میں جب بھی بابا کی قبر پر دعا کرنے قبرستان جاتی مجھے ایک بے نام سی قبر کے پاس ایک عورت بیٹھی ملتی۔ جو ہمیشہ رو رہی ہوتی اور کسی سے معافی مانگتی ۔ مجھے اس کا رونا بہت عجیب لگتا ہے حالانکہ چہرے سے وہ کافی پریشان لگ رہی تھی۔
ایک دن مجھ سے رہا نہیں گیا میں نے اس سے پوچھ لیا اگر آپ برا نہ مانے تو مجھے اپنا دکھ بتا سکتی ہیں۔ آپ یہاں کیوں بیٹھی ہیں کیا میں آپ کی مدد کر سکتی ہوں۔ میری بات پر اس نے آنکھیں اٹھا کر مجھے دیکھا اس کی نظروں میں بے پناہ غم اور ندامت کا احساس تھا ۔میں نے دیکھا رو رو کر اس کی آنکھیں لال ہو چکی تھی ۔تمہیں کیا بتاؤں بیٹی میں بہت بری ہوں اگر تم میری کہانی سننا چاہتی ہو تو تھوڑی دیر میرے پاس بیٹھ جاؤ۔
میرا بھی دل ہلکا ہو جائے گا اس عورت کے ساتھ قبرستان میں بیٹھنا مجھے اچھا نہیں لگ رہا تھا ۔میں نے اسے اپنے گھر چلے کی دعوت دی جسے اس نے تھوڑے درد کے بعد قبول کرلیا ۔درد کی ماری تھی شاید سہارا چاہتی تھی میں نے اسے چائے پلائی پھر جب اس کے حواس بحال ہوئے تو اس نے مجھے اپنی کہانی سنائی۔
میرا نام آمنہ ہے میں ایک ایسے گھرانے میں پیدا ہوئی۔ جہاں عورتوں کا نسل در نسل پیشہ یہی تھا کہ وہ مر جانے والی خواتین کو غسل دیتی اور انہیں کفن وغیرہ پہناتیں۔ گاؤں میں تو کوئی بھی یہ کام کر لیتا ہے اور یہاں کوئی خاص کمائی بھی نہیں تھی ۔لیکن شہر میں ہماری اچھی خاصی کمائی ہو جاتی کیونکہ یہاں بھر ہر دوسرے دن کوئی نہ کوئی عورت مر جاتی۔ اور لوگ ہمیں جانتے پہچانتے تھے۔اسی لئے ہمیں اپنے گھر لے جاتے۔ہم لوگوں کو اس کام کی عادت پڑ چکی تھی اس لیے کسی قسم کا ڈر یا کوئی وحشت نہیں ہوتی تھی۔
شام چار بجے میں اپنے کام سے فارغ ہو کر بیٹھی تھی۔ کہ دروازے پر دستک ہوئی سلطانہ نے دروازہ کھولا تو سامنے ایک پچاس سالہ عورت تھی۔ جس کا قد اچھا خاصہ تھا اور صحت بھی قابل رشک تھی۔ کہنے لگی مجھے تم سے کوئی کام ہے جلدی میرے گھر چلو میں حیران ہوئی کہ اتنی جلدی میں کسی کو مجھ سے کیا کام ہوسکتا ہے۔ میں نے چادر پہنی اور اس کے ساتھ چل پڑی وہ بہت اچھی لگ رہی تھی ۔ایک بڑے سے بنگلے کے سامنے جا کر وہ رکی ۔ابھی وہ پیدل ہی آئی تھی جبکہ اس کے گھر کے باہر دو گاڑیاں کھڑی تھی۔
مجھے اس بات پر سخت حیرت ہوئی۔ مجھے بڑی رازداری سے اندر لے کر گئی بولی دیکھو یہ فوت ہو گئی ہے ۔میں اس کے باپ کو نہیں جانتی میرا بیٹا ایک لاوارث لڑکی کو بھگا کر لے آیا تھا ۔تاہم اس سے بہت محبت بھی کرتا تھا۔ مگر میں کیا کروں یہ حاملہ ہے حاملہ کو زیادہ دیر تک گھر میں رکھنا اچھی بات نہیں ہے ۔
