سالی اور بہنوئی نے محبت میں ساری حدیں پار کر دیں

desi stories,true stories,hindi stories,short stories,aunty stories,full urdu stories,ساری کی لینے کا عمل,سالی کی لینے کا تنتر,crime stories,ایک رات میں سہلی حاضر,اب آپ کے ساری آپ سے بچنا پائیں گی,سالی کو نہاتے ہوئے دیکھنے کا عمل,داماد کا لن پکڑ کر بیٹی کی چوت میں ڈالا,والڈ اور نکی,سالی کو پٹانا,سالی سے سیکس کامر,سالی سے سہاگ رات کا عمل,خواب میں جس کے ساتھ جماع کیا جاتا ہے اس کے ساتھ کیا ہوتا ہے,urdu story,crime story,adult urdu story,sex story
Written by kahaniinurdu

گلی میں مرٹے ہیں اس کی نظر کے سامنے کھڑی گاڑی پر پڑی جس میں سے ایک بوڑی عورت اور  ایک حسین نوجوان برآمد ہورہے تھے نوجوان کی ذمہ ہلکی سی ڈاڑھی  تھی اور خوبصورت سوٹ بوٹ والا خوش شکل سا لڑکا لگ رہا تھا جیسے کوئی بڑا بزنس مین  ہوتا ہے وہ ذرا سا آگے کو ہوئی تو اس کا اندیشہ درست ثابت ہوا وہ لوگ اس کے گھر کی جانب جارہے تھے صوبیہ فوزیہ

وہ بھی ان کے پیچھے پیچھے ہولی جب وہ گھر کے اندرگئے  اس نے دیکھا وہ لوگ اس کی بڑی بہن کے رشتے کی بات کر رہے تھے اس نے جھرجھر ی لی  اور دوبارہ غور سے ان کی باتیں سننے لگے تب سے اندازہ ہوا اس کے کانوں میں کچھ غلط نہیں سنا تھا وہ  واقعی اس کی بہن کا ہاتھ مانگ رہے تھے وہ بہن جس کا ابھی تک ناشتہ بھی نہیں آیا تھا جب آیا تو اتنے امیر گھرانے سے آیا

یہ سوچ کر زارا بے چین ہوگئی  وہ مہمانوں کو سلام کے بغیر اوپر  کمرے میں چلی گئی  صوبیہ ایک  انتہائی خوبصورت مگر مغرور لڑکی تھی وہ صوبیہ 4 سال کی تھی مگر وہ بچپن سے ہی شادی کرنے کا شوق رکھتی تھی وہ بھی چاہتی تھی کہ کوئی راجکمار بڑی سی گاڑی پر آئے  اور اسے دلہن بنا کر لے جائے اوروہ  یہی سوچ رہی تھی اچانک   اس کی امی اور بہن مسکراتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئی

اور اس کی امی  صوبیہ کو فوزیہ کے ر شتے کے بارے میں بتانے لگی انہوں نے کہا لڑکے نے فوزیہ  کو کسی تقریب میں دیکھا تھا پہلی نظر میں ہی وہ ا سے دل دے بیٹھا اور دیکھو کتنے خاندانی لوگ ہیں فوارًشتہ لے کر چلے اس کی امی اور بہن بہت خوش لگ رہی  تھیں مگر اس کے اندر ایک آگ بھڑک اٹھی تھی اس کا دل چاہا کسی طرح سے بازی پلٹ جائے اور یہ سب کچھ اسے مل جائے کیونکہ وہ خود کو ان تمام آسائشوں کا فوزیہ  سے زیادہ حقدار سمجھتی تھی

شادی کی تیاریاں بڑی دھوم دھام سے کی جا رہی تھیں آخر اتنے بڑے گھرانے سے رشتہ جو آیا تھا انہوں نے جہیز کی کوئی چیز نہیں مانگی تھی ایک مہینے کی تاریخ طے کر دی گئی تھی تمام رشتہ دار اور محلے والے لڑکے کے گن گاتے نہیں تھکتے تھے گھر کو روشنی سے بھر دیا گیا تھا مگر صوبیہ کی آنکھوں کو یہ چکا چوند روشنی بہت بری لگ رہی تھی وہ اندر ہی اندر کسی آلاؤ کی طرح جل رہی تھی

اسی آلاؤ  کے ہاتھوں مجبور ہو کر اس نے ایک دن فوزیہ سے کہا دیکھو فوزیہ تم کتنی سیدھی سادی ہوں اگر تمہارے شوہر نے تمہیں شادی کے بعد چھوڑ دیا اسے تمہارا بھولا پن پسند نہ آیا تو کیا کرو گی فوزیہ کو  ا س کی بات پر کافی تعجب ہوا اس نے صوبیہ کی جانب دیکھا اور کہا یہ کیسی باتیں کر رہی ہو صوبیہ  ہے اویس نے اتنی خوشی سے میرا ہاتھ مانگا ہے ایسی بات آئندہ مت کرنا۔

