جن زادے کی ہوس
امی امی دیکھو تو میرے کندھوں پر یہ نشان کیسے ہیں۔ ؟
صبح کے وقت جب سو کر اٹھی تو اس کو اپنے دائیں کندھے پر بے چینی سی محسوس ہوئی۔ اس نے آئینے کے سامنے جاکر دیکھا تو اس کے گورے کندھے پر انگلیوں کے نشانات ایسے نظر آرہے تھے۔ جیسے کسی نے کندھا پکڑ کر زور سے دبایا ہو ۔اس کی امی نے ناشتہ بناتے ہوۓ مصروف سے انداز میں ردا کے کندھے کو دیکھا۔ اور کہ کر توے پر روٹی ڈالنے گی کی چار پائی کے نشانات لگ رہے ہیں۔ شاید تم اس کروٹ سوئی رہی ہو ردا امی کی بات مطمئن تو نہیں ہوئی ۔لیکن خاموشی اپنا ناشتہ اٹھا کر کمرے میں چلی گئی۔
ابھی اس نے کالج جانا تھا آج اس کاخری ٹیسٹ تھا۔ ٹیسٹ دیتے ہوۓ بھی اس کا دھیان اپنے کندھے کی طرف چلا جاتا ۔اس کو یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے رات کوئی تھا جو اس کی گردن پر ہاتھ پھیر رہا تھا۔لیکن وہ نیند کے غلبے سے اس کو دیکھ نہیں پائی ۔اور چاہنے کی باوجود اپنی آنکھیں نہیں کھول سکی ۔اسی کشمکش میں وہ ٹیسٹ دے کر کالج کی کنٹین چلی گئی وہاں اپنی دوست آمنہ کے ساتھ سموسے اور چاۓ پینے کے بعد وہ واپس گھر کے لیے روانہ ہو گئی۔
کمرے میں جا کر کپڑے بدلتے ہوۓ رکی نظر میں بے اختیار سامنے لگے آئینے پر پڑی ۔
تو اپنے کندھے کا نشان دوبارہ اس کی نظروں میں گھومنے لگا۔ لیکن نشان اب کافی مدہم ہو چکا تھا۔ اگلے کچھ دن کالج سے چھٹی تھی۔ ردانے چھٹیوں میں خوب نیند پوری کرنے کا سوچا تھا ۔رات کا کھانا کھا کر وہ دیر تک اپنا پسندیدہ ڈرامہ دیکھتی رہی ۔اور اس وقت بستر پر آئی جب گھر کے تمام افراد سو چکے تھے۔ اپریل کا مہینہ شروع ہو چکا تھا۔ اس لئے اب چارپائیاں باہر صحن میں لگی تھیں ردا چار پائی پر لیٹ گئی۔
اس کے بستر پر بیری کے اس درخت کا سایہ تھا۔ جو دیوار کے باہر لگا ہوا تھا ۔اس درخت کی شاخیں پھیل کر گھر کے اندر آگئی تھیں۔ اور اب ردا بستر پر لیٹی بیری کے درخت کی گھنی شاخوں سے چھن کر آنے والی چاند کی روشنی دیکھ رہی تھی۔ فضا میں بیری کے پھولوں کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی ۔ردا اس سحر ذدہ منظر میں کھوئی ہوئی تھی جلد ہی وہ نیند کی آغوش میں چلی گئی۔ ابھی وہ کچھ نیند میں تھی کہ اس کو اپنی گردن اور کندھوں پر کسی بھاری ہاتھوں کا احساس ہوا ۔ ردا ڈر گئی اس نے اٹھنا چاہا لیکن اٹھ نہ سکی حتی کہ آنکھیں بھی نا کھول سکی اس نادیدہ ہاتھ کی دست درازیاں بڑھتی جارہی تھی۔
یہاں تک کی ردا کو یہ سب کچھ اچھا لگنے لگا اس نے مزاحمت کر نا بند کر دی ۔