تم اسی جلدی سے غسل دے دو تاکہ میں اسے مختصرا رسومات کے بعد دفن کر دو ں۔مجھے تو اس لحاظ سے بھی ڈر لگ رہا ہے میں نے سنا ہے حاملہ جب مر جاتی ہیں تو وہ ڈائن بن جاتی ہیں۔ اس عورت کی تہمات سن کر میں تو حیران رہ گئی بلکہ ایسی کوئی بھی بات سچ نہیں ہوتی ۔یہ لوگوں کی کی بنائی ہوئی باتیں ہیں ۔میں نے ایک نظر اس عورت کے چہرے کی طرف دیکھا ۔جہاں پر کسی قسم کے کوئی تاثرات نہیں تھے میں حیران تھی کہ اپنی بہو کے مرنے پر کوئی عورت اتنا پرسکون کیسے رہ سکتی ہے۔ وہ بھی جب اس کے پیٹ میں اپنا پوتا ہو۔
پھر میں نے غسل کی تیاریاں شروع کر دی تختے پر لاش کو لٹایا گیا ۔یہ دیکھ کر مجھے بہت دکھ ہوا کہ وہ ایک جوان اور خوبصورت تھی اتنی بھرپور جوانی میں مر جانا اپنے آپ میں بہت بڑا سانحہ ہے۔ اچانک مجھے اس کے ہاتھوں میں ہلکی سی حرکت محسوس ہوئی ۔مجھے شک ہوا تو میں نے اس کی ناک کے سامنے ہاتھ رکھ کر دیکھا اس کی سانس چل رہی تھی۔ مجھے اشارہ مل گیا کہ وہ عورت مری نہیں ہے بلکہ صدقے کی حالت میں ہے۔ جب انسان کی ظاہری حالت ایسی ہوتی ہے جیسے کہ مردے کی۔ لیکن اصل میں وہ زندہ ہوتا ہے میں نے جب یہ سب دیکھا تو میں الجھن کا شکار ہوگئی۔
غسل دیتے دیتے رہ کر میں نے اس عورت کی ساس کو بلایا۔ بات سنئے یہ تو مجھے زندہ لگ رہی ہیں آپ کسی ڈاکٹر کو بلائیے ہو سکتا ہے کہ ابھی ان کی کچھ زندگی باقی ہو۔ اور تم میری بات سن کر خاموش ہو گی نہیں تمہیں مجھے مشورہ دینے کی ضرورت نہیں تمہیں جو کہا ہے وہی کرو۔ اس کی بات سن کر میں سمجھ گئی کہ یہ کوئی سوچی سمجھی سازش ہے ورنہ جوان عورت کی موت کے منہ میں نہیں جا سکتی ۔میں نے اسے غسل دینے اور کفن بنانے سے انکار کردیا۔
تب اس کی ساس جلدی سے دوسرے کمرے میں گئیں اور لال رنگ کی ایک تھیلی اٹھائے۔ جس میں پانچ ہزار کے نوٹ تھے اس وقت مجھے پیسوں کی شدید ضرورت تھی ۔پھر پیسوں سے تو کوئی بھی بکتا ہے میرا ایمان بھی بک گیا ۔میں اس عورت کی بات سمجھ گئی میں نے وہ پیسے اپنی جیب میں رکھ لئے۔ یہ پیسے میں اپنے داماد کو دینا چاہتی تھی جو کب سے مجھ سے موٹرسائیکل مانگ رہا تھا ۔اسی وجہ سے میری بیٹی کے گھر میں بھی سکون نہ تھا ۔پیسے لے کر مجھے اطمینان ہو گیا کہ میں اپنی بیٹی کو پیسے دے دوں گی تو اس کا مسئلہ حل ہوجائے گا۔ میں دوبارہ اس عورت کو غسل دینے لگیں مگر میرا دل جلس رہا تھا۔۔
میں نے اسے غسل دینے کے بعد کفن پہنا دیا مگر میرا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ عورت نے کہا کہ میں اپنے بیٹے کو دکھ نہیں دینا چاہتی کہ اس کی بیوی مر گئی ہے۔ اس لیے اس لیے اسے کہو گی کہ تمہاری بیوی بھاگ گئی ہے میں اسے دفنانا چاہتی ہوں۔
