Devar hi sohar ban betha – اس رات میرا 14 سالہ دیور ہی میرا شوہر بن بیٹھا

اس رات میرا 14 سالہ دیور ہی میرا شوہر بن بیٹھا
Written by kahaniinurdu

اس رات میرا 14 سالہ دیور ہی میرا شوہر بن بیٹھا

کبھی  قسمت ہمیں اس موڑ پر لے آتی ہے جب ہم بے بس ہو جاتے ہیں ۔ وہ بھی اس قدر کہ ہمیں صرف اور صرف دوسروں کے اشاروں پر سر جھکانا پڑتا ہے ۔ ہماری کوئی بھی مرضی یا ہمارا کوئی اختیار نہیں ہوتا آج بھی اس موڑ پر کھڑی ہوں ۔ میرے سامنے 14 سال کا لڑکا ہے جسے میں کل تک بھائی سمجھتی تھی ۔ اور آج جن نگاہوں سے مجھے دیکھ رہا ہے دل چاہتا ہے ۔ زمین پھٹ جائے اور میں اس میں سما جاؤں ۔

کیوں کہ میں جانتی ہوں کہ میں بے بسی کی سرحد پر ہوں ۔ مجھے اپنا آپ اس کے حوالے ہر صورت کرنا ہی کرنا ہے ۔ چاہے میں روئوں چیخوں چلائوں کو  مگر کوئی میری فریاد نہیں سنے گا ۔ میں 28 سال کی ہوں اور وہ مجھ سے آدھی عمر یعنی چودہ سال کا ہے ۔ وہ مجھے دیکھ رہا ہے اور میں اپنے اندر نامعلوم کتنی جنگیں لڑ رہی ہوں ۔ میں جانتی ہوں ہر محاذ سے شکست کھا کر مجھے اسی کے حکم پر سر جھکانا پڑے گا ۔ مگر کیوں اس کیوں کے جواب کے لئے ۔

آپ کو میری کہانی سننا پڑے گی مجھے بتائے گا کہ قصور کس کا تھا میرا نام بانو ہے ۔

میں ایک قصبہ نما گاؤں میں رہتی ہوں ۔ جب میں جوان ہوئی میرے ابو کو میری شادی کی فکر ستانے لگی ۔ شوکت ہمارے ہی گاؤں کا گبرو جوان تھا اور رکشہ چلاتا تھا ۔ میں چند ایک بار اس کے رکشے میں اپنی ماں کے ساتھ ںیٹھ چکی تھی ۔ میں نے غور کیا وہ سامنے لگے شیشے سے میری طرف دیکھتا ہے ۔ عورت اپنے اوپر اٹھنے والے ہر نظر پہچانتی ہے ۔ میں نے شوکت کی نگاہوں میں اپنے لیے محبت دیکھی تھی ۔ پھر ایک دن اس کی ماں ہمارے گھر چلی آئی ۔

اس کی گود میں ڈیڑھ سالہ گول مٹول بچہ تھا ۔ بچے کا نام برکت علی تھا اور وہ شوکت کا چھوٹا بھائی تھا ۔ اس کی ماں نے بتایا کہ وہ شوکت سے پورے سترہ سال چھوٹا ہے ۔ وہ منتوں مرادوں کے بعد پیدا ہوا ہے اسی لئے اس کا نام برکت علی رکھا گیا ہے ۔ لیکن برکت کی پیدائش کے دو ماہ بعد اس کے والد کی وفات ہوگئی ۔ اب شوکت پڑھائی چھوڑ کر گھر کا خرچہ پورا کرنے کے لیے رکشہ چلاتا ہے ۔ اور شوکت کے لیے میرا رشتہ لے کر آئی تھی ۔

