urdu sex story – نوکر کا مالکن سے عشق 

نوکر کا مالکن سے عشق
Written by kahaniinurdu

نوکر کا مالکن سے عشق 

جب وہ نوکری کے لئے میرے پاس آیا تو میں اس حسن  کو دیکھتی رہ گئی ۔ سیدھا سادہ بڑا بھولا بھالا نوجوان سادہ سے کپڑوں میں ملبوس تھا سرخ و سفید رنگت دراز قد پہاڑوں کا باسی مگر سخت ضرورت مند نظر آتا تھا ۔ اس نے اپنا نام ساجد بتایا تم کہاں کے رہنے والے ہو اور کیا تعلیم ہے ۔ کہنے لگا مردان کا رہنے والا ہوں میٹرک  پاس ہوں گاڑی چلانا بھی جانتا ہوں اس نے اپنی جگہ  کا نام بھی بتایا ۔

میں نے کہا شام کو سابقہ ملازمت کے متعلق کاغذات لیتے آنا میرا بیٹا دیکھ لے گا ۔ میرے کہنے پر وہ وہاں سے چلا گیا مگر میرے ذہن پر اپنے شفاف لہجے کے گہرے نقوش چھوڑ گیا ۔ مجھے بیوہ ہوئے چودہ پندرہ سال گزر گئے تھے تب سے ابھی تک کسی مرد میں دلچسپی محسوس نہیں ہوئی تھی ۔ اپنے شوہر کی اچانک وفات کے بعد ان کا کاروبار سنبھالے اور اپنے اکلوتے  بیٹے افتخار کی پرورش کرنے میں لگی ہوئی تھی ۔ اپنی ذات کے بارے میں سوچا بھی نہیں تھا ۔

جب میرے بیٹے نے تعلیم مکمل کر لی تو اس نے اپنے والد کا بھی  بزنس سنبھال لیا ۔ نوکر کا مالکن سے عشق 

مگر پھر بھی مجھے فرصت نہیں ملی چاہتی تھی کہ وہ مزید تعلیم کے لیے بیرون ملک چلا جائے ۔ سوچ رہی تھی کہ کوئی شریف اور اچھا معاون مل جائے جو میرے ساتھ کاروبار میں ہاتھ بٹا سکے تو بیٹے کے ہوتے اسے رکھ لوں ۔ تاکہ وہ ٹرین ہو جائے اسی اثناء میں ہمارے پرانے محافظ نے اپنے علاقے واپس جانے کا فیصلہ کر لیا تو نئے محافظ کی ضرورت پیش آگئی ۔

تبھی میں نے قیوم لالا سے کہا کہ آپ ہی کوئی بھروسے کا آدمی لا دیں جو آپ کی جگہ کام کرسکے ۔ ملازمت کے سلسلے میں تبھی ساجد آیا تو مجھے پہلی نظر میں اچھا لگا  ساجد کو لالا ہی لے کر آیا تھا ۔ میرے بیٹے نے اسے بھروسے کا آدمی سمجھ کر رکھ لیا واقعی یہ لڑکا نیک تھا ۔ دیانتداری سے کچھ عرصہ کام کیا تو میں نے اسے اپنی تعلیمی قابلیت بڑھانے کی ترغیب دی ۔ وہ  خود بھی پڑھنا چاہتا تھا مگر حالات کی وجہ سے پڑھ نہیں سکا ۔

وہ ایک یتیم لڑکا تھا جس کا خاندان خانہ جنگی کی نذر ہو چکا تھا ۔ چچا نے  اس کی پرورش کی تھی مگر چچے کی بدسلوکی کےباعث اب مزید وہاں رہنا نہیں چاہتا تھا ۔ میرے کہنے سے ساجد نے شام کے کالج میں داخلہ لے لیا وہ محنتی اور ذہین تھا ۔ صبح سے پانچ بجے تک میرے بیٹے کے ساتھ آفس میں ہوتا اور شام کو کالج چلا جاتا ۔ اور رات کو کھانا کھا کر ہمارے دیے ہوئے کواٹر میں چلا جاتا تھا ۔ جلد ہی اس نے بزنس کے رموز بھی سیکھ لیے ۔

