Horror story in urdu – بونگا سالح گاؤں اور بھیانک موت مکمل واقع شروع تا اختتام

Horror story in urdu
Written by kahaniinurdu

  بونگا سالح گاؤں میں دو بھائی رہتے تھے بڑے والے بھائی کا نام عنصر اور چھوٹے کا نام اشرف تھا ۔ دونوں ہی بھائی نہایت ہی ایماندار اور قابل عزت تھے ۔ ان کے والدین فوت ہو گئے تھے والد پہلے فوت ہو گئے تھے ۔ اس کے قریب دس سال بعد والدہ بھی فوت ہو گئی تھی ۔ جس کی وجہ سے یہ دونوں بھائی تینوں ٹائم کا کھانا باہر سے ہی کھاتے تھے ۔ اور یہ دونوں بھائی اپنے بابا کا دودھ بیچنے کا کاروبار سمبھالتے تھے ۔ ان کے پاس تقریباً چالیس گائے بھینسیں تھی اور ان دونوں بھائیوں میں بہت پیار تھا ۔ دونوں بھائی محلے میں بھی سب سے اچھے تعلقات رکھتے تھے ۔ لیکن ان کے کچھ رشتدار ایسے بھی تھے جو کہ ان دونوں بھائیوں کے لیئے دل میں رنجش رکھتے تھے ۔

اور ہر وقت وہ کسی نہ کسی طرح سے ان دونوں بھائیوں میں پھوٹ ڈالنے کے لیئے کوششیں کرتے رہتے تھے ۔ اس سلسلے میں وہ بہت سے کالے جادو اور طرح طرح کے ہتھکنڈے اپناتے رہتے تھے ۔ وقت اسی طرح آگے بڑھتا گیا ۔ پھر ایک دن عنصر نے اشرف سے کہا بھائی آجکل بہت سے لوگ مجھے شادی کا مشورہ دے رہے ہیں ۔ جہاں بھی جاتا ہوں لوگ بولتے ہیں کہ عنصر بھائی اب شادی کرلو ۔ تاکہ باہر کے کھانے سے آپ کی جان چھوٹ جائے ۔ تو میرے بھائی میں تم سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ اس بارے میں تم کیا کہتے ہو ۔ ؟ اشرف نے کہا عنصر بھائی میں تو بہت دیر پہلے کا یہ سوچ رہا تھا ۔ کہ آپ سے کہوں کہ اب آپ کو شادی کر لینی چاہیے ۔

تاکہ گھر کے کام کاج کو دیکھنے والی بھابھی آجائے اور ہم باہر کے کاموں کو اچھے سے دیکھ سکیں ۔ بونگا سالح گاؤں ۔

ویسے بھی بنا ہمارے والدین کے یہ گھر بہت ہی ویران لگتا ہے ۔ اگر آپ شادی کر لیں گے تو اس گھر میں پھر سے رونق ہو جائے گی یہ گھر مکل ہو جائے گا ۔ عنصر نے کہا ہاں بھائی تم ٹھیک کہتے ہو امی ابو کے بنا یہ گھر کاٹنے کو دوڑتا ہے اور ویسے بھی ہم لوگ روز باہر سے کھانا کھا کر تنگ آچکے ہیں ۔ اشرف نے کہا تو بھائی چلو پھر اب دیر کس بات کی ہے ہم آج ہی پھپھو کے پاس چلتے ہیں تاکہ وہ آپ کے لیئے کوئی اچھی سی لڑکی ڈھونڈ کر اس سے آپ کی شادی کرا دیں اور آپ میری بھابھی کو گھر میں لے آئیں اور پھر میں اپنے بھتیجے اور بھتیجیوں کے ساتھ اس گھر کے آنگن میں کھیلوں گا ۔

عنصر نے مسکراتے ہوئے کہا ارے میرے پیارے بھائی ابھی تو ہمیں پھپھو کے پاس جانا ہے انہیں پہلے کوئی رشتہ تو ڈھونڈنے دو پھر باقی خواب دیکھنا اب چلو ہم شام سے پہلے واپس آنا ہے ۔ اس کے بعد عنصر اور اشرف پھپھو کے گھر چلے گئے اور جب وہ پھپھو کے گھر تھے تواس دوران ان کے وہ رشتدار جو ان کا برا سوچتے تھے وہ ان کے گھر میں چوری سے داخل ہو گئے ان کے ساتھ ایک کالے علم والا بندہ بھی تھا جو کہ کچھ پڑھتا ہوا ان کے گھر میں داخل ہوا تھا اور کچھ دیر گھر میں گزارنے کے بعد وہ سب گھر سے چلے گئے اور جب شام کو عنصر اور اشرف پھپھو کے گھر سے واپس اپنے گھر آئے تو ان کے کمرے کی چیزیں ادھر اُدھر پڑی ہوئی تھیں

تبھی عنصر نے کہا اشرف مجھے لگتا ہے کہ جیسے ہمارے یہاں سے جانے کے بعد گھر میں کوئی آیا تھا ۔ بونگا سالح گاؤں

اشرف نے حیرت سے عنصر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔ کیا ۔ ۔ ۔ ۔ بھائی یہ آپ کیا کہہ رہے ہو بھلا یہاں کس نے آنا تھا ہم تو تالا لگا کر گئے تھے ۔ عنصر نے کہا زرا غور سے دیکھو ہمارے چیزیں ادھر اُدھر بکھری پڑی ہیں جبکہ ہم تو سب کچھ ٹھیک کر کے گئے تھے اور یہ دیکھو میرے بستر سے چادر بھی غائب ہے جو کہ میں نے آج صبح ہی بچھائی تھی ۔ اشرف غور سے کمرے کا جائزہ لیتے ہوئے باہر چلا گیا اور پھر واپس کمرے میں آیا اور عنصر سے کہا جی بھائی آپ ٹھیک کہہ رہے ہو کیونکہ میری قمیض بھی باہر نہیں ہے جو میں نے پھپھو کے گھر سے کچھ منٹ پہلے ہی دھو کر آپ کے سامنے رسی پر سکھانے کے لیئے ڈالی تھی ۔

عنصر نے حیرت سے کہا پر میرے بھائی وہ تھا کون ۔ اشرف نے سر جھکاتے ہوئے کہا بھائی جو بھی تھا مگر مجھے یہ سمجھ نہیں آرہا کہ گھر میں باقی سامان بھی تھا پر اس نے باقی سامان چھوڑ کر یہ معمولی سی چیزیں کیوں اٹھائیں ۔ اس کے بعد عنصر نے الماری کھول کر دیکھی لیکن اس میں سے بھی سوائے صرف عنصر کے ایک سوٹ کے علاوہ کچھ بھی غائب نہیں تھا جبکہ اس الماری میں کچھ پیسے بھی پڑے ہوئے تھے ۔ یہ سب دیکھ کر دونوں بھائی بہت زیادہ حیرت میں پڑھ گئے اشرف کہنے لگا بھائی یہ کیا چکر ہے مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آرہا ۔ عنصر نے کہا چلو چھوڑو اس بات کو مجھے لگتا ہے کوئی پاگل سا شخص اس گھر میں کود کر آیا ہو گا اور یہ سب تماشا کر کے چلا گیا ۔

ورنہ عقلمند انسان ایسا نہیں کیا کرتے ۔ ۔ بونگا سالح گاؤں

اشرف نے کہا ٹھیک کہتے ہو بھائی مجھے بھی یہ کسی پاگل کا کام لگ رہا ہے چلو جو بھی ہے کوئی بات نہیں شکر ہے ہمارا کوئی بڑا نقصان نہیں ہوا ۔ عنصر نے کہا ہاں یہ تو ہے چلو اب سونے کی تیاری کرتے ہیں ورنہ صبح جلدی آنکھ نہیں کھلتی یہ کہہ کر دونوں بھائیوں نے اپنی اپنی چارپائیاں صحن میں لا کر بچھائی اور بستر لگا کر سونے کی کوشش کرنے لگے اور کچھ دیر تک شادی کی باتیں کرتے رہے پھر سو گئے اور کچھ ہی دیر میں اچانک سے عنصر کی آنکھ کھلی اور وہ باتھروم کے لیئے گیا اور واپس آکر اپنی چارپائی پر لیٹ گیا تبھی اچانک سے اس کی نظر صحن میں چھت پر جاتی ہو سیڑھیوں پر پڑی اس نے آنکھیں ملتے ہوئے اس طرف غور سے دیکھا

