دٌنیا میں آپکو ایک ہی شخص کافی ہے جو – urdu quotes

دٌنیا میں آپکو ایک ہی شخص کافی ہے۔ جو آپ کے کلام سے زیادہ آپکی خاموشی پر توجہ دیتا ہو۔‏خزاں صرف درختوں اور ان کے پتوں پر ہی نہیں اترتی ۔
Written by kahaniinurdu

دٌنیا میں آپکو ایک ہی شخص کافی ہے۔ جو آپ کے کلام سے زیادہ آپکی خاموشی پر توجہ دیتا ہو۔

 

٭‏خزاں صرف درختوں اور ان کے پتوں پر ہی نہیں اترتی دلوں میں بھی اترتی ہے اور مرجھا دیتی ۔

 

٭اگر کوٸی انسان زندہ ہونا چاہتا ہے۔ ( روحانی حیات پانا چاہتا ہے) اگر کوٸ انسان ڈپریشن اور غموں کا مقابلہ کرنا چاہتا ہے۔ اگر کوٸ انسان بیقراری کی دلدل سے نکلنا چاہتا ہے۔اس کے پاس ایک ہی راستہ ہے وہ ہے قرآن کا راستہ سنت کا راستہ۔

 

٭جب تک دوسروں کی زندگیوں، اور گریبانوں کا جائزہ لیتے رہوگے۔ تو خود کو آسانی سےمطمئن کر لو گےلیکن۔ جس دن خود کی زندگی کا جائزہ لو گے اور اپنے گریبان میں جھانکو گے۔نہ تو خود کو مطمئن کر پاؤ گےاور نہ ہی اپنے ضمیر کواس لیئے دوسروں کو دیکھ کر خود کو مطمئن کرنا دھوکہ ہی ہے۔ صرف رمضان المبارک میں اپنے ماتحتوں کے ساتھ نرم سلوک کریں ۔بےشک وہ آپ کے شوہر ہی کیوں نہ ہوں۔پوری دنیا کی معذرتیں ملا کر بھی ایسے انسان کیلئے کافی نہیں ہو سکتیں ۔جسے اس کے پسندیدہ شخص نے مایوس کیا ہو۔

 

٭اور پھر ایک دن بیٹھے بیٹھے مجھے اپنی دنیا بُری لگ گئی ۔جں کو آباد کرتے ہوئے میرے ماں باپ کی زندگی لگ گئی۔

 

٭لوگوں کو اس بات کا شعور دینا بہت مشکل کام ہے کہ جو بھوک آپ پہ ناچ رہی ہے۔ وہ وسائل پہ قابض لوگوں کی وجہ سے ہے نا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تنگی ہے۔کسی اور کی قیمت کو کم کر کے آپ اپنا مقام نہیں بڑھا سکتے۔

 

٭دل ایک ٹریفک لائٹ کی مانند ہے۔ رہنمائی کرتا وارننگ دیتا اور خبردار کرتا ہے لیکن حادثات روک نہیں پاتا۔

 

٭دٌنیا میں آپکو ایک ہی شخص کافی ہے۔ جو آپ کے کلام سے زیادہ آپکی خاموشی پر توجہ دیتا ہو۔

 

٭مجھے نفسیاتی سکون تب ملا جب میں اس ذہنیت تک پہنچ گیا کہ۔ ہماری زندگی میں ہر چیز “اچھی” ہو جاتی ہے۔چاہے ہم اس کے ہونے کے وقت میں اچھائی نہ دیکھ سکیں۔ لیکن آنے والے دن ثابت کریں گے کہ وہ واقعی “اچھا” تھا۔

 

٭اچھے لوگ حالات بدلنے کے باوجود اپنی صفات نہیں بدلتے۔سخی سخی رہتا ہے خواہ وہ غریب ہی کیوں نہ ہو ۔اور بردبار مظلوم ہو تو بھی روادار (در گزر کرنے والا) ہی رہتا ہے۔

 

٭ایک بزرگ سے کسی نے پوچھا انسان کا سکون کہاں چھپا ہوا ہے ۔بزرگ نے جواب دیا غفلت ہو جائے تو سجدے میں اور گناہ ہو جائے تو توبہ میں۔

 