میں اس دن بہت خوش تھی ہم غریبوں کے گھر محنت کش کا رشتہ آنا بھی کسی نعمت سے کم نہیں ہوتا ۔ سب سے اہم بات یہ تھی کہ شوکت کے گاؤں کے چوہدریوں کے ہاں بھی بڑے عزت تھی ۔ اور میں بھی اپنی سہیلی سے اترآئی اترائی پھرتی تھی ۔ پھر وہ دن آگیا جب شوکت مجھے دلہن بنا کر اپنے گھر لے گیا ۔ اس کا گھر بھی ہمارے گھر کی طرح چھوٹا تھا ۔ مگر میں سمجھتی تھی جس جگہ پہ محبت ہو وہاں پر سب سانوی ہو جاتا ہے ۔

پہلی رات جس کے بارے میں لڑکیاں بہت خواب بنتی ہیں ۔اس رات میرا 14 سالہ دیور ہی میرا شوہر بن بیٹھا

میں نے بھی اس رات کے بارے میں بہت سوچا تھا ۔ میں بے حد خوش تھی لیکن میری خوشی شاید چند پلوں کی ہی تھی ۔ بس ایک پل اور تمام خواہشات تمام خوشیاں ملیا میٹ ہو چکی تھی ۔ اس رات شوکت میرے پاس آیا اس کے قدم لڑکھڑا رہے تھے ۔ جیسے ہی وہ قریب ہوا مجھے اس سے عجیب سی ہمک محسوس ہوئی اس کی آنکھیں لال انگارہ کے معنی تھی ۔ اور اسے کوئی ہوش نہیں تھا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اسے کیا کہنا چاہیے   کیوں کہ وہ شراب کے نشے میں دھت تھا ۔

اسی نشے میں اس نے زندگی کی اذیت ناک شروعات کی تھی ۔ صبح ہونے تک مجھے لگا میرے اندر کی بانو کی موت ہوگئی ہے ۔ اور یہ جو بت  نظر آرہا ہے وہ صرف دنیا کی خانہ پری کے لئے ہے ولیمے میں میری سہیلیاں مجھے منہ دکھائی کے تحفےکا پوچھتی رہیں ۔ اور میں میک اپ کی تہہ کے نیچے نیل و نیل  چہرہ لئے ان کو جھوٹی مسکراہٹ کے ساتھ مطمئن کرتی رہی ۔ اس دن میری زندگی کا ایک نیا باب شروع ھوا ۔

اس باب کے ہر ورق پر صرف دکھ ہی دکھ تھا ۔ شوکت کی اماں ہماری شادی کے چند ماہ بعد ہی زندہ رہیں ۔ اور ان کے جانے کے بعد میں بے حد تنہا ہوگی ۔ وہاں پر ڈھائی سالہ برکت کی ذمہ داری بھی مجھ پر آ گری ۔ دوسری جانب میں بھی میں امید تھی شوکت کا بھی آپ ہی چلن تھا ۔ وہ سارا دن رکشہ چلاتا اور شام کو چوہدریوں کے ڈیرے پر چلا جاتا ۔ وہاں شراب کباب کی محفل جمتی اور وہ روز ہی شراب کے نشے میں گھر آتا ذرا ذرا سی بات پر مجھے دھتکار کر رکھ دیتا ۔

برکت نے اب باتیں کرنا شروع کردی ہو مجھ سے اٹیچ میں بہت تھا ۔اس رات میرا 14 سالہ دیور ہی میرا شوہر بن بیٹھا

کیوں کہ میں بالکل ماں کی اس کا خیال رکھتی تھی ۔ اب جب شوکت مجھ پر ہاتھ اٹھاتا تو اپنی کمزور سی آواز میں نہیں نہیں کہتا اور آکر اس کا ہاتھ روکنے کی کوشش کرتا ۔ ایسے میں  وہ مجھے بہت پیارا لگتا تھا یوں لگتا تھا جیسے میرا اس تپتے صحرا میں کوئی اپنا ہے ۔ جو مجھے ہر دکھ ہر پریشانی سے بچانا چاہتا ہے اور میرے ظلم کا بدلہ لینا چاہتا ہے ۔ پھر ایک دن شوکت مجھے مار کر ادھ موا کر کے خود گالیاں دیتا گھر سے چلا گیا ۔