تو اوپر چھت سے نیچے آتی پہلی سیڑھی پر کو کالی سی پرچھائی نظر آئی جو کہ سیڑھیوں کی دیوار پر بیٹھی ہوئی تھی صحن میں صرف ایک ہی لائٹ جلی ہوئی تھی اس وجہ عنصر کو وہ چیز سہی سے نظر نہیں آرہی تھی اور سیڑھیاں چارپائی سے تھوڑی دور تھیں عنصر کچھ دیر تک اس پرچھائی کو دیکھتا رہا پھر اس نے اشرف کی چارپائی کی طرف دیکھا تو اشرف خراٹے مارتا ہوا سو رہا تھا اس کے بعد عنصر نے دوبارہ سیڑھیوں کی طرف دیکھا تو وہ پرچھائی آہستہ آہستہ سے سیڑھیوں کی دیوار سے ایسے نیچے کی طرف آئی جیسے اکثر بچے سلائیڈ کر کے نیچے آتے ہیں عنصر یہ دکھ کر اچانک سے ڈر گیا اور اس کے رونگٹے کھڑے ہو گئے

اس کے ساتھ ساتھ عنصر کو بہت سا پسینہ بھی آنے لگا ۔

عنصر آہستہ سے لیٹ گیا اور ایک چادر منہ میں اپنا منہ چھپائے اسے دیکھتا رہا اور وہ چیز صحن میں اتر کر عنصر کی چارپائی کی طرف آہستہ آہستہ سے بڑھنے لگی اور جوں جوں وہ قریب آرہی تھی اس کے ساتھ وہ اور بڑی ہو رہی تھی عنصر نے چادر میں چھپے ہوئے ہی آئیت الکرسی پڑھنی شروع کردی اور وہ پرچھائی کچھ دور کے فاصلے پر رک گئی اور ایک ہی جگہ کھڑی رہ عنصر کی طرف اپنی لال لال چمکتی ہوئی آنکھوں سے دیکھنے لگی عنصر ہلکی سی چادر ہٹا کر اس کی طرف دیکھتا اور واپس چادر میں منہ چھپا لیتا ایسا کچھ دیر تک چلا اور جیسے ہی فجر کی اذان کا وقت ہوا تو وہ چیز گھر کی باہری دیوار سے پھلانگ کر گھر سے باہر چلی گئی

اتنے میں اذان کی آواز آئی اور عنصر نے جلدی سے اٹھ کر اشرف کو اٹھایا ۔ اشرف اور عنصر نے وضو کیا اور مسجد کی طرف چلے گئے اور فجر کی نماز پڑھ کر وہاں سے سیدھا گائے بھینسوں کے باڑے میں چلے گئے اور اپنے کاموں میں مصروف ہو گئے ۔ انہوں نے دودھ وغیرہ بیچنے کے بعد جانوروں کو چارا ڈالا اور کچھ دیر کے بعد ناشتہ کرنے چلے گئے اور ناشتے کے دوران عنصر نے اشرف کو رات والے واقعے کے بارے میں بتایا تو اشرف حیران رہ گیا اور کہا عنصر بھائی آپ نے مجھے کیوں نہیں جگایا رات اتنا کچھ آپ کے ساتھ ہوتا رہا اور آپ مجھے اب بتا رہے ہو ؟ عنصر نے کہا میرے بھائی میں تمہیں جگانے والا تھا

لیکن اس چیز نے ایک عجیب سی آواز نکالی اور میں ڈر گیا تھا ۔

اس وجہ سے میں چادر میں چھپے رہ کر اس کو دیکھتا رہا لیکن وہ بہت ہی زیادہ خوفناک تھی اور اس کے بعد میری آواز بھی نہیں نکل رہی تھی مجھے پتا ہے کہ گزشتہ رات میں نے کیسے کاٹی تھی ۔ اشرف نے بھائی مجھے لگتا ہے کہ یہ جن ون کا معاملہ ہے اور ہمیں اس سلسلے میں کسی سے بات کرنے کی ضرورت ہے ۔ عنصر نے کہا نہیں نہیں میرے بھائی اگر ہم کسی سے بات کریں گے تو لوگ ہنسیں گے ہم پر اور کہیں گے کہ آج کے دور میں بھی ہم ایسی باتیں کر رہے ہیں اور یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ وہ میرا وہم ہی ہو ۔ اشرف نے کہا بھائی آپ اس کو اتنی دیر تک دیکھتے رہے یہ وہم نہیں ہو سکتا مجھے تو لگتا ہے کہ وہ ضرور کوئی چیز تھی جو رات بھر آپ کو ڈراتی رہی ہے ۔

عنصر نے کہا پتا نہیں بھائی جو بھی تھا چلو چھوڑو اسے آرام سے ناشتہ کرو ہم بھی کونسی باتیں لے کر بیٹھ گئے ہیں ۔ اس کے بعد دونوں بھائیوں نے ناشتہ ختم کیا اور واپس باڑے میں چلے گئے اور اپنے کاموں میں مصروف ہو گئے اور دوپہر کو عنصر نے کہا اشرف میں زرا ماموں کی طرف جا رہا ہوں تم باڑہ بند کر کے یہ بالٹی والا دودھ رشید صاحب کے گھر پکڑاتے ہوئے گھر چلے جانا اشرف نے کہا جی ٹھیک ہے بھائی ویسے ماموں کی طرف خیر سے جا رہے ہیں ؟ عنصر نے کہا ہاں ہاں سب خیر ہے تم بھول گئے ہو کل پھپھو نے کہا کہ ماموں کو بھی ساتھ لے کر آنا میری شادی کے سلسلے میں ؟؟

اشرف بولا جی جی بھائی مجھے یاد آیا انہوں نے ماموں کو بھی ساتھ لے کر جانا ہے لڑکی والوں کی طرف ۔ ۔ ۔

سہی ہے بھائی آپ جاؤ پھر میں باقی سنبھال لوں گا ۔ اس بعد عنصر چلا گیا اور اشرف نے باقی کام نمٹائے اور دودھ کی بالٹی لے کر اپنے اک گاہک رشید نامی شخص کے گھر کی طرف چلا گیا اور دودھ کی بالٹی رشید صاحب کو دے دی اور کہا عنصر بھائی آج کسی کام سے گئے تھے اور اس وجہ سے انہوں نے مجھے کہا یہ دودھ میں آپ تک پہنچا دوں ۔ رشید صاحب نے کہا اشرف بھائی آپ کا بہت بہت شکریہ اور عنصر بھائی کا بھی بہت شکریہ جب ان سے ملو تو میرا سلام کہنا اور ہاں مجھے یاد آیا گزشتہ روز جب میں آپ کے گھر کے پاس سے گزر رہا تھا تو میں نے کچھ لوگوں کو دیکھا تھا جو کہ آپ کے گھر کے پیچھے والی دیوار کو پھلانگ کر اپ کے گھر میں داخل ہو رہے تھے

میں نے آپ لوگوں کو اس کے بارے میں بتانا چاہا پر آپ کے گھر تالا لگا ہوا تھا اس کے بعد میں آپ کے باڑے کی طرف گیا لیکن باڑہ بھی بند ہو چکا تھا اور جب میں باڑے سے واپس آپ کے گھر کی طرف آیا تو وہ لوگ آپ کے گھر سے باہر نکلے ہوئے تھے اس کچھ دیر میں وہاں سے چلے گئے ۔ اشرف نے حیرت سے پوچھا پر رشید بھائی وہ تھے کون اور کیسے دکھائی دیتے تھے رشید نے کہا میں نے ان کی شکلوں کو غور سے تو نہیں دیکھا تھا پر ہاں ان میں سے ایک بہت ہی عجیب قسم کا بندہ تھا جیسے کوئی فقیر یا ملنگ سا جیسا دکھائی دے رہا تھا اس نے کالے رنگ کا چوغا سا پہنا ہوا تھا ۔

اشرف یہ باتیں سن کر سوچ میں پڑ گیا تبھی رشید نے کہا اشرف بھائی کیا سوچ رہے ہو

کہیں وہ کچھ چوری وغیرہ تو نہیں کر کے لے گئے ؟ اشرف نے کہا نہیں نہیں رشید بھائی کچھ نہیں ہوا سب ٹھیک ہے کوئی چوری چکاری نہیں کی انہوں نے میں بس یہ سوچ رہا ہوں کہ آخر وہ تھے کون اور ان کا مقصد کیا تھا ہمارے گھر میں آنے کا ۔ رشید نے کہا ہاں بھائی میں بھی یہی سوچ رہا ہوں کہ اگر انہوں نے چوری نہیں کی تو وہ آپ کے گھر لینے کیا گئے ہوں گے ۔ اشرف نے کہا چلیں چھوڑیں رشید بھائی اللّٰہ بھلا کرے ان کا اچھا میں اب چلتا ہوں آپ کا بہت بہت شکریہ