اگلی صبح جب وہ سو کر اٹھی تو اس کا جسم بہت تھکا ہواتھا۔وہ کافی دیر بستر پر لیٹی رات والے واقعے کے بارے میں سوچتی رہی لیکن اس کو سمجھ نہیں آئی ۔یہ خواب تھا یا حقیقت ! اچانک اس کو یاد آ یا تو وہ جلدی سے اٹھ کر اپنے کمرے میں گئی۔ اور آئینے کے سامنے کھڑی ہو کر اپنی گردن اور کندھے دیکھنے گی۔ لیکن آج کوئی نشان نہیں تھا ردا ایک بہادر لڑ کی تھی ۔اور وہ بھوت پریت پر یقین نہیں رکھتی تھی۔
اس نے اچانک سوچا کہ وہ بجاۓ خوف کھانے کے یا گھر میں کسی کو بتا کر پریشان کرنے کے اس الجھن کا سراغ خود لگاۓ گی ۔ لہذا اب وہ بے چینی سے رات ہونے کا انتظار کرنے گی رات کو وہ بستر پر لیٹی تو سونے کی بجاۓ سونے کا ڈرامہ کرنے لگی ۔اور آنکھیں بند کر کے لیٹی رہی ، کچھ وقت گزرا تو اچانک فضایک مسحور کن خو شبو سے مہک اٹھی ۔اس خوشبو نے ردا کے دماغ کو اپنی گرفت میں لیے لیا ۔اور نیم بے ہوش سی ہو گئی اچانک اس کو کسی کی آواز اپنے کانوں میں سنائی دی ۔کوئی ردا کو مخاطب کر کے کہہ رہا تھا کہ میں نے بیس سال تمہارے جوان ہونے کا انتظار کیا ہے۔
اب میرا انتظار ختم کر دو میں مزید تمھارت بغیر نہیں رہ سکتا ۔
ردا پہلے تو خوفزدہ دہ ہوئی پھر اس نے مزید ہمت کر کہ پوچھ ہی لیا کہ تم کون اور مجھے کیوں تنگ کر رہے ہو ۔؟ اس آواز نے ردا سے کہا کہ میں جن ذادہ ہوں میرا نام رام داس ہے ۔میں پچھلے بچاس سالوں سے اس بیری کا مکین ہوں ۔لیکن جب تمہیں اس گھر میں بڑی ہوتے دیکھا ۔تو میں تمہارے حسن کا دیوانہ ہو گیا اور تمہارے جوان ہونے کا انتظار کرنے لگا ۔اب مجھے لگتا ہے تم کو حاصل کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ لیکن میں تم سے کسی قسم کی زبردستی نہیں کروں گا ۔بلکہ تمہاری رضا مندی سے تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔
ردا نے کہا تم جن ذاد ہو اور سب سے بڑھ کر ہندو ہو میں مسلمان لڑکی۔ ہماری شادی کسی صورت میں ممکن نہیں ہے۔ رام داس نے فورا ردا کے کان میں کہا کہ میں تمہاری خاطر مسلمان ہونے کو تیار ہوں ۔ لیکن پھر بھی ایسا ممکن نہیں ہے۔ میں ایک جن سے شادی نہیں کر سکتی ، ردانے احتجابی لہجے میں کہا ۔تو رام داس بولا کہ میں تمہاری خاطر انسانی شکل میں بھی آ سکتا ہوں ۔ لیکن ردا کسی طور پر راضی نا ہوئی تو جن غصے سے غائب ہو گیا۔
اس وقت ردا کے حواس بحال ہونا شروع ہو گئے۔
جب وہ ہوش میں آئی تو اس کا جسم پسینے سے بھیگا ہوا تھر تھر کانپ رہا تھا ۔اب وہ بہت ڈر گئی تھی یقینا کچھ ایسا تھاجو وہم نہیں تھا ردا نے نظر گھما کر دیکھا تو سب افراد آرام سے سو رہے تھے اس نے سکون کا سانس لیا کہ کسی نے اس کی باتیں سنی تواس کا جسم اس کے قابو میں نہیں رہا دن گزرتے جارہے تھے رام داس کی من مانیاں بھی بڑھتی جار ہی تھیں صبح پھر ردا کا جسم تھکن سے چور تھا شاور لیتے وقت وہ گہری پریشانی میں مبتلا تھی وہ اپنی امی کو یہ سب بتانا چاہتی تھی
