ہی والا تھا

کہ پتا نہیں کیسے میں نے ہمت کر کے زور زور سے کلمہ پڑھنا شروع کر دیا اور ایسا کرتے ہی میرے پیچھے سے ایک خوفناک چیخ کی آواز آئی میں نے کانپتی ہوئی گردن سے پیچھے دیکھا تو میرے ساتھ ہی ایک بہت بھیانک شکل والی عورت بیٹھی ہوئی تھی اس کی شکل پوری طرح کالی لیکن اس کی بڑی بڑی سفید آنکھیں تھیں جو رات میں لائٹ کی طرح روشن تھیں اور اس نے ایک ہاتھ میری گردن پر رکھا ہوا تھا

دوسرے ہاتھ سے ایک درخت کو پکڑ ہوا تھا جو کافی دور تھا ۔

شاید اسی وجہ سے بائیک آگے نہیں جا رہی تھی یہ سب دیکھ کر میرا پورا جسم بلکل برف کی طرح ٹھنڈا پڑ گیا میں اور زیادہ اونچی آواز میں کلمہ پڑھتے لگا اور اس نے میری گردن کو چھوڑ دیا اور میں نے جلدی سے کلمہ پڑھتے ہوئے بائیک کو پوری طرح ریس دی تو وہ عورت بائیک سے نیچے گر گئی اور اچانک سے بائیک فل سپیڈ سے آگے بڑھنے لگی اور بلکل ہلکی ہو گئی

میں نے پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور پانچ چھ منٹ میں ہی دھرم پورہ کے چونک میں جا پہنچا اور بنا روکے ہی گھر چلا گیا اب وہ چیز کہاں تک میرے پیچھے بھاگی ہو گی مجھے کچھ پتا نہیں ۔ بس اتنا پتا ہے کہ اس دن مجھے فوراً سے بہت تیز بخار ہو گیا تھا اور اس دن کے بعد میں نے دوبارہ کسی کا بھی مذاق نہیں بنایا کیونکہ میں جان چکا ہوں کہ واقعی میں ہوائی چیزیں ہر دور میں ہوتی ہیں اور ان کو بھی کبھی بھولنا نہیں چاہیئے ۔

واقع ختم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

دوستو واقع پسند آیا تو کومنٹس کر کے بتایئے گا اللّٰہ پاک آپ کو اور آپ کے تمام گھر والوں کو ہمیشہ خوش و خرم رکھے آمین ثم آمین یا رب العالمین ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

khofnak kahani – ٹھنڈی سڑک مکمل سچی کہانی

✭ نوٹ :- عمدہ قسم کے سبق آموز واقعات وحکایات کیلئے آج ہی ہمارا ٹیلی گرام چینل جوائن کریں ۔

نوٹ :- ایسے ہی دل کو موہ لینے والے اور دل کو چھو لینے والے واقعات و حکایات پڑھنے کے لئے روز ویب سائٹ کا وزٹ کریں ۔ اور اپنے دوست و احباب اور متعلقین کو بھی شیئر کریں تاکہ آپ کے ذریعے ان کا بھی فائدہ

Leave a Comment