تاکہ میرے بیٹے کے دل میں غم کی جگہ نہ حصہ لے لے اور خود دوسری شادی کرنے کے لیے رضا مند ہو جائے ۔میں اپنے دل کو تسلی دے رہی تھی کہ اس عورت نے اپنے بیٹے کی بھلائی کے لیے یہ سب کیا ۔مگر میں زیادہ دیر وہاں نہیں رکی اور گھر سے نکل آئی اس گھر کے قریب ایک قبرستان تھا ۔جو لوگوں کا خاندانی قبرستان کہلاتا تھا میں اسے وحشت سے دیکھتی گھر آگئی۔ گھر آگئے مگر مجھے بستر پر لیٹے نیند نہیں آ رہی تھی۔ تھوڑی دیر کے بعد میری بیٹی آئی میں نے اسے بوجھل دل سے خوشخبری سنائی۔ کہ تمہارے پچاس ہزار روپے کا بندوبست ہوگیا ہے۔
اب تم اپنے شوہر کو دے دینا تاکہ وہ موٹر سائیکل لے لے اور تمہاری بھی زندگی آسان ہو ۔وہ بولی آپ اتنے پیسے کہاں سے لائے ہیں میں نے اسے حقیقت نہیں بتائی۔ وہ خوشی خوشی پیسے لے کر چلی گئی میرا شوہر لالچی تھا اسے ان باتوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا ۔میں نے جب اسے یہ بات بتائی تو باتوں باتوں میں میں نے اس عورت کے زیورات کا ذکر بھی کر دیا۔ کہ عورت نے اچھی خاصی سونے کی انگوٹھی پہنی ہوئی تھی اس کے ہاتھ سے میں نکال نہیں پائی اور وہ اس کے ساتھ ہی ہے۔ اس کے بعد مجھے اطمینان نہیں ہو رہا تھا لیکن میرا شوہر اب وہ انگوٹھی حاصل کرنا چاہتا تھا۔ اس نے مجھے کہا کہ ہم اسے اپنی بیٹیوں کے لئے استعمال کریں گے ۔ہم اس سے اپنی بیٹیوں کی شادی کریں گے تمہیں سمجھ کیوں نہیں آرہی اپنے شوہر کی باتیں سن کر میرا دل عجیب سا ہو گیا ۔میں یہ سب کرنا نہیں چاہتی تھی مگر اس نے مجھے راضی کر لیا۔
بولا تھوڑی دیر کا تو کام ہے ہم قبرستان چلتے ہیں ۔اس عورت کی قبر کھودیں گے اور وہاں سے جو بھی دولت ملے گی اس سے کوئی کاروبار کریں گے۔ پھر کبھی ایسی حرکت سوچیں گیں بھی نہیں میں اپنے شوہر کی باتوں میں آ گئی۔ رات کے 2 بجے ہم اپنے گھر سے نکلے ہمارے پاس کسی قسم کا کوئی اعلی اوزار نہیں تھا۔
اب ہمیں یہ پتا کرنا تھا کہ تازہ قبر کون سی ہے۔ ہم لوگ جب قبرستان پہنچے تو خدا کی کرنی گورگن اس وقت جاگ رہا تھا۔ ہم نے اسے ساری حقیقت سے آگاہ نہیں کیا ہم نے اس سے آج دفن ہونے والی عورت کا پوچھا۔ تو اس نے ہمیں نشاندہی کر دی ویسے بھی وہ کچھ خاص ایماندار نہیں لگتا تھا ۔عجیب سی نحوست تھی میں تو یہی سمجھا کہ اس نے ہم سے کوئی حصہ وغیرہ نہیں مانگا ۔نہ ہی کوئی دوسری بات پوچھی مجھے تو وہ نیند میں لگ رہا تھا۔ چاند کی روشنی میں جب ہم لوگ اس قبر تک پہنچے تو وہ بالکل تازہ تھی ہم نے مٹّی کو ہٹانا شروع کیا تو وہ آسانی سے ہٹی۔