٭وہ جو خاندان میں گھما پھرا کر توڑ موڑ کر بات نہیں کرتے وہ جو۔ اپنے بچوں کو دادی خالہ پھوپھو سے جھوٹ بولنا نہیں سکھاتے وہ جو کسی کے پیچھے ۔اس کی پیٹھ میں چھری نہیں گھونپنے ۔ وہ جو سامنے چاپلوسی اور پیچھے غیبتیں نہیں کرتے۔ ایسا لوگ straightforward نہیں ہوتے سیدھے سادھے لوگ ہی اچھے لگتے ہیں۔ جن سے جھوٹ کی بو نہ آتی ہو۔ اور سچا صاف بات کرنے والا شفاف پانی کی طرح دیکھا جاتا ہے۔ ایسے ہی لوگ دوست بننے کے لیۓ بہترین ہوتے ہیں ان ہی کے ساتھ بات کرنے کو دل کرتا ہے آئیں ایسا بنیںہزاروں دوست ہوں۔

 

٭ان گنت لوگوں سے بھری محفل ہو یا پھر لاکھوں لوگوں کا قافلہ ہو زندگی کے کچھ مرحلے انسان کو تنہا ہی اللہ کے ساتھ طے کرنے پڑتے ہیں۔ اور جب ہم ان مراحل سے گزر رہے ہوتے ہیں ۔تو قدموں کی آہٹ اتنی خاموش ہوتی ہے کے ساتھ بیٹھے ہوئے شخص کو بھی اس کا علم نہیں ہوتا۔ ہم سب ہی اپنے اندر ایسی بہت ساری چیزوں سے لڑ رہے ہوتے ہیں ۔جس کا ذکر ہم کسی اور سے تو دور کی بات ہے خود کے ساتھ بھی نہیں کر سکتے۔ لیکن اللہ سب جانتا ہے جو ہم کہتے ہیں اور جو نہیں کہہ پاتے۔

 

٭کہا جاتا ہے کہ چاروں طرف جب اندھیرا ہی اندھیرا ہو اور روشنی نہ دِکھے تو ٹھہرو۔ اور اپنی طرف متوجہ ہو جاؤ شاید وہ روشنی تم خود ہو۔

 

٭بہت سے تعلق اسی لیے ٹوٹ جاتے ہیں کہ ان میں محبت تو ہوتی ہے۔ لیکن احترام نہیں رہتا۔ بہت سے تعلق اس لیے بھی سرد مہری کا شکار ہو جاتے ہیں ۔کہ چاہت تو ہوتی ہے لیکن اپنی عزت نفس بھی پیاری ہوتی ہے۔ کسی بھی رشتے کو صرف احترام ہی دے دیا جائے تووہ محبت کا راستہ خود بخود بنا لیتا ہے۔ ہر انسان کو عزت چاہیے، ہررشتے کو احترام درکار ہے۔

 

٭ہم اپنا ہی جیسے ایک انسان کا ایک بت بنا لیتے ہیں۔

اس کی پرستش شروع کر دیتے ہیں اس سے امیدیں وابستہ کر لیتے ہیں۔ اور پھر خود کو پھولوں کی سیج پر بیٹھا کر انتطار کی سولی پر لٹک جاتے ہیں۔ کہ جو امیدیں ہم نے وابسطہ کر لی ہیں وہ کب پوری ہوں گی پھر ایک وقت ایسا آتا ہے۔ کہ امیدیں ٹوٹ جاتیں ہیں بت پاش پاش ہو جاتا ہے۔ پھولوں کی سیج سے کانٹوں تک کے سفر میں ہم زخمی ہو جاتے ہیں۔ پھر ہم شکایت کرنے لگتے ہیں کہ ایسا کیوں نا ہوا ویسا کیوں نا ہوا پھر ہم اللہ پاک سے شکوہ کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ مگر ہم یہ نہیں جان رہے ہوتے کہ اصل قصور وار ہم خود ہی ہوتے ہیں۔

 

٭میں بہت مضبوط اعصاب کا مالک نہیں ہوں۔ کبھی چھوٹی سی بات ناقابلِ فراموش، دکھ دیتی ہے۔ تو کبھی بڑی سے بڑی وجہ بھی خوش نہیں کر پاتی مجھے لہجے پرکھنا اور رویوں کو سمجھنا آتا ہے۔میں لفظوں اور رشتوں کی سیاست سے منکر ہوں” مجھ سے تعلق کو نبھانے میں منافقت نہیں ہوتی ۔میں بند کمروں میں کئے گئے وعدوں پہ یقین نہیں رکھتا ۔نہ میں مجھ سے دور جانے کے خواہشمند لوگوں کو واسطے دینے والا ہوں۔میں مخلص رشتے چاہتا ہوں محبت ہو یا نفرت بیچ کا کوئی راستہ نہیں۔میں جدید دور کے جدید لوگوں کے معیار پر پورا نہیں اترتا۔میرے ساتھ رہنا آسان تھوڑی ہے۔خاص کر جب بات ضد اور انا کی ہو تو۔