اسے آفس ورک بھی سونپ دیا اس کی جگہ ایک اور شخص کو میں نے محافظ رکھ لیا ۔

روز اول سے ہی  مجھے اس کے ساتھ لگاؤ ہو گیا ۔ اسی وجہ سے اس کی حلیمی  سنجیدگی اور فرمانبرداری بہت اچھی لگتی تھی ۔ اس نے اندازہ کر لیا کہ کھرا آدمی ہے اور جھوٹ بولنے والے لوگوں میں سے نہیں ہے ۔ میرا اندازہ درست نکلا اس نے بڑی جانفشانی سے ہر کام کیا ۔ جو بھی میں نے اس کے ذمہ لگایا تھا ۔ تو اس نے ہمارے دل میں جگہ بنالی میں اس کے ہر مسئلہ میں دلچسپی  لیتی ۔   اس کے  زیادہ تر  مسائل اپنی پڑھائی کے بارے میں ہوتے تھے ۔

جس چیز کی اسے ضرورت ہوتی میں فوری طور پر اسے مہیا کر دیتی ۔ اس کے امتحان ہوتے تو ہم اسے ان دنوں میں چھٹی دے دیتے تھے ۔ اور وہ پوری یکسوئی کے ساتھ پرچے دیتا یوں  اس نے گریجویشن مکمل کرلی میرے جیٹھ عرصہ دراز سے میں سکونت پذیر تھے ۔ انہی دنوں وہ پاکستان آئے میرے بیٹے سے کہا کہ تم میرے پاس لندن آ جاؤ ۔ بزنس میں ماسٹرز کر لو میرے گھر رہو گے تو ہر طرح سے تمہارا خیال رکھا جائے گا ۔

دراصل ان کا ارادہ میرے بیٹے سے اپنی بیٹی کی شادی کرنے کا تھا ۔ اسی لیے وہ میرے بیٹے کو اپنے ساتھ لے جانے پر مصر تھے ۔ میرا ایک ہی بیٹا تھا میں نہیں چاہتی تھی کہ مجھ سے جدا ہوں وہ اپنے والد کے بزنس کو بھی سنبھالے ہوئے تھا ۔ مگر تایا کے جوش دلانے پر وہ نئی دنیا میں جانے کے خواب آنکھوں میں بسا کر بزنس میرے حوالے کر کے لندن چلا گیا ۔ شادی سے پہلے میں نے  بزنس ایڈمنسٹریشن میں ڈگری لی تھی ۔

جبکہ شوہر کے کاروبار کو میں نے ہی سنبھالا ہوا تھا  کاروبار چلانے کا مجھے تجربہ تھا ۔

مگر اب اپنے بیٹے کے بغیر خود کو اکیلا محسوس کر رہی تھی ۔ ایسے میں اگر کسی کو سہارا بنا سکتی تھی تو ساجد ہی تھا ۔ وہ اپنے  گھر بار سے محروم رشتہ داروں سے ٹوٹا ہوا تھا ۔ ایسے میں اسے بھی کسی سہارے کی ضرورت تھی ۔ تبھی اس نے میرے کہنے پر تعلیم مکمل کی ۔ اور اس قدر محنت کی کہ بی کام  کیا اور پھر اپنی ایم بی اے کے ذریعے تعلیم مکمل کر لی ۔ جس روز میرا بیٹا لندن روانہ ہوا میں خوب روئی تھی ۔

اس نے میرے دکھ کو محسوس کرتے ہوئے مجھے تسلی دی اور کہا کہ آپ مجھ پر بھروسہ کریں ۔ آپ کو مایوس نہیں ہونے دوں گا اس کے ان الفاظ سے میں نے خود کو توانا محسوس کیا ۔ اس وقت مجھے اپنے محرم وجود کا شدت سے احساس ہو رہا تھا ۔ تمام زندگی محرومی میں گزارنے کا قلنک  بھی آج کے دن ہی ہوا ۔ جس بیٹے کے لئے عمر کے سنہری دن بیوگی میں گزارے وہ مجھے چھوڑ کر سمندر پار چلا گیا ۔ میں اپنے کمرے میں بیٹھی ماضی کی یادوں میں گم تھی ۔

