کرائے دار کا مالکن میرے دل کی بھی ترتیب دھڑکنوں کی آوازیں جیسے میرے آس پاس گونج رہی تھی ۔ میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں وہاں کھڑی میں پسینے سے شرابور ہو رہی تھی ۔ میرا دماغ یہ سوچنے کی طاقت سے محروم تھا اب آگے کیا ہوگا اور مجھے کیا کرنا چاہیے ۔ ایسی صورتحال میں کوئی کر بھی کیا سکتا ہے آخر مجھے کیا کرنا تھا ۔ میرا نام بھی بینہ ہے ہمارا تعلق ایک امیر گھرانے سے ہے ۔ والد صاحب ایک بلڈر تھے ۔
مجھے میرے گھر میں ہر قسم کی سہولت حاصل تھی ۔ پر شادی کے معاملے میں مجھے میری مرضی کرنے کی اجازت نہیں تھی ۔ ہمارے خاندان کی لڑکیوں کو ہر طرح کی آزادی دی جاتی تھی ۔ پر کسی بھی لڑکی کو اپنی پسند کے مطابق شادی کی اجازت نہیں تھی ۔ میری ماں جب سولہ سال کی ہوئی تھی ۔ تبھی ان کی شادی ان سے دگنی عمر کے مگر ایک امیر ترین شخص سے کردی گئی ۔ اور ان کی ماں نے ان کے لئے یہی مناسب سمجھا ۔
مجھے اپنے ساتھ یہی سلوک پر مجھے اپنے ساتھ یہی سلوک ہونے کا اندازہ نہیں تھا ۔کرائے دار کا مالکن
میرے لیے جب فرہاد کا رشتہ آیا میری عمر سولہ سال تھی ۔ فرہاد مجھ سے 17 سال بڑے تھے پر میرے گھر والوں نے میرے لئے یہ رشتہ مناسب سمجھا ۔ جبکہ میں نے اپنی طرف سے احتجاج بھی کیا تم پاگل تو نہیں ہو گئی آخر کیا کمی ہے فرہاد میں ۔ اچھی شکل و صورت کا ہے امیر ہے اور کیا چاہیے صرف 17 سال بڑا ہے ۔ تم سے جب کہ تمہارے پاپا مجھ سے بائیس سال بڑے تھے ۔ تو کیا میں نے ان کے ساتھ ایک اچھی زندگی نہیں گزاری کیا میں ان کے ساتھ خوش نہیں ہوں ۔
میری ماں نے مجھ سے سوال کیا مجھے جواز دیا شاید ان کے حساب سے یہ ایک مضبوط جواز تھا ۔ ہاں آپ خوش ہیں فرق صرف اتنا ہے ۔ آپ کی وہ خوشی مجھے آپ کے چہرے پر صرف پارٹیوں میں لوگوں کے سامنے دکھائی دیتی ہے ۔ ہاں آپ مطمئن ہیں جبکہ میں نے آپ کو راتوں کو روتے ہوئے بھی سنا ہے ۔ اگر آپ چاہتی ہیں کہ میں بھی آپ کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاؤں ۔ تو قبول کر لیں یہ رشتہ جائیں اور شادی کی تیاریاں کریں ۔
اگر اللہ نے مجھے بیٹی جیسی نعمت سے نوازا تو میں اس کے ساتھ ایسا نہیں کروں گی ۔ جس تیر سے آپ خود گھائل ہوئے وہی تیر اپنی اولاد کے سینے میں اتارنا ظلم ہے ۔ میں نے روتے ہوئے کہا میری ماں نے دوبارہ اس موضوع پر بات نہیں کی ۔ میں بھی قسمت کے سامنے ہار گئی میری فرہاد سے شادی ہوگی ۔ وہ مجھے ساتھ لاہور لے آئے یہاں ان کا بہت بڑا بنگلہ تھا ۔ یہاں ہم دونوں کے علاوہ چند نوکر ہی رہتے تھے ۔