لیکن جب ہم قبر سے اینٹیں ہٹانے لگے تو ہمیں قبر سے ہلکی ہلکی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ میں نے اپنے شوہر کو منع بھی کیا کہ ہمیں یہیں پر رک جانا چاہیے ۔مگر وہ نہیں مانا مگر جب پوری سلہٹ ہٹائی تو اس عورت نے جو قبر کے اندر دفن تھی کفن پھاڑ کر اٹھی اور ایک زور دار چیخ ماری یہ دیکھ کر ہم گھبرا گئے۔۔
میں نے جلدی سے آگے بڑھ کر دیکھا وہ عورت ابھی زندہ تھی تکلیف سے کراہ رہی تھی۔ اس عورت کو دیکھ کر ہم دونوں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ۔میں نے اپنے شوہر کو پیچھے ہٹنے کا کہا اور اسے ساری حقیقت سے آگاہ کیا ۔مگر ظاہر ہے اس عورت کو یہی بتایا کہ اس کی ساس نے اسے زندہ مار دیا تھا ۔ہم اسے بچانے آئے ہیں وہ لڑکی زارو قطار رونے لگی بولی خدا کے لئے مجھے گھر لے چلو۔ میری ساس نے تم سے جھوٹ بولا ہے میں مری نہیں تھی اس نے تو مجھے ایک دوا دی تھی کہا تھا کہ اس سے تمہیں آرام آجائے گا ۔میں نہیں جانتی تھی کہ وہ کیا سوچ رہی ہے اس کی حالت دیکھ کر میرے اندر سوئی ہوئی انسانیت جاگی ۔میں اور میرا شوہر اسے گھر لے آئے۔
اگرچہ میرا دل تو اس کی طرف سے صاف تھا۔ مگر میرے شوہر نے اس کے دوسرے کمرے میں جاتے ہی مجھے اکیلے میں بلا کر کہا ۔سنو یہ تو سارا کھیل الٹ ہوگیا ہم اس عورت سے فائدہ اٹھانے گئے تھے ۔مگر یہ تو ہمارے ہی گلے پر گئی ہے ہاں تو کیا ہوا ہمیں بھی تھوڑی انسانیت د کھانی چاہیے ۔میں نے اپنے شوہر سے کہا میں اس عورت کی دیکھ بھال کروں گی ۔میں جانتی ہوں انسانیت کیا چیز ہوتی ہے میری بات پر غصے ہو کر میرا شوہر گھر سے چلا گیا ۔۔
میں اس لڑکی کے پاس گئی اسے کھانا وغیرہ دیا اور اسے ساری بات پوچھی۔ کیا ایسا کیا ہوا کہ اس کی ساس نے اس کو دھوکا دے کر قبر میں دفنانے کی اتنی جلدی کی۔ تو اس نے مجھے بتایا کہ وہ ایک امیر گھرانے کی بہو ہے اس کے ماں باپ بچپن میں فوت ہوگئے تھے ۔اپنے چچا کے پاس رہتی تھی اسکی ساس جس کا نام شکیلا تھا ۔اس نے اپنے بیٹے کے لیے میرا رشتہ مانگا شکیلہ کے بیٹے کو میں بہت پسند آئی تھی ۔شکیلا نے گھر شادی کے پہلے دن سے ہی واضح کر دیا کہ وہ صرف اور صرف بیٹے پیدا کروانا چاہتی ہے۔ اسے پوتے چاہیے اور اسے اپنی بہو سے کچھ نہیں چاہئے۔