اس کے بعد اشرف اپنے گھر کی طرف چلا گیا

اس نے گھر کا تالا کھولا اور گھر میں داخل ہوا تو اچانک سے اس کی نظر اندر والے کمرے میں اس نے دیکھا کہ کوئی اس کی جو قمیض چوری ہو گئی تھی وہ پہن کر اندر والے کمرے میں ٹہل رہا تھا اشرف نے پاس میں پڑا ہوا کپڑے دھونے والا ڈنڈا پکڑ لیا تاکہ اگر کوئی چور ہوا تو اسے ڈنڈے سے پیٹ کر بھگا دونگا اس کے بعد اشرف نے ایک زور دار آواز میں کہا کون ہے وہاں اور کمرے میں کیا کر رہے ہو ؟

لیکن کمرے سے کوئی جواب نہیں آیا اس کے بعد اشرف آوازیں لگاتا ہوا آہستہ آہستہ سے کمرے کی طرف بڑھنے لگا لیکن کمرے سے کسی بھی قسم کی کوئی آواز نہیں آئی اور جب اشرف چلتا ہوا کمرے میں پہنچا تو وہاں کوئی بھی نہیں تھا یہ دیکھ کر اشرف حیران ہو گیا کیونکہ اس نے اپنی آنکھوں سے اپنی قمیض پہنے ہوئے کسی شخص کو دیکھا تھا اشرف ہر جگہ کی تلاشی لینے لگا چارپائی کے نیچے دیکھا دروازوں کے پیچھے دیکھا پر کوئی نظر نہیں آیا

اشرف سوچ میں پڑ گیا کہ آخر وہ شخص تھا کون آور اچانک سے کہاں غائب ہوگیا ۔

یہی سوچتے ہوئے وہ چارپائی پر لیٹ گیا اور عنصر کا انتظار کرنے لگا اور کافی دیر کے بعد دروازے پر دستک ہوئی اشرف نے جا کر دروازہ کھولا تو دیکھا کہ عنصر اس کے ساتھ ان کے ماموں آئے ہیں اشرف نے سلام کیا اور وہ سب اندر آکر بیٹھ گئے اشرف نے ماموں کو کھانے وغیرہ کا پوچھا تو انہوں نے کہا نہیں بیٹا ہم لوگوں کھانا کھا کر آئے ہیں اب تو ہم اس گھر میں مٹھائی کھائیں گے آکر جب عنصر کی شادی ہو گی ۔

عنصر نے مسکراتے ہوئے ایک کھانے کا برتن اشرف کو دیتے ہوئے کہا

بھائی یہ لو پھپھو نے تمھارے لیئے بریانی بھیجی ہے یہ کھا لو اشرف نے کھانا کھایا اس کے بعد سب صحن میں بیٹھ کر باتیں کرنے لگے ماموں نے اشرف سے کہا بیٹا تیاری کر لو جلد ہی اس گھر میں تمہاری بھابھی آنے والی ہے ہم لوگ جب لڑکی دیکھنے کیلئے لڑکی والوں کے گھر گئے تھے

تو وہ لوگ ہمیں اچھے لگے جو نہایت ہی شریف عزت دار اور اچھے اخلاق والے لوگ تھے اور ماشاءاللہ سے انکی لڑکی بھی بہت پیاری تھی بس اسی وجہ سے ہم نے عنصر کے لیئے اس لڑکی کو پسند کرنے میں دیر نہیں کی اور اپنی طرف سے عنصر کے لیئے ان کی لڑکی کا ہاتھ مانگ کر آگئے ہیں اب وہ ایک دو دن میں یہاں آئیں گے اور اس کے بعد شادی کی تاریخ کا بتا جائیں گے باقی سب طے ہو چکا ہے ۔

اشرف یہ سن کر بہت خوش ہوا اور عنصر کو مبارکباد دیتے ہوئے اسے گلے لگا لیا

اس دوران عنصر کی آنکھوں میں آنسوں آگئے ۔ ماموں نے کہا بیٹا کیا ہوا ؟ عنصر نے کہا کچھ نہیں ماموں بس امی ابو کی یاد آگئی اس موقع پر وہ بھی ہوتے تو کتنا خوش ہوتے ۔ یہ سن کر اشرف کی آنکھیں بھی نم ہو گئیں ماموں نے دونوں بھائیوں کو گلے لگا کر کہا بیٹا غم نہ کرو مجھے یقین ہے تمہارے ماں باپ یہ سب دیکھ رہیں ہونگے اور وہ بہت خوش بھی ہونگے چلو اب رونا بند کرو اور میں گھر جا کر تمہاری مامی کو بھی یہ خوشخبری دیتا ہوں ۔

اس کے بعد ماموں چلے گئے اور بھائی چارپائیاں صحن میں بچھا کر لیٹ گئے

اور اشرف نے کہا بھائی میں نے آپ کچھ بتانا ہے عنصر نے کہا ہاں ہاں بولو اشرف نے پہلے تو رشید بھائی کے بارے میں بتایا جو جو انہوں نے اشرف سے باتیں کی تھیں اس کے بعد اشرف نے کہا بھائی آج جب میں گھر میں داخل ہوا تو اندر والے کمرے میں کوئی میری کھوئی ہوئی قمیض پہن کر ٹہل رہا تھا

اور جب میں نے کمرے میں جا کر دیکھا تو وہاں کوئی نہیں تھا لیکن میں نے اس کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا وہ کوئی عجیب سا شخص تھا لیکن اس کا منہ نہیں دیکھ پایا میں ۔ عنصر حیرت سے پوچھنے لگا کیا تمہیں پکا یقین ہے کہ کوئی کمرے میں تھا اور اس نے تمہاری قمیض پہنی ہوئی تھی؟ اشرف نے کہا ہاں بھائی میری آنکھیں کبھی دھوکا نہیں کھاتیں ۔

عنصر نے کہا یار مجھے پکا تو نہیں پتا مگر ایسا لگتا ہے کہ یہ ان لوگوں کا ہی کوئی کام ہے

جس کے بارے میں رشید بھائی نے تمہیں بتایا تھا اور جو ہمارے گھر میں داخل ہوئے تھے ورنہ پہلے تو ایسا کبھی نہیں ہوتا تھا ۔ اشرف نے کہا ہاں بھائی پہلے واقعی میں کبھی ایسی چیزیں نہیں دیکھی تھیں ہم نے یہ آجکل میں ہی ہونے لگا ہے ۔ ۔ ۔ تحریر دیمی ولف ۔ ۔ ۔ عنصر نے کہا چلو میں اس بارے میں کسی سے اس بارے میں بات کروں گا ۔

اس کے بعد دونوں بھائی کچھ دیر تک اس لڑکی کی باتیں کرنے لگے

جو ان کے گھر بیاہ کر آنے والی تھی اشرف عنصر سے پوچھے جا رہا تھا اپنی ہونے والی بھابھی کے بارے میں عنصر بتائے جا رہا تھا اور دونوں بھائی ہنستے ہوئے باتیں کرتے کرتے سو گئے اور کچھ دیر بعد جب عنصر کی آنکھ کھلی تو اس نے اٹھ کر باتھروم جانا چاہا پر اس سے اٹھا نہیں جا رہا تھا

پہلے تو اس نے نیند میں ادھر اُدھر کروٹیں بدلنے کی کوشش کی لیکن وہ اپنی جگہ سے نہیں ہل پایا اور جب اس نے پوری طرح سے آنکھیں کھول سامنے دیکھا تو وہی کالی سی چیز اس کے سینے کے اوپر چڑھ کر بیٹھی ہوئی تھی اور اس چیز نے عنصر کے دونوں ہاتھوں کو اپنے دونوں پاؤں کی ایڑیوں سے دبائے رکھا تھا یہ سب دیکھ کر عنصر نے چیخ مارنی چاہی پر اس کی آواز جیسے بند ہی ہو گئی تھی اور وہ چیز اس کے سینے پر بیٹھی خوفناک طریقے سے ہنس رہی تھی