آج پر ازدوجگی زندگی کا پرآسائش دور یاد آ رہا تھا ایسے میں ہمدردی کے چند الفاظ کے لیے میرا معاون ساجد سامنے آیا تھا ۔ تو نظریں  اس کے غمگسار چہرے پر جم گئیں اس نے مجھے انتہائی خلوص سے دلاسہ دیا مجھے بہت اچھا لگا ۔ مجھے اس کے ساتھ پانچ سال گزارنے کے بعد ایک پختہ اور مضبوط انسان اس میں نظر آتا تھا ۔ اس کے لڑکپن کا بھولپن کا دور ختم ہو گیا تھا وہ پر اعتماد اور برباد مرد دکھائی دے رہا تھا ۔

میرے دل میں خواہش ابھری کہ میرا غم بانٹ لیے اور ہم خوب اچھی طرح باتیں کریں مگر ۔

میرے اور اس کے درمیان جو فاصلہ تھا اسے پار کرنا اس کے بس کی بات تھی ۔ نوکر کا مالکن سے عشق 

نہ میرے بس کی وہ ملازم تھا میں مالکہ تھی ۔ اس دن کے بعد میں ہر طرح سے اس کا خیال رکھنے لگی وہ بھی پہلے سے زیادہ میری تابعداری کرنے لگا ۔ کئی بار سوچا کہ اگر میں بیوگی کے بعد پھر سے نئی زندگی کے بارے میں سوچتی تو یقینا اس طرح کے جیون ساتھی کی عارزو کرتی ۔ جو عورت کا احترام کرنے کے ساتھ دلسوزی سے غمگساری کا سلیقہ بھی جانتا ہو ۔ مگر زندگی کے اس موڑ پر آ چکے میرا بیٹا جوان تھا ۔

میری عمر 45 سال تھی اس طرح کی آرزو کرنا دیوان  خواب تھا ۔ اب یہ سوچ مجھے کسی طرح بھی زیب نہیں دیتی تھی ۔ ایک لمحے کا تصور بھی کہ ایک نئی زندگی پھر سے شروع کر دوں ۔ مجھے حجاب دلانے کو کافی تھا میری اور ساجد کی عمروں میں بھی بہت فرق تھا ۔ وہ عمر کے لحاظ سے میرے بیٹے کے برابر تھا اس کی عمر 22 سال ہوگی ۔ تاہم جب اس نے ایک مضبوط مرد کی مانند میری غم غساری کی تو مجھے اس کے تحفظ کا احساس ہوا جو کسی بھی عورت کو درکار ہوتا ہے ۔

جب وہ اکیلی اور بغیر مضبوط سہارے کے  زندگی گزار رہی ہوں ۔ اگرچہ دولت بھی ایک سہارا ہوتی ہے مگر وہ اتنا مضبوط نہیں ہوتا ۔ کبھی کبھی تو دولت ہی تنہا عورت کو بہت زیادہ غیر محفوظ بنا دیتی ہے ۔ ان دنوں ساجد میرا خیال رکھ رہا تھا میرے دل میں اس کے لیے فطری جذبات پیدا ہو رہے تھے ۔ جو میری عمر کی عورت کو زیب نہیں دیتے تھے ۔ میں تو ایک بچے کی ماں بنی اور بیوہ ہو گئی میری امنگیں اور آرزوئیں ادھوری رہ گئیں ۔ نوکر کا مالکن سے عشق 

اب  جبکہ اپنی ذمہ داریوں سے جاگی تو میرے اندر کی سوئی ہوئی عورت بیدار دار ہوگی ۔

کبھی سوچ کے کاش میری کوئی اور بھی اولاد ہوتی کبھی سوچتی کہ میں نے اپنا گھر کیوں نہیں بسایا ۔   آج میرے اردگرد میرے اپنے تو ہوتےاب جب بھی ساجد آمدنی کا حساب کتاب دینے آتا ۔ میرے سامنے بیٹھا ہوتا تو میری کیفیت عجیب ہوتی ۔ میں کس طرح سے اپنی کیفیت بتاتی کہ میں دوبارہ سے اپنا گھر بسانا چاہتی ہوں ۔ اب سمجھ میں آیا کیوں بیوی کو دوبارہ گھر بسانا چاہیے ۔

