Crime story in urdu
بہت پرانی بات ہے گوجرانولہ کے کسی علاقے میں نصیر نامی ایک کسان رہا کرتا تھا ۔ جس کے ہاں صرف ایک ہی اولاد تھی اور وہ تھا اس کا ستراں سالہ بیٹا رئیس ۔ نصیر سارا دن چوہدری مدثر نامی شخص کی زمین پر کھیتی کا کام کرتا ۔ صرف اس لیئے کہ رئیس پڑھ لکھ کر ایک ہونہار انسان بنے اور رئیس بھی پڑھائی میں بہت ہی ذہین تھا ۔ اپنے باپ کے محنت سے کمائے ہوئے پیسوں سے ادا کی ہوئی فیس کا سہی سے حق ادا کر رہا تھا ۔
تو برسات کے دن تھے اور ہلکی سی بارش ہو کر ختم ہو چکی تھی ۔ اس کے بعد کڑاکے دار دھوپ نکلی جس سے بے پناہ حبس ہو گیا ۔ ہوا بھی ایسی تھی کہ کسی درخت کا ایک پتا بھی نہیں ہل رہا تھا ۔ اس دن جب رئیس سکول سے واپس پسینے میں بھیگا ہوا گھر آیا ۔ تو رئیس کی والدہ صغریٰ نے رئیس کو کھانے کا ایک ٹفن ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا ۔ بیٹا میں جانتی ہوں تمہیں اس وقت آرام کی ضرورت ہے ۔
پر آج تمہارے ابو بنا ناشتہ کیئے ہی کھیتوں میں چلے گئے ہیں ۔ شاید انہیں کسی قسم کی کوئی جلدی تھی اس وجہ سے تم یہ کھانا اپنے ابو کو دے آؤ ۔ انہیں کہنا کہ پہلے کھانا کھا لیں پھر کوئی اور کام کریں ورنہ طبیعت خراب ہو جائے گی ۔ یہ کہتے ہوئے صغریٰ نے اپنے دوپٹے کو ہلا کر خود کو ہوا دیتے ہوئے کہا ۔ آج تو بہت ہی زیادہ حبس ہے بیٹا جب تک تمہارے بابا کھانا نہ کھا لیں تب تک ان کے پاس ہی کھڑے رہنا ۔
رئیس نے کہا جی ٹھیک ہے امی جان یہ کہتے ہوئے رئیس نے اپنا سکول بیگ سائیڈ پر رکھا ۔ سکول یونیفارم میں ہی اپنے والد کے لیئے کھانا لے کر کھیتوں میں چلا گیا ۔ وہاں جاتے ہی رئیس نے دیکھا کہ نصیر کڑی دھوپ میں پسینے میں بھیگا ہوا کھیت میں کام کر رہا تھا ۔ اتنے میں نضیر اٹھ کر کچھ فاصلے پر پڑے ہوئے گھڑے سے پانی پینے لگا ۔ تو اس کے تھوڑی ہی دور ایک آدمی درخت کی چھاؤں میں ایک کرسی پر بیٹھا ہوا نصیر کو کہہ رہا تھا ۔ ارے کتنا ٹائم لگا رہے ہو ذرا جلدی ہاتھ چلا لو ۔ ۔ ۔ ۔
بار بار پانی پینے کے بہانے ٹائم ضائع کر رہے ہو ۔ ۔ کام چور کہیں کے ۔ ۔ ذرا جلدی کرو آج میں نے کسی تقریب میں جانا ہے ۔ لیکن تمہاری کام چوری کی وجہ سے مجھے یہاں بیٹھ کر تم پر نظر رکھنی پڑتی ہے جلدی ہاتھ چلاؤ ۔ ۔ یہ سن کر نصیر اس آدمی کی طرف دیکھتے ہوئے بولا چوہدری صاحب میں کر رہا ہوں ۔ دیکھیں میں نے کافی حد تک اپنا کام مکمل کر لیا ہے ۔ جبکہ کوئی اور کسان اتنے کم وقت میں شاید اتنا کام مکمل نہ کر پاتا پھر بھی آپ مجھے کام چور کہہ رہے ہیں ۔ ؟
نصیر کی یہ بات سن کر چوہدری آگ بگولہ ہو گیا ۔ اس نے نصیر سے کہا ارے تمہارے کہنے کا مطلب یہ ہے ۔ میں یہاں فضول بیٹھا بکواس کر رہا ہوں ۔ کیا تمہیں پتا نہیں مجھے اور بھی کام ہیں بس تمہاری سستی کی وجہ سے ہی مجھے دیر ہو رہی ہے ۔ اوپر سے تم مجھے باتیں سنا رہے ہو ۔ ؟ اپنی اوکات میں رہو ورنہ کام چھوڑ دو میں کسی اور سے کام کروا لوں گا ۔ یہ مت بھولو کہ میں یہاں کا مالک ہوں ناکہ تم جیسا کسان جو کہ تم مجھ سے ایسے بات کر رہے ہو ۔
ٹھیک سے کام کرنا ہے تو کرو ورنہ مجھے بندوں کی کوئی کمی نہیں ہے ۔ چوہدری کی یہ بات سن کر نصیر چوہدری سے کچھ کہنے ہی والا تھا کہ اچانک نصیر کی نظر رئیس پر پڑی ۔ تو نصیر نے دیکھا کہ رئیس ہاتھ میں کھانے کا ٹفن پکڑے کھیت کے ایک سائیڈ پر کھڑا ہوا چوہدری کی طرف غصے سے دیکھ رہا ہے ۔ تبھی نصیر نے رئیس کو آواز دیتے ہوئے کہا ارے تم کب آئے آجاؤ بیٹا خیر سے آئے ہو ۔ ؟؟
تبھی چوہدری کی نظر بھی رئیس پر پڑی تو چوہدری نے دیکھا کہ رئیس اس کو گھور رہا تھا ۔ یہ دیکھتے ہوئے چوہدری نے نصیر کی طرف دیکھا اور کہا او نصیر ۔ ۔ ۔ ؟؟ یہ لڑکا کون ہے ؟؟ نصیر نے کہا چوہدری صاحب یہ میرا بیٹا ہے رئیس ۔ ۔ تو چوہدری نے رئیس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا اچھا اچھا تبھی اس کی دیکھنی بھی رئیس لوگوں جیسی ہے ۔ لیکن اس کا میری طرف ایسے دیکھنا مجھے پسند نہیں آیا ۔ اسے کہو کہ ذرا اپنی نظروں کو کنٹرول میں رکھے ۔ کیونکہ وہ ایک کسان کا بیٹا ہے اور میں یہاں کا مالک ۔
اس سے پہلے نصیر رئیس کو کچھ بولتا ۔ رئیس نے فوراً چوہدری سے کہا چوہدری صاحب میرے والد آپ کے پاس کام کرتے ہیں ۔ تبھی آپ ان کو اپنا غلام سمجھ کر ان پر اپنا حکم چلا رہے ہیں ۔ لیکن میں آپ کے پاس کام نہیں کرتا اور نہ ہی میں آپ کا غلام ہوں ۔ جو میں آپ کی کسی بات کا خیر مقدم کروں گا ۔ رئیس کی یہ بات سنتے ہی چوہدری اچانک چونک گیا ۔ پھر کہنے لگا لڑکے تجھے پتا بھی ہے تو کس سے کس لہجے میں بات کر رہا ہے ۔ ؟؟