برکت نے مجھے بے ہوش دیکھا تو اس نے ساتھ والی ہمسائی کو بھلا لیا ۔ ہمسائی نے  مجھے اس حالت میں دیکھا تو فوراً ہسپتال لے گی ۔ اسی دن میری بیٹی ہمنہ کی پیدائش ہوئی ہمنہ گول مٹول سی پھولی گالوں والی بے حد خوبصورت بچی تھی ۔ برکت نے اپنی گود میں لیا میں نے اسے بتایا کہ تمہاری بھتیجی ہے ۔ تم اس کے چاچا  لگتے ہو وہ اس عمر میں نہیں تھا کہ رشتوں کی سمجھ آتی تھی ۔ مگر میری ہر بات پر سر ہلادیتا ۔

شوکت کو جب  پتہ چلا کہ اس کے گھر بیٹھی ہوئی ہے ۔ تو وہ ہسپتال سے مجھے لینے آیا سب سے حیرت انگیز بات یہ تھی ۔ کہ اس کے ہاتھ میں فروٹ کے شاپر اور بچے کے لیے کچھ چیزیں تھی ۔ اس نے مجھ سے پچھلے تمام رویوں کی معافی مانگی اور کہا ۔ اب میں کبھی شراب پی کر گھر نہیں آؤں گا نہ ہی وہ مجھ پر ہاتھ اٹھائے گا ۔ میری بیٹی ہمنہ میرے لئے خوش قسمتی تھی ۔ اس کے پیدا ہوتے ہی شوکت میں ایک اچھا بدلاؤ آیا تھا ۔

برکت بھی اپنے بھائی کو دیکھ کر بے حد خوش ہوا کیونکہ ۔

وہ میرے ساتھ نرمی سے بات کرتا تھا  اس دن ہمارے گھر میں خوشیاں ہی خوشیاں تھیں ۔شوکت کبھی اپنی بیٹی کے ساتھ کھیلتا تھا اور کبھی مجھے کھانے کے بارے میں پوچھتا ۔ اس نے میرے سامنے وعدہ کیا وہ کبھی بھی چوہدری کے ڈیرے پر نہیں جائے گا ۔ اس نے تمام برے کاموں سے توبہ کرلی شوکت نے اب  برکت کو اسکول میں داخل کروا دیا ۔ اسے پڑھا لکھا کر بڑا آدمی بنانا چاہتا تھا اسی لئے کام کے سرکاری سکول کی بجائے شہر کے اچھے سکول میں داخل کروا دیا ۔

اب میں ہمنہ کے ساتھ مصروف رہتی برکت سکول سے آتا تو اس کے چھوٹے چھوٹے کام کرتی ۔ شوکت اب سر شام ہی گھر آ جاتا پھر وہ ہمنہ کے ساتھ کھیلتا  میں کھانا بنا لیا کرتی تھی ۔ ہماری زندگی بہت اچھی گزر رہی تھی کہ اس دن چوہدری کا خاص آدمی شوکت کو بلانے آیا ۔ شوکت مجھے دال گوشت کی فرمائش کر کے  خود اس کے ساتھ چوہدری کی بات سننے گیا ۔ میں کھانا بنا کر کافی دیر اس کا انتظار کرتی رہی مگر وہ نہیں آیا ۔

اس رات میں نے کھانا نہیں کھایا بچوں کو سلانے کے بعد پریشانی کے عالم میں بیٹھی رہی کہ ۔ شوکت اب تو بدل گیا تھا اللہ ہی خیر کرے اب کیا ہونے والا ہے ۔ چوہدری اسے کوئی نقصان نہ پہنچادیے اسی سوچ میں رات کا ایک بج گیا ۔ میرا انتظار نہ ختم ہوا مجھے عجیب سا وہم ستا رہا تھا ۔ خیالات  نے اپنی گرفت میں لے رکھا تھا کہ دو بجے کا وقت تھا ۔ دروازے پر دستک ہوئی میں نے بیتابی سے  دروازہ کھولا ۔ لیکن اس وقت میری حیرت کی انتہا نہ رہی ۔