فرہاد صبح آفس جاتے تھے اور رات کو واپس آتے کبھی کبھار تو کئی کئی دن گزر جاتے تھے ۔
ہم ایک دوسرے کی شکل بھی نہیں دیکھ سکتے تھے ۔ وہ میرے جاگنے سے پہلے چلے جاتے اور سونے کے بعد آتے ۔ ہماری عمر کے فرق نے ہمارے بیچ میں ایک گہرا شگاف ڈالا تھا ۔ جو سب میں کرنا چاہتی تھی ان کے نزدیک بچپنا تھا ۔ ڈنر پر جانا ساتھ بیٹھ کر کھانا یا کوئی فلم دیکھنا وہ کہتے یہ سب کام میں ان کے بنا بھی کر سکتی ہوں ۔ ان کے ساتھ ان کی بورنگ بزنس پارٹیز میں جانا مجھے پسند نہیں تھا ۔ جہاں لوگ ایک دوسرے کا بازو تھامے ۔
یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ سب خوش ہیں ۔ گھر جاتے ہی ایک دوسرے سے منہ پھیر کر ایسے سو جاتے ہیں جیسے ایک دوسرے کو جانتے تک نہ ہوں ۔ اب تو فرہاد نے کاروبار کے سلسلے میں شہر سے باہر جانا بھی شروع کر دیا تھا ۔ ایسے میں میں اور اکیلاپن محسوس کرتی مجھے تنہائی پسند نہیں تھی ۔ تنہائی سے وحشت ہوتی ایک بار میں نے ماما سے بات کر ڈالی ۔ آخر بیٹی ماں سے دل کی بات نہ کرتی تو کس سے کہتی ۔
ماما نے کہا فکر نہ کرو اولاد ہو جائے گی تو سب ٹھیک ہو جائے گا ۔ ابھی گھر میں ٹک جائے گا اور تمہارا بھی دل لگا رہے ۔ تمہارے پاپا بھی فرہاد جیسے تھے ماں نے مجھے تسلی دی تھی ۔ میں بھی اپنی اولاد کا انتظار کرنے لگی میری شادی کو آٹھ ماہ ہوگئے ۔ مگر میں امید سے نہ ہوئی ۔ میں ڈاکٹر کے پاس گئی کچھ چیک اپ کروایا ڈاکٹر نے میرے ٹیسٹ کیے ۔ اگلے دن مجھے دوبارہ بلایا یہ خبر سنا کر اس نے مجھے ہمیشہ کے لئے مایوس کر دیا کہ میں کبھی ماں نہیں بن سکتی ۔
اولاد عورت کے لئے سب سے بڑی نعمت ہوتی ہے ۔
اولاد کا نہ ہونا عورت کے لیے بڑے دکھ کی بات ہوتی ہے ۔ مجھے یہ خوشی کبھی نہیں ملے گی یہ سوچ کر ہی میرا دل ہل جاتا ۔ اس دن کے بعد سے جیسے مجھے چپ لگ گئی ایک بار پھر قسمت کے آگے ہار گئی تھی ۔ وہ ساری رات میں روتے ہوئے گزاری مگر میں نے دل میں فیصلہ کر لیا کہ یہ بات میں فرہاد کو کبھی نہیں بتاؤں گی ۔ کیونکہ ہم اتنے مضبوط رشتے میں نہیں بندھے تھے ۔ کہ وہ اتنا بڑا جٹھکا برداشت کرتے پھر وہ مجھ سے منہ موڑ لیتے تو میں کہاں جاتی ۔
اب تو تنہائی مجھے اور بھی کاٹنے لگی ۔ میں بہت اداس رہی بلاآخر انہوں نے میرا احساس کیا ۔ ایک فیملی کو ہمارے گھر میں پیئنگ گیسٹ کے طور پر اوپر والے پورشن میں رہنے کے لیے بلایا ۔ وہ کل تین لوگ تھے ایک بوڑھے انکل آنٹی اور ان کا بیٹا ۔ یہ لوگ فرہاد کے واقف اور بہت اچھے تھے انکل آنٹی نے محبت کی شادی کی تھی ۔ میں جب اداس ہوتی ان کے پاس چلی جاتی ان کی محبت کے قصے سنا کرتی ۔ وہ خود بوڑھے تھے پر ان کی محبت جوان تھی ۔