میرا نام چوہدری مدثر ہے اور میں یہاں کا مالک ہوں ۔ ؟؟ اس دوران رئیس اسی طرح چوہدری کو گھور رہا تھا ۔ تبھی نصیر نے جلدی سے رئیس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا ارے بیٹا چھوڑو یہ تم کیا کر رہے ہو ۔ چلو آؤ ادھر ایسے نہیں بولتے یہ ہمارے چوہدری صاحب ہیں اس کھیت کے مالک ہیں ۔
رئیس نے اپنا ہاتھ نصیر سے چھڑاتے ہوئے کہا ایک منٹ رکیں بابا ۔ پھر سے چوہدری کی طرف دیکھتے ہوئے رئیس نے کہا بابا بے شک یہ چوہدری صاحب ہیں اس کھیت کے مالک ہیں ۔ لیکن یہ میرے مالک نہیں ہیں کیونکہ میرا مالک صرف اللّٰہ ہے ۔ اس کے سوا میں کسی کو کسی چیز کا مالک نہیں مانتا ۔
یہ چوہدری صاحب تو اس زمین کے اک چھوٹے سے حصّے کی وجہ سے تکبر کے نشے میں ڈوبے ہوئے ہیں ۔ خود کو اس چھوٹی سی زمین کا مالک کہلواتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں ۔ جس کی وجہ سے یہ انسان کو انسان ہی نہیں سمجھتے ۔ لیکن میرا اللّٰہ تو پوری کائنات کا مالک ہے پھر بھی وہ سب انسانوں سے ستر ماؤں جتنا پیار کرتا ہے ۔ جبکہ ایک ماں کا پیار بھی بہت ہوتا ہے لیکن اللّٰہ ستر ماؤں جتنا کرتا ہے ۔
پھر چاہے انسان چوہدری صاحب جیسے ہی کیوں نا ہو وہ ان کو بھی رزق عطا کرتا ہے ۔ اسی لیئے میں تو صرف اللّٰہ ہی کو ہی مالک مانتا ہوں ۔ اللّٰہ کے بعد ہمارے پیارے آقا حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم ہیں جو سرور کائنات ہیں ۔ وہ بھی اپنے امتیوں سے بہت پیار کرتے ہیں ۔ اسی لیئے تو ہمارے پیارے آقا محمد صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے امتیوں کی بھلائی کی خاطر اپنے جگر کے ٹکڑے اپنے لاڈلے نواسوں کی قربانی دی ہے ۔
وہ سرور کائنات سرکارِ دوعالم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم ہیں جو پوری دونوں جہانوں کے بادشاہ ہوتے ہوئے بھی سادگی میں رہے ۔ سب انسانوں کو برابر سمجھا اور سب کے ساتھ پیار محبت سے پیش آتے ہیں پھر چاہے ۔ کوئی امیر ترین ہو یاں کوئی غریب غلام میرے آقا صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی کسی میں فرق نہیں کیا ۔ ہمیشہ سب کو ایک جیسی عزت کی نگاہ مبارک سے دیکھا ۔
تو چوہدری صاحب آپ تو ایک عام سے انسان ہو کر خود اس رتی برابر زمین کا مالک سمجھ کر اتنا گھمنڈ کر رہے ہیں ۔ آپ میرے بابا کو انسان ہی نہیں سمجھ رہے جو کہ برسات کے اس حبس کے دنوں میں بھی کڑی دھوپ میں ۔ محنت اور دیانتداری سے بنا کچھ کھائے بھی اپنا کام کر رہے ہیں ۔ رئیس کی یہ باتوں نے چوہدری مدثر کے تن بدن میں آگ لگادی ۔ چوہدری نے رئیس سے کہا ارے واہ واہ ۔ ۔ ۔ کیا تقریر کرتے ہو ۔
اتنی بڑی بڑی باتیں باپ رے باپ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟؟؟ یہ سب تم نے کہاں سیکھی ہیں ؟؟ رئیس نے مسکراتے ہوئے کہا چوہدری صاحب یہ سب ہمیں سکول میں پڑھایا جاتا ہے ۔ اسی وجہ سے ہمیں دنیا داری کے اصولوں کو سمجھنے اور انسانی حقوق کے تحفظ کے بارے میں معلومات ملتی ہیں ۔ اسی لیئے میں تعلیم حاصل کرتا ہوں ۔
رئیس کی یہ بات سن کر چوہدری نے ہاتھوں سے تالیاں مارتے ہوئے کہا ارے واہ ۔ ۔ ۔ کیا بات ہے باپ معمولی کسان اور بیٹا انسانوں کے حقوق کے تحفظ کی وکالت کرتا پھر رہا ہے ۔ یہ تو واقعی میں کمال ہے نصیر تمہارا لڑکا بہت ذہین ہے ۔ لیکن اس کی تعلیم اس کا ذہن خراب کر دے گی کیونکہ اس کو یہی نہیں پتا کہ کسان کا بیٹا ہو کر کسی چوہدری یاں جاگیر دار سے کیسے بات کرنی ہے ۔
یہ تو میں ہوں جو اسے بچہ سمجھ کر کچھ نہیں کہہ رہا ورنہ میری جگہ کوئی اور جاگیر دار ہوتا ۔ تو اب تک اس کو اچھا سبق سکھا چکا ہوتا اسی لیئے کہہ رہا ہوں کہ اس کا سکول جانا بند کرواؤ ۔ ورنہ کل کو یہ تمہارے ساتھ بھی ایسے ہی بات کرے گا یاں کل کو تمہیں کسی مشکل میں ڈال دے گا ۔ چوہدری کی یہ بات سن کر رئیس کچھ بولنے ہی والا تھا کہ نصیر نے جلدی سے رئیس کے منہ پر ہاتھ رکھا ۔ اس کی طرف دیکھتے ہوئے نہ میں اپنا سر ہلایا ۔
پھر رئیس کا ہاتھ پکڑ کر اسے چوہدری سے دور لے گیا ۔ تبھی رئیس نے کہا بابا یہ آپ کیا کر رہے ہیں ۔ ؟؟ مجھے اس کی بات کا جواب تو دینے دیتے ۔ ؟؟ نصیر نے اپنے رومال سے رئیس کے چہرے پر سے پسینہ صاف کیا اور مسکراتے ہوئے کہا ۔ ارے بیٹا بس کرو اس کے ساتھ جتنی تم نے کر دی ہے اس کے لیئے اتنی بہت ہے ۔ سچ کہو تو آج مجھے تم پر فخر ہو رہا ہے کہ تم ماشاءاللہ بہت اچھا پڑھ لکھ رہے ہو ۔
ورنہ مجھے تو چوہدری جیسے انسان سے تو بات ہی نہیں کرنی آتی ۔ بس اسی لیئے اس کی سنتا رہتا ہوں کیونکہ میں انپڑھ ہوں ۔ اسی وجہ سے مجھے کسی بات کی دلیل دینا نہیں آتی کاش تمہارے دادا نے مجھے بھی پڑھایا ہوتا ۔ تو آج میں بھی تمہاری طرح پوری دلیل سے چوہدری جیسے انسانوں سے بات کرتا ۔ باقی آج تم نے کمال کر دیا ہے بیٹا دیکھنا ایک دن تم سچ میں وکیل بن جاؤ گے ۔ ۔