جب شوکت نے لڑکھڑاتے ہوئے اندر قدم رکھا وہ پھر سے شراب پی کر آیا تھا ۔

میں نے اس کو اپنا وعدہ یاد دلایا اس نے کہا تھا کہ کبھی شراب نہیں پئے گا ۔ اس نے سنی ان سنی کر دی وہ سونے نہیں لگا تھا ۔ مگر میں نے اسے زور دیا کہ اب تو اس کی بیٹی ہے وہ اپنی بیٹی کی خاطر بدلا تھا ۔ اس بیٹی کا کوئی احساس ہے یا نہیں ۔ اس نے مجھے گھور کر دیکھا  شراب کے نشے میں اپنی پرانی روش پر آتے ہوئے مجھے مارنے  لگ گیا ۔ ایک بار پھر میں  قسمت کے ہاتھوں اور شوکت کے ہاتھوں مار کھا رہی تھی ۔

میں دونوں جانب سے بے بس تھی ۔ اس دن کے بعد میری زندگی کی وہ سیاہ رات شروع ہوئی ۔ جس کی صبح کا انتظار مجھے اس موڑ پر لے آیا جس کا میں نے کہانی کے آغاز میں آپ کو بتایا تھا ۔ اس دن کے بعد اگلے آنے والے چند دنوں میں مجھ پر  ایسے انکشافات ہوئے کہ میں ان کی تاب نہ لاتے ہوئے کئی  دنوں تک بیمار رہی ۔ اس دوران میری بیٹی کو بھی برکت اپنے ننھے منے ہاتھوں سے سنبھالتا رہا اور میری دلجوئی کرتا رہا ۔

شوکت کے بارے میں جو باتیں مجھے پتا چلیں انہوں نے مجھے ہلا کر رکھ دیا ۔ شوکت نہ صرف شراب پینے کی گندی لت میں مبتلا تھا بلکہ ۔ اس کی سب سے غلیظ ترین حقیقت جو میرے سامنے آئی تھی اس نے مجھے اپنی نگاہوں سے بھی گرا دیا ۔ کیونکہ آپ سب شوقت شراب پی کر آتا تھا تو مجھے مارتا نہیں تھا ۔ بلکہ بہت زیادہ باتیں کرتا تھا اس کی مار پیٹ سے تو میرا جسم زخمی ہوتا تھا ۔ مگر آج اس کی باتوں سے میری روح چلنی ہونے لگی ۔

کاش یہ سب سننے کی بجائے اپنے کانوں کے پردے پھاڑ دیتی ۔

مگر میری مجبوری تھی کہ میں اس کی بیوی تھی اور ایک اچھی بیوی ہونے کے ناتے  مجھے یہ فرض ساری زندگی نبھانا تھا ۔ شوکت جوکہ چوہدریوں کے شکنجے میں تھا یا پھر چوہدری اس کے شکنجے میں تھے یہ کہنا مشکل تھا ۔ شوکت رکشہ چلاتا تھا اور اس کے رکشہ میں سکول کالج کی لڑکیاں بھی شہر پڑھنے جاتی تھی ۔ جب بھی کوئی اکیلی معصوم صورت لڑکی اس کے رکشے  میں بیٹھتی ۔ تو  وہ بڑی چالاکی سے بہلا بھسلا کر چوہدری کے ڈیرے میں لے جاتا ۔