عنصر اسے دیکھ کر اتنا ڈر گیا کہ عنصر نے چارپائی پر لیٹے لیٹے ہی پیشاب کر دیا

اور پھر اچانک سے اس چیز نے بھیانک سی آوازیں نکالی اور غائب ہو گئ اور عنصر کی بھی چیخ نکل گئی جس کی وجہ سے اشرف جلدی سے گھبرا کر اٹھ گیا اور جلدی سے اپنی چارپائی سے اٹھ کر عنصر کے پاس آگیا اور بولا کیا ہوا بھائی کیا بات ہے آپ نے اچانک سے چیخ کیوں ماری ؟ عنصر نے فوراً خود کو دیکھا تو اسے محسوس ہوا کہ اس کے کپڑے پوری طرح سے ناپاک ہو چکے تھے اور بستر بھی گیلا ہو چکا تھا ۔

عنصر نے افسوسناک انداز میں کہا بھائی جو ڈراؤنی سی چیز میں نے کل دیکھی تھی ۔

وہ آج بھی آئی تھی اور وہ میرے سینے پر چڑھ کر بیٹھی ہوئی تھی اور اس میرے ہاتھ اپنے الٹے سے پاؤں تلے دبا رکھے تھے اس کے بعد نہ تو میں ہل پا رہا تھا اور نہ ہی میری آواز نکل رہی تھی میں نے اس کا بھیانک چہرہ دیکھا تو میرا پیشاب نکل گیا ہے اب میں پوری طرح سے ناپاک ہوں اور میرا بستر بھی پوری طرح سے خراب ہو چکا ہے اور مجھے خود سے گھن آرہی ہے ۔

اشرف نے کہا بھائی چلو کوئی بات نہیں آپ جا کر نہا لیں اور کپڑے تبدیل کر لیں میں تب تک آپ کا بستر بدل دیتا ہوں ۔ عنصر نے کہا شکریہ میرے بھائی یہ کہہ کر عنصر نہانے چلا گیا اور اشرف بسترے کو تبدیل کرنے لگا اس نے گیلے بستر کو اٹھا کر دھونے والے کپڑوں کے ساتھ رکھ دیا اور کمرے سے دوسرا بستر لے کر آ رہا تھا کہ اچانک سے اس کی نظر عنصر کی چارپائی پر پڑی تو اس نے دیکھا کہ کوئی کالی سی پرچھائی عنصر کی چارپائی پر بیٹھی ہوئی تھی

اور وہ اپنے سر کو عجیب طریقے سے چاروں طرف گھما رہی تھی ۔

اشرف بستر ہاتھ میں پکڑے اس جگہ کھڑا ہو گیا ۔ تبھی اس چیز نے اپنا سر ہلانا بند کر دیا اور چارپائی سے اٹھ کر کھڑی ہو گئی ۔ اس کا قد اچانک سے بہت بڑا ہو گیا اور وہ سیدھے اشرف کی طرف اپنی لال رنگ کی روشن آنکھوں سے گھورنے لگی ۔ ایسا لگ رہا تھا کہ اس کی آنکھوں میں سرخ رنگ کی آگ جل رہی ہو ۔ اشرف ڈر کے پیچھے ہٹنے لگا اور وہ کالی سی پرچھائی اشرف کی طرف بنا پاؤں چلائے بڑھنے لگی ۔ اس کو اپنی طرف آتا دیکھ کر اشرف پر پوری طرح خوفناک طاری ہو گیا ۔ اس کے ہوش و حواس کھونے لگے اور پورے جسم کے رونگٹے کھڑے ہو گئے ۔

اشرف نے ڈرتے ہوئے ہی آئیت الکرسی پڑھنی شروع کردی ۔

اور آہستہ آہستہ سے اس کی طرف منہ رکھ کر پیچھے کمرے کی طرف بڑھنے لگا لیکن وہ چیز اچانک سے کہیں غائب ہو گئ اشرف نے اپنا چہرہ اسی طرف رکھا ہوا تھا جہاں وہ نظر آرہی تھی پھر اچانک سے اشرف کو ایسا لگا کہ جیسے اس کے پیچھے کوئی کھڑا ہوا ہے جب اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہی چیز اس کے پیچھے کھڑی تھی اور اس کی طرف آنکھیں پھاڑے گھور رہی تھی

اشرف پوری طرح سے ڈر گیا اس کے رونگٹے کھڑے ہو گئے اور اسے ٹھنڈ لگنے لگی اشرف اس کو دیکھ کر ایک ہی جگہ ساکت ہو گیا اور آنکھیں بند کرکے کے آئیت الکرسی پڑھنے لگا تبھی وہ چیز بہت ہی خوفناک طریقے سے ہنسنے لگی اشرف نے آنکھیں کھولیں آئیت الکرسی پڑھتے ہوئے آگے کی طرف بھاگا اتنے میں پیچھے سے عنصر کی آواز سنائی دی وہ اشرف کو کہہ رہا تھا کیا ہوا بھائی تم بھاگ کیوں رہے ہو اشرف نے فوراً پیچھے مڑ کر دیکھا تو

عنصر تولیہ ہاتھ میں پکڑے اس کی طرف دیکھ رہا تھا اشرف نے ایک گہری سانس لی اور بولا بھائی شکر ہے تم ہو ورنہ میں تو آج ڈر سے مر ہی جاتا ۔

عنصر نے اس کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا بس خاموشی سے اس کی طرف دیکھتا رہا اشرف نے اس کے پاس جا کر کہا بھائی میں نے اس چیز کو ابھی دیکھا تھا وہ جہاں آپ کھڑے ہوئے ہیں یہں پر کھڑی تھی ۔ لیکن عنصر نے پھر سے اس کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا اور اشرف کی طرف آنکھیں پھاڑے گھورنے لگا ۔ اشرف نے حیرت بھری نظروں سے عنصر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا بھائی کیا ہوا تم چپ کیوں ہو اور مجھے ایسے کیوں دیکھ ریے ہو ؟

Horror story in urdu – بونگا سالح گاؤں اور بھیانک موت مکمل واقع شروع تا اختتام

جیسے ہی اشرف نے ذرا آگے بڑھ کر عنصر کو ہاتھ لگانے کی کوشش کی

تو عنصر نے اس کو ایک زور دار دھکا دیا اور اشرف عنصر سے کافی دور جا کر گرا اور عنصر زور زور سے ہنسنے لگا اس کی آنکھیں بلی کی طرح چمکنیں لگیں اور اچانک سے غائب ہو گیا اشرف زمین پر لیٹے ہوئے ہی اس کی طرف دیکھ رہا تھا اپنے سر کو اپنے ہاتھ سے ملتا رہا کہ اتنے میں اشرف کو کسی نے جلدی سے ہاتھوں کا سہارا دے کر زمین سے اٹھا کر کھڑا کیا اور اس کے کپڑوں کو جھاڑتے ہوئے بولا کیا ہوا میرے بھائی

تم زمین پر کیوں لیٹے ہوئے ہو اور ادھر کیا دیکھ رہے تھے ۔ اشرف نے جلدی سے اس کی طرف دیکھا تو وہ عنصر تھا اور اشرف اچانک سے اس سے دور ہو کر کھڑا ہو گیا اور حیرت سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولا پیچھے رہو مجھ سے مجھے پتا ہے تم کون ہو جیسے کی اشرف اس سے ڈر گیا ہو ۔ عنصر نے اس کی طرف بڑھتے ہوئے کہا یہ تم کیسی باتیں کر رہے ہو میرے بھائی اور تم مجھ سے ڈر کیوں رہے ہو؟

اشرف نے اپنے قدم آہستہ آہستہ سے پیچھے ہٹاتے ہوئے کہا دیکھو تم جو بھی ہو میرے قریب نہیں آؤ وہیں پر رک جاؤ مجھے پتہ ہے تم میرے بھائی نہیں ہو ۔

عنصر نے پھر سے کہا یار کیا ہو گیا ہے تمہیں تم تو ایسے ڈر رہے ہو جیسے میں کوئی جن ہوں اور تمہیں نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہا ہوں میرے بھائی میں عنصر ہوں تیرا بڑا بھائی غور سے دیکھ میری طرف میں ہوں عنصر ۔ اشرف نے کہا اگر میرے بھائی ہو تو اسی جگہ رک جاؤ میرے قریب نہیں آنا ۔ عنصر نے حیرت بھری نظروں سے اشرف کی طرف دیکھا اور بولا اچھا ٹھیک ہے میرے بھائی دیکھ میں ادھر ہی کھڑا ہوں بلکہ یہ دیکھ میں اور پیچھے جا رہا ہوں