تبھی رئیس نے کہا بابا اب یہ سب چھوڑیں اور پہلے کھانا کھا لیں کب سے لے کر آیا ہوں ۔ پر یہ بھی چوہدری صاحب کی طرح ٹھنڈا ہو گیا ہے ۔ رئیس کی یہ بات سن کر نصیر زور زور سے ہنسنے لگا پھر رئیس بھی ہنسنے لگا ۔ اس دوران چوہدری دور بیٹھا ان باپ بیٹوں کو ہنستا ہوا دیکھ کر جل بھن رہا تھا ۔ لیکن چوہدری ان کی باتوں سے انجان تھا ۔
پھر نصیر نے کھانا وغیرہ کھایا اور رئیس نے خالی ٹفن پکڑتے ہو کہا ٹھیک ہے بابا اب میں اجازت چاہتا ہوں ۔ نصیر نے رئیس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا خیر سے جاؤ میرے بیٹے ۔ یہ کہتے ہوئے نصیر پھر سے کھیت کی طرف چلا گیا اور رئیس واپس گھر آگیا ۔ پھر نصیر نے اپنا کام ختم کیا اور جب گھر آنے لگا تو چوہدری نے کہا ۔ نصیر دیکھو آج جو بھی ہوا اس بات کا ذکر کسی سے مت کرنا ۔
آج ایک ستراں سالہ لڑکے نے مجھے پچھاڑ کر رکھ دیا ہے ۔ میں بھی اپنے بیٹے کو سکول بھیجتا ہوں لیکن وہ تمہارے لڑکے کی طرح جاہلوں والی باتیں نہیں کرتا ۔ اسی لیئے تو میں نے تمہارے بیٹے کی کسی بات کا کوئی جواب نہیں دیا تھا ۔ کیونکہ میں جاہل نہیں ہوں اسی لیئے تو میں اس کے منہ نہیں لگا ۔ پر میری بات پر غور کرنا اسے سکول سے ہٹا دو ورنہ وہ تمہیں کہیں کا نہیں چھوڑے گا ۔
نصیر نے کہا جی چوہدری صاحب بس اس کے دسویں جماعت کے امتحانات ہونے والے ہیں ۔ وہ ہو جائیں تو اس کے بعد میں اس کو اپنے ساتھ کھیت میں لگا لوں گا ۔ نصیر کی یہ بات سن کر چوہدری من ہی من خوش ہونے لگا اور بولا ہاں تب اس کو میری اہمیت کا بھی پتا چل جائے گا ۔ کہ مالک کیا ہوتا ہے اور پتا ہے میں بھی تعلیم یافتہ ہوں اسی لیئے حکمت کی بات کر رہا ہوں ۔
ہاں تمہارے بیٹے کی طرح میں تقریر نہیں کر سکتا کیونکہ میں اس سے زیادہ پڑھا لکھا ہوں ۔ اس لیئے صرف کام کی بات کرتا ہوں کیونکہ پڑھے لکھے انسان صرف وہی بات کرتے ہیں ۔ جس میں حکمت ہو اور یہ بات تمہارے بیٹے کو تو پتا ہی نہیں ۔ چوہدری کی یہ بات سن کر نصیر بھی من ہی من ہنسا ۔ نصیر نے کہا جی جی چوہدری صاحب آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں ۔
آپ تو کمال کے تعلیم یافتہ انسان ہیں بھلا وہ کل کا بچہ کیا جانے پڑھے لکھے انسان کیسے بات کرتے ہیں ۔ آپ کی باتوں میں کمال کی حکمت ہوتی ہے اور یہ مجھے آج پتا چل گیا ہے ۔ نصیر کی یہ بات سن کر چوہدری خوشی سے اپنے کپڑے ٹھیک کرتے ہوئے مسکرا کر نصیر کی طرف دیکھ رہا تھا ۔ پھر چوہدری نے نصیر کو اس کی اجرت دیتے ہوئے کہا ۔
آج تمہیں میں سو روپے زیادہ دے رہا ہوں کیونکہ آج تمہیں پتا چل گیا ہے کہ اصل میں پڑھا لکھا انسان کیسا ہوتا ہے ۔ نصیر نے کہا چوہدری صاحب رہنے دیں مجھے صرف میری اجرت ہی چاہیئے یہ سو روپے آپ اپنے پاس ہی رکھ لیں ۔ یہ سن کر چوہدری نے کہا ارے رکھ لو رکھ لو تم بھی کیا یاد کرو گے ۔ کسی تعلیم یافتہ چوہدری نے تمہیں سو روپے انعام دیا تھا رکھ لو ۔
تو نصیر نے من ہی من ہنستے ہوئے وہ سو روپیہ بھی رکھ لیا ۔ اور گھر آگیا پھر گھر میں آکر نصیر جب اپنی فیملی کے ساتھ کھانا کھا رہا تھا ۔ تو نصیر نے صغریٰ اور رئیس کو چوہدری کی باتوں کے بارے میں بتایا تو سبھی بہت دیر تک ہنستے رہے ۔ کیونکہ نصیر چوہدری کی نقلیں اتارتا ہوا چوہدری کی باتیں بتا رہا تھا ۔ تو اس سے صغریٰ اور رئیس کو بہت زیادہ ہنسی آرہی تھی پھر کافی دن ایسے ہی گزرتے گئے ۔
رئیس کا میٹرک مکمل ہو گیا اور رئیس نے بہت اچھے نمبروں سے میٹرک میں پوزیشن حاصل کی ۔ پھر اس کے بعد رئیس نے کالج جانا شروع کیا اور اپنی پڑھائی کو جاری رکھتے ہوئے بہت ترقی کی ۔ اس دوران چوہدری نے بہت بار نصیر کو کہا کہ وہ رئیس کو اپنے ساتھ کھیت میں لگا لے ۔ پر نصیر کسی نا کسی بہانے سے چوہدری کی بات کو گول کر دیتا تھا ۔
پھر ایک دن نصیر کھیت میں کام کر رہا تھا کہ کہیں سے ایک نوجوان آیا اور نصیر کو برا بھلا کہنے لگا ۔ جب نصیر نے اس کی حالت پر غور کیا تو نصیر نے یہ جانا کہ وہ نوجوان بلکل بھی اپنے ہوش میں نہیں تھا ۔ کیونکہ وہ بات کرتا ہوا پوری طرح سے لڑکھڑاتا رہا تھا ۔ اس کے منہ سے بہت تیز شراب کی بدبو آرہی تھی ۔ نصیر نے اس نوجوان کو کہا بیٹا تم کون ہو دیکھو تم اس وقت اپنے ہوش میں نہیں ہو ۔ تمہیں بلکل بھی پتا نہیں چل رہا تم کیا کر رہے ہو ۔
تبھی اس شرابی نوجوان نے نصیر کی طرف غصے سے دیکھتے ہوئے کہا ۔ او معمولی کسان تیری اتنی جرآت کہ تو چوہدری فرحان کو اپنا بیٹا بولے ۔ یہ کہتے ہوئے اس شرابی نوجوان نے نصیر کے منہ پر ایک تھپڑ مار دیا ۔ تبھی اتنے میں چوہدری مدثر بھی آگیا اس وقت نصیر گال پر ہاتھ رکھ کر کھڑا تھا ۔ اتنے میں اس شرابی نے اپنے کپڑوں میں چھپایا ہو خنجر نکال لیا ۔