خیر  کی تمام کوششیں بے کار ہوگئی آخر کار فوزیہ کی رخصتی  کا وقت ہوگیا  فوزیہ  اور اس کا شوہر بے حد خوش دکھائی دے رہے تھے مگر دوسری طرف  صوبیہ  فوزیہ  کے سسرال والوں کے ٹھاٹھ بھاٹھ دیکھ کر اندر ہی اندر  کسی طوفان سے جیسی آگ لگائے بیٹھے تھی  بھلا بہن کی خوشی سے کوئی اتنا کیسے حسد کر سکتا ہے مگر ان دونوں بہنوں میں ہمیشہ سے ہی صوبیہ فوزیہ سے اس قسم کے حسد کا شکار رہی

شادی کی اگلی صبح جب فوزیہ  اور اس کا شوہر ناشتہ کرنے کے لیے ٹیبل پر آئے تو سامنے کا منظر دیکھ کر وہ حیران رہ گئے ٹیبل پر ان سے پہلے صوبیہ براجمان تھی  فوزیہ  ان  اس سے ملی اور پوچھا تم اتنی صبح صبح  یہاں کیسے تب صوبیہ بولی کیوں میری بہن کا ہے میں نہیں آسکتی فوزیہ  نے کہا بلکل  آ سکتی ہو صوبیہ کہنے  لگی امی تھکی ہوئی تھی تو وہ ناشتے والی رسم کے لیے خود ناشتہ لے کر آ گئی فوزیہ کو اس کی اس قدر محبت پر خوشی ہوئی

ناشتہ کرنے کے بعد جب فوزیہ چائے بنانے گئی تو صوبیہ  نے اویس سے کہا آپ کو فوزیہ میں ایسا کیا اچھا لگا کہ آپ نے رشتہ بھی بھیج دیا تھا  اویس اس قسم کے سوال کے لئے  بلکل بھی تیار نہیں تھا مگر اس نے کہا مجھے فوزیہ کی سادگی اور اس کی معصومیت یہاں تک لے آئی صوبیہ نے کہا ایسے معصوم لوگ انسان کو تو انسان کو بور کر دیتے ہیں اویس صوبیہ کی بات سمجھ گیا بولا آپ بے فکر رہیں اتنی  بھی بورا انسان نہیں ہے جتنا آپ سمجھتی ہیں

مگر صوبیہ تو کہاں رکھنے والی تھی میں صوبیہ 4 سالوں سے ان کے ساتھ ہوں آپ نے صوبیہ 4  دنوں میں یہ فیصلہ کرلیا اتنے میں فوزیہ  آگئی صوبیہ کی تو زبان پر تالے پڑ گئے  چائے پی کر صوبیہ گھر پورا دیکھنے کی ضد کرنے لگی جب وہ گھر دیکھ رہی تھی ایک ایک چیز کو دیکھتے ہوئے اس کی آنکھوں میں حسد جلن اور تمام آسائشوں کو چھینے کی چاہ بار بار اتر رہی تھی جیسے فوزیہ  جیسی معصوم لڑکی بالکل بھی نہیں سمجھی

صوبیہ کے وہاں سے جانے کے بعد  اویس  نے پوچھا تمہاری بہن کچھ عجیب سی نہیں ہے تب فوزیہ  نے اس کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ وہ چھوٹی ہے شاید اس لیے اس میں شوخ اور چنچل پن ہے اس میں عجیب والی تو کوئی بات نہیں دن  گزرتے جا رہے تھے  گزرتے دنوں کے ساتھ صوبیہ کا غصہ بھڑ تا جا رہا تھا  فوزیہ  کی مسکراہٹ اور خوشی اسے اندر تک جلا کر راکھ  کر دیتی

ایک دن اویس اور  فوزیہ  صوبیہ کے  گھر آئے مگر  فوزیہ  بھی گھر پر ہی موجود تھی تبھی فوزیہ  اپنی امی کے ساتھ اٹھ کر کچن میں  گئی صوبیہ  پھر اویس کے پاس جا کر بیٹھ گئی اور اس سے  الٹے سیدھے سوال کرنے لگی اس بار بھی اویس نے اس کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا چند دنوں کے بعد فوزیہ  کی طبیعت کچھ خراب سی ہوگئی  ڈاکٹر نے بتایا کہ اسے نمونیہ ہےجیسے ہی صوبیہ نے سنا بہن بیمار ہےوہ  اپنی ماں سے ضد کرنے لگی کہ وہ فوزیہ  کا خیال رکھنے کے لئے کچھ دن اس کے گھر جانا چاہتی ہے