تو ڈر مت مجھ سے یہ کہہ کر عنصر چارپائی پر بیٹھ گیا اور بولا

اب تو بتا دے میرے بھائی کیا ہوا ہے تجھے تو ایسے کیوں کہہ رہا ہے ۔ مجھے ؟ اشرف نے کہا سہی طرح بتا دو تم کون ہو ؟ عنصر نے ہنستے ہوئے کہا یار کہا ہو گیا ہے تجھے تو مجھے نہیں جانتا میں بھائی ہوں تیرا عنصر ۔ ۔ اشرف نے کہا اچھا تو کلمہ پڑھ کے سناؤ ؟ عنصر نے کہا اب یہ کیا بچوں والی باتیں کر رہا ہے تو تجھے کیا لگتا ہے میں مسلمان نہیں ہوں ؟ اشرف نے کہا تم بحث مت کرو اور جلدی سے کلمہ سناؤ ۔

عنصر نے کہا اچھا ٹھیک ہے اس کے بعد عنصر نے کلمہ طیبہ پڑھ کر سنایا پھر کہا اور کچھ میرے بھائی ؟؟ اشرف آرام آرام سے عنصر کی طرف بڑھنے لگا اور بولا بھائی تم واقعی میں تم ہو نہ ؟ عنصر نے کہا ہاں ہاں میرے پیارے بھائی میں ہی ہوں ۔   اس کے بعد اشرف نے کہا اسلام علیکم بھائی اور اپنا ہاتھ عنصر کی طرف بڑھایا عنصر نے اس کا ہاتھ پکڑ تے ہوئے کہا وعلیکم اسلام میرے بھائی اس کے بعد اشرف نے عنصر کو گلے لگا لیا اور رونے لگا ۔

عنصر نے حیرت سے اشرف کی طرف دیکھتے ہوئے کہا اشرف تم رو کیوں رہے ہو

دیکھو میں تمہارے سامنے کھڑا ہوں تمہارا بھائی بتاؤ مجھے کیا ہوا ہے ۔ اشرف نے آنکھوں سے آنسوں پوچھتے ہوئے کہا بھائی مجھے لگا تھا کہ تمہارے اوپر اس شیطانی چیز نے اپنا سایہ کر دیا ہے اور تم بھی اب اس کی طرح ہوگئے ہو ۔ عنصر نے کہا بھائی میں ایسا کیوں کروں گا وہ تو میں نہا کر باہر آیا تو دیکھا تم زمین پر پڑے تھے میں نے جلدی سے تمہیں اٹھایا اور تم مجھ سے ہی ڈر گئے ۔

اشرف نے کہا بھائی وہ شیطانی چیز بلکل آپ کی شکل میں آگئی تھی

اور اسی نے مجھے دھکا مارا تھا اس وجہ سے میں زمین پر گر گیا تھا ۔ عنصر نے کہا او اچھا ۔ ۔ ۔ ۔ تبھی میں کہوں کہ میں نے تو تمہیں کچھ کہا بھی نہیں تھا پھر بھی تم مجھ سے اتنا ڈر کیوں رہے ہو ۔ ۔ ہاں تو یہ بات تھی سہی اس کا مطلب ہے کہ اب وہ کسی بھی شکل میں سامنے آ سکتی ہے اور یہ بات تو اور بھی زیادہ خطرناک ہے ۔

اشرف نے کہا جی بھائی وہ چیز بہت ہی بھیانک ہے ہمیں اس کا کوئی نہ کوئی حل تلاش کرنا ہوگا ورنہ یہ ہمیں بہت تنگ کرے گی ۔ عنصر نے کہا تم سہی کہہ رہے ہو میرے بھائی ہم صبح ہی کسی سے بات کرتے ہیں اب چلو سو جائیں ورنہ نماز کے وقت انکھ نہیں کھلے گی ۔ اس کے بعد دونوں بھائی سو گئے ۔ اگلے دن دونوں بھائی باڑے میں گئے اور دودھ وغیرہ کے کام سے فارغ ہو کر ناشتہ کرنے چلے گئے اور وہاں ہوٹل پر ان کی ملاقات رشید بھائی سے ہوئی جو کہ شاید ناشتہ وغیرہ لینے آئے تھے ۔

عنصر اور اشرف نے نے ان سے سلام دعا کی اور رشید بھائی کو اپنے ساتھ ناشتہ کرنے کے لیئے کہا

رشید بھائی نے کہا ارے عنصر بھائی آپ کا بہت بہت شکریہ میں آپ کے ساتھ ناشتہ ضرور کروں گا لیکن آپ کو میرے ساتھ میرے گھر چلنا ہو گا اور ہم سب ادھر ہی ایک ساتھ ناشتہ کریں گے ۔ اگر آپ کو برا نہ لگے تو ؟ عنصر نے کہا نہیں نہیں رشید بھائی اللّٰہ معاف کرے ہمیں برا کیوں لگے گا آپ بھی ہمارے بھائی ہو اور اتفاق دیکھئے کہ ناشتے کے بعد میں بھی کسی کام سے سلسلے میں آپ ہی کی طرف جانے ہی والا اور خدا نے میرے بھائی رشید کو میرے سامنے لا کر کھڑا کر دیا ۔

رشید نے کہا تو چلو پھر اب بھائی کے ساتھ بھائی کے گھر چل کر ناشتہ کرو

اب بھائی کہا ہے تو بھائی کی بات بھی ماننی پڑے گی آپ کو ۔ عنصر نے کہا اچھا ٹھیک ہے رشید بھائی ۔ اس کے بعد عنصر اور اشرف رشید بھائی کے ساتھ ان کے گھر چلے گئے اور ناشتہ کرنے لگے تبھی رشید بھائی نے عنصر کو ان لوگوں کے بارے میں پھر سے بتایا جو ان کے گھر دیوار پھلانگ کر داخل ہوئے تھے

عنصر نے کہا جی رشید بھائی اشرف نے مجھے آپکی ان لوگوں کے بارے میں بتائی ہوئی باتوں کے بارے میں بتایا تھا ۔ لیکن رشید بھائی اب جو ہم آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں آپ وہ سنے اور ہمیں اس بارے میں کچھ بتائیں کیونکہ ماشاءاللہ سے آپ کے تعلقات اس علاقے میں سب سے زیادہ ہیں اور مجھے لگتا ہے کہ شاید آپ ہماری کوئی مدد کر سکیں ۔ ۔ ۔ تحریر دیمی ولف ۔ ۔ ۔ رشید بھائی نے کہا ہاں ہاں عنصر بھائی بتائیں کیا بات ہے ۔

عنصر نے کہا رشید بھائی بات یہ ہے کہ جب سے وہ لوگ ہمارے گھر سے ہو کر گئے ہیں

تب سے ہی ہماری گھر میں کچھ نہ کچھ ہو رہا ہے اور کوئی ایسی چیز ہمارے گھر میں آگئی ہے جو ہمیں زور تنگ کرتی ہے اور ڈراتی ہے ۔ رشید بھائی نے حیرت سے پوچھا عنصر بھائی یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ؟ عنصر نے جی رشید بھائی میں جانتا ہوں یہ بات آپ کو عجیب لگ رہی ہوگی پر ایسا ہی ہے پھر عنصر نے اس چیز کے بارے میں ساری باتیں رشید بھائی کو بتاتے ہوئے یہ بھی کہا کہ گزشتہ رات تو جب میں سو رہا تھا تو وہ میرے سینے پر آکر بیٹھ گئی تھی

اس کی وجہ سے میرا پیشاب بھی کپڑوں میں نکل گیا تھا

اور جب میں نہانے گیا تو اس نے اشرف پر حملہ بھی کیا وہ بھی میری شکل اختیار کر کے ۔ اشرف نے کہا جی رشید بھائی گزشتہ رات تو مجھے ایسا لگا کہ جیسے میں اپنے بھائی کو ہمیشہ کے لیئے کھو دوں گا کیونکہ جب اس نے عنصر بھائی کی شکل میں مجھے دھکا دیا تو میں یہی سمجھا کہ شاید عنصر بھائی پر اس کا سایہ ہو گیا ہے لیکن خدا کا شکر ہے کہ میرا بھائی اس کے چنگل میں نہیں پھنسا ورنہ پتا نہیں کیا ہو جاتا ۔