 

٭آدمی کا جسم انسانیت کی بدولت شرافت کا گہوارہ ہے ۔

صرف خوبصورت لباس انسانیت کی نشانی نہیں ۔اگر انسان کی پہچان صرف آنکھ،ناک،کان اور اس کا حلیہ ہے تو پھر اس میں اور نقش دیوار میں کیا فرق ہے۔ واقعی انسان بننے کی کوشش کرو ورنہ یوں تو پرندے بھی آدمی کی بولی بولتے ہیں۔ اگر توں اپنے اندر سے درندگی ختم کردے تو انسانیت کی روح تجھے ہمیشہ زندہ رکھے گی۔

 

٭کبھی کبھی میں یہ سوچ کر حیران رہ جاتا ہوں کہ اللّٰہ انسان سے کتنی محبت کرتا ہے۔ اللّٰہ ہمیں بناتا ہے بہترین صورتوں سے نوازتا ہے آپکی آنکھوں بالوں اور چہرے کہ رنگ کو بلکل توازن سے اور Perfection سے بناتا ہے۔ آپکو رزق عطا کرتا ہے اللّٰہ جو ہماری چلنے والی ایک ایک سانس کو کنٹرول کرتا ہے۔ ہمارے گناہوں کو ڈھانپ کر رکھتا ہے۔ اللّٰہ چاہے تو ہمارے گناہوں کو ناراض ہو کر سب کے سامنے لے آۓ ہمیں دنیا میں سب کے سامنے بےعزت کر دے ۔مگر اللّٰہ جو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ مگر ہمارے گناہوں کو ڈھانپ کر رکھتا ہے۔ پتہ ہے کیوں؟ کیونکہ وہ ماں سے زیادہ محبت کرتا ہے آپ سے۔

 

٭دنیا کا یہ سفر خواہشوں پر سے گُزر کر،انہیں روند کر طے کرنا پڑتا ہ ۔

یہ دنیا اگر ساری کی ساری بھی سمٹ کر ایک انسان کے پاس آ جائے۔ پھر بھی اس کا انجام فنا ہے۔یہاں جینے کا مزہ دائرۂ بندگی میں محوِ گردش رہنے میں ہی ہے۔باطل کو ترک کر دینے اور جاہلوں سے کنارہ کر لینے میں ہے۔اچھائی سے محبّت اور برائیوں سے نفرت کرنے میں ہے۔دنیا کے متکبروں،چاہے وہ کسی بھی حساب سے ہوں سے منہ پھیر لینا عافیت ہے۔

دل کا سکون،روح کا قرار ہے۔یہاں ضروریات کو پورا کرنے کے لیے وسائل کےحصول میں لگے رہنا اور نیت نیک رکھنا بھی ثواب کی ہی جستجو ہے۔مگر یہاں کسی کا حق نہ چھیننا۔جب مال قبضہ میں آ جائے تو اُسے محتاجوں اور حق داروں میں تقسیم کرنا،اذیت نہ دینا اور احسان نہ جتانا ہی حقیقی رفعت ہے۔تواضع اختیار کرنا ہی خاک نشینی کی شان ہے ۔

 

٭دنیا کا ہر کام اچھی امید رکھ کر شروع کریں لیکن ۔کسی انسان سے تعلق بناتے ہوئے وقت اچھی اُمید کا سہارا بالکل بھی نہیں لینا چاہیے۔ کسی کے الفاظ سے اس قدر متاثر نہ ہوجائیں کہ اُسکا منفی پہلو آپکو دِکھنا ہی بند ہو جائے۔کیونکہ اکثر الفاظ جذبات ہوتے ہیں۔ اور وقت اور جذبات ہمیشہ بدلتے رہتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ ہر انسان ہمارے علاوہ بھی کئی رشتوں سے جُڑا ہوا ہوتا ہے۔ کسی انسان کے سارے جذبات ایک ہی انسان سے جُڑے ہوئے ہوں ۔

 

٭ایسا ممکن نہیں وہ جو ہم سنتے ہیں وہ خالی باتیں ہوتی حقیقت نہیں اور ہو سکتا ہے ۔ان رشتوں کے دباؤ میں آکر یا انکے لیے جذبات جاگنے پر آپ کے متعلق جذبات بدل جائیں۔ یا پھر بہت سارے رشتوں میں تقسیم ہونے سے مجبوراً آپ کیلئے وہ جذبہ نہ ہو جس کی آپ امید رکھتے ہیں۔

 