صوبیہ کی ماں اس کے ندیدے پم  سے بخوبی واقف تھی کہنے لگے بیٹا تم  وہاں جا کر کیا کروگی رہنے دو وہاں بہت نوکر ہیں اس کا خیال رکھ لیں گے مگر صوبیہ مسلسل فوزیہ  کے گھر جانے کی ضد کر رہی تھی آخر اس کی ماں نے تنگ آ کر اسے اجازت دے دی لیکن کہا کہ دو چار دن میں واپس چلی آنا صوبیہ نے سب سے بہترین جوڑےبیگ میں  رکھے اور تقریبا دس پندرہ دن کی تیاری کر کے فوزیہ کے گھر چلی گئی

فوزیہ  نے اتنے سارے سامان کے ساتھ دیکھ کر پہلے تو حیرانگی کا اظہار کیا مگر پھر بہن کو خوشی سےگلے لگالیا بہن کے دل کا حال تو کوئی نہ جانتا تھا  اس رات اویس کے  کسی دوست اور اس کی بیوی نے کھانے پر آنا تھا اویس بھی ان کے آنے سے چند منٹ پہلے ہی گھر آیا مگر تب تک فوزیہ  خراب طبیعت کے باوجود آدھے سے زیادہ کھانا تیار کر کے کمرے میں جا چکی تھی صوبیہ موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کچن میں چلی گئی جیسے ہی اویس گھر آیا ہے  صوبیہ کچن میں پہلے سے موجود تھی

پوچھنے لگا فوزیہ  کہا ں ہے اور تم یہاں کیا کر رہی ہو تب نر مین مظلومیت اپنے چہرے پر سجا کر بولی میں تو صبح سے کھانے تیار کر رہی تھی فوزیہ  ابھی سو کر اٹھی ہے اور اپنی تیاریوں میں مصروف ہیں اویس کو اس بات پر حیرت ہوئی وہ فوراً  کمرے میں گیا تو فوزیہ  واقعی تیار ہو رہی تھی اویس نے کہا مہمان آنے والے ہیں اور تم اب تیار ہوئی ہو بیچاری صوبیہ کب سے کچن میں کام کر رہی ہے صوبیہ کا سن کر فوزیہ  کو عجیب سا لگا

صوبیہ کی  تو کچن میں کام کرنے کی بچپن سے ہی عادت نہیں تھی خیر اس نے بحث کرنا مناسب نہ سمجھا اور کچن میں چلی گی تب تک صوبیہ وہاں سے  جا چکی تھی فوزیہ خاموشی سے باقی تیاریاں کرنے لگی مہمان آ کر چلے گئے فوزیہ  کی طبیعت زیادہ خراب ہو گئی اسے بخار اور سر درد ہو رہا تھا وہ تو فورا سونے چلی گئی  اویس آفس کا کام کرنے بیٹھ گیا صوبیہ  اسی بات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اویس کے لیے کافی بنا کر اس کے پاس گئی اسے کافی دی ۔

اویس نے پہلے تو حیرانگی  سے دیکھا کہ صوبیہ اس وقت اس کے لیے کافی کہاں سے لے  آئی ہے مگر صوبیہ نے اسے یہ کہہ کر مطمئن کردیا کہ آپی سو  رہی تھی میں نے سوچا آپ تھک گئے ہوں گے تو کافی بنا دوں  کافی کا ایک گھونٹ بھرتے ہی اویس نے  کافی کی خوب تعریف کی اور کہا بھئی تمہارے ہاتھ میں تو ذائقہ ہی الگ ہے پھر ساتھ ہیں اویس نے سوال کیا کہ تم کو فی کیوں نہیں پیتی صوبیہ کہنے لگی میرا تو آئس کریم کھانے کا دل چاہ رہا ہے

بس پھر کیا تھا اویس نے فوراً لیپ ٹاپ بند کیا اور اسے تیار ہونے کا کہا یہ دیکھ کر نرمیں  کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی اس کا پلین آہستہ آہستہ کامیاب ہو رہا تھا وہ تو پہلے ہی اس موقع کے انتظار میں تھی  فوزیہ  کو سوتا چھوڑ کر صوبیہ اور اویس آئس کریم کھانے چلے گئے صوبیہ خود  کو آج فوزیہ   کی جگہ  محسوس کر رہی تھی آئس کریم کھانے کے دوران وہ اویس کے ساتھ لگاوٹ بھری باتیں کرتی رہی اس کی کوشش تھی کہ وہ اویس یہ  ظاہر کرے کہ ان دونوں میں کافی مماثلت ہے