رشید بھائی نے کہا یار تم لوگوں کی باتیں سن کر مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ یہ کوئی ہوائی چیز کا معاملہ لگ رہا ہے اور اس کے پیچھے مجھے ان لوگوں کا ہاتھ لگ رہا ہے جو اس دن تمہارے گھر میں دیوار پھلانگ کر داخل ہوئے تھے کیونکہ کے ان کے ساتھ ایک ملنگ یا کوئی جوگی ٹائپ کا بندہ بھی تھا ہو سکتا ہے کہ یہ اسی کا کام ہو اور اسی نے شاید کوئی جادو ٹونے سے کوئی ہوائی چیز تمہارے گھر میں بھیج دی ہو ۔ عنصر نے کہا پتا نہیں رشید بھائی یہ کیا چکر ہے مجھے تو بہت فکر لگی ہوئی ہے ۔

رشید بھائی نے کہا عنصر بھائی آپ بلکل بھی پریشان نہ ہوں

میں پکا تو نہیں کہہ سکتا پر میں شاید کسی عامل کو جانتا ہوں جو کہ یہ جادو ٹونے کے بارے میں جانتا ہے کیونکہ اکثر لوگ تعویذ گنڈے کروانے کے لیئے اس کے پاس آتے جاتے ہیں ۔ عنصر نے کہا رشید بھائی کیا وہ واقعی میں اس کا کوئی حل کر دے گا ؟ رشید بھائی نے کہا عنصر بھائی یہ تو میں نہیں جانتا پر مجھے لگتا ہے کہ ہمیں ایک بار اس کے پاس جا کر اس بارے میں بات کرنی چاہیئے اگر اس کی سمجھ میں آیا تو ٹھیک ورنہ کوئی اور حل کریں گے پھر ۔

دنیا بہت بڑی ہے اور مجھے یقین ہے کہ اس کا کوئی نہ کوئی حل تو مل ہی جائے گا ۔

اس کے بعد سب نے ناشتہ کیا اور عنصر اور اشرف رشید بھائی کے ہمراہ عامل کی طرف چلے گئے ۔ وہاں پہنچے تو بہت رش لگا ہوا تھا اور زیادہ تر عورتوں کا رش لگا ہوا تھا اور ایک عامل زمین پر بیٹھ کر ایک مٹی کے برتن میں آگ پتا نہیں کیا جلا رہا تھا جسکی وجہ سے بہت دھواں سا اٹھ رہا تھا برتن میں سے اور وہاں کھڑا ہونا مشکل ہو رہا تھا اس وجہ سے رشید بھائی عنصر اور اشرف واپس باہر کی طرف جانے لگے تبھی پیچھے سے عامل بابا نے آواز دی رکو ۔

اور عنصر کی طرف انگلی کر کے بولے تو بہت پریشان ہے اور مزید ہو جائے گا کیونکہ وہ تیرے گھر میں پناہ لے چکی ہے اب اسے خون چاہیے میں تیرا حل تلاش کر سکتا ہوں لیکن تیرا حل بہت ہی زیادہ مشکل ہے ۔ جب عامل کی یہ بات عنصر نے سنی تو حیران و پریشاں رہ گیا اور سوچنے لگا کہ ابھی تو اس عامل سے ہم نے اپنا تعارف بھی نہیں کروایا پھر اس کو کیسے پتا چل گیا ہے کہ ہمیں کوئی پریشانی ہے یہ اس چیز کے بارے میں کیسے جانتا ہے ۔

رشید بھائی اور اشرف بھی عامل کی باتیں سن کر ہکّا بکّا رہ گئے

رشید بھائی نے عنصر سے کہا دیکھا عنصر بھائی یہ عامل کیا کہہ رہا ہے عنصر نے کہا اس نے تو مجھے ہلا کر رکھ دیا ہے یہ ہے کیا چیز جو اس کو میرے بارے میں سب پتا ہے ؟ اس کے بعد عامل نے کہا کچھ دیر رک جاؤ میں تم سے بات کرتا ہوں ۔ عنصر نے کہا ٹھیک ہے عامل صاحب ہم جا نہیں رہے تھے ہم تو صرف آپ کے ہجرے کہ باہر کھڑے ہونے جا رہے تھے ادھر کافی رش جو لگا تھا اس لیئے ۔ عامل نے کہا ٹھیک ہے جب آواز دوں تو اندر آجانا ۔

اس کے بعد عنصر رشید اور اشرف باہر آگئے اور عامل کی آواز کا انتظار کرنے لگے

کافی دیر انتظار کرنے کے بعد عامل خود باہر آگیا اور عنصر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا چل اپنے گھر لے چل مجھے اس کے بعد عنصر لوگ عامل کو لے کر اپنے گھر لے آئے عامل نے ہر جگہ کو غور سے دیکھا اس کے بعد عامل نے سیڑھیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا وہ اس وقت وہاں ہے ان سیڑھیوں کے نیچے جب کہ عنصر اشرف اور رشید کو وہاں کوئی دکھائی نہیں دے رہا تھا لیکن عامل ایسے کہ رہا تھا جیسے کہ وہ آسانی سے اس شیطانی چیز کو دیکھ رہا ہو

عنصر نے کہا عامل بابا وہاں تو ہمیں کچھ دکھائی نہیں دے رہا عامل نے غصے سے عنصر کی طرف دیکھا اور بولا جا وہ لکڑی اٹھا کر لا جو کہ بلکل سیڑھیوں کے پاس پڑی تھی عنصر نے عجیب طریقے سے عامل کی طرف دیکھا اور پھر لکڑی اٹھا کر عامل کے پاس واپس آیا عامل نے لکڑی پکڑی اور مسکراتے ہوئے بولا کیوں کیسا لگا ؟

عنصر نے کہا میں کچھ سمجھا نہیں عامل بابا ؟

عامل نے کہا ابھی کچھ دیر پہلے تونے ہی کہا تھا نا وہاں کچھ نہیں ہے ؟ عنصر نے کہا جی عامل صاحب کہا تھا میں نے پر ادھر تو واقعی میں کوئی نہیں ہے عامل پھر سے ہنسا اور عنصر کے کپڑوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا تو یہ تیرے کپڑوں پر کیا ہے پھر ۔ جب عنصر نے اپنے کپڑوں پر دیکھا تو جگہ جگہ خون کے چھینٹے پڑے ہوئے تھے یہ دیکھ کر سب دنگ رہ گئے عنصر نے فوراً حیرانی سے عامل سے پوچھا عامل بابا یہ سب کیا ہے عامل نے کہا جب تو لکڑی اٹھانے گیا تھا تو اس چیز نے تجھ پر تھوکا تھا کیونکہ وہ تجھے میرے سامنے نقصان نہیں پہنچا سکتی تھی لیکن اس کو تجھ پر غصہ آیا اور اس نے تجھ پر تھوک دیا یہ خون کے چھینٹے اسی کے تھوک سے آئے ہیں اس کا مطلب ہے وہ تیری جان کی دشمن ہے اور جیسے ہی اس کو موقع ملے گا وہ تجھے مارنے میں زرا بھی دیر نہیں لگائے گی ۔

عنصر عامل کی یہ بات سن کر تھوڑا غصے میں عامل کی طرف دیکھتے ہوئے بولا ۔

تو تم کس مرض کی دوا ہو اگر اس نے مجھے مارنے کی کوشش کی تو تم کیا کر لو گے پھر اس کا ؟ ہم تمہیں یہاں اس لیئے لے کر آئے ہیں تاکہ تم ہماری مصیبت کا کوئی حل نکال کر دو لیکن تم تو اس شیطانی چیز کی تعریفیں کرنے میں لگے ہوئے ہو ۔ عامل نے مسکراتے ہوئے کہا دیکھو یہ اتنا آسان نہیں ہے یہ ایک گندی اور کالے علم نتیجے میں پیدا ہونے والی آفت ہے اور میں اس کے مقابلے میں ابھی کمزور ہوں وہ مجھ سے ڈر ضرور رہی ہے لیکن جیسے ہی میں اس کو قابو کرنے کی کوشش کروں گا تو یہ آپے سے باہر ہو جائے گی اور میری جان بھی آسانی سے لے لے گی ۔

رشید بھائی نے کہا تو عامل بابا کیا آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ ہم یوں ہی ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں؟ عامل نے کہا ہاں ابھی کے لیئے یہ ہی مناسب ہے کیونکہ کے اس کے لیئے مجھے اپنے استاد کے پاس جانا ہوگا اور وہی اس چیز کو قابو کریں گے ۔ یہ کہہ کر عامل گھر سے باہر چلا گیا اور باقی لوگ سیڑھیوں کی طرف غور سے دیکھنے لگے پر ان کو اب بھی کوئی نظر نہیں آرہا تھا ۔ تھوڑی دیر گزرنے کے بعد رشید بھائی نے کہا عنصر بھائی اب مجھے اجازت دیں تو میں گھر جانا چاہتا ہوں اب عامل نے تو اپنے استاد پر بات ڈال دی ہے اب دیکھو وہ کب لے کر آتا ہے اپنے استاد کو ۔