وہاں پر چوہدری اس معصوم لڑکی کی عصمت کو تار تار کرتے پھر یہ لوگ دلال بن کر اس لڑکی کو بازار حسن جیسی غلیظ اور  گندی جگہ پر بیچ آتے ۔ وہ یہ کام عرصہ دراز سے اس خاموشی اور رازداری سے کر رہے تھے کہ دیواروں تک کو پتہ نہیں تھا ۔ اب جب ہماری زندگی میں ہمنہ  آ گئی تو  شاید شوکت کو احساس ہونے لگا کہ اس کی بھی ایک بیٹی ہے ۔ اب اسے ان معاملات میں نہیں پڑنا چاہتا ہے ۔

مگر کیا کہتے ہیں کہ کمبل سے ہم جان چھڑانا بھی چاہے تو وہ ہمارے ساتھ ہی لپٹے گا ۔ بالکل ایسا ہی شوکت کے ساتھ ہوا تھا چوہدریوں کے  منہ جو عادت لگ چکی  تھی وہ کیسے جاتی ۔ اگر پہلے شوکت اپنی رضامندی سے لڑکیاں انہیں سپلائی کر رہا تھا ۔ تو آپ شاید مجبوری میں ہی سہی لیکن وہ اس کام کو چھوڑ نہیں سکتا تھا ۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ یہ عیش بھی چوہدریوں کی دی ہوئی رقم کے سر پر ہے ۔ ورنہ رات بھر شراب پینے کے بعد صبح رکشہ چلا کر کس طرح کمائی ہوتی ہے ۔

اب مجھے شوکت سے گھن آتی تھی جیسے جیسے ہمنہ بڑی ہو رہی تھی ۔

وہ بے حد پیاری لگتی میں اسے دیکھتی تو ڈر جاتی مجھے لگتا کہیں اس کو اپنے باپ کے کرموں کی سزا نہ مل جائے ۔   میری یہ سوچ راتوں کی نیند اڑانے کے لئے کافی تھی ۔ برکت بھی بڑا ہو رہا تھا اس کی کوئی بھی عادت اپنے بڑے بھائی پر نہیں گئی تھی ۔ وہ بے حد پیارا اور اپنے کام سے کام رکھنے والا خاموش طبیعت لڑکا تھا ۔ ادھر میں نے شوکت کو اس کے حال پر چھوڑ دیاوقت گزرتا گیا ۔ یہاں تک کہ برکت 14 جبکہ میری ہمنہ ساڑھے بارہ سال کی ہوگئی ۔

برکت کا قد کافی لمبا تھا وہ اپنی ماں سے عمر میں بڑا لگتا تھا ۔ مجھے بھابھی کہا کرتا تھا ہمنہ اسے چاچو کی بجائے چا کہتی تھی اور وہ ہم دونوں ماں بیٹی کا بہت خیال رکھتا ۔ میرے لئے وہ بالکل ہمنہ جیسا ہی تھا اس کو میں نے اپنی اولاد بنا کر پالا تھا ۔ اب  مجھے شوکت کی پروا نہ تھی اس کی وہی شب و روز تھے ۔ میں نے خود کو ان پریشانیوں سے اور فکروں سے آزاد کردیا تھا ۔ انہی دنوں ہماری زندگی پھر سے ایک طوفان کی زد میں آئی کہ سب کچھ ملیا میٹ ہو کیا ۔

سب زندگیاں ناصرف برباد ہوگئیں بلکہ تباہ و برباد ہو گئی ۔ اس دن شوکت کے رکشے پر ایک بے حد خوبصورت اور تنہا لڑکی بیٹھی ۔ جس کا حسن دیکھ  کر شوکت کی  نیت خراب ہوگئی وہ اسے کہنے لگا کہ اس طرف سے سڑک ٹھیک نہیں ہے ۔ وہ اسے دوسری جانب سے کچے بھائی کی طرف اس کی مطلوبہ جگہ پر چھوڑ آئے گا ۔ اسے لے کر چوہدریوں کے ڈیرے میں جوکہ  دریا کے کنارے واقع تھا لے گیا ۔ کہنے لگا تم یہاں بیٹھو میرے رکشے  میں تھوڑا سا مسئلہ ہے ۔