انسان بھی بڑا عجیب ہے کبھی کبھی سمجھ دار ہونے کے باوجود آسانی سے بیوقوف بن جاتا ہے صوبیہ کو بھی اویس سے محبت ہونے لگی تھی اور عادتوں میں مماثلت کی وجہ سے ان دونوں میں کافی خوشگوار گفتگو ہوئی تھی گھر واپسی کے بعد صوبیہ نے اویس سے کہا آج  کے یہ لمحات میں کبھی نہیں بھولوں گی پہلے تو اویس نے اس کے چہرے کی طرف غور سے دیکھا جیسے کچھ تلاش کر رہا ہو پھر اس نے یہ بھی کہہ دیا کہ میں بھی یاد  رکھوں گا

 کمرے میں جاتے ہیں صوبیہ  نے کہا آپ فوزیہ  کو یہ سب مت بتائیے گا ورنہ وہ ناراض ہو جائے گی اویس نے اس کی ہاں میں ہاں ملا دی چند  دن ایسے ہی  گزر گئے صوبیہ کا جادو اویس پر چلنے لگا  وہ اکثر اسے چٹ پٹی باتوں میں الجھا لیا کرتی اکثر وہ بھی اس کی باتوں میں لگا اس کا چہرہ  تکتا رہتا فوزیہ  کی بیماری اور کمرے تک محیت ہو جانے کی وجہ سے اویس اور صوبیہ میں کافی دوستی ہو گئی اب آہستہ آہستہ  فوزیہ  ٹھیک ہو رہی تھی اس کا بخار ختم ہو رہا تھا

جب فوزیہ  مکمل ٹھیک ہوگئی اسے اپنی بہن کی فکر ستانے لگی کہ آخر میری ماں بھی اکیلی ہے یہ کب گھر جائے گی جب اس نے صوبیہ سے بات کی تو صوبیہ جیسے بھڑک اٹھی ارے  میں تمہارے گھر میں چار دن کیاآ گئی تمہیں تو بوجھ ہی لگنے  لگی ہو ں فوزیہ  نے اسے سمجھانے کی لاکھ  کوشش کی کہ ایسی بات نہیں ہے میں تو امی کی وجہ سے کہ رہی تھی مگر صوبیہ نے بات کا بتنگڑ بنالیا تھا اسی بحث کے دوران اویس بھی آگیا

اس نے فوزیہ کو کہا کیا ہو جائے گا اگر یہ دو چار دن  یہاں رہ جائے گی اس طرح گھر آئے مہمان کو بےعزت نہیں کرتے ہیںفوزیہ  کو اپنی کی گئی بات پر شدید شرمندگی ہوئی مگر وہ بے چاری خاموش رہی صوبیہ نے تو اویس کو دیکھتے ہیں رونا شروع کر دیا اویس کے دل میں صوبیہ کے لئے احساسات بدل رہے تھے صوبیہ  پہلے ہی خوبصورت نین نقش کی مالک لڑکی تھی روتے ہوئے اس کی لال آنکھوں کی خوبصورتی میں اور بڑھ جاتی 

فوزیہ  نوٹ کر رہی تھی کہ اویس صوبیہ  کی جانب مسلسل دیکھ رہا تھا مگر اسے یہ بات پسند نہیں تھی صوبیہ وہاں سے اٹھ کر گئی مگر اس کے انداز سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ ان دونوں سے ناراض ہے اس کے بعد میں صوبیہ اپنے کمرے سے باہر نہیں آئی اویس  اس چیز کے لیے کا فی فکر مند  کرنا تھا کہ اب تک صوبیہ آ کیوں نہیں رہی مگر فوزیہ  کے جاگتے ہوئے وہ صوبیہ کے کمرے میں نہیں جا سکتا تھا جیسے ہی فوزیہ سو گئی اویس اٹھ کر اوپر آ گیا 

اور صوبیہ   کو کال کی کہ کمرے سے باہر آ جاؤ صوبیہ نے پہلے تو انکار کر دیا مگر پھر اس کے اصرار کرنے پر وہ باہر آگئی  وہ دونوں ٹیرس پر کھڑے تھے اور اویس اس سے معافی مانگ رہا تھا ساتھ ہی کہنے لگا کچھ لوگ روتے ہوئے بڑے حسین لگتے ہیں اور تم بھی انہیں  لوگوں میں سے ہو صوبیہ اس کی باتوں پرشرمانے لگی کافی دیر  وہ یوں ہی باتیں کرتے رہے پھر آویس اپنے کمرے میں چلا گیا اگلے دن صوبیہ کا رویہ اویس کے ساتھ تو ٹھیک تھا مگر  فوزیہ   کے ساتھ وہ خاصی اٹھ کھڑی ہوئی تھی