لوگ کہتے ہیں کہ بیوہ کا شادی کرنا کوئی جرم نہیں اور میں ان باتوں سے بیزاری محسوس کرتی تھی ۔ مجھے غصہ آتا تھا کہ بیوگی کوئی جرم تو  نہیں میرے پاس سب کچھ ہے مجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے ۔ مگر اب لگتا کہ عورت کا ہر حال میں حقیقی سہارا اس کا جیون ساتھی ہوتا ہے ۔ ایک روز ہم گاڑی میں سبزی لینے کے لئے مارکیٹ جا رہے تھے ۔ کار ایک جگہ سگنل بند ہونے کے باعث رکی ۔

ایک بوڑھے بھکاری نے ہاتھ پھیلا کر کہا کہ کبھ دے دے اللہ آپ کی جوڑی سلامت رکھے ۔ میں نے پچاس روپے اس کو دیئے اور کار آگے  بڑھا دی ترچھی اکھیوں سے ساجد کی طرف دیکھا ۔ وہ بھی کچھ شرمندہ سا ہو گیا تبھی اس کی خفت مٹانے کو میں نے کہا توبہ ہے کبھی کبھی یہ بھیکاری بھی  نہ کوئی انہونی بات کہہ دیتے ہیں ۔ اب اس عمر میں بھی کوئی عورت بیادہ ہو سکتی ہے کیوں نہیں ۔

ماشاءاللہ آپ کسی طرح بھی زیادہ عمر کی نہیں لگتی جبکہ اپنی قامت کی وجہ سے میں آپ سے عمر میں زیادہ لگتا ہوں ۔

اس کی بات سن کر میرے دل میں تو مسرت کا دریا بہنے لگا ۔ میں نے کہا انسان کو سمارٹ رہنا چاہیے اپنے آپ کا خیال رکھنا چاہیے ۔ ساجد تم کام میں ایسے مگن ہوگئے ہو کہ تمہیں اتنا ہوش نہیں رہا کہنے کو تو میں نے کہہ دیا مگر یہ بات کرکے میں خود شرمندہ ہو گی ۔ مجھے خفیف دیکھ کر اس نے میری خفت کو دور کرنا چاہا ۔ میڈم صحیح بات ہے آپ واقعی اپنی عمر سے 10سال کم لگتی ہیں ۔

بس رہنے بھی دو  تم مبالغہ آرائ  سے کام لے کر مجھے غلط فہمی میں مبتلا کر رہی ہو ۔ میڈم میں تو حقیقت کہہ رہا ہوں اب بھی آپ شاندار ہیں خود سے بے شک غافل رہتی ہیں ۔ آپ نے زندگی میں کیا دیکھا ہے آپ کو تو صرف اپنے بچے کی پرورش اور مستقبل کی فکر لگی رہتی تھی ۔ دن رات اسی دھن میں سرکردہ رہی چاہیے تو نئی خوشیاں حاصل کر سکتی ہیں کیا کہ رہے ہو ۔

ساجد خان میں ہنس پڑی کیا مجھے بہلا رہے ہو نہیں نہیں اسے احساس ہوا کہ وہ حد سے بڑھ گیا ۔ تبھی  ساجد معذرت خواہانہ انداز میں بولا معافی چاہتا ہوں ۔ شاید آپ کو میری باتیں ناگوار گزری ہیں  نہ جانے بے خیالی میں  کیا کہہ گیا یہ بات نہیں ۔ مگر تم ہی سوچو جبکہ آج کمسن لڑکیاں گھروں میں بن بیاہی بیٹھی ہیں ۔ مجھ جیسی لڑکی سے کون شادی کرے گا پھر وہ تھوڑی دیر چپ رہا ۔