اسی وقت چوہدری مدثر نے جلدی سے اس شرابی سے خنجر پکڑتے ہوئے کہا ۔ ارے میرے شیر رک جا بس بہت ہو گیا یہ تو معمولی کسان ہے ۔ تم اس کے سستے خون سے اپنے ہاتھ گندے کیوں کرنا چاہتے ہو ۔ ؟ تبھی اس شرابی نے چوہدری کی طرف دیکھتے ہوئے کہا مجھے چھوڑ دو پاپا ۔ آج میں اس معمولی کسان کو نہیں چھوڑوں گا اس نے مجھے بیٹا کیوں کہا ۔ چوہدری نے غصے سے نصیر کی طرف غصے سے دیکھتے ہوئے کہا ۔
ارے او کسان تمہاری ہمت کیسے ہوئی میرے بیٹے کو بیٹا کہنے کی ۔ تجھے پتا نہیں یہ چوہدری فرحان ہے اور تم اس کو صرف چوہدری صاحب کہہ کر بلایا کرو ۔ کیونکہ چوہدریوں ہمیشہ تمیز سے بلانا چاہیئے ورنہ یہ چوبیس گھنٹے اپنے ساتھ تیز دھار خنجر لے کر گھومتا ہے ۔ شکر مناؤ کہ میں موقع پر آگیا ورنہ اب تک تم اوپر جا چکے ہوتے ۔ اور میں نے تمہیں کتنی بار کہا ہے کہ اب اپنے اُس پڑھاکو بیٹے کو کیا ۔ ۔ ۔ ؟؟ نام ۔ ۔ ؟؟ تھا ۔ ۔ ۔ ؟؟
اس کا ۔ ۔ ۔ ؟؟ ہاں… ۔ یاد آیا رئیس ۔ ۔ ۔ اس کو کام پر لگا لو لیکن تم نے تو اس کو میرے بیٹے کے کالج میں ہی داخل کروا دیا ہے ۔ کل میں وہاں سے گزر رہا تھا تو میں نے اس کو اس کالج سے نکلتے ہوئے دیکھا تھا واہ بڑی بات ہے ۔ ۔ ۔ جبکہ وہاں تو صرف چوہدریوں کے بچے ہی پڑھتے ہیں ۔ تم ایک معمولی سے کسان ہو کر ہم چوہدریوں کی برابری کرو گے ۔ ؟؟
تبھی نصیر نے افسردہ ہو کر کہا چوہدری صاحب کیسی برابری میں تو صرف اپنے بیٹے کو پڑھا ہی رہا ہوں ۔ کیونکہ وہ آگے پڑھنا چاہتا ہے اس میں بھلا میں کیسے آپ کی برابری کر رہا ہوں ۔ ؟؟ ابھی نصیر نے اتنی ہی بات کی تھی کہ اس شرابی نے ایک بار پھر سے ایک زور دار تھپڑ نصیر کے منہ پر مارتے ہوئے کہا بکواس کرتا ہے میرے پاپا کے سامنے ۔ ؟؟
کل سے تو اپنے بیٹے کو یہاں کام پر لے کر آئے گا ۔ ورنہ تیرا میں وہ حشر کروں گا کہ تو نہیں سمجھ پائے گا کہ میں نے تیرے ساتھ کیا کیا ہے ۔ یہ کہنے کے بعد فرحان نے چوہدری سے پوچھا پاپا ویسے اس کا بیٹا دکھتا کیسا ہے ۔ ؟؟ چوہدری نے کہا دکھتا تو تیرے جیسا ہی ہے ۔ بس رنگ روپ قد کاٹھ تیرے سے ذرا اچھا ہے اس کا ۔ لیکن ہے بہت تیز چیز ۔
چوہدری کی یہ بات سن کر فرحان نے کہا ایسا لڑکا تو پورے کالج میں ایک ہی ہے ۔ اس کا نام بھی رئیس ہے بلکہ اس کا پورا نام (رئیس نصیر) ہے شاید ۔ تبھی چوہدری نے کہا ارے یہی تو ہے نصیر اور رئیس اس کے بیٹے کا نام ہے ۔ ۔ ۔ تبھی فرحان نے کہا او ۔ ۔ ۔ اچھا ۔ ۔ ۔ اچھا ۔ ۔ ۔ تو وہ رئیس اس معمولی کسان کا بیٹا ہے ۔ ۔ ۔ سہی سہی ۔ ۔
میں بڑے اچھے سے جانتا ہوں اسے وہ میری ہی کلاس میں پڑھتا ہے ۔ اس کی وجہ سے مجھے کالج میں بھی شرمندگی ہوتی ہے کیونکہ اسے ہمیشہ اچھے نمبر ملتے ہیں ۔ میں ہمیشہ فیل ہو جاتا ہوں اور میرے دوست میرا مذاق بناتے ہیں ۔ ۔ اچھا تو اب میں اسے بتاؤ گا کہ چوہدری فرحان کیا چیز ہے ۔ جب اسے یہاں لا کر اس سے کھیت میں کام کرواؤں گا تو دیکھتا ہوں وہ کیسے نمبر لیتا ہے ۔
یہ کہنے کے بعد فرحان نے نصیر کو گریبان سے پکڑ کر کہا ارے او معمولی کسان ۔ کل صبح اپنے بیٹے کو ساتھ لے کر آنا ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا ۔ یہ کہتے ہوئے فرحان لڑکھڑاتا ہوا وہاں سے چلا گیا تبھی چوہدری نے نصیر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔ دیکھو کسان تمہیں معلوم ہے نا میں تعلیم یافتہ چوہدری ہوں اس لیئے میں تمہاری بھلائی کے لیئے ہی کہہ رہا ہوں ۔ کہ اب تم اپنے بیٹے کو اپنے ساتھ کام پر لگا لو کیونکہ تم اب بوڑھے ہو رہے ہو ۔
اس لیئے تمہیں پڑھے لکھے لوگوں سے بات کرنے کی تمیز نہیں رہی ۔ میرا بیٹا تمہارے بیٹے سے زیادہ پڑھا لکھا ہے کیونکہ میں ہر سال ہزاروں روپے دیتا ہوں اس کو پاس کروانے کے لیئے ۔ تبھی تو وہ ہر سال نئی جماعت میں جاتا ہے اسی لیئے میرا بیٹا بھی میری طرح بہت تعلیم یافتہ ہے ۔ لیکن پھر بھی وہ میرا کام سمبھالے گا روز کرسی پر بیٹھ کر تم لوگوں کی نگرانی کرے گا اور تمہارا بیٹا تمہارا کام سمبھالے گا ۔
اس لیئے جو میں نے کہا اس پر غور کرنا یہ سب میں تمہارے اچھے کے لیئے کہہ رہا ہوں ۔ اس کے بعد چوہدری نے نصیر کو اس کی اجرت دی اور نصیر آنکھوں سے آنسوں صاف کرتے ہوئے پریشان ہو کر گھر چلا گیا ۔ اور گھر میں بنا کھائے پیئے ہی لیٹ کر کسی سوچ میں پڑا رہا اتنے میں صغریٰ نے نصیر سے اس کی پریشانی کی وجہ پوچھی ۔ تو نصیر نے بات کو ٹالتے ہوئے کہا نہیں کوئی وجہ نہیں ہے میں بس آج تھوڑا تھک گیا ہوں ۔
یہ کہنے کے بعد فوراً نصیر نے کہا رئیس کہاں ہے وہ نظر نہیں آرہا ۔ ؟؟ صغریٰ نے کہا وہ کالج کے بعد کسی جگہ پر کام کرنے لگا ہے آج اس کا پہلا دن تھا اس لیئے وہ رات میں آئے گا ۔ ابھی کھانا کھا کر گیا ہے کام پر نصیر نے کہا ارے میں کام کر جو رہا ہوں ۔ اس کے لیئے ابھی اسے صرف پڑھنا چاہیئے باقی میں کام کر تو رہا ہوں ۔