فوزیہ  نے اس سے معافی بھی مانگی صوبیہ کہنے لگی مجھے معافی کی ضرورت نہیں ہے میں  ایک دو  دن  میں چلی جاؤں گی تب فوزیہ  نے اس سے کہا میری بہن یہ تو تمہارا گھر ہے تم جتنے دن  چاہو یہاں رہ سکتی ہوں مگر صوبیہ نے اس کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا اس دن بھی فوزیہ کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی شام کواس کے آنے سے پہلے وہ بہت اچھے سے تیار ہوئی اور اویس کے لئے بہترین کھانا بنایا جب اویس گھر آیا اس نے اسے تیار دیکھا تو وہ کھل اٹھا

مگر صوبیہ کو یہ  بات کہا ں پسند آتی صوبیہ تو اکثر بھول جاتی تھی کہ ان دونوں میاں بیوی کے درمیان نکاح جیسا پاک رشتہ موجود ہے شوہر کے دل میں کب بیوی کے لیے محبت جاگ اٹھے کوئی نہیں جب فوزیہ  اور اویس کمرے میں چلے گئے تو  اویس فوزیہ کا ہاتھ تھام کر اس کی تعریف کرنے لگا تھا کہنے لگافوزیہ  آج تم بہت حسین لگ رہی ہو  چودہ سالہ صوبیہ کمرے کی چھیر سے یہ سب منطر  دیکھ رہی تھی اچانک اویس کو لگا جیسے کسی کی آہٹ ہوئی ہو تو وہ فوراً کمرے کی طرف گیا تو سامنے والا منظر اس کے لیے ناقابل یقین تھا

سامنے صوبیہ کھڑی تھی اویس اور فوزیہ دونوں ہی اسے دیکھ کر حیران ہوئے اویس کہنے لگا  تم یہاں اس وقت  کیا کر رہی ہو  کہنے لگی مجھے اپنے کمرے میں ڈر لگ رہا تھا میں نے سوچا آج فوزیہ آپی کے پاس سو جاؤں اویس نے صوبیہ کی بات کو سچ سمجھ لیا اور دوسرے کمرے میں سونے چلا گیا جب  کہ صوبیہ نے یہ سب ان دونوں کے درمیان دوری پیدا کرنے کے لیے کیا تھا یہ صرف وہی جانتی تھی اب صوبیہ  اکثر خوش رہنے لگی اب جب اویس فوزیہ کے ساتھ باتیں کرتا اس کے بعد بھی صوبیہ اکثر ان کے کمرے میں جھانکنے کی کوشش کرتی اور چھپ کر ان دونوں کے درمیان ہونے والی گفتگو کا جائزہ لیتی

چند دنوں کے بعد ہمسائے سے ایک عورت آئی جس نے فوزیہ  سے کہا رات کو دیر تک آپ دونوں میاں بیوی کی چھت سے باتیں کرنے کی آواز یں آرہی ہوتی ہیں  ماشاءاللہ آپ دونوں کو ہستہ اور پیار بھری باتیں کرتا دیکھ کر میں اور میرے میاں آپ دونوں کو ڈھیروں دعائیں دیتے ہیں اس ہمسائے نے کہا اویس اور آپ کی جھوڑی بہت خوبصورت ہے اللہ آپ کو نظر بد سے بچائے ہمسائے کی باتیں سن کر فوزیہ کے چہرے کا رنگ بدل گیا تھا

اس نے سوچا میری تو  طبیعت خراب ہوتی ہیں میں اکثر سو رہی ہوتی ہو پھر یہ کون ہے جو رات دیر تک اویس سے باتیں کرتی ہے ایک رات فوزیہ  وقت پر سو گئی کر جیسے ہی وہ سوئی اویس نے صوبیہ کو چھت پر بلا لیا صوبیہ اس دن بہت غصے میں تھی اور ناراض تھی اویس نے وجہ پوچھی تو صوبیہ کہنے لگی میں آپ  لوگوں کی باتیں سن چکی ہوں  فوزیہ ماں بننے والی ہے اور آپ نے مجھے بتانا تک گوارا نہیں کیا اویس اس  کی بات سن کر پریشان ہو گیا پھر بولا میں تمہیں دکھی نہیں کرنا چاہتا تھا صوبیہ نے آنکھوں میں آنسو بھرتے ہوئے کہا دکھ تو مجھے اب بھی ہو رہا ہے

کیا آپ کو ذرا احساس نہیں اویس نے اسے محبت  باش  نگاہوں سے دیکھا اور کہا تم تھوڑا صبر کرو ایک بار یہ بچہ پیدا ہوجائے میں ساری زندگی تمہارے ساتھ  گزاروں گا اس کے یہ الفاظ بولنے کی دیر تھی کہ ایک زور دار آواز اس کے کانوں میں گونجی دونوں کو جیسے کوئی کرنٹ لگا ہو اویس نے فوراً ہی صوبیہ کے ہاتھ چھوڑ دیے وہ آواز فوزیہ  کی تھی فوزیہ  کسی بھوکے شیر کی طرح ڈھاڑی اور بس اویس کا نام لے کر وہاں سے الٹے قدموں اپنے کمرے میں لوٹ گئی