٭اگر دوسروں کے دل توڑنے بندکر دئیے جائیں تو ہمارے ٹوٹے ہوئے دل جڑنا شروع ہو جائیں گے۔

اگر دوسروں کے دلوں کو جوڑنا شروع کر دیا جائے تو ہمارے دل خود بخود جڑنا شروع ہو جائیں گے۔ ہم چیزوں کو پھینک دیتے ہیں،ٹھیک ہے پھینک دیں۔ لیکن ٹوٹے ہوئے خوابوں کو نہ پھینکیں، ایک بار پھر سے کوشش کرکے انہیں تعمیر کر کے دیکھیں۔ ایک اور خواب دیکھ کر دیکھیں۔ ٹوٹی ہوئی اُمیدوں کو”نئی امید“ سے جوڑ کر دیکھیں۔

مایوس ہونے میں اتنی جلدی نہ کریں، تھوڑا یقین کر کے دیکھیں رکیں ذرا۔ ابھی بہت کچھ ہے زندگی میں، اسے ختم کرنے سے پہلے ایک بار پھر سے”شروع“کر کے دیکھیں یہ زندگی سب سے قیمتی ہیرا ہے۔ اگر یہ ٹوٹ پھوٹ رہاہے تو اسے پھر سے تراش کر، چمکا کر دیکھیں۔

 

٭جب کسی کا دل بھر جائے نا پھر یہ بات معنی نہیں رکھتی کہ آپ کی غلطی کیا ہے۔ آپ کو کس گناہ کی سزا مل رہی تب بس ایک چھوٹا سا بہانہ ڈھونڈا جاتا۔ اور آپ کو جی بھر کے ذلیل کرکے چھوڑ دیا جاتا۔ اب یہ آپ کی مرضی ہے کہ گھٹ گھٹ کے جئیں یا مرجائیں کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا ۔پھر وہاں سسکیاں اور صفائیاں بھی کام نہیں آتی۔

 

٭کہتے ہیں کسی کے گھر روزانہ جانے سے عزت کم پڑ جاتی ہے۔ مگر واحد اللہ کا گھر مسجد ہے جہاں روز جانے سے عزت بڑھ جاتی ہے ۔

 

٭جو شخص خدا کا خوف چھوڑ دیتا ہے اور لوگوں سے ڈرتا ہے۔تو خدا اسے اپنے آپ سے غافل کر دیتا ہےاور چیزوں کے خوف میں ڈال دیتا ہے۔

 

٭فرعون کی بیوی نےخود کو تب بدلا جب وہ خدائی کا دعویٰ کرنے والے کے محل میں تھی۔ نوح علیہ السلام کے بیٹے نے اس وقت بھی خود کو بدلنے سے انکار کردیا ۔جب وہ ایک نبی کے گھر میں تھا ۔آپ کے بدلنے یا نہ بدلنے کا فیصلہ آپ کا اپنا ہے۔ آپ اس کے لیے “اپنے حالات کو قصور وار نہیں ٹھہراسکتے۔

 

٭خلیل جبران کی اپنی محبوبہ میزیادہ سے محبت بغیر کسی ملاقات اور دیدار کے بیس سال تک چلتی رہی۔ جبران نیویارک میں تھا اور میزیادہ قاہرہ میں.
دنیا کے دو کونوں سے دونوں باہم خطوط کا تبادلہ کیا کرتے تھے۔ایک خط میں جبران نے میزیادہ کی تصویر مانگی تو میزیادہ نے اس کو لکھا
” سوچو ! تصور کرو ۔

میں کیسی دکھتی ہوں گی۔؟
“جبران : ” مجھے لگتا ہے تمھارے بال چھوٹے ہوں گے جو تمھارا چہرہ ڈھانپ لیتے ہوں گے۔
“میزیادہ نے یہ پڑھ کر اپنے لمبے بال کاٹ ڈالے۔ اور ایک خط کے ساتھ اپنے چھوٹے بالوں والی تصویر بھیجی۔
جبران: ” تم نے دیکھا ۔؟ میرا تصور بالکل سچا تھا۔
“میزیادہ : ” محبت سچی تھی۔

خلیل جبران

 

کوئی ریلیشن (relation)٭ ختم کرنے سے پہلے۔وہ وقت یاد کریں جب آپ پہلی بار اُن سے ملے تھے وہ وقت یاد کریں جب پہلی بار آپ اُنکی وجہ سے مسکرائے تھے ۔وہ وقت یاد کریں جب آپ اک دوسرے سے سارا سارا دن بلکہ ہر روز بات کرتے۔ اور اک دوسرے سے بور نہیں ہوتے تھے ۔وہ وقت یاد کریں جب آپ اک دوسرے کے غم میں حوصلے دیتے۔مسئلے کا حل نکالتے اور ہمیشہ ساتھ رہنے کے وعدے کرتے تھے۔