صغریٰ نے کہا مجھے معلوم ہے پر آپ کا بیٹا مجھ سے زیادہ آپ کا احساس کرتا ہے ۔ اسی لیئے وہ چاہتا ہے کہ اب سے وہ اپنے کالج کی فیس اور کچھ چھوٹے موٹے خرچ کی ذمعداری وہ خود اٹھائے گا ۔ صغریٰ کی یہ بات سن کر نصیر کی آنکھوں میں آنسوں آگئے ۔ صغریٰ نے کہا آپ رو کیوں رہے ہیں ۔ نصیر نے کہا ارے نہیں یہ تو خوشی کے آنسوں ہیں آج واقعی میں اپنا رئیس بڑا ہو گیا ہے ۔
نصیر کی یہ بات سن کر صغریٰ نے مسکراتے ہوئے ہاں میں سر ہلا دیا ۔ پھر صغریٰ نے کہا اچھا چلیں پھر اسی بات پر تھوڑا سا کھانا تو کھا لیں ۔ نصیر کہا اچھا چلو اس کے بعد نصیر نے کھانا کھایا اور پھر کچھ دیر آرام کرنے لگا ۔ پھر رات ہونے لگی تو نصیر نے صغریٰ سے کہا میں زرا دودھ لے کر آتا ہوں ۔ میرا بیٹا آئے گا تو اسے پلا دینا آج بیچارہ تھکا ہوا آئے گا تو کم سے کم اس کے لیئے گلاس دودھ ہونا چاہیئے ۔ اس بہانے سے میں چائے بھی پی لوں گا ۔
صغریٰ نے کہا ارے آپ باہر جا رہے ہیں موسم تو دیکھیں کتنا خراب ہو رہا ہے ۔ نصیر نے کہا ارے کچھ نہیں ہوتا بارش ہی ہونے والی ہے نا ۔ تو کوئی بات نہیں مجھے ویسے بھی بارش بہت پسند ہے خاص تور پر جب بارش کے پانی کے گرتے ہوئے اس میں جو بلبلے بنتے ہیں وہ مجھے بہت اچھے لگتے ہیں ۔ میں بچن سے ہی ان بلبلوں کو بہت پسند کرتا ہوں ۔ کبھی نکلتے ہیں کبھی پھٹ جاتے ہیں بہت اچھے لگتے ہیں ۔
صغریٰ نے کہا اچھا اچھا اب آپ جائیں اور جلدی سے واپس آجائیں ۔ پھر گھر میں بیٹھ کر بارش میں دیکھتے رہیئے گا اپنے بلبلوں کو ۔ نصیر نے کہا ہاں ہاں میں بس گیا اور آیا ۔ یہ کہتے ہوئے نصیر دودھ لینے کے لیئے ابھی گھر سے نکلا ہی تھا کہ تیز بارش شروع ہوگئی ۔ نصیر بارش میں بھیگتا ہوا دودھ لینے چلا گیا پھر جب نصیر دودھ لے کر واپس آرہا تھا ۔ اس دوران سڑک بلکل سنسان ہو گئ تھی ۔
بارش کی وجہ سے کوئی آ جا نہیں رہا تھا سوائے نصیر کے ۔ تبھی سڑک کے سائیڈ پر بارش کا پانی جمع ہونے لگا اور اس میں بلبلے بننے لگے نصیر ان کو دیکھ کر بہت خوش ہو رہا تھا ۔ کہ تبھی نشے میں دھت چوہدری مدثر کا بیٹا فرحان بھی کہیں سے دندناتے ہوئے آرہا تھا ۔ جب فرحان نے نصیر کو دیکھا تو اس کے پاس آکر بولا ارے او کسان یہاں پانی میں کیا دیکھ رہا ہے ۔ ؟؟
نصیر نے کہا میں ان بلبلوں کو دیکھ رہا ہوں ۔ تبھی فرحان نے کہا ارے بلبلوں کو چھوڑ کل صبح تیرا بیٹا کھیتوں میں ہونا چاہیئے کیونکہ کل سے وہ کالج نہیں جائے گا ۔ اگر تو نے میری بات نہ مانی تو تجھے اپنے خنجر سے قتل کر کے اسی بارش کے پانی میں ڈبو کر مار دونگا ۔ ۔ فرحان کی یہ بات سن کر نصیر نے کہا تو تم بھی سن لو بدتمیز لڑکے ۔ ۔
میرا بیٹا کھیتوں میں کام نہیں کرے گا کیونکہ میرے باپ نے مجھے پڑھایا لکھایا نہیں ۔ اس لیئے مجھے بھی اپنے باپ کی طرح کھیت میں بیل گائے بن کر کام کرنا پڑتا ہے ۔ لیکن میں نے اپنے بیٹے کو پڑھایا لکھایا ہے ۔ تاکہ اسے بھی میری طرح کھیت میں کام نہ کرنا پڑے اور اس کی زندگی بہتر ہو سکے ۔ رہی بات مجھے قتل کرنے کی تو تم کیا مجھے مارو گے میری زندگی اور موت اللّٰہ کے ہاتھ میں ہے ۔ ویسے بھی میں بوڑھا ہو چکا ہوں ۔
اپنی زندگی جی چکا ہوں اور اگر تم اپنے ناپاک ارادے میں کامیاب ہو کر مجھے مار بھی دو گے ۔ تو اپنی پوری جوانی جیل میں کاٹو گے کیونکہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہوتا ہے ۔ نصیر کی یہ بات سن کر فرحان غصے میں آگیا اور سڑک کے دائیں بائیں دیکھ کر بولا ۔ جیل تو تب ہی ہو گی نا جب کوئی میرے خلاف کوئی ثبوت یاں گواہی دے گا ۔ پر یہاں تو اس وقت تیرے اور میرے سوا کوئی نہیں ہے ۔
نصیر نے کہا یہ جھوٹ ہے ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں تیرے اور میرے سوا ایک ذات اور بھی ہے ۔ وہ اللّٰہ کی ذات ہے اور وہ تیرے ساتھ تیرے ناپاک ارادوں کو بھی جانتا ہے ۔ نصیر کی یہ بات سن کر فرحان نشے میں پاگلوں کی طرح ہنسنے لگا ۔ پھر نصیر کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگا اللّٰہ اپنے بندوں کی مدد کے لیئے بندوں کو ہی وسیلہ بنا کر بھیجتا ہے ۔ پر یہاں تو مجھے تیرا کوئی وسیلہ نظر نہیں آرہا ۔
نصیر نے کہا ارے او ۔ ۔ شیطان کے پیروکار تجھے اتنا بھی نہیں پتا کہ اللّٰہ کچھ بھی کر سکتا ہے ۔ اگر تو مجھے قتل کر دے گا تو اللّٰہ تیرے خلاف اس بارش کے پانی میں بنتے ہوئے ان بلبلوں کو بھی تیرے خلاف گواہ بنا دے گا ۔ نصیر کی یہ بات سن کر فرحان نے ان بلبلوں کی طرف دیکھا اور بولا اچھا یہ بلبلے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جن کی اپنی زندگی ایک پل کی بھی نہیں ہے یہ گواہی دیں گے میرے خلاف ۔ ؟؟؟ نصیر نے کہا ہاں یہ گواہی دیں گے ۔ فرحان نے اپنا خنجر نکاتے ہوئے کہا لگتا ہے مرنے سے پہلے تیرا دماغ خراب ہو گیا ہے لیکن ۔ پھر بھی تجھے ان بلبلوں کی گواہی پر یقین ہے تو اچھا چلو پھر دیکھ ہی لیتے ہیں کہ یہ بلبلے میرے خلاف کیسے گواہی دیتے ہیں ۔