عنصر نے کہا جی رشید بھائی آپ خیریت سے گھر جائیں اور ہماری فکر نہ کرنا ہم دونوں بھائی اس کا مقابلہ کر سکتے ہیں

باقی آپ دعا کرنا کے عامل کا استاد جلدی ہی آجائے رشید بھائی نے کہا ضرور انشاء اللہ میں دعا کروں گا اور اگر اس عامل کو استاد نہ بھی آیا تو بھی ہم کسی اور سے اس کے بارے میں بات کریں گے ۔ یہ کہہ کر رشید بھائی چلے گئے اور عنصر اور اشرف بھی کچھ دیر کے لیئے باہر نکل گئے اور رات کا کھانا کھا کر واپس گھر میں داخل ہوئے تو اچانک سے ان کے اوپر پانی کی چھینٹیں پڑی دونوں بھائی اچانک سے گھبرا کر ادھر اُدھر دیکھنے لگے عنصر نے کہا بھائی یہ پانی کس نے پھینکا ہے ہمارے اوپر اشرف بولا بھائی مجھے کیا معلوم میں تو خود حیران ہوں کہ بارش بھی نہیں ہے پھر یہ پانی کی چھینٹیں کہاں سے آکر گری ہیں اتنے میں عنصر کی نظر صحن میں پڑی چارپائی پر پڑی جس پر وہی کالی سی پرچھائی لیٹی ہوئی تھی اور ان دونوں بھائیوں کو گھور رہی تھی ۔

عنصر نے اشرف کو کہا وہ دیکھو ہماری چارپائی پر اشرف نے اس طرف دیکھا تو خوف سے کانپنے لگا اس نے سرگوشی میں عنصر سے کہا بھائی چلو گھر سے باہر چلتے ہیں اور جیسے ہی دونوں بھائی گھر سے باہر نکلنے کے لیئے دروازے کی طرف بڑھنے لگے تبھی اس شیطانی چیز نے ایک خوفناک چیخ ماری اور اچانک سے ان کے سامنے ۔ آکر کھڑی ہو گئی اور ان دونوں بھائیوں کی طرف گھورتے ہوئے غرانے لگی ۔

دونوں بھائیوں نے جلدی سے آئیت الکرسی پڑھنی شروع کی دی ۔

اور وہ چیز چینختی ہوئی ان کے سامنے سے ہٹ کر چھت کی سیڑھیوں کو طرف چلی گئی اور دونوں بھائی گھر سے باہر نکل آئے اور اپنے باڑے کی طرف جانے لگے اور جیسے ہی وہ باڑے پہنچے تو ان کو باڑے کی دیوار پر کوئی چلتا ہوا ان کی طرف آتے ہوئے دکھائی دیا جب انہوں نے غور سے دیکھا تو وہ وہی شیطانی چیز تھی جس کی وجہ سے یہ دونوں بھائی گھر سے نکل کر باڑے میں آئے تھے

عنصر نے کہا آخر یہ یہاں کیسے آگئ ۔ اشرف نے کہا بھائی مجھے لگتا ہے کہ ہم اس سے دور نہیں جا سکتے ۔ اتنے میں باڑے میں رکھا اشرف کا کتا زور زور سے بھونکنے لگا اور وہ شیطانی چیز غائب ہو گئ اور تھوڑی ہی دیر میں کتا اچانک سے چپ ہو گیا ۔ عنصر نے کہا لگتا ہے اس کتے کی وجہ سے وہ بھاگ گئی ہے ۔ چلو باڑے میں چلتے ہیں اس کے بعد دونوں بھائی باڑے میں جا کر ایک ہی چارپائی پر لیٹ گئے ۔ تھوڑی ہی دیر میں ان کو ایسا لگا کہ جیسے کوئی گائے کو ذبح کر رہا ہے ۔

عنصر نے کہا اشرف یہ آواز تو اپنی گائے کی ہے لیکن ایسا لگ رہا ہے ۔

جیسے کوئی اس کی گردن پر چھری چلا رہا ہے اشرف نے فوراً چارپائی پر بیٹھتے ہوئے ہی گائے بھینسوں کی طرف دیکھا لیکن ان کی زیادہ تعداد کی وجہ سے سہی دیکھ نہ سکا اور جہاں گائے بھینسیں بندھی ہوئی تھیں وہاں کا بلب بھی خراب ہونے کی وجہ سے کچھ خاص نظر نہیں آرہا تھا اشرف نے کہا عنصر بھائی مجھے تو سب ٹھیک لگ رہا ہے اور یہ کہہ کر اشرف واپس لیٹ گیا اور سونے کی کوشش کرنے لگا تبھی ایک عجیب سی آواز پھر سے آنے لگی جیسے کوئی گائے زور زور سے پیٹ رہا ہو

عنصر نے جلدی سے اٹھ کر دیکھا تو اس کی چیخ نکل گئی وہ شیطانی چیز ان کی بھینس کے اوپر بیٹھی ہوئی تھی اور اپنے منہ سے بھینس کا گوشت نوچ رہی تھی اور بھینس درد سے ادھر اُدھر جانے کو کوشش کر رہی تھی اشرف نے بھی جلدی سے اٹھ کر وہ منظر دکھا تو وہ بھی ڈر گیا اس نے جلدی سے آئیت الکرسی پڑھنی شروع کردی اور عنصر بھی پڑھنے لگا اس کچھ ہی دیر بعد اس شیطانی چیز نے ایک بھیانک سی آواز نکالی اور اس بھینس کی گردن کو اس کے دھڑ سے الگ کر کے ساتھ لے گئی اور دیوار پر بیٹھ کر اس کی گردن کو کھانے لگی

عنصر نے اونچی آواز میں آئیت الکرسی پڑھنی شروع کردی ۔

اور اشرف نے بھی اس کے ساتھ ہی وہ غائب ہو گئ اور بھینس کی کٹی ہوئی گردن بھی ساتھ لے گئی ۔ عنصر افسوس بھرے انداز میں اشرف سے بولا بھائی یہ کیا ہو رہا ہے ہمارے ساتھ ہم نے تو کسی کا برا نہیں سوچا لیکن پھر بھی ہمارے ساتھ یہ کون کر رہا ہے یہ کہہ کر عنصر اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گیا اور اشرف اس دلاثے دینے لگا اور بولا بھائی آپ پریشان نہ ہوں انشاء اللہ سب ٹھیک ہو جائے گا

اب کچھ دیر کے لیئے سو جاؤں بھائی ۔ اس کے بعد دونوں سو گئے اور اگلے دن اٹھ کر جب انہوں نے دیکھا تو تین جانور مرے پڑے تھے جن میں ایک کتا بھی تھا اور ان جانوروں کے جسم کا اچھی طرح سے چیڑ پھاڑ ہوا تھا اور زمین پر کافی خون جما ہوا تھا دونوں بھائیوں نے حوصلہ کر کے سب کچھ صاف کیا اور جانوروں کے آلائشوں کو صفائی کرنے والوں کی مدد سے اٹھوایا اور کسی جگہ پھینک دیا اس کے بعد دونوں بھائیوں نے باقی جانوروں کا دودھ نکالا اور لوگوں کو دینے لگے اس کے بعد وہ ناشتہ کرنے چلے گئے اور ادھر سے واپس گھر چلے گئے ابھی وہ گھر میں بیٹھے ہی تھے کہ اچانک سے دروازے پر دستک ہوئی عنصر نے کہا اشرف زرا دیکھو تو کون ہے

اشرف نے دروازا کھولا تو ان کے ماموں اور دو میاں بیوی دروازے پر کھڑے تھے ۔

اشرف جلدی سے ان سب کو اندر لے آیا اور مامون نے کہا بیٹا عنصر یہ عینی کے والد اور والدہ ہیں اور یہ یہاں تمہارا گھر دیکھنے آئے ہیں اشرف نے بولا ماموں یہ عینی کون ہے ماموں نے ہنستے ہوئے کہا او پگلے عینی تیری ہونے والی بھابھی کا نام ہے ۔ ۔ ۔ تحریر دیمی ولف ۔ ۔ ۔ اشرف بولا آہ اچھا ۔ ۔ ۔ ۔ تو یہ لوگ میری ہونے والی بھابھی کے امی ابو ہیں اس کے بعد اشرف اور عنصر نے ان لوگوں کو بیٹھایا اور ان کے لیئے چائے وغیرہ کو بندوست کیا اور کچھ ہی دیر کے بعد عینی کے والدین نے ماموں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا بھائی صاحب اب ہم نے سب کچھ دیکھ لیا ہے اور اب آپ بتائیں کہ آپ لوگ کب بارات لے کر آرہے ہیں