 

٭یاد کریں وہ ساری باتیں احساسات،قہقہے،آنسو،خوشیاں اور ساری پُرانی یادیں کیا یہ سب اب بھی آپ کے چہرے پر مسکراہٹ نہیں لا رہا اب آپ اس بارے میں سوچیں۔ کیا آپ واقعی یہ رشتہ ختم کرنا چاہتے ہیں کیا یہ تعلق بے معنی تھا۔۔؟کیا آپ واقعی ہی میں ایسے شخص کو کھونا چاہتے ہیں۔؟یاد رکھیں! بہت آسان ہے تعلق ختم کر دینا۔مگر سکون سے بیٹھنے، باتیں ڈسکس کرنے۔آپسی اختلافات بھلا کر پھر سے تعلق جوڑنے کے لئے ہمت اور مُحبت چاہئے ہے۔ برائے مہربانی اتنی جلدی تعلق مت توڑیں پلیز اپنی انا کی خاطر۔ ایک خوبصورت سا رشتہ قربان نہ کریں۔اک تعلق بنانے میں بہت سا وقت، توانائیاں اور جذبات لگے ہوتے ہیں۔ تو پھر اک معمولی ناراضگی میں اِک تعلق مت توڑیں قدر کریں اپنے پیاروں کی ۔

 

٭یہ الفاظ بہت بولے جاتے ہیں رہی بات تمہاری تو تمہیں روز محشر حساب کے لیے چھوڑا۔

مکافات عمل ہو گا تمہارے ساتھ!میں سوچ رہی تھی کہ کیوں ہم اپنے ساتھ کی گئی ہر زیادتی کا بدلہ چاہتے ہیں۔ ؟ کیا روز محشر ہم کسی کے حساب کے کٹہرے میں کھڑے نہیں ہوں گے۔؟

 

٭کیا اس وقت ہمارے اعمال کی سزا میں ہمیں یہ بات سکون دے گی۔ کہ جسے ہم نے معاف نہیں کیا دیکھو سزا بھگت رہا ہے۔ آج بڑا کر لیں اپنا دل  مت دیا کریں کسی کو آخرت کی بد دعائیں کیونکہ وہاں کی سزائیں بہت تکلیف دہ ہوتی ہیں۔کیونکہ کہیں نہ کہیں بہت کچھ برا بہت کچھ غلط ہم نے بھی کیا ہے۔ ہمیں بھی اسکی سزا بھگتنی ہے۔

٭اگر رِشتوں میں پائیداری ہے تَو لوگ، آپ کو جِتنا مرضی کاٹیں اپنے کبھی گِرنے نہیں دیں گےزبانیں بولتی ہیں ۔ لیکن ان سے نکلے لفظوں میں بعض اوقات دِلوں کی ہلاکت کا سامان مخفی ہوتا ہے۔

 

٭ہم زندگی کی خامیاں دیکھتے رہیں گے تو ہم کو کالے بادل ہی نظر آئیں گے۔ جب ہم خوبیاں دیکھنے لگ جائیں تو سورج کی سنہری کرنوں والی روشنیاں بھی ہم کو نظر آنے لگتی ہے۔ جو روشنی کے ساتھ ساتھ ہماری زندگی میں سکون بھی بھر رہی ہوتی ہیں۔

 

٭اپنے امام مسجد کے صاف سفید کپڑے، پگڑی اور ٹوپی سے دھوکہ نہ کھائیں۔ قریبی رشتہ داروں کے بعد آپ کے صدقہ فطر اور عید گفٹ کے اصل حقدار یہی لوگ ہیں۔ جو کم تنخواہ پر امامت کر کے گزارہ کر رہے ہیں ۔اگر آپکا 50 ہزار ماہانہ پر گزارہ نہیں ہوتا تو8، 10، 15 ہزار پر امام مسجد کیسے گزارہ کرتا ہوگا۔؟

 

٭آدھا نہیں پورا سوچئے۔

 

 

ہماری اس ویب سائیٹ پر آپ ڈیلی بیس پر نئی نئی، کہانیاں ،اردو اقوال، اور اسلامی واقعات، پڑھ سکیں گے۔ شکریہ اللہ آپ کو دونوں جہاں کی خوشیاں دے امین ۔

 

Reused Content YouTube – How To Fix Reused Content

Leave a Comment