اویس بھاگتا ہوا اس کے پیچھے آیا تھا صوبیہ چھپی حسب معمول ان کی باتیں سسنے ان کے کمرے کے باہر کھڑی ہوگئی اویس نے  فوزیہ کو کہا یہ سب ایک غلط فہمی ہے وہ پریشان تھی میں اسے تسلی دے رہا تھا فوزیہ کو اس پر مزید  غصہ آگیا  اور بولی آہستہ آہستہ آ گیا اور بولی تم جھوٹ بول رہے ہو میں اپنے کانوں سے سب سن چکی ہوں آنکھوں سے دیکھ چکی ہوں  تم میری بہن کے ساتھ پیار محبت کی باتیں کر رہے تھے تمہیں ذرا شرم نہیں آتی

اس کی حالت دیکھ کر اسے سمجھانے کی کوشش کرنے لگا دیکھو فوزیہ    تمہاری طبیعت پہلے ہی ٹھیک نہیں ہے اس طرح زور سے بولو گی تو تمہاری طبیعت اور بگڑ جائے گی مگر فوزیہ  پر تو جیسے قیامت برپا  چکی تھی   وہ بری طرح چیخ رہی تھی میں نے اپنی محبتیں آپ کو سونپ دیں اور آپ میرے پیٹ پیچھے یہ کر رہے ہیں پھر اس کے ذہن میں اچانک یہ خیال آیا اور دروازے کی طرف بھاگی صوبیہ نے میری زندگی برباد کردی ہے  کہاں ہے وہ میں اسے گھر سے نکال کر باہر پھینک دوں گی

مگر جب اس نے کمرے کا دروازہ کھولا  صوبیہ اس کے سامنے کھڑی تھی میں  فوزیہ  نے اس کا ہاتھ پکڑا اور بولی چلو  نکل جا ؤ میرے گھر سے تم میری بہن ہو یا دشمن ہو میری زندگی جہنم بنا دی ہے مگر صوبیہ کے چہرے پر کوئی شرمندگی نہیں تھی اسے بالکل بھی کوئی ندامت نہ ہو رہی تھی  فوزیہ  یہ  تم ٹھیک نہیں کر رہی تمہیں اس کی بھاری قیمت چکانا پڑے گی کی فوزیہ  نے زوردار آواز سے دروازہ بند کر دیا اویس اسے روکنا تو چاہتا تھا مگر پھر فوزیہ  کی حالت کی وجہ سے وہ بھی مجبور ہو گیا 

اگلے کئی روز  اسے صوبیہ  کی یاد ستاتی رہی کیونکہ اب اس گھر میں اس کا صوبیہ  کے بغیر دل نہیں لگتا تھا بیمار بیوی کا ساتھ ہو تو مرد  اکثر شوخ اور چنچل لڑکیوں کے ہاتھوں اسی طرح شکار بنتے ہی رہتے ہیں کچھ ایسا ہی اویس کے ساتھ ہوا فوزیہ نے  اپنے والدین کو سب کچھ بتا دیا  کیونکہ وہ چاہتی تھی صوبیہ کو یہ لوگ اپنے قابو ،یں کر لیں   مگر کہتے ہیں نہ ایک بار جو  پرندہ پھڑپھڑنا سیکھ لے   پھر وہ پنجرے میں قید ہو کر نہیں رہ سکتا میں صوبیہ  گھر میں قید ہو کر  رہنے والوں میں سے نہ تھی

مہینے  یوں ہی گزر کے وہ اقیس سے فون پر بات تو کرتی مگر مل نا پاتی   اویس بھی اسے ملنے  کیلئے بے چین رہتا  ایک رات  صوبیہ  کے والدین کسی تقریب میں گئے ہوئے تھے اس نے  موقع کا فائدہ اٹھایا اور گھر سے رات کے اندھیرے میں بھاگ گئی گھر سے نکلتے ہوئے اویس کو فون کیا اور کہا میں گھر چھوڑ کر بھاگ آئی ہوں اگر آپ مجھ سے محبت کرتے ہیں تو  ابھی اسی وقت مجھ سے نکاح کر لیں اویس اس کی بات سن کر دم بخود رہ گیا اس نے صوبیہ سے پوچھا تم کہاں ہو وہ فوراً اس کے پاس پہنچا