میری اور فرہاد کی شادی کو ابھی ایک سال بھی نہیں ہوا تھا ۔ لگتا تھا کہ ہم نے صدیاں ایک ساتھ جھیلیں ہیں اور دونوں ہی بوڑھے ہو گئے ہیں ۔ ان کا بیٹا علی میرا ہم عمر تھا کبھی کبھی اس سے سلام دعا ہو جاتی ۔ وہ بہت خوبصورت اور پرکشش شخصیت کا مالک تھا ۔ میٹرک کا سٹوڈنٹ تھا میں نے اکثر اسے پڑھتے ہوئے ہی دیکھا تھا ۔ شاید شام میں کوئی کمپیوٹر کورس کرنے جاتا تھا ۔ اکثر مجھ سے اپنی پڑھائی کے بارے میں بات کر لیتا ۔
ایک بار انکل آنٹی کو حج کے لئے جانا تھا انہوں نے مجھ سے درخواست کی ۔
میں علی کے کھانے پینے کا خیال رکھوں تو مہربانی ہوگی ۔ میں نے کہہ دیا کہ ان کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ آخر کھانا نوکر ہی بناتے ہیں تو جہاں دو لوگوں کا کھانا بنتا ہے ۔ وہاں تین کا بھی بن جائے گا یہ لوگ حج کے لیے روانہ ہو گے ۔ اگلے ہی دن فرہاد بھی کام کے سلسلے میں 15 دن کے لیے کراچی چلے گئے ۔ اب گھر میں زیادہ تر میں اورعلی ہوتے ۔ ایک شام شاید وہ کمپیوٹر اکیڈمی سے واپس آیا میں ہال میں بیٹھی چائے پی رہی تھی ۔
اس نے مجھے سلام کیا میں نے اسے چائے پینے کی آفر کی ۔ وہ میرے ساتھ ہی بیٹھ گیا شکریہ چائے کی بہت طلب ہو رہی تھی ۔ خود سے چائے بنا کر پینا اچھا نہیں لگتا ۔ میں نے کہا بتا دیا کریں میں آپ کے لئے چائے بھجوا دوں گی ۔ کہنے لگا دراصل مجھے اکیلے بیٹھ کر چائے پینے سے کوفت ہوتی ہے ۔ مجھے امید نہیں کہ آپ یہ کہیں کہ میں آپ کے ساتھ بیٹھ کر پی لیا کرو ۔ علی نے خود ہی اپنی بات کی اور ہنسنے لگا مگر میں خاموش ہی رہی ۔ کہنے لگا آپ میرے ساتھ بیٹھ کر چائے پی لیا کریں ۔
مجھے ویسے بھی الجھن ہوتی ہے کہتے ہیں کہ دو ایک جیسے لوگ بہت جلد ایک دوسرے کے دوست بن جاتے ہیں ۔ کچھ دن میں میں نے یہ جان لیا کہ علی بالکل میرے جیسا ہے ۔ شاید اس لیے کہ ہماری عمر ایک جتنی تھی وہ بہت ہی ہنس مکھ قسم کا انسان تھا ۔ بات بات پر مذاق کرنا اسے خوب آتا ہے ۔ ہمارے شوق سب ملتا تھا روز چائے کی ٹیبل پر ہم خوب باتیں کرتے ۔
ہم نے اس موضوع پر بھی بات کی کہ میری شادی ماں باپ کی مرضی سے ہوئی ۔
فرہاد مجھ سے مختلف انسان ہے کہنے لگا ۔ میں تو آپ کو دیکھتے ہی سمجھ گیا تھا کہ آپ ان کے ساتھ خوش نہیں ہیں ۔ معاف کیجیے گا وہ مجھ سے آپ کا تعارف نہیں کرواتے تو میں یہی سمجھا تھا کہ آپ تو ان کی بہن یا بیٹی ہیں ۔ یہ بات کرکے علی بے ساختہ ہنس پڑا ۔ جب اس نے دیکھا کہ میں سنجیدہ ہوں تو فورا اپنی مسکراہٹ پر قابو پانے لگا ۔ کہنے لگا یہ آپ کا ذاتی معاملہ ہے مجھے صرف اتنا پتا ہے ۔ کہ یہ زندگی غلط فیصلوں کی نذر کرنے کے لئے بہت چھوٹی ہے ۔