اگر آپ ناراض نہ ہوں تو ایک بات کہنے کی جسارت کروں کہو ں ۔

ساجد میں آپ سے شادی کی آرزو رکھتا ہوں ۔ مجھے آپ کی چاہت اگر آپ چاہیں تو میں اس کی دیدہ دلیری اور جرت پر حیران رہ گئی ۔ کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ایسا موتی اور فرماں بردار ملازم کبھی اتنی بڑی بات کہہ دے گا  ۔ میں یکدم خاموش ہو گئی وہ سمجھا کہ ناراض ہو گئی ہوں ۔ تبھی اس کو بھی سانپ سونگھ گیا کچھ دیر خاموشی کے بعد بولا ۔ میڈم  مجھے معاف کردیں میں آپ سے یہ بات کر کے بہت شرمندہ ہوں ۔

میں نے خود کو سنبھالا دل کی دھڑکنوں کو قابو کیا اور کہا میں تم سے ناراض نہیں ہوں ۔ ساجد تم واقعی بہت اچھے ہو مگر ہماری عمروں میں بہت فرق ہے ۔ تم نے محض مجھ سے ہمدردی کے تحت ایسی بات کہی ہے ۔ مگر جذباتی فیصلوں پر ہمیشہ انسان کو پچھتانا پڑتا ہے ۔ اس نے پر عزم لہجے میں کہا آپ سے ایسی بات کہنا گستاخی تو ہوسکتی ہے ۔ یہ جذباتی فیصلہ بالکل نہیں ہے میں نے بہت سوچ سمجھ کر یہ بات کہی ہے میری اور تمہاری عمر کا اتنا فرق ہے ۔

ساجد کے میں تمہارے بچوں کی ماں بھی نہیں بن سکتی ۔ میں اس عمر سے بھی آگے نکل گئی ہوں  جب تمہاری عمر کے لوگ شادی کے بعد بچوں کی آرزو کرتے ہیں ۔ آپ کی اولاد ہے خدا آپ کے بیٹے کو سلامت رکھے میں ضروری نہیں سمجھتا کہ میری اولاد ہو ۔ تبھی مجھے لگا کہ یہ میری دولت پر نظریں نہ جمائے ہو ۔ خود سے چھوٹے بندے سے شادی کرنے کا مطلب تو بڑھاپے میں خود ہی مٹی پلید کرنا ہے ۔ نوکر کا مالکن سے عشق 

اچھا تم سوچ لو میں بھی سوچ کر جواب دوں گی اب میں سخت کشمکش میں تھی ۔

دل کہتا تھا کہ اس پیشکش کو مان لوو دماغ کہتا تھا نہیں ابھی وقت بیت  گیا ہے ۔ انسان اتنے بھی اچھے نہیں ہوتے اچھے اچھے مرد بھی فریب دے  جاتے ہیں کہیں دھوکا نہ ہو ۔ کافی دن ہم دونوں چپ چاپ رہے مگر یہ چپ بے معنی نہیں تھی طوفان اندر ہی اندر پل رہا تھا ۔ میں راتوں کو سو نہیں سکتی تھی بالآخر میرا ذہن اور وجوث تھک گئے ۔ میں بیمار پڑ گئی اب گھر میں کون تھا ساجد کے سوا اسے میری تیمارداری کرنا تھی ۔

ڈاکٹر کے پاس لے جاتا میری دوا لانا  ہوتی یا کچھ بھی یہ صرف اکیلے میں کرتا تھا ۔ واقعی اکیلی عورت کو کسی مضبوط مرد کے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ مجھے بھی یقینا ساجد سے محبت نہیں تھی مگر وہ میرغ ضرورت بن گیا تھا اس نے ہمیشہ اپنے ستھرے عمل سے ایسی جگہ بنا لی تھی کہ میں نے ذہن میں اسی جیون ساتھی کا درجہ دینا شروع کردیا ۔ آدمی ہر لمحہ ایک ہی بات سوچتا رہے اور اس کشمکش سے نکل بھی نہ سکے ۔