وہ ٹھیک کرلو پھر تمہیں گھر چھوڑ آؤں گا وہ سیدھا حویلی پر آیا اور اس نے لڑکی کے بارے میں چوہدری کو بتایا ۔

جب وہاں ڈیرے پر یہ شیطانی کھیل کھیلا جا رہا تھا تبھی میرے در پر دستک ہوئی ۔ میں نے دروازہ کھولا باہر ساتھ والے گاؤں چوہدری اور اور ان کے آدمی تھے ۔   انہوں نے مجھ سے شوکت کے بارے میں پوچھا میں نے کہا کہ رکشہ گیا ۔ لیکن ان کے انداز سے ہی مجھے کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا ۔ پوچھنے پر معلوم ہوا ہے کہ شوکت کے رکشے پر ساتھ والے گاؤں کے چوہدری صاحب کی بیٹی بیٹھی تھی ۔ لیکن وہ ابھی تک گھر نہیں پہنچی ۔

یہ بات انہیں  گاؤں کے گوالے نے بتائی تھی کہ چوہدری صاحب کی بیٹی رکشے میں بیٹھ کر گھر گئی تھی ۔ اپنے شوہر کا یہ کارنامہ سن کر میں نے دل تھام لیا میں جانتی تھی کہ  وہ لڑکی کہاں ہو گئی ۔ اور اس کے ساتھ کیا ہو رہا ہو گا لیکن میں نے انہیں کچھ نہیں بتایا ۔ وہاں گلی سے ایک شخص گزر رہا تھا ہمارے گھر کے باہر لوگوں کا مجمع دیکھ کر رک گیا اور پوچھنے لگا کہ کیا ہوا ہے ۔ چوہدری کے بندوں سے اصل بات کا پتہ چلنے کے بعد وہ شخص کہنے لگا کہ ۔

شوکت کا رکشہ اس نے چوہدری کے ڈیرے کی طرف دریا کے پاس جاتے ہوئے دیکھا ہے ۔ اس کے رکشے میں ایک لڑکی بیٹھی ہوئی تھی یہ سنتے ہی چوہدری اور اس کے آدمیوں نے ڈیرے کی طرف دوڑیں لگادیں ۔ میں دروازے کے باہر دروازے کو تھامے  سوچنے لگی کہ اب کیا ہونے والا ہے ۔ برکت سکول سے آیا مجھے اس طرح پریشان دیکھ کر پوچھنے لگا کہ کیا ہوا ہے ۔ میں نے بتایا تو مجھے تسلی دینے لگا یکدم میرا بلڈ پریشر لو ہو گیا ۔

ہمنہ بھی بھاگ کر آئی برکت نے مجھے اٹھا کر اپنے کمرے میں لیٹا دیا دوسری جانب یک دم پورے گاؤں میں شور مچ گیا ۔

جیسے ہی خبر چودھریوں تک پہنچی انہوں نے لڑکی کو وہیں چھوڑ کر بھاگنے کی کی ۔ جب ساتھ والے گاؤں کاچوہدری وہاں پہنچا اس کی بیٹی دریا میں ڈوب گئی ۔ لیکن اسے فورا اس کے باقی آدمیوں نے بچا لیا اب وہ چوہدری اور شوکت کو ڈھونڈنے لگے ۔ چودھری تو روپوش ہوگئے بدقسمتی سے ان کے ہاتھ آ گیا  ۔ انہوں نے اپنی بیٹی کا بدلہ لینے کے لیے اس کا بھیجا اڑا دیا ۔ شوکت وہاں موقع پر ہی ہلاک ہوگیا اور میں بیوہ ہو گئی ۔