مگر یہ بات ماریا کی سمجھ میں نہ آئے کہ وہ بیٹا پیدا کرنے پر قادر نہیں تھی۔ اس لیے جب پہلی بیٹی ہوئی تو اس کے برسوں بعد جب امید سے ہوئی تو اس نے پہلے دن سے ہی کہنا شروع کر دیا ۔تیسرے چوتھے مہینے میں جا کر اس کا الٹرا ساؤنڈ کروایا اور ڈاکٹر سے پوچھا کہ اس بچے کی جنس کیا ہے۔ تو نے جو بتایا کہ لڑکی تو اس اس نے طرح طرح کے حیلے بہانے کرکے اپنی بہو کا بچہ ضائع کروانے کی بھرپور کوشش کی ۔مگر ایسا نہیں ہوسکا اور پھر اس نے اپنا آخری بار اس طرح چلا کہ اپنی بہو کو نیند کی گولیاں اتنی مقدار میں دی تھی۔
کہ وہ کبھی نہ لوٹ سکےورنہ وہ واقعی سچ مرجاتی کی بات صحیح تھی اس کی سازش کا ادراک میں لگ رہی تھی۔ اس کا مطلب تو یہی تھا کہ اس نے بہو سے جان چھڑانے کی کوشش کی ہے۔ اس کا بیٹا اس سے بے انتہا پیار کرتا تھا طلاق دینے یا چھوڑنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا ۔یہی دیکھ کر شکیلہ بیگم کے من میں یہ سازش سوجھی اور اس نے بہو کے ساتھ اتنا بڑا ظلم کیا ۔وہ روئے جا رہی تھی میں نے کہا بیٹی تم فکر نہیں کرو اگر تم اپنے گھر جانا چاہتی ہو تو ہم تمہیں پہنچائیں گے۔ تو اپنے شوہر کے ساتھ ایک الگ زندگی شروع کرنا اب میں اپنے گھر نہیں جا سکتی مجھے گھر میں اپنی جان کا خطرہ ہے ۔اپنا بچہ پیدا ہونے تک وہ کسی محفوظ جگہ پر رہنا چاہتی ہوں۔
اگر تم مجھےماریہ کی باتیں سن کر میں بھی جذباتی ہو گئی۔ تھوڑی دیر کے بعد میرا شوہر گھر آگیا رات کافی زیادہ ہو چکی تھی۔ میں نے اس لڑکی کو اپنا خیال رکھنے کا کہا اور اپنے کمرے میں چلی گئی ۔ریاض ابھی بھی ناراض بیٹھا تھا اسے میری کی حرکت اچھی نہیں لگتی تھی۔ مگر اس نے تو مجھے ڈرانا شروع کر دیا اور کہا کہ اگر یہ زندہ بچ گئی تو ہمیں بھی جیل میں بجوا دے گی۔
کہ تم نے اس کی ساس سے پچاس ہزار روپے کی خطیر رقم لی۔ اگر اس نے اپنی ساس پر الزام لگایا تو وہ یہ بات بھی اگل دے گی ۔کہ کس طرح اسے یہاں تک لائی ہے بہتر یہی ہے کہ یہ لڑکی جہاں تھی وہیں چلی جائے۔ ویسے بھی لوگ تو جان ہی گئے ہوں گے کہ گھر سے بھاگ گئی ہے یا پھر اس کی زندگی ختم ہو گئی ہے۔ تو پھر کیا ضرورت ہے ہمیں اس سب میں پڑھنے کی بہتر ہے کہ اپنے ٹھکانے پر واپس چلی جائے اس کی باتیں سن کر میں کانپ کر رہ گئی ۔سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ ریاض اتنا سنگدل ہو سکتا ہے۔
میں نے ریاض کو سمجھانے کی کوشش کی کہ تم جو سوچ رہے ہوں ہے ایسا کسی بھی انسان کے ساتھ نہیں کرنا چاہیے۔ پھر ہم بحث کرتے کرتے سو گئے ۔صبح جب میں اٹھی تو گھر کی حالت بدلی ہوئی تھی گھر میں نہ لڑکی تھی اور نہ ہی میرا شوہر ریاض موجود تھا ۔میں نے جلدی سے باہر کا رخ کیا اسی جگہ پہنچی جہاں وہ قبر تھی جا کر دیکھا تو قبر جوں کی توں موجود تھی۔ ریاغ کا کچھ پتہ نہیں تھا شام کو ریاض خود ہی گھر آ گیا۔
