ٹیپو سلطان کو کس نے شہید کیا
اوریا مقبول جان صاحب نے دو ہزار چودہ میں ایک کالم لکھا تھا ۔ جس کا عنوان تھا ۔ تجھے آباء سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی ۔ اس میں اوریا مقبول جان صاحب نے سکارٹ لینڈ کے دارالحکومت میں واقع ایک میوزیم کا ذکر کیا ہے ۔ جس میں ٹیپو سلطان کی تلوار یں ۔ چادریں اور دیگر سامان پڑا ہے ۔ اوریا صاحب کہتے ہیں ۔ میں حیران تھا ۔ یہ سامان برصغیر سے یہاں کیوں لایا گیا ۔ پھر کہتے ہیں ۔ در اصل اسکی وجہ یہ تھی کہ ٹیپو سلطان کو جس فوج نے شہید کیا تھا ۔ اس کے سربراہ کا تعلق سکاٹ لینڈ کے دارالحکومت سے تھا ۔
اس شخص کا نام ڈیوڈ تھا ۔ یہ 1757 میں ایک تاجر کے گھر پیدا ہوا ۔ اس نے 1772 میں فوج میں کمیشن حاصل کیا اور 1779 میں اسے کیپٹن کی حیثیث سے ہندوستان بھیج دیا گیا ۔ کرنل بیلی کی سربرائی میں ٹیپو سلطان کے والد حید ر علی سے جنگ لڑی ۔ اس جنگ میں انگریز کو بری طرح شکست ہوئی ۔ اکثریت ماری گئی ۔ جو فوج بچی وہ قیدی بنا لی گئی ۔ ڈیو ڈبھی شدید زخمی تھا ۔ اسےبھی قیدی بنا لیا گیا ۔ اس نے چار سال قید کاٹی ۔ پھر آزاد ہو کر انگلستان پہنچا ۔ تو اسے لیفٹینٹ کرنل کے عہدے پر ترقی دے دی گئی ۔
پھر 1790 میں اسے دوبارہ ہندوستان بھیج دیا گیا ۔ یہاں اس نے ٹیپو کے ساتھ بہت سی جنگیں لڑیں ۔ آخری جنگ میں پچاس ہزار سپاہیوں نے حصہ لیا ۔ برطانوی فوج کے سپاہی چھبیس ہزار تھے ۔ جبکہ ٹیپوسلطان کے ساتھ تیس ہزار سپاہی تھے ۔ جب میر صادق کی غداری کی وجہ سے برطانوی فوج قلعے کے کھلےدروازوں سے اندر داخل ہوئی ۔ تو ٹیپو سلطان کے ساتھ لڑنے والے فرانسیسی سپاہیوں نے اسے خفیہ راستے سے بھاگ جانے کا مشورہ دیا ۔ تواس پر ٹیپو نے اپنا تاریخی جملہ کہا ۔ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے ۔ یہ چارمئی 1799 تھا ۔ اسی دن ٹیپو سلطان کو شہید کیا گیا اوراسی شام ٹیپو سلطان کو دفن کر دیا گیا ۔
اوریا صاحب کہتے ہیں:ٹیپو سلطان
ٹیپو سلطان کے نوادرات کے ساتھ ایک تحریر ہے ۔ جس کے الفاظ یہ تھے ۔ ٹیپو سلطان ہندوستان میں برطانیہ کے مفاد کے لیے اتنا بڑا خطرہ ثابت ہوا تھا کہ اسکی موت کی وجہ سے برطانیہ میں قومی سطح پر جشن منایا گیا ۔
اوریا صاحب کہتےہیں:
آج ہماری نسل کو اپنی تاریخ سے اس قدر لا علم کر دیا گیا ہے کہ انہیں معلوم ہی نہیں کہ ان کے آبائو اجداد کس جرات و بہادری کے پیکر ہوا کرتے تھے ۔
اوریا صاحب کہتے ہیں:
جو قوم برطانیہ میں لکھی ہوئی نظموں اور کتابوں کو پڑھ کر جوان ہورہی ہے ۔ اسے کیا خبر کہ اس کا ایک ماضی تھا ۔ جس پر اسے فخر کرنا چاہیے تھا ۔
اوریا صاحب کہتے ہیں:
جو قومیں دوسروں کی عظمتوں کی کہانیاں پڑھ کر جوان ہوتی ہیں ۔ وہ مرعوب ذہن اور مردہ ضمیر لے کر پلتی ہیں ۔
Leave a Comment