یہ کہتے ہوئے فرحان نے اپنے خنجر سے نصیر کے پیٹ پر پے درپے وار کیئے ۔ نصیر زمین پر گر پڑا اور کلمہ حق پڑھنے کے بعد پانی کے بلبلوں کی طرف دیکھتے ہوئے بولا اے پانی کے بلبلو میں بچپن سے ہی تمہیں بہت پسند کرتا ہوں ۔ اپنا دوست مانتا ہوں اس شیطان نے مجھے قتل کرنے کی کوشش کی ہے ۔ اگر میں مر گیا تو تم اس کے خلاف گواہ رہنا یہ کہتے ہوئے دھیرے دھیرے نصیر کی آنکھیں بند ہو گئیں اور نصیر اس دنیا سے چلا گیا ۔
تبھی اس کے پاس کھڑا ہوا فرحان کہنے لگا ارے پاگل کہیں کا ۔ ۔ بھلا یہ بلبلے بھی کبھی کسی کی گواہی دیتے ہیں ۔ ؟؟؟ سچ میں پاگل تھا یہ کہتے ہوئے فرحان نے بلبلوں پر اپنا پاؤں مارا اور ہنستا ہوا وہاں سے چلا گیا ۔ پھر کسی راہ گیر نے نصیر کو سڑک پر دیکھا تو اس نے آس پاس جا کر شور مچا دیا ۔ پھر کسی نے نصیر کے گھر میں اطلاع دی تو صغریٰ بھی روتی ہوئی گھر سے نکلی ۔ لوگوں کی مدد سے نصیر کی لاش کو گھر لے آئے اتنے میں رئیس بھی گھر آگیا ۔
نصیر کے گھر میں کہرام مچ گیا اس کے بعد پولیس بھی آئی ۔ اس پاس کے لوگوں سے پوچھ گچھ کی پھر صغریٰ اور رئیس سے نصیر کی کسی سے دشمنی کے بارے میں پوچھا ۔ تو دونوں نے کہا کہ نصیر کی کسے سے کوئی بھی دشمی نہیں تھی ۔ پھر پولیس نے پوچھا کہ آپ لوگوں کو کسی پر کوئی شک ہے تو بتائیں ۔ لیکن صغریٰ اور رئیس نے کہا نہیں کسی پر کوئی شک نہیں ۔ اتنے میں چوہدری مدثر بھی جھوٹے مگر مچھ کے آنسوں لے کر نصیر کے گھر آیا اور جھوٹی تعزیت کرنے لگا ۔
پھر پولیس نے اس سے بھی سوال جواب کیئے اور چلے گئ ۔ اس کے بعد نصیر کا کفن دفن کیا پھر کچھ دن سوگ کے گزرنے کے بعد صغریٰ اور رئیس کی زندگی معمول پر آنے لگی ۔ رئیس پڑھتا رہا اور ساتھ میں پارٹ ٹائم جاب بھی کرتا رہا ۔ لیکن اس دوران پولیس کو نصیر کے قاتل کا کوئی سراغ نہ ملا اور کچھ دیر کے بعد نصیر کے قتل کی انکوئری بند ہو گئی ۔ پھر بھی رئیس پڑھتا رہا اور ایک دن رئیس واقعی میں ایک وکیل بن گیا ۔
عدالت میں جا کر مظلوم لوگوں کے لیئے بنا اجرت کے وکالت کرنے لگا ۔ یہ سب کرتے ہوئے اس کی مختلف لوگوں سے دوستی بھی ہوگئ ۔ جن میں سے ایک اسپیشل کرائم برانچ کا پولیس آفیسر اظہر شاہ بھی تھا جو کہ ایک بہت ہی ایماندار بہادر نڈر اور جانباز آفیسر تھا ۔ اس نے بہت سے مجرموں کو قانون کے کٹہرے میں لا کر کھڑا کر دیا تھا ۔ بہت سے مجرم اس کا نام سن کر ہی تھر تھر کانپتے تھے ۔
کافی پیچیدہ کیسز کو حل کرنے کے لیئے اظہر شاہ کی خدمات لی جاتی تھیں ۔ تو ایک دن اس کی رئیس سے ملاقات ہوئی تو باتوں باتوں میں رئیس نے کہا اگر آج میرے بابا ہوتے تو مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوتے ۔ تبھی اظہر شاہ نے پوچھا ہاں رئیس تم کب سے میرے بہت اچھے دوست ہو ۔ لیکن تم نے کبھی مجھے اپنی فیملی کے بارے میں کچھ نہیں بتایا ۔ جبکہ میں تو تمہیں اپنے اور اپنے گھر کہ بارے میں سب کچھ بتا دیا ۔
رئیس نے کہا اظہر بھائی ایسی کوئی بات دراصل میرے گھر میں صرف میری امی ہی ہیں ۔ بابا تو کب کے اس دنیا سے چلے گئے اظہر نے کہا بہت افسوس ہوا سن کر ویسے تمہارے بابا کرتے کیا تھے ۔ رئیس نے کہا وہ کسان تھے پر ان کو کسی نے قتل کر دیا تھا ۔ ابھی رئیس نے اتنی بات ہی کی تھی کہ اظہر شاہ نے کہا قتل کر دیا تھا ۔ ۔ ۔ ؟؟ پر کیوں اور کس نے ؟؟
رئیس نے کہا یہ آج تک پتا نہیں چلا تقریباً آٹھ سال ہونے لگے ہیں ۔ ان کی تو انکوائری بھی بند ہو گئی ۔ اظہر نے کہا کیا ۔ ۔ ۔ ۔ ؟؟؟ پر انکوائری کیوں بند ہوئی رئیس نے کہا یار پولیس نے ہر طرح سے کوشش کی لیکن کوئی سراغ نہ ملا سوائے اس کہ ۔ کہ ان کو خنجر کے کئی واروں سے قتل کیا تھا اور وہ موقع پر ہی فوت ہو گئے تھے ۔
یہ بات کرتے ہوئے رئیس کی آنکھوں میں آنسوں آگئے ۔ اظہر نے رئیس کو حوصلہ دیتے ہوئے کہا میرے بھائی میں دعویٰ تو نہیں کرتا ۔ پر میں ایک بار میں خود اس معاملے کی انکوائری کرنا چاہتا ہوں ۔ مجھے یقین ہے میں کسی حد تک کامیاب ہو جاؤں گا ۔ کیونکہ یہ معاملہ اب میرے لیئے ایک چیلنج ہے ۔ میں اکثر چیلنج میں سرخرو ہو جاتا ہوں مگر اس کے لیئے مجھے تمہاری ضرورت پڑے گی ۔
تم عدالت کی مدد سے یہ کیس دوبارہ کھلواؤ باقی میں دیکھ لوں گا ۔ رئیس نے کہا کیا واقعی میں تم قاتل کو پکڑ لو گے اظہر نے کہا ہاں میں پوری جان لڑا دونگا ۔ رئیس نے کہا تو ٹھیک ہے تم قاتل کو عدالت تک لانا ۔ باقی میں اسے عدالت سے گھر واپس نہیں جانے دونگا ۔ کیونکہ وہ جیل میں جائے گا انشاء اللّٰہ ۔ اظہر نے کہا تو ہم کل سے ہی کام پر لگ جاتے ہیں ۔