میں اس پر برس پڑی وہ عورت کہاں گئی۔ تم نے اسے مار تو نہیں دیا میں کیوں ماروں گا اسے جب میں صبح تہجد کے وقت اٹھا تو اس کی لاش ٹھنڈی پڑی ہوئی تھی۔ میں نے سوچا کہ اس سے پہلے ہم پر کوئی مصیبت آئے تو اس کی لاش کو ٹھکانے لگا آیا ہوں۔ تم سمجھتی کیوں نہیں ہو ایسی لاش کو گھر میں رکھنا کوئی عقلمندی کی بات نہیں ہوتی۔ اس کی باتیں سن کر میرا تو سر چکرا گیا خدا جانے اس نے اس لڑکی کو کہاں پھینکا ہوگا ۔میں نے اسے بچانے کی کوشش کی اور تم نے اس کو مار دیا مگر اس نے مجھے کوئی جواب نہیں دیا۔ مایوس ہو کر میں بیٹھ گئی اپنے اللہ سے معافی مانگنے لگے کہ مجھ سے غلطی ہوگئی میں سوچ رہی تھی کہ غلطی کا ازالہ کیسے کروں۔
مگر اس کی نوبت نہیں آئی مکافات عمل نے ہمیں ہمارے کیے کی سزا دیتی ہے۔ شام کو میری بیٹی کے گھر سے خبر آئی کہ اس کا شوہر ایک کار ایکسیڈنٹ میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے ۔میرا داماد منیر کرائے کی گاڑی چلاتا تھا جس کی وجہ سے اس کی آمدنی ہوتی تھی مگر وہ اپنی موٹر سائیکل یا کار لینا چاہتا تھا۔ تاکہ وہ اپنی آمدن کو مستحکم کر سکے میں نے اپنی بیٹی کو 50 ہزار روپے بھی اسی لیے دیے تھے۔ لیکن اب میرا داماد دنیا میں نہ رہا تو ان پیسوں کا میری بیٹی نے کیا کرنا تھا۔
مگر میرا شوہر اس سب کے باوجود بھی باز نہیں آیا۔ اسے تو گویا ایک مشغلہ مل گیا تھا وہ لوگوں کی بنائی دولت اپنے ہاتھوں سے لوٹنے لگا ۔اسی وجہ سے میں نے اپنے شوہر کو چھوڑ دیا اب اللہ کی راہ میں دن رات عبادت کرتے ہوں۔ اس سے معافی مانگتی ہوں کہ وہ میرے اس گناہ کو بخش دے۔ ورنہ میں جانتی ہوں قیامت کا عذاب بڑا سخت ہے میں نے کئی عورتوں کو غسل دیا ہے کئی عورتوں کا کفن تیار کیا ہے۔ میں جانتی ہوں اور اللہ تعالی کے عذاب سے ڈرتی ہوں۔ خدا میری اس گناہ کو معاف کردے اس قبر پر بیٹھ کر اس عورت سے معافی مانگتی ہوں۔ مگر میں نہیں جانتی میرا رب مجھے معاف کرے گا یا نہیں ۔
اتنا کہہ کر وہ عورت خاموش ہو گئی تھی۔ میں جانتی تھی کہ اس کا یہ ضمیر کا بوجھ کبھی ہلکا نہیں ہوگا۔ کیونکہ جو گناہ اس نے کیا تھا قابلِ معافی نہیں تھا ۔میں نے اسے اس کی تسلی اور دل کے اطمینان کے لئے کچھ وظائف بتا ئے۔ نماز کی پابندی کرنے کا کہا اور پھر اسے اپنے گھر سے رخصت کردیا ۔اس کے جانے کے بعد میں کافی دیر تک اسی عورت کے بارے میں سوچتی رہی۔ آج بھی جب میں اس عورت کو یاد کرتی ہوں تو میری آنکھوں میں بے اختیار آنسو آ جاتے ہیں ۔
Sharing is caring!
Leave a Comment