تب وہ  ایک دن ضرور  اپنی قوت یں کھو بیٹھتا ہے ہرپل سوچنے سے میرے بھی عصاب جواب دے گے ۔ سر میں درد رہنے لگامیں نے بزنس کے معاملات سے ہاتھ اٹھا لیا تمام امور ساجد کی ذمہ ہو گئے ۔ ایک دن سر میں شدید درد تھا میں اپنے ہاتھ سے سر دبا رہی تھی کہ ساجد آفس میں آگیا ۔ اس کے ہاتھ میں کچھ فائلیں تھیں میرے کمرے میں آنے کی اجازت طلب کی ۔ تبھی میں نے کہا یہیں مجھے فائلیں دکھا دو مگر میرا سر درد سے پھٹا جا رہا ہے ۔

وہ کرسی لے کر میرے پاس آ بیٹھا فائلیں ایک جانب رکھ دی اور بولا میں آپ کا سر دبا دوں ۔

میں نے کہا نہیں مگر فائلیں مت کھولو صبح دکھا دینا اس کے منع کرنے کے باوجود میری پیشانی پر ہاتھ رکھا ۔ مجھے اس کے ہاتھوں سے سکون ملا بے شک عورت کو اپنی پاکبازی اور مرد کی ذات پر اعتبار نہیں کرنا چاہیے ۔ کیونکہ یقین کی دیواریں قلعے کی ماند بھی مضبوط ہوں ان کے ٹوٹ جانے کا خطرہ رہتا ہے ۔ میرے اندر بھی ایک محروم عورت برسوں سے سسکتی رہی تھی ۔

جو بہار کے کسی تازہ جہونکے کی منتظر تھی اور اب  اتنی کمزور ہو گئی تھی کہ کسی بھی لمحے دلدل میں گر سکتی تھی ۔ میں نے اپنے شوہر کی وفات کے بعد کبھی کسی کی جانب آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا تھا اور پاک دامنی کی زندگی گزاری تھی ۔ تاہم کبھی کبھی کوئی  کمزور لمحہ انسانی زندگی کی ساری ریاض کو تاراج کر سکتا ہے ۔ پس میں نے آنکھیں بند کر لیں یوں ظاہر کیا کہ اس وقت ساجد سے بھی کلام کرنے کی سکت نہیں ہے ۔

ساجد نے جان لیا کہ میں اس گھر کی چھت کے اپنے اوپر گر جانے کے ڈر سے سہمی پڑی ہوں ۔ لہذا اس نے معزرت چاہی ۔ میرے کمرے سے چلا میڈم آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے ۔ آپ آرام کر لیں میں صبح فائیلیں چیک کر والوں گا ۔ وہ  اگلے روز بھی نہیں آیا اور نہ اس کے بعد ۔ میں نے فون کیا  وہ بولا آج آفس سے آپ کے پاس آ جاؤں گا ۔ سوچا آپ آرام کرلیں میں بھی یہاں مصروف ہوں آفس میں کام زیادہ تھا ۔ نوکر کا مالکن سے عشق 

اس کا لہجہ اس قدر سوگوار تھا کہ مجھے لگا کہ اب وہ میری ملازمت چھوڑ کر چلا جائے گا ۔

اسے میری خوف اور پریشانی سے خوب آگاہی تھی اب وہ اتنا تجربہ کار ہو چکا تھا کہ کسی اچھی کمپنی میں اسے ملازمت مل سکتی تھی ۔ شام کو وہ  آگیا کچھ کاغذات پر دستخط کروانے وہ بھی میں لے کر دیئے تب اس نے کہا میڈم آپ نے میری درخواست کا جواب نہیں دیا ۔ شاید اتنے اہم فیصلے سے ڈرتی ہیں آپ کو مجھ پر اعتبار نہیں تو کوئی بات نہیں ۔ ہم اس بات کو بھلا دیتے ہیں جیسے ہمارے درمیان کوئی بات ہی نہ ہوئی ہو ۔

میرے اعصاب مضبوط اور سوچ متوازن ہے آپ بھی اپنی اسے مضبوط رکھیں ۔ تاکہ آپ کے بزنس پر برا اثر نہ پڑے ۔ اس کی گفتگو سے میرے دل و ذہن پر چھائے بادل چھٹ گئے مگر اس کا خیال دل سے نہیں گیا ۔ نہ چاہتے ہوئے بھی  میں نے کہہ دیا مجھے ایک سہارے کی ضرورت ہے پر میرے بیٹے کو خدا سلامت رکھے ۔ مگر وہ اپنی نئی زندگی میں گم ہوگیا ہے مجھے معلوم ہے میں واقعی اپنا گھر بسانا چاہتی ہوں ۔