رئیس نے کہا پر کیا آپ کو اس تھانے کی حدود میں انکوائری کی اجازت مل جائے گی ۔ اظہر نے کہا تم بے فکر رہو میں سپیشل کرائم برانچ کا آفیسر ہوں ۔ مجھے کسی بھی علاقے میں انکوائری کی پرمیشن مل جاتی ہے ۔ رئیس نے کہا تو کل تمہیں عدالت سے دوبارہ کیس اوپن کرنے کے آڈر مل جائیں گے ۔ اس کے بعد رئیس اور اظہر اپنے اپنے راستے چل دیئے ۔
پھر اگلے دن رئیس نے نصیر قتل کیس کو دوبارہ اوپن کرنے کے آڈر اظہر کو دیئے ۔ اس کے بعد اظہر نے اپنے سینئیر آفیسر سے اس کیس پر کام کرنے کی پرمیشن لی ۔ رئیس کے علاقے میں انکوائری شروع کر دی اس دوران اظہر نے بہت سے لوگوں سے پوچھ تاچھ کی ۔ پھر اس علاقے کے تھانے سے بھی معلومات حاصل کیں پھر اظہر چوہدری مدثر کے گھر گیا وہاں سے اظہر کے شک کی شروعات ہوئی ۔
کیونکہ چوہدری کی باتیں اور اس کے چہرے کے تاثرات بلکل الگ تھے ۔ پھر اظہر نے رئیس سے چوہدری کے بارے میں پوچھ گچھ کی اس کے بعد پھر سے اظہر چوہدری کے گھر گیا ۔ پھر سے چوہدری سے پوچھ تاچھ کی اتنے میں اظہر کی نظر ایک لڑکے پر پڑی ۔ جو کہ حویلی میں اظہر کی آمد سے بے خبر ہاتھ میں ایک تیز دھار خنجر لیئے حویلی کے لاون میں پھر رہا تھا ۔
اظہر نے چوہدری مدثر سے اس کے بارے میں پوچھا تو چوہدری نے کہا کہ وہ میرا بیٹا ہے ۔ پھر اظہر نے پوچھا کہ وہ خنجر لے کر کیوں گھوم رہا ہے تو چوہدری نے بکھلاہٹ میں کہا ہاں ۔ ۔ وہ ۔ ۔ ہاں وہ کوئی پھل وغیرہ کاٹ کر کھانے کے لیئے پکڑا ہوگا ۔ ۔ وہ ۔ ۔ وہ وہاں پھل کے درخت لگے ہیں نا اس لیئے ۔ اظہر نے چوہدری کے چہرے پر آئے پسینے کو دیکھا اور پھر ہنستے ہوئے بولا اوہ ۔ ۔ ۔
اچھا اچھا سہی ہے اچھا چوہدری صاحب اب میں چلتا ہوں کبھی آؤں گا آپ کی حویلی کے پھل کھانے ۔ یہ کہتے ہوئے اظہر چوہدری کی طرف دیکھ کر مسکرانے لگا اور چوہدری خاموشی سے کچھ دیر اظہر کو دیکھنے کہ بعد بولا جی ۔ ۔ ۔ جی ہاں ہاں ضرور آیئے گا ضرور ۔ ۔ کیوں نہیں یہ آپ ہی کی حویلی ہے ۔ اس کے بعد اظہر وہاں سے چلا گیا اور اس نے رئیس کو بتایا کہ مجھے لگتا ہے ۔
چوہدری مدثر یاں اس کے بیٹے کا ہاتھ تمہارے بابا کے قتل میں ہے ۔ لیکن ابھی میں پوری طرح سے یہ بات نہیں کر سکتا ۔ لیکن اب مجھے ایک سراغ مل گیا ہے اور وہ ہے چوہدری کے بیٹے کے ہاتھ میں دیکھا ہوا وہ خنجر ۔ ۔ ۔ رئیس نے کہا کیسا خنجر ۔ ۔ ؟؟ اظہر نے کہا وہ چوہدری کے لڑکے کے ہاتھ میں تھا ۔ لیکن چوہدری نے کہا کہ وہ اس کے بیٹے نے کسی پھل کو کاٹنے کے لیئے پکڑا ہوا تھا ۔
لیکن جس طرح وہ خنجر کو ہاتھ میں گھما رہا تھا ۔ اس سے لگتا ہے کہ وہ اکثر خنجر ہاتھ میں ہی رکھتا ہے ۔ ویسے بھی وہ خنجر پھل یاں سبزی کاٹنے والا خنجر نہیں بلکہ وہ شکاری خنجر ہے ۔ جو کہ کسی قاتل یاں کمانڈوز کے پاس ہوتا ہے اس لیئے اب مجھے چوہدری کے بیٹے پر نظر رکھنی ہو گی ۔ رئیس نے کہا پر چوہدری یاں چوہدری کا بیٹا میرے بابا کو کیوں مارے گا ۔ جبکہ اس کا بیٹا تو میرے بابا کو جانتا بھی نہیں تھا ۔
اظہر نے کہا ہو سکتا ہے کہ تمہارے بابا کی چوہدری سے تلخ کلامی ہو گئی ہو ۔ چوہدری کے بیٹے سے یہ دیکھا نہ گیا ہو تبھی اس نے تمہارے بابا کو قتل کر دیا ہو ۔ رئیس نے کہا پکا تو نہیں کہہ سکتا کہ ایسا ہوا ہوگا پر بابا کبھی چوہدری کے سامنے بولے نہیں تھے ۔ جبکہ چوہدری بابا کے ساتھ بہت برا سلوک کرتا تھا اظہر نے کہا پھر تو سمجھو کہ میرا شک اور مظبوط ہو گیا ہے چوہدری اور اس کے بیٹے پر ۔
یہ کہتے ہوئے اظہر وہاں سے چلا گیا پھر اظہر نے فرحان پر نظر رکھنی شروع کر دی ۔ اسی طرح آہستہ آہستہ اظہر کے شک کا گھیرا فرحان کے گرد تنگ ہونے لگا ۔ پھر ایک دن بہت تیز بارش ہو رہی تھی اور اظہر فرحان کا پیچھا کرتے ہوئے ایک چائے کے ڈھابے پر گیا اور وہاں بیٹھ کر اخبار پڑھنے لگا ۔ فرحان نشے میں دھت اس ڈھابے والے کے پاس گیا اور اس کو چائے کا آڈر دے کر باہر والی سائیڈ پر کرسی رکھ کر بیٹھ گیا ۔
اب اظہر اور فرحان کے اعلاوہ ڈھابے پر اور کوئی نہیں تھا ۔ سوائے ڈھابے والے کہ جو اپنے کاموں میں مصروف تھا ۔ اتنے میں فرحان کا ایک دوست آیا وہ بھی کرسی فرحان کے پاس رکھ کر فرحان کے ساتھ بیٹھ گیا ۔ دونوں باتیں کرنے لگے تبھی اظہر اپنی جگہ سے اٹھ کر فرحان کے پیچھے پڑی ہوئی کرسی پر بیٹھ کر اخبار پڑھنے لگا ۔ اب اظہر کو فرحان کی باتوں کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی ۔