صوبیہ کو اپنے دوسرے گھر میں لے گیا اور صوبیہ نکاح  کرنے پر بضد تو  تھی  ہی  مگر اویس نے اسے بتا دیا فوزیہ  میرے بچے کی ما ں بننے والی ہے میں اسے چھوڑ کر تم سے شادی نہیں کرسکتا صوبیہ تو واپسی کے سارے  دروازے بند کر آئی تھی اس نےصاف صاف دھمکی  دے دی کہ اگر تم نے مجھ سے شادی نہ کی تو میں اپنی جان لے لوں گی اویس کو اس سے اس قدر بچکانہ حرکت کی امید نہیں تھی اس نے کہا تمہیں بچے کی پیدائش تک انتظار کرنا ہو گا مگر صوبیہ سنبھلنے والی نہیں تھی

اس نے نکاح کی ضد  جاری رکھی گے اگلے دن فوزیہ کی طبیعت خراب تھی اس لیے اویس گھر سے نہ نکل سکا دوپہر کے وقت اس نے دیکھا اچانک صوبیہ گھر میں داخل ہوئی ہے فوزیہ  کو اسے دیکھ کر بہت غصہ آیا وہ فوراً  دروازے کی  جانب دوڑی اور صوبیہ سے بولی تم یہاں کیوں آئی ہو مگر صوبیہ نے بڑی بے باکی سے کہہ دیا میں تو اپنی محبت سے ملنے آئی ہوں یہ سننا  تھا کہ فوزیہ  نے اس کے منہ پر تھپڑ جڑ دیا وہ سمجھ رہی تھی کہ اویس اس کا ساتھ دے گا مگر اویس نے جب یہ کہا کہ تمہیں اس پر ہاتھ اٹھانے کا کوئی حق نہیں ہے

تو  فوزیہ حیران رہ گئی فوزیہ  کو لگا جیسے اس کے  سر پر قیامت ٹوٹ پڑی ہو اس کا دل چاہا وہ درگور ہو جائے اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب بہنے لگا اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ اویس ایسا بھی کر سکتا ہے اویس نے یہیں پر بس نہیں کی بلکہ کھڑے کھڑے  اس پر طلاق کا دھبا  لگا دیا ساتھ ہی فوزیہ  کا ہاتھ پکڑ کر گاڑی میں بٹھایا اور ڈرائیور سے کہا اسے گھر  چھوڑآؤ فوزیہ  اس وقت شدید سکتے کے عالم میں تھی اس وقت اس حالت میں وہ گھر جا رہی تھی اس پر منوں وزن آ گرا تھا

 اس وقت اویس  کی ماں بھی موجود نہیں تھی ورنہ شاید وہ حالات کو سنبھالتی  وہ شادی کے فورا بعد اپنے دوسرے بیٹے کے پاس چلی گئی تھی دوسری جانب اویس نے اسی شام صوبیہ  سے نکاح کر لیانر مین آج بہت خوش تھی  اس نے جو چاہا اسے مل گیا وہ دونوں ہنی مون کے لیے چلے گئے صوبیہ جس چیز پر ھاتھ رکھتی اویس اسے خرید دیتا وہ اویس کی دولت کا بے دریغ استعمال کر رہی تھی کبھی کبھی اویس  کو اس میں  ایک لالچی عورت صاف دکھائی دیتی شادی کو دو سال گزر گئے مگر صوبیہ سے اولاد نہ ہوئی

دوسری جانب فوزیہ  کے ہاں بیٹے ہی  کی پیدائش ہوئی اویس کو فکر لاحق ہونے لگی کہ میری اتنی جائیداد اور مال و  دولت کا کوئی وارث نہیں اس  نے سوچا وہ اولاد کے حصول کے لیے ایک اور شادی کرلے مگر پہلے وہ صوبیہ کو شہر کے سب سے بڑے ڈاکٹر کے پاس لے گیا کہ شاید کوئی امید نکل آئے مگر ڈاکٹر نے صاف کہ دیا صوبیہ میں بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں ہے وہ کبھی ماں نہیں بن سکتی اویس اس کی بات سن کر اور پریشان ہو گیا صوبیہ کو لگنے لگا تھا اویس سچ میں تیسری شادی نہ کرلے

اس نے 2سے کہا آپ فوزیہ  سے اپنا بیٹا  لے لیں  آخر وہ بھی تو آپ کا خون ہے میں اسے سنبھالوں  گی 2 کو صوبیہ کی بات بڑی مناسب  لگی مگر وہ  جانتا تھا فوزیہ  اس طرح اپنا بچہ نہیں دے گی اس کے لیے وہ عدالت کا سہارا لے کر اس سے بچہ لے گا فوزیہ  مکمل طور پر ٹوٹ چکی تھی محض گھر کی چار دیواری تک محدود ہو کر رہ گئی 2 نے 1 کو بچہ لا کر سونپ تو دیا  مگر 1  جب بچے کو اٹھاتی اس میں فوزیہ  کا عکس نظر آتا ہے پھر اسے اپنی کی گئی نا انصافیاں یاد آتیں  اسے یہ لگتا   شایدفوزیہ کی بددعا لگی ہے