پھر اپنی پسند سے شادی کرنا کوئی گناہ نہیں ۔ میں تو حیران ہوتا ہوں کہ لوگ ایسے کیوں جینا پسند کرتے ہیں ۔ جس انسان کو وہ پسند ہی نہیں کرتے خود کو کیوں اس کے حوالے کر دیتے ہیں ۔ میں ماں باپ کو دیکھتا ہوں وہ ایک ساتھ کتنے خوش ہے ۔ اگر آج سے 25 سال پہلے اپنے دل کی نہ سنی ہوتی تو آج ساتھ نہ ہوتے ۔ نہ ہی خوش ہوتے پر خوش ہیں نا کیونکہ انہوں نے سٹینڈ لیا ۔ جو لوگ ایسا نہیں کرتے شاید بزدل ہوتے ہیں ۔
اتنے بزدل کے اپنے لیے لڑنا بھی نہیں چاہتے ہیں ۔ علی تو چلا گیا مگر اس کی باتیں رات بھر میرے دماغ میں گھومتی رہی ۔ وہ کوئی اتنی بڑی گہری بات کر گیا تھا کہ میں حیران تھی اگلے دن میں نے ایک فیصلہ کر لیا ۔ میں نے سوچا کہ میں علی کی طرف پیش قدمی کروں ۔ اگر اس نے میرا ہاتھ جھٹک دیا تو میں اپنی زندگی اور حالات کو قبول کر لوں گی ۔ اگر اس نے بھی جواباً میری طرف پیش قدمی کی تو میں اپنے لیے یہ قدم اٹھاؤں گی کیونکہ میں بزدل نہیں ہوں ۔
ہم دونوں روز کی طرح بیٹھ کے چائے پی رہے تھے ۔ آج میں علی سے قدرے قریب ہی صوفے پر بیٹھی تھی ۔
جبکہ میں اس کے ساتھ نہیں بیٹھا کرتی تھی ۔ اس نے بھی یہ بات نوٹ نہیں کی کیوں کہ شاید اس کے دل میں وہ جذبات نہیں تھے ۔ جو میرے دل میں تھے مجھے اپنے کئیے پر شرمندگی ہوئی ۔ ایک دن چائے پیتے ہوئے میں نے اسے چینی دان تھمایا میرا ہاتھ اس کے ہاتھ پر لگ گیا ۔ اس نے اس بار بھی مجھے نوٹ نہیں کیا جب کہ میں اسے جان بوجھ کر اپنی طرف راغب کر رہی تھی ۔ ایک دن میں بڑے عجیب سے احساس کے زیر اثر تھی ۔
ہم ساتھ بیٹھ کے چائے پی رہے تھے کہ اچانک بات کرتے ہوئے میں نے علی کے ہاتھ پر ہاتھ رکھا ۔ اگلے ہی پل وہ مجھ سے اٹھ کر دور ہوگیا یہ کیا کر رہی ہیں آپ مسسز فرہاد ۔ پچھلے چند دنوں سے آپ کیا کرنے کی کوشش کر رہی ہیں آپ ہوش میں تو ہیں ۔ آپ نے مجھے کس قسم کا انسان سمجھ لیا آپ کو پتا ہے کہ آپ کیا کر رہی ہیں ۔ علی فورا بھی بپھر گیا اور میں تو شرم سے پانی پانی ہو گئی ۔ میں نے سر جھکا لیا پھر اچانک مجھے علی کے ہنسنے کی آواز آئی ۔
میں نے سر اٹھا کر اسے دیکھا میں بہت حیران ہوئی ۔ اس نے میری طرف ہاتھ بڑھایا کہنے لگا مجھے لگا تھا تم کبھی میری طرف نہیں بڑھو گی ۔ وہ اتنی محبت سے بھولا کے میری آنکھوں سے خوشی کے آنسو چھلک پڑے ۔ کہتے ہیں نا محبت اندھی ہوتی ہے پر گناہ نا صرف اندھا ہے بلکہ بہرہ بھی ہوتا ہے ۔ اسے نہ کچھ سنائی دیتا ہے نہ دکھائی دیتا ہے ہمارے ساتھ بھی یہی ہو رہا تھا ۔ ہم اپنے علاوہ ساری دنیا کو بھول چکے تھے ۔