اب چوہدریوں نے پنچایت بٹھا لی جس میں دو بڑے اہم فیصلے ہونے تھے ۔ گاؤں کا رواج یہ تھا کہ جو شخص کسی کی بیٹی کی عزت خراب کرے جواب میں اس کی بیٹی کی بلی چڑھنا ۔ یعنی وہ دوسرے  فریق کو دے دی جاتی ہے اب وہ جیسے چاہے اس کے ساتھ سلوک کرے ۔ چاہے تو اسے مار دے چاہے تو ساری زندگی نوکر اور رکھیل بنا کر رکھے یا پھر اس سے نکاح کر لے ۔ اب یہ ان پر منحصر ہے پنچایت میں میری ساڑھے بارہ سالہ بیٹی کو قربان کردیا گیا ۔

مجھ سے چھین کر ساتھ والے گاؤں کے چوہدری کو دے دیا گیا ۔ وہ اسے لے کر جا رہا تھا اور میں بے بسی دیکھ رہی تھی ۔ میں انہیں روک بھی نہیں پا رہی تھی میری معصوم بیٹی روتی رہی چلاتی رہی کہتی رہی میرا کیا قصور ہے ۔ باپ کے کئیے  کی سزا مجھے کیوں دے رہے ہو ۔ مگر کسی نے اس کی ایک نہ سنی اور سب لوگ اسے لے کر چلے گئے ۔ میں اسے جاتا دیکھ کر سکتے ہوئی تھی کہ اچانک  میری زندگی کا ایک اور فیصلہ ہو گیا ۔

  ایسا فیصلہ جس کے بارے میں کبھی میں نے سوچا بھی نہیں تھا ۔

وہ بھی ہمارے گاؤں کا رواج تھا جس عورت کا شوہر فوت ہو جاتا اس کی شادی شوہر کے چھوٹے بھائی سے کردی جاتی ۔ برکت  جسے میں نے ہمیشہ چھوٹا بیٹا سمجھا تھا میں کس طرح سے شادی کر سکتی تھی ۔ میں نے بولنا چاہا مگر وہاں بیٹھے مردوں  نے مجھے خاموش کروا دیا ۔ جبکہ برکت بہت چیخا چلایا روتا رہا کہ میری بھابھی نہیں ماں ہے ۔ میں کس طرح اپنی ماں سے شادی کروں خدا کے لئے مجھے جان سے مار دوں مگر اتنی بڑی سزا مت دو ۔

ہم دونوں کی فریاد کسی نے نہ سنی اور پنچایت نے ہمیں میاں بیوی بنا کر ہی گھر روانہ کیا ۔ شوکت تو چلا گیا مگر اس کے جانے کے ساتھ ہم سب کی زندگیاں سولی پر لٹک گئیں ۔ میری جان سے پیاری بیٹی ہمنہ کو باپ کے کیے کی سزا ملی ۔ وہیں میں  نے اپنے بیٹے جیسے دیور کو کھو دیا ۔ ہمارے بیچ رشتہ بدلتے ہیں ایک ایسی خلیج حائل ہو گئی کہ کسی کو بتانا بھی مشکل تھا ۔ ہم ایک گھر  میں رہتے مگر اجنبیوں کی طرح تھے ۔

ایک دوسرے سے نظریں چرائے پھرتے ۔ دوسری جانب چوہدری ہمنہ کو اپنے گھر لے گیا  وہاں چوہدری کی ماں نے اسے دیکھ کر چودہری کو اس کے پاس جانے سے منع کر دیا ۔ شاید یہ میری ماں کی کوئی نیکی تھی جو میری بچی کے سامنے آ گئی ۔ چوہدری اپنی ماں کی بات نہیں ٹال سکتا تھا چوہدری کی ماں نے  ہمنہ کو اپنے کمرے میں رکھ لیا اور پھر سکول داخل کروا دیا ۔ وہ سکول کا سبق بھی پڑھتی اور اس کی ماں کی خدمت بھی کرتی ۔