ہمارے گھر کیونکہ ہم چاہتے ہیں یہ نیک کاموں میں دیر نہیں کرنی چاہیے ماموں نے کہا ہمارا بھی یہی خیال ہے کہ جلد از جلد بارات لے کر آپ کے گھر پہنچیں اتنے میں اشرف جلدی سے بولا ماموں ہم کل بارات لے کر جا سکتے ہیں کیا ۔ تو عینی کے والد نے مسکراتے ہوئے کہا ضرور بیٹا کیوں نہیں اگر تم چاہو تو آج ہی بارات لے آؤ اپنے بھائی کی اب تم دونوں بھائی ہمارے بیٹے ہو اور عینی اس گھر کی عزت بنے گی ماموں نے عینی کے والد سے کہا تو بھائی صاحب دو دن کے بعد جمعہ کا دن ہے تو اگر آپ چاہیں تو ہم جمعہ کے دن عنصر اور عینی کا نکاح کروا دیتے ہیں ۔

عینی کے والد نے عینی کی والدہ کی طرف دیکھا اور عینی کی والدہ نے ہاں میں سر ہلایا ۔ ۔ بونگا سالح گاؤں

اور عینی کی والد نے ماموں کو کہا جی ٹھیک ہے بھائی صاحب آپ لوگ جیسا چاہیں کر لیں اب عینی آپ کی بیٹی ہے ۔ ماموں نے کہا تو ٹھیک اب ہم جمعہ کو بارات لے کر آپ کی طرف آئیں گے اس کے بعد عینی کے والدین وہاں سے چلے گئے اور مامون نے کہا میں آج ہی تمہاری مامی اور باقی لوگوں کو ادھر لے کر آتا ہوں کیونکہ ٹائم بہت کم ہے اور کام بہت زیادہ اب جلدی سے جاؤ اور شادی کی تیاریاں شروع کردو جو جو خریدنا ہے خرید لو یہ لو میرے پاس کچھ پیسے ہیں یہ بھی رکھ لو عنصر نے کہا ارے ماموں جان یہ آپ کیا کر رہے ہیں

آپ کو پتا ہے نا ہم آپ کے بیٹے ہیں اور جب بیٹے جوان ہو جاتے ہیں تو وہ باپ سے پیسے لیتے نہیں بلکہ باپ کو دیتے ہیں اب آپ بس جا کر مامی اور باقی سب پھپھو وغیرہ کو لے کر آجائیں اور ہم دونوں بھائی بازار سے کپڑے وغیرہ لینے جا رہے ہیں ۔ اس کے بعد ماموں مامی اور باقی لوگوں کو لینے چلے گئے اور عنصر اور اشرف شاپنگ کرنے کے لیئے بازار چلے گئے اور اس دوران عنصر اور اشرف صبح والے واقعے اور اس شیطانی چیز کو کچھ دیر کے لیئے بھول گئے تھے اور اپنے کاموں میں مصروف رہے شام ہو گئی

عنصر اور اشرف واپس گھر آئے تو پورے گھر میں لائٹیں لگائی جارہی تھیں اور عنصر کا کزن لائٹیں لگوانے میں مصروف تھا ۔

مامی اور باقی رشتدار بھی گھر میں آچکے تھے اور پھر مایوں مہندی کی تقریب ہونی شروع ہو گئی اس میں دو دن لگ گئے اور دو دن میں وہ شیطانی چیز بھی کسی کے سامنے نہیں آئی اور پھر بارات کا دن تھا عنصر کا نکاح عینی سے ہو چکا تھا اور عنصر عینی کو بیاہ کے گھر لے آیا تھا عینی اپنی پھولوں سے سجی ہوئی سیج پر بیٹھی ہوئی تھی اور عنصر باہر اپنے دوستوں وغیرہ کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا اتنے میں دوستوں نے کہا چل یار اب بھابھی کے پاس جا وہ بیچاری تیرا انتظار کر رہی ہو گی اور سوچ رہی ہو گی میرے سرتاج نہیں آئے ابھی تک ۔

یہ بات سن کر سب زور زور سے ہنسنے لگے اور بہت خوشی کا ماحول تھا لیکن ان کی ان کی نہیں پتا تھا کہ کوئی اور بھی ہے جو ان سب پر ہنس رہا تھا عنصر نے دوستوں سے اجازت لی اور اپنے کمرے میں چلا گیا اس کے بعد باقی لوگ کمرے میں میاں بیوی کو چھوڑ کر چلے گئے عنصر نے کمرے کو اندر سے بند کیا اور عنصر نے کچھ ٹائم بیوی سے باتیں وغیرہ کی ابھی وہ باتیں کر رہی رہے تھے کہ اچانک سے کھڑکی جھٹ سے کھلی اور وہ شیطانی چیز کمرے میں داخل ہو گئ

اس کے بعد اس شیطانی چیز نے پہلے عینی کی گردن کو دونوں ہاتھوں سے مڑوڑ کر اس کا منہ کو کمر کی طرف کر دیا ۔ ۔

اس کے بعد عنصر کی بھی گردن مڑوڑ کر اس کا منہ بھی کمر کی طرف کر دیا ۔ جس کی وجہ سے دونوں میاں بیوی اسی وقت مر گئے اور صبح جب لوگوں نے عنصر اور عینی جگانے کے لیئے دروازے پر دستک دی تو کسی نے نہیں کھولا ۔ بہت آوازیں دی پر کسی نے نہیں کھولا آخر کار دروازا توڑا تو سب کے پیروں تلے زمین نکل گئی ۔ ان دونوں کی لاشیں کمرے میں پڑی ہوئی تھیں اور ان دونوں کے چہرے کو مڑوڑ کر کمر کی طرف کر دیا گیا تھا گھر میں قہرام مچ گیا اور اشرف تو جیسے بلکل صدمے میں ہوش ہی کھو بیٹھا

اس کے بعد آہوں سسکیوں سے ان دونوں میاں بیوی کا جنازہ اور کفن دفن ہو اور اس کے بعد اشرف کو ماموں اپنے ساتھ اپنے گھر لے گئے کافی مہینوں تک اشرف کو سہی سے ہوش نہ آیا پھر بہت عرصے کے بعد اشرف زندگی کی طرف لوٹ گیا اور اپنا کام اکیلا سنبھالنے لگا اور اپنے اس گھر کو بیچ دیا پھر ماموں کے ساتھ ہی رہنے لگا پر اس کافی سال بعد یعنی دو ہزار بائیس کو ایک خبر ملی کے اشرف اپنے باڑے میں رات کو رضائی لے کر لیٹا ہوا تھا اور اس نے رضائی منہ باہر نکالا تو کسی چیز نے اس کا منہ ہی کھالیا جس سے فوری تور پر اشرف بھی مر گیا ۔ ۔ ۔

اب وہ کس نے کیا کیسے کیا یہ نہیں پتا چلا پر دونوں بھائی بیچارے اس دنیا سے چلے گئ ۔

ے یہ تھا دوستو ایک سچا واقع جو کہ دو بھائیوں کا تھا اور ان لوگوں کے بارے میں بھی تھا جو کہ کالے علم وغیرہ کرتے اور دوسرے لوگوں پر کرواتے ہیں لیکن ایسا کر کے یہ لوگ اپنے لیئے اللّٰہ کے عزاب کے سوا کچھ حاصل نہیں کریں گے اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کو ایسے لوگوں سے محفوظ رکھے آمین واقع ختم ۔ ۔ ۔ ۔

اللّٰہ حافظ

بونگا سالح گاؤں

✭ نوٹ :- عمدہ قسم کے سبق آموز واقعات وحکایات کیلئے آج ہی ہمارا ٹیلی گرام چینل جوائن کریں ۔

نوٹ :- ایسے ہی دل کو موہ لینے والے اور دل کو چھو لینے والے واقعات و حکایات پڑھنے کے لئے روز ویب سائٹ کا وزٹ کریں ۔ اور اپنے دوست و احباب اور متعلقین کو بھی شیئر کریں تاکہ آپ کے ذریعے ان کا بھی فائدہ

Leave a Comment