ابھی فرحان اپنے دوست سے باتیں کر ہی رہا تھا ۔ کہ اتنے میں بارش کا پانی ڈھابے کے باہر ایک سائیڈ پر اکھٹا ہونے لگا ۔ اس میں بلبلے بننے لگے اور باتیں کرتے کرتے فرحان کی نظر اچانک ان پانی کے بلبلوں پر پڑی ۔ تو فرحان نے اپنے دوست سے باتیں کرنا بند کر دیں ۔ پانی کے بلبلوں کو غور سے دیکھنے لگا پھر اٹھ کر ان بلبلوں کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا ۔ تبھی اس کے دوست نے کہا ارے چوہدری صاحب کیا ہوا وہاں پانی میں کیا دیکھ رہے ہو ۔ ؟؟
فرحان نے کہا ارے یار کچھ نہیں یہ پانی کے بلبلوں کو دیکھ رہا ہوں ۔ بھلا یہ بھی کبھی کسی چیز کی گواہی دے سکتے ہیں بتا مجھے ۔ ؟؟ فرحان کے دوست نے کہا یار فرحان یہ کیا پاگلوں جیسی باتیں کر رہا ہے بلبلے ۔ ۔ ۔ ۔ گواہی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آرہا فرحان نے کہا ارے پاگل میں نہیں پاگل تو وہ تھا ۔ جو کہتا تھا کہ اگر تم مجھے مارو گے تو یہ پانی کے بلبلے میری گواہی دیں گے اور میں جیل میں چلا جاؤں گا ۔
فرحان کے دوست نے کہا ارے کون پاگل ایسا کہہ رہا تھا تجھے ۔ ؟؟ فرحان نے ہنستے ہوئے کہا ارے تھا ایک پاگل کسان ہمارے پاس کام کرتا تھا ۔ بہت زبان چلنے لگی تھی اس کی پھر ایک دن ایسے ہی بارش ہو رہی تھی ۔ یہ کہتے ہوئے فرحان نے خنجر نکالا اور اپنے دوست سے کہا یہ خنجر دیکھ رہا ہے ۔ ؟؟ میں نے اسی سے اس کو ادھیڑ کر رکھ دیا تھا ۔ وہ پاگلوں کی طرح ان بلبلوں سے گواہی کی امید کر رہا تھا ۔
لیکن آج تک اس کے قتل کا سراغ نہیں ملا ۔ کیونکہ اس پاگل کو ان بلبلوں پر بھروسہ تھا ۔ یہ کہتے ہوئے فرحان نے اپنا پاؤں پھر سے ان بلبلوں پر مارا اسی وقت اظہر اپنی کرسی سے اٹھا ۔ اس نے فرحان کے سر پر پستول تان دی اور فرحان سے کہا اب چپ چاپ یہ خنجر نیچے رکھ دے ورنہ تیرا بھیجا اڑا کر رکھ دونگا ۔ فرحان نے جلدی سے خنجر کرسی پر رکھا اور پھر حیرانی سے اظہر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ارے تم کون ہو ۔ ؟
اظہر نے کہا سپیشل آفیسر کرائم برانچ اظہر شاہ ۔ یہ سنتے ہی فرحان کا دوست وہاں سے فوراً بھاگ گیا ۔ پھر اظہر نے ایک رومال جیب سے نکال کر خنجر پکڑ لیا اور فرحان کو کہا اب کرسی پر بیٹھ کر دونوں ہاتھ پیچھے کی طرف باندھو ۔ جلدی کرو ورنہ گولی چل جائے گی فرحان نے جلدی سے کانپتے ہوئے دونوں ہاتھ پیچھے کر لیئے ۔ پھر اظہر نے جیب سے چھوٹی ہتھکڑی نکالی اور فرحان کے ہاتھوں میں ڈال دی ۔
اب فرحان بے بس ہاتھوں میں ہتھکڑی پہن کر کرسی پر بیٹھا ہوا تھا ۔ پھر اظہر نے پستول واپس اپنے شرٹ کے نیچے بیلٹ میں لگا لی ۔ کرسی رکھ کر فرحان کے سامنے بیٹھ گیا اور فرحان سے کہا چوہدری صاحب وہ مقتول کسان پاگل نہیں تھا ۔ اس نے سہی کہا تھا کہ یہ پانی کے بلبلے ہی میری گواہی دیں گے ۔ آج ان پانی کے بلبلوں نے تیرے خلاف گواہی دے کر تجھے پکڑوا ہی دیا ۔
اب اسی کسان کا بیٹا تجھے جیل میں ڈلوا کر تجھ مشقت کروائے گا ۔ یہ کہتے ہوئے اظہر نے فرحان پکڑا اور اسے لے جا کر دور کھڑی گاڑی میں ڈالا اور لے گیا ۔ پھر اظہر نے تھانے لے جا کر فرحان کی اچھے سے مرمت کی ۔ تو فرحان نے سب کچھ اگل دیا پھر اظہر نے اس کو عدالت میں پیش کیا ۔ جہاں رئیس نے اسے عمر قید کی سزا دلوائی ۔ جبکہ چوہدری مدثر نے اس دوران بہت تگڑے وکیل کہ ذریعے فرحان کو چھڑوانا چاہا ۔
لیکن رئیس کی دلیلیں اور فرحان کے دوست کے سامنے کی ہوئی باتیں ۔ پھر عدالت کے سامنے فرحان کے اعتراف جرم کی وجہ سے عدالت نے فرحان چوہدری کو عمر قید کی سزا سنائی ۔ اس کے بعد رئیس نے اظہر شاہ کا شکریہ ادا کیا تو اظہر نے کہا ارے دوست میرا نہیں بلکہ اللّٰہ کا شکر ادا کرو ۔ کیونکہ اسی نے بارش بھیجی اور بارش کی وجہ سے پانی کے بلبلے بننے اور بلبلوں نے گواہی دی ۔
رئیس نے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔ یااللہ واقعی میں جب تو عدالت لگاتا ہے تو شاطر سے شاطر مجرم بھی نہیں بچ سکتا بے شک تو بہتر انصاف کرنے والا ہے ۔ ۔
واقع ختم ۔ ۔ ۔
اے اللّٰہ میں تجھ سے دعا کرتا ہوں کہ جتنے بھی بے گناہ کمزور اور مظلوم لوگ عدالتوں میں چکر لگا ریے ہیں ۔ تو ان کی بہتر سے بہتر مدد فرما اور انہیں جلدی سے جلدی انصاف دلا دے آمین ثم آمین یارب العالمین ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
دوستو آج میں نے پھر سے ہارر سٹوری سے ہٹ کر ایک الگ واقع لکھا ہے اگر آپ کو پسند آیا تو کومنٹس لازمی کیجیے گا اور اگر لکھنے میں مجھ سے کوئی غلطی ہو گئی ہو تو مجھے معاف کر دیجئے گا
مزید پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
✭ نوٹ :- عمدہ قسم کے سبق آموز واقعات وحکایات کیلئے آج ہی ہمارا ٹیلی گرام چینل جوائن کریں ۔
نوٹ :- اپنے دوست و احباب اور متعلقین کو بھی شیئر کریں تاکہ آپ کے ذریعے ان کا بھی فائدہ ہو ۔
Leave a Comment