جو میں  اپنی اولاد پیدا نہیں کر سکی اسی  وجہ سے وہ اس بچے کو بھی مکمل توجہ نہیں دے پاتے یہ بات اویس کو پسند نہ آئی ایک شام اس کا بچہ بہت رو رہا تھا مگر وہ اسے چپ کروانے کی بجائے اپنا میک ا پ  کرنے میں مصروف تھی بچے پر وہ کہاں توجہ دیتی  تھی اویس آ  گیا اس نے کہا 1 ہادی رو رہا ہے تم دیکھنا تک گوارا نہیں کر رہی تب صوبیہ فوراً ہی ہادی کو  اُٹھانے کا ڈرامہ کیا مگر اگلے ہی لمحے اسے  ہادی میں  فوزیہ نظر آنے  لگی اس نے اسے چپ کرانے کی کوشش کی

مگر جب بیٹا چپ نہ ہوا تو اس نے غصہ میں اسے بیڈ پر  پھینک دیا وہ غلطی سے بیڈ کے بجائے نیچے جا گرا  اویس تو غصے سے تلملا اٹھا اس نے 1سے گھر سے نکل جانے کا کہا وہ اس کی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتا تھا کوئی عورت اتنی بے حس کیسے  ہو سکتی ہے وہ تو سوچ بھی نہیں سکتا تھا  1 غصہ میں دروازہ بند کر کے گھر سے باہر نکلی رات کافی ہوچکی تھی وہ تیز تیز  سڑک پر چلنے لگی اس کے کانوں میں بچے کے چیخنے کی آوازیں اب تک آ رہی تھی

اور تیز چلنے لگی کہ شاید  آواز یں آنا  بند ہو جائیں وہ اندھا دھند سڑک پر جا رہی تھی کہ فوزیہ کے ساتھ کی جانے والی نا انصافیاں اسے یاد آ رہی تھی وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ ہارن کہاں سے آ رہا ہے اور بچے کی آوازیں کہاں سے آرہی ہیں اس کا دماغ مسلسل ماضی کے جھروکوں میں جھانک رہا تھا اسی اثناء میں گاڑی اس  کے اندر جا لگی   وہ زخمی  حالت میں روڈ کی دوسری طرف گر گئی چند ہی منٹوں میں اس کی چلتی سانسوں نے اس کا ساتھ چھوڑ دیا اور وہ  آوازیں آنا بند ہو ہو گئیں 

اگلےدن 2 کو  صبح صبح  صوبیہ کے ساتھ ہونے والے حادثے کے بارے میں معلوم ہو گیا 1کی موت کا ذمہ دار وہ خود کو ٹھہرا رہا تھا مگر  فوزیہ کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا احساس بھی اسے ہو چکا تھا اب بچے کو سنبھالا اس کے بس کی بات نہ تھی تیسری شادی کی سکت اس میں رہی  نہ تھی اب اسے 1  سے فوزیہ کی یاد  آنے لگی تھی جب بھی وہ اپنے بچے کو اٹھاتا اس کی ماں کا عکس اس میں نظر آتا ہے یوں لگتا جیسے وہ فوزیہ  سے باتیں کر رہا ہو 

اکثر اسے بچے کو چپ کروانے کے لیے ساری رات جاگنا پڑتا اولاد کو نوکروں کے رحم و کرم پر بھی وہ نہیں چھوڑ سکتا تھا  چند دن تو اس نے برداشت کیا مگر پھر اسی فوزیہ  کے آگے گھٹنے ٹیکھنا پڑے فوزیہ نے بھی اپنے بچے کو فورا سینے سے لگایا اویس نے فوزیہ سے کہا میں تمہارا گنہگار ہوں خدا کے لئے مجھے معاف کر دو

فوزیہ نے کہا اب دیر ہو چکی ہیں واپسی کا کوئی راستہ نہیں بچا بہتر ہے تم یہاں سے چلے جاؤ 2 نے اس سے معافی مانگی مگر  فوزیہ  کسی طور پر ماننے کو تیار نہیں تھی اور وہ معافی دیتی بھی کیوں اویس نے فوزیہ کے اعتماد کا خون جو  کیا تھا آج اس کے پاس سب کچھ ہے مگر سکون کی دولت سے محروم ہو چکا ہے جبکہ فوزیہ  کے قدموں تلے تو  جنت ہے اور وہ اپنے بیٹے کو  اپنی کل کائنات سمجھتی  ہیں۔

Leave a Comment