رات ہوتے ہی نوکروں سے نظر بچا کر میں علی کے کمرے میں جاتی ۔
ہم باتیں کرتے ہنستے اور چھپ کر گھر سے نکل جاتے مجھے فرہاد کی کوئی فکر نہیں تھی ۔ آخر انہوں نے آج تک مجھے دیا ہی کیا تھا ہم دونوں ایک دوسرے سے اپنی محبت کا اظہار کرکے ایک دوسرے کے ہوگئے ۔ میں نے فیصلہ کر لیا کہ مجھے علی کے ساتھ ہی رہنا ہے ۔ میں نے بہت جلد فرہاد کو اس بارے میں بتانا تھا ۔ علی کو بھی بتایا کہ مجھے اپنی مرضی سے جینے کا حق ہے ۔ تم میری محبت ہو بس تمہیں میرا ساتھ دینا ہوگا ۔
علی نے کہا میں ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں ۔ میں نے ایک تمہارے لئے خوبصورت تحفہ پلین کیا ہے ۔ کل شام تم میرے گھر آنا ٹھیک آدھے گھنٹے بعد تم میرے کمرے میں چلی آنا ۔ مجھے یقین ہے یہ تمہاری زندگی کا سب سے بڑا تحفہ ہو گا جسے تم کبھی بھول نہیں سکو گی ۔ علی کی بات سے میں خوش ہو گی اگلے دن علی گھر آگیا ۔ ایک آدھے گھنٹے بعد میں علی کے کمرے میں گئی ۔ میں بہت اچھے طریقے سے تیار ہوئی تھی ۔
میں جب اندر گئی تو علی ٹی وی کے سامنے کھڑا تھا مجھے محبت بھری نگاہوں سے دیکھ رہا تھا ۔ کہنے لگا اپنی آنکھیں بند کرو اور جب تک میں نہ کہوں آنکھیں نہ کھولنا ۔ میں نے ایسا ہی کیا شاید علی نے ٹی وی آن کیا تھا کوئی فلم لگائی تھی ۔ اس کی آواز پر میں چونک کر آنکھیں کھولنے لگی ۔ فرق صرف اتنا تھا کہ میری مسکراہٹ اڑ گئی جب کہ علی کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ تھی ۔ جسے دیکھ کر میرا دماغ ماؤف ہونے لگا میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا ۔
یہ وہ ویڈیو تھی جو مجھے برباد کرنے کے لئے کافی تھی کیسا لگا تمہیں میرا یہ تحفہ ۔
ارے تم رونے کیوں لگی دیکھو ہم ساتھ کتنے اچھے لگ رہے ہیں کیا خیال ہے ۔ یہ ویڈیو تو طوفان ہے وہ طوفان جو تمہاری زندگی برباد کر دے گی ۔ علی تم نے میری ویڈیو بنائی تھی تم مجھ سے محبت نہیں کرتے ۔ کہنے لگا میری بات غور سے سنو اگر تم چاہتی ہو کہ میں تمہاری یہ ویڈیو تمہاری شوہر کو نہ دکھاؤں ۔ تو ہر ماہ مجھے منہ مانگی رقم دینا اس کے علاوہ تم بھی روز میرے کمرے میں آو گئی جیسے اب تک آرہی ہو ۔