لیکن اس کے پاس بتانے کو کچھ نہیں تھا اس طرح کی بے تکی باتوں کا یقین کون کرتا ؟ دوسری طرف یہ حقیقت تھی کہ ردا کو یہ سب کسی حد تک اچھا لگنے لگا تھا اس رات ردا سوئی تو رام داس اسے تنگ کرنے نہیں آیا ، ردا کو یوں لگا جیسے وہ غیر ارادی طور پر رام داس کے ہاتھوں کی عادی ہو گئی ہے وہ سارا دن بے چین سی رہی اور بار بار بیری کے درخت کے نیچے چکر لگاتی رہی اگلی رات وہ پھر آ گیا اور ردا اس بے سکونی میں سکون تلاش کرتی رہی ، کچھ دنوں میں ردا کی آنکھوں کے گرد حلقے نمایاں ہوگئے ہوں لگتا تھا جیسے وہ راتوں سے نہیں سوئی ،
اس کی امی اب پریشان ہو گئی تھی وہ ردا کو ڈاکٹر کے پاس لے جانا چاہتی تھی ۔
لیکن ردا تیار نہیں تھی ردا کاسکون اب رام داس کے پاس تھا یہاں تک کہ ردا کا جسم دن بدن کمزور ہونے لگا !! ایک دن رداکے ابو کے پیر و مرشد اچانک پھرتے ہوۓ ان کے گھر آ نکلے ، ردا جب ان کو سلام کرنے گئی تو وہ ردا کو دیکھ کر ٹھٹھک سے گئے پھر وہ آ نکھیں بند کر کے کچھ پڑھتے رہے اور منٹوں بعد ردا کے والدین پیرو مر شد کے سامنے بیٹھے ہوۓ تھے با باجی نے ردا کے والدین سےردا کے بارے میں چند سوالات پوچھے تو ان کو معلوم ہوا کہ وہ اپنی بیٹی کی حالت دیکھ کر سخت پریشان ہیں
بابا جی نے ان کو بتایا کہ ردا بیٹی ایک سات سو سال بوڑھے ہندو جن کے اثرات میں ہے جو آپ کے گھر بیری کے درخت پر عرصہ دراز سے رہتا ہے اگر ردا پر اثرات ختم نا ہوۓ تو شاید وہ کمزوری سے چلنے پھرنے کے قابل نار ہے ، پھر بابا جی نے اکیلے بیٹھ کر اللہ کا کلام پڑھنا شروع کیا اور چند لمحوں میں رام داس چیختاچلاتا بابا جی کے پاس حاضر ہو چکا تھا کلام کی برکت سے جن نے جان بخشی کے لیے باباجی سے وعدہ کیا کہ وہ اس گھر سے ہمیشہ کے لیے دور چلا جائے گا اور بھی ردا کو تنگ نہیں کرے گا ، یوں ردا کی جان اس جن سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھوٹ گئی اور وہ دن بدن تندرست ہونے لگی اب وہ بھی بیری کے درخت کے نے نہیں سوتی۔
جن زادے کی ہوس
✭ نوٹ :- عمدہ قسم کے سبق آموز واقعات وحکایات کیلئے آج ہی ہمارا ٹیلی گرام چینل جوائن کریں۔
نوٹ :- ایسے ہی دل کو موہ لینے والے اور دل کو چھو لینے والے واقعات و حکایات پڑھنے کے لئے روز ویب سائٹ کا وزٹ کریں۔ اور اپنے دوست و احباب اور متعلقین کو بھی شیئر کریں تاکہ آپ کے ذریعے ان کا بھی فائدہ ہو ۔
Leave a Comment