مگر تمہارے بارے میں سوچتی ہوں کہ تمہیں اس میں خسارہ ہو گا ۔ جبکہ مجھے نہیں مجھے بھی خسارہ نہیں ہے ۔ وہ بولا میں نے بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ کیا ہے ۔ مگر میں اپنے بیٹے سے کیسے کہوں کہ اس عمر میں شادی کی طلب گار ہوں ۔ آپ اپنے جیٹھ سے کہیے   وہ یورپ میں ہے وہاں اس معاملے میں لوگ اور  طرح سوچتے ہیں ۔ یقینا وہ آپ کی مدد کریں گے بڑی ہمت کے بعد میں نے اپنے جیٹھ کو فون کر دیا ۔ نوکر کا مالکن سے عشق 

ان کو اپنے مسئلے سے آگاہ کیا وہ بولے ضرور شادی کرلیں آپ کے بیٹے کو میں سنبھال لوں گا ۔

مگر بزنس کی مالکن آپ ہی رہئیے گا کسی اور کو مالک نہ بنائیے گا ۔ جیٹھ کی اجازت سے میں نے ساجد سے نکاح کر لیا ۔ انہوں نے میرے بیٹے کو بعد میں آگاہ کیا مگر اس کو اس بات پر قائل نہ کر  سکے ۔ کہ وہ ماں کی دوسری شادی کو قبول کرتا اور وہ سخت  برہم ہوا ۔ اس نے مجھ سے قطع تعلق کر لیا کچھ عرصے بعد پاکستان آ کر بزنس اپنے نام کروا لیا ۔ اور مجھے صرف مکان اور زیورات دے کر باقی تمام سرمایہ خود لے گیا ۔

بیٹے کو بزنس کا سارا سرمایہ دے کر خوش تھی ۔ مگر کاش وہ مجھ سے راضی ہو جاتا کیونکہ میرے سرمایہ کا لالچ ساجد کو نہیں تھا ۔ اسے ایک اور جگہ اچھی تنخواہ پر ملازمت مل گئی ۔ عقد ثانی کر کے میں نے اپنا بیٹا کھو دیا اگر میں نکاح نہ کرتی تو بیٹا نہ کھوتی ۔ مجھے ساجد سے کوئی شکوہ نہیں اس نے عمر کے فرق کے باوجود واقعی مجھ سے سچی محبت کی ۔ میرا اتنا خیال رکھا کہ ذرا بھی تکلیف نہیں ہونی دی ۔

مگر میرا دل اس کی ساری محبت پا کر بھی بےسکون  رہا ۔ کیونکہ جس بیٹے پر جوانی کی سنہری کرنوں کو قربان کر کے میں نے اسے پروان چڑھایا تھا ۔ آج مجھ سے ملنا بھی اسے گوارا نہیں ہےشاید میرا دوسرا نکاح اس کے لیے کسی جرم سے کم نہیں ہے ۔

آپ کو اگر یہ کہانی اچھی لگی ہے تو اس ویڈیو کو لائک کیجئے ۔ اور اس طرح کی مزید وڈیو سسنے کیلئے ہمارے چینل کو سبسکرائب کیجیے ۔ کہانی سننے کا بہت شکریہ آپ سے ملاقات ہو گی اک نئی ویڈیو میں تب تک کے لئے اللہ حافظ ۔

✭ نوٹ :- عمدہ قسم کے سبق آموز واقعات وحکایات کیلئے آج ہی ہمارا ٹیلی گرام چینل جوائن کریں ۔

نوٹ :- ایسے ہی دل کو موہ لینے والے اور دل کو چھو لینے والے واقعات و حکایات پڑھنے کے لئے روز ویب سائٹ کا وزٹ کریں ۔ اور اپنے دوست و احباب اور متعلقین کو بھی شیئر کریں تاکہ آپ کے ذریعے ان کا بھی فائدہ

Leave a Comment