اب میں تم سے یہ نہیں پوچھوں گا کہ تمہیں یہ سب منظور ہے یا نہیں ۔ مجھے نہیں لگتا تمہارے پاس کوئی اور راستہ ہے ۔ علی ہنسنے لگا تم نے مجھے دھوکہ دیا کیا وہ سب جھوٹ تھا ۔ تم پہلے دن سے ہی میرے ساتھ کھیل کھیل رہے تھے ۔ میں بمشکل اتنا بولی ہاں اور کیا ہم جیسے لوگ مرتے ہیں ۔ ایسی آسائشوں کے لیے جن میں رہ کر بھی تم خوش نہیں ہو ۔ تم تو میرے ہاتھ آئی سونے کی چڑیا ہو محبت کیا ہے ۔ اس سے ہم جیسوں کو کیا فرق پڑتا ہے ۔
ہمیں تو اپنی ضرورتیں اور خواب پورے کرنے ہیں ۔ آج سے تم وہی کرو گی جو میں تمہیں کہوں گا ۔ میری زندگی علی کی غلام بن گئی ہر ماہ مجھ سے لاکھوں روپے بھی لیتا اور مجھے گناہ پر بھی مجبور کرتا ۔ وقت کے ساتھ مجھے پتا چلا کہ وہ بوڑھے انکل علی کے ماں باپ نہیں تھے ۔ بلکہ اس کھیل میں اس کے مددگار تھے ۔ وہ کسی بینک میں نوکری نہیں کرتا تھا ۔ جب فرہاد گھر آتے تو علی ایسے پیش آتا جیسے اس نے کبھی مجھ سے بات ہی نہ کی ہو ۔
ان کے جاتے ہی وہ اپنا اصلی رنگ دکھاتا یوں ہی چھ ماہ گزر گئے ۔
مجھے اپنے وجود سے نفرت ہوگئی ۔ اس سے بہتر تو میری پہلے والی زندگی تھی ۔ میں خود سے نظریں ملانے کے قابل بھی نہیں رہی ۔ کیا یہ سب یونہی چلتا رہنا تھا کون تھا جس نے یہ سب روکنا تھا ۔ کبھی سوچتی کہ اپنی جان دے دوں کبھی سوچتی کہ فرہاد کو سب کچھ بتا دوں ۔ ایک بار اپنی ماں کو سب کچھ بتانے کا سوچا اور میری ہمت نہ ہوئی ۔ بالآخر میں نے اپنے شوہر کو سب کچھ بتا دیا ۔ میں نے کہا مجھے معاف کردیں میں بہک گئی تھی ۔ میرے نفس نے مجھے اپنا غلام بنا لیا تھا ۔
مجھے صرف محبت چاہیے تھی توجہ چاہیے تھی ۔ آپ کا وقت چاہیے تھا جو کبھی نہیں ملا ۔ میں نے آپ سے ایک اور جھوٹ بھی بولا کہ میں کبھی ماں نہیں بن سکتی ۔ یہ بات آپ سے اس لیے چھپائی کیوں کہ مجھے لگا آپ کو اس بات سے بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔ اگر آپ مجھے چھوڑ دیں گے مجھے جو چاہیں سزا دیں مجھے قبول ہے ۔ آپ مجھے جان سے بھی مار دیں تو کوئی غم نہیں ہوگا ۔ میں نے پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے اپنے جرم کا اعتراف کرلیا ۔
اس دن میں نے خود کو بہت چھوٹا محسوس کیا میں فرہاد سے نظریں نہی ملا پا رہی تھی ۔ وہ اٹھے اور میری طرف بڑھے میں بہت گھبرا گئی خوف سے کانپ رہی تھی ۔ فرہاد سے نظریں نہی ملا پا رہی تھی کہنے لگے اب تم اس آدمی کے پاس نہیں جاؤ گی ۔ نہ ہی اس سے بات کرو گی میں سب سنبھال لوں گا ۔ مگر یہ مت سمجھنا کہ میں نے تمہیں معاف کر دیا ۔ تمہارا فیصلہ میں بعد میں کروں گا اور تمہیں وہ فیصلہ ماننا پڑے گا ۔
فرہاد نے اس کے علاوہ کچھ نہیں کہا اگلے دن فرہاد رات کو گھر نہیں آئے ۔ ۔