اس طرح تین سال بیت گئے ہمنہ سولہ سال کی ہو چکی تھی ۔

ایک دن چوہدری کا بیٹا انگلینڈ سے اچانک  اپنی تعلیم مکمل کر کے آ گیا ۔ اس نے گھر والوں سے ہمنہ کے بارے میں پوچھا جب اسے حالات معلوم ہوئے ۔ تو اس نے کہا کہ وہ اس لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہے چوہدری نے کہا یہ ممکن نہیں ۔ اگر تم اس سے ویسے تعلق رکھنا چاہو تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ۔ مگر تم اسے بیوی نہیں بنا سکتے یہاں پر  بھی چوہدری کی  ماں سامنے آگئی ۔ اس نے مداخلت کرتے ہوئے چوہدری کے بیٹے کی شادی ہمنہ سے کروا دی ۔

جس دن اس کی شادی ہوئی اسی دن  چوہدری کی ماں انتقال کر گئ ۔ جاتے ہوئے وہ میری بیٹی کو محفوظ ہاتھوں میں تھما گئی تھی ۔ ہمنہ کے  شوہر سے بہت پیار دیا اس کی زندگی کی ہر خواہش کو پورا کیا اللہ کا شکر ہے ۔ میری بیٹی کی قسمت میرے جیسی نہیں تھی پھر ایک دن ہمنہ میرے گھر آئی ۔ وہ ہنی مون پر انگلینڈ جا رہی تھی اس کا شوہر مجھ سے بہت عزت سے ملا مجھ سے کہنے لگا اب وہ ہمیشہ ملتے رہیں گے ۔

ہمنہ جاتے جاتے مجھے کہ کر گئی تھی کہ امی آپ بھی  برکت چاچو کو قبول کر کے میاں بیوی کی طرح رہنا شروع کر دیں ۔   میں جانتی تھی یہ میرے لئے کس قدر مشکل تھا مگر میری بیٹی نے پہلی بار کوئی فرمائش کی تھی ۔ کہ وہ مکمل محبت کرنے والی فیملی چاہتی ہے ۔ اس کی خواہش کو پورا کرنے کے لیے میں نے اپنے دل کو آمادہ کرلیا ۔ اب میں نے برکت کے ساتھ جان بوجھ کر وقت  گزارنا شروع کیا وہ چلا کر رہ گیا مگر میرے بھی ہمت نہ ہاری ۔

شروع میں وہ تھوڑا  گبھرا گیا  مگر پھر آہستہ آہستہ سب کچھ معمول پر آ گیا ۔

پھر ایک دن میں نے اسے دل کی ہر بات بتا دی میرے حالات سن کر اس کی بھی آنکھیں نم ہوگئیں ۔ مگر وہ میری آنکھوں میں آنے والی آخری نمی تھی اس کے بعد برکت علی نے مجھے کبھی اداس نہیں ہونے دیا ۔ آج بھی وہ چھوٹی چھوٹی باتوں سے مجھے ہنساتا ہے ۔ میرا یوں خیال رکھتا ہے جیسے کوئی نیا بیاہا جوڑا ہوتا ہے ۔

آپ کو اگر یہ کہانی اچھی لگی ہے تو اس ویڈیو کو لائک کیجئے اور اس طرح کی مزید کہانیاں سننے کے لیے ہمارے چینل کو ضرور سبسکرائب کیجیے کہانی سننے کا شکریہ آپ سے  ملاقات ہو گی اگلی ویڈیو میں تب تک کے لئے اللہ حافظ ۔

✭ نوٹ :- عمدہ قسم کے سبق آموز واقعات وحکایات کیلئے آج ہی ہمارا ٹیلی گرام چینل جوائن کریں ۔

نوٹ :- ایسے ہی دل کو موہ لینے والے اور دل کو چھو لینے والے واقعات و حکایات پڑھنے کے لئے روز ویب سائٹ کا وزٹ کریں ۔ اور اپنے دوست و احباب اور متعلقین کو بھی شیئر کریں تاکہ آپ کے ذریعے ان کا بھی فائدہ

Leave a Comment