علی نے مجھے کال کرکے بلانا چاہا مگر میں کال نہیں اٹھا رہی تھی ۔ وہ بار بار مجھے کال کرتا رہا بالآخر غصے میں میرے کمرے تک آ گیا ۔ مجھے زبردستی اپنے ساتھ لے جانے لگا کہ اچانک وہاں پولیس آ گئی ۔ اسے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا فرہاد نے پولیس کو بتایا کہ اس شخص نے میری بیوی کی عزت پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی ہے ۔ علی پولیس کو مطلوب تھا وہ پہلے بھی کئی ایسی لڑکیوں کو بے وقوف بنا کر لوٹ چکا تھا ۔
پولیس نے علی اور اس کی نقلی فیملی کو بھی پکڑ لیا ۔ ایس ایچ او فرہاد کا واقف کار تھا اس نے علی سے میری ویڈیو لے کر تلف کر دیں ۔ اور یقین دلایا کہ اس کی اور کوئی کاپی نہیں ہے فرہاد نے مجھ سے بات چیت بند رکھی ۔ ایک دن انھوں نے میرا سامان پیک کر دیا مجھے میرے گھر چھوڑنے کے لئے لے جانے لگے ۔ میرے پاس بھی یہ حق کہاں تھا کہ میں ان سے معافی مانگتی ۔ وہ مجھے کیوں کر معاف کرتے میں سر جھکائے بیٹھی تھی ۔
تم سے بہت بڑی غلطی ہوئی غلطی نہیں گناہ کیا ہے ۔ تم نے پر اس میں میری غلطی بھی تھی کہ میں نے تم پر توجہ نہیں دی ۔ تمہارے پاس چھ ماہ کا وقت ہے تم اپنی ماں کے گھر رہو ان سے میں کہہ دوں گا کہ میں ملک سے باہر جا رہا ہوں ۔ اس لیے تمہیں وہاں چھوڑ رہا ہوں تم سوچ لو تمہیں کیا کرنا ہے ۔ اگر میرے ساتھ رہنا ہے تو سب بھول کر آ جانا اگر نہیں تو بتا دینا طلاق نامہ مل جائے گا ۔ فرہاد نے سامنے دیکھتے ہوئے کہا میں نے کہا میں اس قابل نہیں ہوں ۔
فرہاد خود کو معاف کرنے کی کوشش کرو جب تک تم خود کو معاف نہیں کرو گی کوئی بھی تمہیں معاف نہیں کرے گا ۔
میرے پاس تمہیں دینے کے لیے یہ آخری موقع ہے ۔ فرہاد مجھے اپنی ماں کے گھر چھوڑ کر خود وہاں سے چلے گئے ۔ چھ ماہ بعد میں اپنے گھر چلی آئی تب سے آج فرہاد نے کبھی اس کا ذکر تک نہیں کیا ۔ میں نے فرہاد کو کتنا غلط سمجھا پر وہ کتنے اچھے انسان تھے نفس کے راستوں پر صرف بربادی ہی آپ کی منتظر ہے ۔ پاک رشتے جیسے بھی ہوں وہ آپ کے لئے ٹھیک ہوتے ہیں ۔ آج میں اپنے شوہر کے ساتھ بہت خوش ہوں ۔
آپ کو اگر یہ کہانی اچھی لگی ہے تو اس ویڈیو کو لائک کیجئے ۔ اس طرح کی مزید کہانیاں سننے کے لیے ہمارے چینل کو ضرور سبسکرائب کیجیے ۔ کہانی سننے کا شکریہ آپ سے ملاقات ہو اگلی وڈیو میں تب تک کے لئے اللہ حافظ ۔
✭ نوٹ :- عمدہ قسم کے سبق آموز واقعات وحکایات کیلئے آج ہی ہمارا ٹیلی گرام چینل جوائن کریں ۔
نوٹ :- اپنے دوست و احباب اور متعلقین کو بھی شیئر کریں تاکہ آپ کے ذریعے ان کا بھی فائدہ ہو ۔
Leave a Comment